مردم شماری رکاوٹ نہیں الیکشن کمیشن کراچی میں نئی حلقہ بندیاں کرنا ہی نہیں چاہتا سپریم کورٹ
بدقسمتی سے تمام متعلقہ اداروں نے کراچی بدامنی کیس کے فیصلے پر عمل نہیں کیا، عبوری حکم
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کا حکم موخر کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست مسترد کرتے قرار دیا ہے کہ مردم شماری حلقہ بندیوں کے عمل میں رکاوٹ نہیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں آبزرو کیا ہے کہ بدقسمتی سے تمام متعلقہ اداروں نے کراچی میں امن وامان سے متعلق عدالتی احکام پر عمل کرنے سے گریز کیاجس کی وجہ سے عدالت کو دوبارہ سماعت شروع کرنا پڑی۔ بادی النظرمیںالیکشن کمیشن عدالتی حکم پر عمل نہیںکرنا چاہتا، ایک سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود الیکشن کمیشن حلقہ بندی نہ کرنے کا جواز پیش نہیں کرسکا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں کراچی میں حلقہ بندی کیلیے نیت، ارادے اور لگن کی کمی ہے۔ حلقہ بندی کے حکم کے خلاف دائردرخواست میں حقائق چھپانے اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
ہفتے کو جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجربینچ کا 27 فروری 2013کا 11صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے ساتھ جسٹس خلجی عارف حسین کا 6صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی منسلک ہے۔ سپریم کورٹ نے آبزروکیا کہ اس عدالت نے 6 اکتوبر2011کو کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس کا ہر مکتبہ فکر نے خیرمقدم کیا لیکن بدقسمتی سے متعلقہ اداروں نے اس پر عملدرآمد نہیںکیا۔ بینچ نے الیکشن کمیشن کے رویے کے متعلق اپنے فیصلے میںکہا کہ 28نومبر2012کو سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد اور چیف سیکریٹری سندھ نے بھی بیان ریکارڈ کرایا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل منیر احمد پراچہ نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کے بیان کو رد نہیں کیا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ نئی حلقہ بندی کیلیے الیکشن کمیشن کے مختلف اجلاس بھی منعقد ہوئے ہیں۔
عدالت نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کی دفعات 51(3),5اور حلقہ بندی ایکٹ 7کا حوالہ دیا اور موقف اختیار کیا کہ یہ دفعات نئی حلقہ بندی میں رکاوٹ ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے اپنے حکم میں''آبزرویشن'' ،''ڈیکلیریشن'' اور ''ڈائریکشن''کا لفظ استعمال کیا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن عدالت کی آبزرویشن پر عمل درآمد کا پابند نہیں۔ 5رکنی بینچ نے قراردیا کہ تینوں اصطلاحات عدالتی حکم کے زمرے میں آتی ہیں اور عدالت کے مکمل فیصلے پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے تھا۔ عدالت نے توجہ دلائی کہ جب الیکشن کمیشن کے وکیل کو آئین کی دفعات 51(3),5اور حلقہ بندی ایکٹ 7 پڑھنے کی ہدایت کی گئی تو وہ بھی اپنے موقف پراصرار نہیں کرسکے کیوں کہ یہ دفعات محض قومی اسمبلی کی نشستوں کی ترتیب اور تقسیم سے متعلق ہیں۔
عدالت نے قراردیا کہ حلقہ بندی ایکٹ کی دفعہ10-Aکے تحت الیکشن کمیشن کسی بھی مرحلے پر ووٹرلسٹوں میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتا ہے،اس کام کیلیے بھی مردم شماری کی کوئی ضرورت نہیں۔ عدالت نیکہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندی موخر کرنے کی درخواست بھی عدالتی حکم پر عمل درآمدسے گریز اور التوا کی کوشش تھی جس میں عدالت سے حقائق چھپانے اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ بینچ کے رکن جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ عدالت کے حکم کی روح یہ تھی کہ کراچی میں مختلف لسانی گروپوں کے مابین ہم آہنگی پیدا ہو، قبضے کی جنگ ختم ہوسکے اور ایسے حلقے تشکیل دیے جائیں جن سے لسانی تقسیم ختم ہوسکے۔حقیقی جمہوری حکومت کے قیام کیلیے لازم ہے کہ ہر ووٹر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرے ۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ انتخابی حلقے مختلف لسانی گروپوں پر مشتمل ہونا چاہئیں تاکہ ہم آہنگی کو فروغ مل سکے۔سپریم کورٹ نے کراچی کی انتخابی نشستوں میں اضافے کا حکم نہیں دیا صرف حلقہ بندی کا حکم دیا تھا۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کا موقف درست نہیں کہ تازہ مردم شماری کے بغیر حلقہ بندی ممکن نہیں۔