ڈیم یا سسکتا بلوچستان

صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کو نظر انداز کرنا پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔

قدرت نے پاکستان کو کئی دریاؤں سے نوازا ہے، اس کے باوجود پانی کی قلت ہمارا قومی مسئلہ بن چکا ہے، صرف اس لیے پانی کے ذخائر میں اضافے پر توجہ نہیں دی گئی۔ آج کا یہ مسئلہ مستقل قریب میں باقاعدہ بحران کی شکل اختیار کرلے گا۔ تمام صوبے اس وقت پانی کی قلت کا سامنا کررہے ہیں لیکن بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ تیزی سے بڑھتی اس تباہی کا راستہ روکنے کے لیے چند اقدامات کیے جاسکتے ہیں جیسے 1) آبی ذخائر کے تحفظ اور ان کے مؤثر استعمال کے لیے اقدامات کیے جائیں، 2) پانی کا ضیاع اگر ختم نہیں ہوسکتا تو اسے کم سے کم سطح پر لایا جائے، 3) ضرورت کی بنیاد پر پانی کی منصفانہ تقسیم یقینی بنائی جائے۔

چھوٹے آبی ذخائر کی اہمیت اپنی جگہ، وسائل سے مالامال سرزمین بلوچستان کے لیے ناکافی بارشیں مستقل اور پریشان کُن مسئلہ ہیں۔ مون سون میں یہاں برسات کی اوسط 200ملی میٹر سے بھی کم ہے، مغربی حصے میں تو کہیں کہیں یہ 50ملی میٹر سے بھی کم ہوجاتی ہے۔

ناقص جاگیردارانہ نظام میں اپنی بقا کی جنگ لڑنا آسان نہیں، اس پر پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محرومی عسکریت پسندی کی جانب دھکیلنے والے پیچیدہ محرکات کو مزید ہوا دیتی ہے۔ شدید خشک سالی اور انسانوں کے پیدا کردہ قحط مقامی آبادی کے لیے انتہائی سنگین صورت حال پیدا کررہے ہیں، بعض علاقوں میں حکومتی نااہلی اس کا سبب ہے۔

بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کا مطلوبہ بندوبست نہیں کیا گیا اور زمین میں زیادہ گہرائی سے ہونے والی پمپنگ کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح گرتی رہی۔ سنگینی کے یہ دونوں اسباب حکومتی غفلت سے پیدا ہوئے۔ڈیزاسٹر مینجمنٹ ڈپارٹمنٹ، بلوچستان یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر عین الدین کا کہنا ہے''نوشکی، چاغی، خاران اور مکران اور دیگر علاقے خشک سالی کی زد پر ہیں۔

جس کی وجہ سے زمین، آبی ذخائر، پانی، جنگلی حیات اور پودے متاثر ہوچکے ہیں۔'' وفاقی حکومت(حتی کہ میڈیا بھی) اس مسئلے کے حل پر بات تک کرنے میںکوئی دل چسپی نہیں رکھتے۔ یہاں آبادی کے صرف 15فی صد کو صاف پانی تک رسائی حاصل ہے۔ کوئٹہ میں صورت حال تشویش ناک ہوچکی۔ ہر سال یہاں زیر زمین پانی کی سطح میں ساڑھے تین فٹ کمی ہورہی ہے، یہاں زیر زمین پانی کی اوسط سطح 180فٹ تک گر چکی ہے۔ زیادہ گہرائی تک ٹیوب ویلز لگانے پر پابندی کے باوجود ایسے کنوؤں کی تعداد 2000سے زاید ہے۔ ان میں سے صرف 450رجسٹرڈ ہیں۔ یہی غیر قانونی ٹیوب ویل زیر زمین پانی کی سطح کم ہونے کا بنیادی سبب ہیں۔

بلوچستان کے بنجر زمین والے علاقوں میں پہاڑی سلسلے اور چاغی، خاران کے صحرائی علاقے، مکران کے ساحلی اور لسبیلہ، مری اور بگٹی قبائل کے علاقے شامل ہیں۔ تین لاکھ 47ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلی یہ زمین پاکستانی رقبے کا 43 فی صد ہے۔ اس کی انتہائی زرخیز دو کروڑ ایکڑ زمین پر ہر سال کاشت سے بے پناہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے منصوبہ سازوں نے کبھی اس جانب توجہ کیوں نہیں دی؟

قابل کاشت زمین کی دستیابی انسانوں کے لیے خواب بنتی جارہی ہے، اگر اس جانب توجہ دی جائے تو قحط سالی کے شکار بلوچستان کے پس ماندہ عوام کو معاشی اور غذائی وسائل میں خود کفیل بنایا جاسکتا ہے۔ بلوچستان کا نظام آب پاشی تباہ حالی کا شکار ہے۔ زیر زمین پانی کے ذخائر ختم ہونے کی وجہ سے روایتی نظام آب پاشی، بشمول کاریز(زیر زمین پانی کی ترسیل کے لیے کھلے کنوؤں کا مربوط نظام) غیر فعال ہوچکا ہے۔

ترجیحی بنیادوں پر سیلاب کی روک تھام، آبی ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ چھوٹے ڈیمز کی تعمیر بھی ناگزیر ہوچکی ہے۔ آب پاشی کا بڑا انفرااسٹرکچر، بالخصوص ڈیمز 2010ء کے سیلاب میں شدید متاثر ہوئے اور تاحال تباہ حالی کا شکار ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ''100ڈیمز'' منصوبے کی بہت تشہیر کی گئی اور اسے 2007-8ء کے ترقیاتی منصوبوں میں شامل کیا گیا، لیکن بیوروکریسی یہاں بھی آڑے آگئی۔


ماہرین کے مطابق ڈیموں کی تعمیر قحط، خشک سالی اور قلت آب کے بڑھتے ہوئے خطرات کا واحد حل ہے۔ گزشتہ ادوار میں صوبائی حکومت نے چند ڈیم تعمیر کیے۔ جب کہ دوسری جانب بڑی مقدار میں پانی ضایع ہوتا رہا اور اس بنیادی ضرورت کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی آبادیوں کو پیاس جھیلنا پڑی اور اس وجہ سے اموات بھی ہوئیں۔

بلوچستان کے محکمہ زراعت کے مطابق ''ڈیم نہ ہونے کی وجہ سے ہرسال 10.69ارب مربع میٹر میں سے 8.57 ارب مربع میٹر(تقریباً80فی صد) پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ انفرااسٹرکچر نہ ہونے کے باعث دریائے سندھ سے آنے والے پانی کی بہت قلیل مقدار قابل استعمال ہوتی ہے۔'' یہ محکمہ ہوشیار کرتا ہے کہ ''اگر پانی کا ضیاع اسی طرح جاری رہا تو مستقبل قریب میں آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوجائے گی۔''

پڑوس میں ایرانی بلوچستان کا ماڈل موجود ہے، جہاں قلت آب کے خاتمے کے لیے آبی ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر پر سرمایہ کاری کی گئی۔ انھی اقدامات کے نتیجے میں ایران چاہ بہار بندر گاہ کو فعال کرسکا، جس سے ملحقہ علاقے میں صنعتی علاقوں کی تعمیر کی گئی۔ گوادر پورٹ سٹی سی پیک منصوبے کا مرکز ہے، لیکن یہاں بھی پانی کی شدید قلت ہے، حتی کہ پینے اور گھریلو استعمال کا پانی بھی دستیاب نہیں۔ بلوچستان میں آبی ذخائر اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے حالات انتہائی موزوں ہیں لیکن میرانی ڈیم کے بعد ایسے کسی منصوبے پر کام نہیں ہوا۔