جسٹس خلجی عارف حسین نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن عدالتی حکم پر عمل درآمدمیں ایک سال سے زائد عرصہ کی تاخیر کا جوازبھی پیش نہیں کرسکا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں آبزرو کیا ہے کہ بدقسمتی سے تمام متعلقہ اداروں نے کراچی میں امن وامان سے متعلق عدالتی احکام پر عمل کرنے سے گریز کیاجس کی وجہ سے عدالت کو دوبارہ سماعت شروع کرنا پڑی۔ بادی النظرمیںالیکشن کمیشن عدالتی حکم پر عمل نہیںکرنا چاہتا، ایک سال سے زائد عرصہ گزرجانے کے باوجود الیکشن کمیشن حلقہ بندی نہ کرنے کا جواز پیش نہیں کرسکا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن میں کراچی میں حلقہ بندی کیلیے نیت، ارادے اور لگن کی کمی ہے۔ حلقہ بندی کے حکم کے خلاف دائردرخواست میں حقائق چھپانے اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
ہفتے کو جسٹس انورظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5رکنی لارجربینچ کا 27 فروری 2013کا 11صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جاری کیا گیا جس کے ساتھ جسٹس خلجی عارف حسین کا 6صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ بھی منسلک ہے۔ سپریم کورٹ نے آبزروکیا کہ اس عدالت نے 6 اکتوبر2011کو کراچی بدامنی ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس کا ہر مکتبہ فکر نے خیرمقدم کیا لیکن بدقسمتی سے متعلقہ اداروں نے اس پر عملدرآمد نہیںکیا۔ بینچ نے الیکشن کمیشن کے رویے کے متعلق اپنے فیصلے میںکہا کہ 28نومبر2012کو سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد اور چیف سیکریٹری سندھ نے بھی بیان ریکارڈ کرایا۔ الیکشن کمیشن کے وکیل منیر احمد پراچہ نے سیکریٹری الیکشن کمیشن کے بیان کو رد نہیں کیا جس میں انھوں نے بتایا تھا کہ نئی حلقہ بندی کیلیے الیکشن کمیشن کے مختلف اجلاس بھی منعقد ہوئے ہیں۔
عدالت نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کی دفعات 51(3),5اور حلقہ بندی ایکٹ 7کا حوالہ دیا اور موقف اختیار کیا کہ یہ دفعات نئی حلقہ بندی میں رکاوٹ ہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ عدالت نے اپنے حکم میں''آبزرویشن'' ،''ڈیکلیریشن'' اور ''ڈائریکشن''کا لفظ استعمال کیا ہے لہٰذا الیکشن کمیشن عدالت کی آبزرویشن پر عمل درآمد کا پابند نہیں۔ 5رکنی بینچ نے قراردیا کہ تینوں اصطلاحات عدالتی حکم کے زمرے میں آتی ہیں اور عدالت کے مکمل فیصلے پر عمل درآمد کیا جانا چاہیے تھا۔ عدالت نے توجہ دلائی کہ جب الیکشن کمیشن کے وکیل کو آئین کی دفعات 51(3),5اور حلقہ بندی ایکٹ 7 پڑھنے کی ہدایت کی گئی تو وہ بھی اپنے موقف پراصرار نہیں کرسکے کیوں کہ یہ دفعات محض قومی اسمبلی کی نشستوں کی ترتیب اور تقسیم سے متعلق ہیں۔
عدالت نے قراردیا کہ حلقہ بندی ایکٹ کی دفعہ10-Aکے تحت الیکشن کمیشن کسی بھی مرحلے پر ووٹرلسٹوں میں ترمیم یا تبدیلی کرسکتا ہے،اس کام کیلیے بھی مردم شماری کی کوئی ضرورت نہیں۔ عدالت نیکہا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندی موخر کرنے کی درخواست بھی عدالتی حکم پر عمل درآمدسے گریز اور التوا کی کوشش تھی جس میں عدالت سے حقائق چھپانے اور عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ بینچ کے رکن جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنے اضافی نوٹ میں کہا کہ عدالت کے حکم کی روح یہ تھی کہ کراچی میں مختلف لسانی گروپوں کے مابین ہم آہنگی پیدا ہو، قبضے کی جنگ ختم ہوسکے اور ایسے حلقے تشکیل دیے جائیں جن سے لسانی تقسیم ختم ہوسکے۔حقیقی جمہوری حکومت کے قیام کیلیے لازم ہے کہ ہر ووٹر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرے ۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ انتخابی حلقے مختلف لسانی گروپوں پر مشتمل ہونا چاہئیں تاکہ ہم آہنگی کو فروغ مل سکے۔سپریم کورٹ نے کراچی کی انتخابی نشستوں میں اضافے کا حکم نہیں دیا صرف حلقہ بندی کا حکم دیا تھا۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن کا موقف درست نہیں کہ تازہ مردم شماری کے بغیر حلقہ بندی ممکن نہیں۔جسٹس خلجی عارف حسین نے قراردیا کہ الیکشن کمیشن عدالتی حکم پر عمل درآمدمیں ایک سال سے زائد عرصہ کی تاخیر کا جوازبھی پیش نہیں کرسکا۔