آزمایشی بنیادوں پر بنائے گئے چھوٹے ڈیمز کامیاب نہیں ہوئے اور کثیر رقم ضایع ہوئی۔ مشرف دور میں کچھی کینال پر کام شروع ہوا۔ یہ منصوبہ تکمیل کے بعد کچھی اور سبّی کے علاقوں میں ستر لاکھ ایکڑ اراضی کی آبپاشی کے لیے پانی فراہم کرسکتا تھا۔ واپڈا نے اس منصوبے کا پہلا مرحلہ تاحال مکمل نہیں کیا، اس منصوبے میں ربع صدی کی تاخیر پہلے ہی ہوچکی ہے۔ اس کی لاگت بیس گنا بڑھ چکی ہے۔ اس سمیت آبی وسائل کے تمام منصوبوں میں، سوائے غفلت کے، تاخیر کی اور کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔

وفاق اور صوبے میں قائم ہونے والی حکومتیں زندگی اور موت کے اس سوال سے پہلو تہی کرتی رہیں۔ پسنی کی ساحلی پٹی کے مکین نصف صدی سے پانی کی قلت جھیلتے رہے، تاہم جب شادی کور دریا پر ایک چھوٹا ڈیم بنایا گیا تو پہلی ہی بارش سے اس میں چالیس ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ ہوا۔ اسی طرح گوادر کے نزدیک اکرا کور ڈیم اور سیجی ڈیم کی تعمیر سے ملحقہ رہایشی علاقوں میں پینے کے پانی کا مسئلہ حل ہوگیا۔ ساحلی پٹی میں متعدد ڈی سیلینیشن پلانٹس کی ضرورت ہے، ڈیمز پر آنے والی لاگت اور اخراجات کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔

میرانی ڈیم آخری بڑا ڈیم تھا جو 2002ء میں ضلع کیچ میں دشت دریا پر تعمیر ہوا۔ یہ درمیانے حجم کا ایک کثیر المقاصد ڈیم تھا۔ اس ڈیم کی تعمیر سے سیکڑوں بڑی کاریز اور کنوؤں میں بھی پانی کی فراہم ممکن ہوئی۔ اندازہ یہ تھا کہ 33200ایکڑ اراضی کی آبپاشی اس سے ممکن ہوگی لیکن معمولی رقبے کی آبیاری ہوسکی۔ واپڈا نے حال ہی میں نولونگ، ہنگو، بادیزینی اور سکلجی ڈیموں کی تعمری کے لیے کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ نولونگ ڈیم کے لیے درکار مالی وسائل کی فراہمی کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک آمادہ ہوچکا ہے، کام کا آغاز جلد ہوجائے گا۔ دیگر تین ڈیم منصوبہ بندی کے مرحلے میں ہیں اور ان کے پی سی ٹو منصوبہ بندی کمیشن سے منظوری کے منتظر ہیں۔

سی پیک بلوچستان کے لیے معاشی ترقی کی نئی راہیں کھولے گا۔توانائی، ٹرانسپورٹ، گوادر شہر کی تعمیر کے منصوبوں پر ابتدائی سرمایہ کاری کا تخمینہ7.1ارب ڈالر ہے، بندرگاہ کے تعمیراتی اخراجات اس میں شامل نہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ مزید ڈیموں کی تیزی سے تعمیر ہورہی ہے، لیکن گوادر، پسنی اور اوڑ ماڑا کے لیے ڈی سیلی نیشن پلانٹس ضروری ہیں جنھیں ہوا اور شمسی توانائی سے چلایا جاسکتا ہے۔

سی پیک کو توانائی اور سڑکوں، ریل کی پٹریوں اور انفرااسٹرکچر کے تعمیری منصوبوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے، اس میں کم از کم دس سے بارہ نئے ڈیم ہنگامی بنیادوں پر تعمیر ہونا ضروری ہیں۔ دنیا نے بڑے ڈیم بنانا چھوڑ دیے۔ صوبے میں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کو نظر انداز کرنا پاکستان کا مستقبل داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا، ہم 100 ڈیم تعمیر کرکے بلوچستان کا مقدر تبدیل کرنا چاہتے ہیں یا اس کی آبادی کو پیاس اور افلاس کے شکنجے میں سسکتا چھوڑدیں گے۔

(فاضل مصنف سیکیورٹی اور دفاعی امور کے ماہر ہیں)
Load Next Story