ٹوٹے پھوٹے لوگ
جب جب انسان نے اسے توڑنے کی کوشش کی وہ خود ٹوٹ پھوٹ گیا اور آج بھی ٹوٹ پھوٹ رہا ہے
انسان Mathematics کا کوئی سوال نہیں ہے کہ جس کا جواب ہمیشہ ایک سا ہی نکلے ۔ ہم سب فزکس اور کیمسٹری کی لیبارٹری کے محلول ہیں جو دن رات اپنے آپ پر تجربات کرتے پھرتے ہیں وہ لوگ انتہائی خوش نصیب ہوتے ہیں جنھیں اپنے آپ پر کم از کم تجربے کی ضرورت پڑتی ہے اور جو انتہائی کم وقت میں بہت کچھ اور بہت زیادہ سیکھ لیتے ہیں اور دوسری طرف جنھیں خدا مسلسل لیبارٹری میں رہنے اور اپنے آپ پر تجربے کے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے وہ ساری عمر لیبارٹری میں اپنا سر پھوڑتے رہتے ہیں اور انھیں صحیح جواب کبھی مل ہی نہیں پاتا ہے، بس تجربات پہ تجربات کرتے رہتے ہیں۔
ہمارے سابق حکمران ان ہی لوگوں میں شامل ہیں جن کی ساری زندگی لیبارٹری میں تجربے پہ تجربے کرتے گذر رہی ہے چونکہ وہ ہمیشہ ہی غلط محلول کو غلط محلول میں ڈال رہے ہیں۔اس لیے ان کے نصیب میں دھماکے پر دھماکے آتے جارہے ہیں، ایسے ایسے دھماکے جن سے پرہیزکرنے کی انتہا سے زیادہ ضرورت تھی لیکن وہ اپنی عادت اپنی نادانی کے ہاتھوں انتہائی مجبور ہیں ۔ اس لیے آج جو نتیجے ان کے سامنے کھڑے ہنس رہے ہیں وہ سب کے سب ان ہی کے عظیم الشان تجربے ہیں۔
یاد رہے کچھ تجربات ایسے ہوتے ہیں جوکامیابی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو آدھی کامیابی اور آدھی ناکامی سے دو چارہوتے ہیں اورکچھ ایسے ہوتے ہیں جن پر آپ جتنی چاہیں کوششیں کرلیں جتنی چاہیں زور آزمائی کرلیں جتنی چاہیں ذہانت اور عقل وشعور سے کام لے لیں لیکن وہ کبھی بھی کامیابی سے دوچار ہو ہی نہیں پاتے ہیں ۔
ان کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی ہی صورت میں نکلتا ہے جیسے لوٹی ہوئی اور ناجائز طریقوں سے کمائی گئی دولت کو بچانے کے تجربات ۔ ایسے تجربات ہمیشہ نئے نئے حادثوں اور سانحوں کو جنم دینے کے علاوہ اورکوئی نتیجہ نہیں دیتے ہیں اور ان حادثوں اور سانحوں کے نتیجے میں آپ کا زخموں سے پالا پڑنا لازم ہوتا ہے آپ اورکچھ نہ کریں انسانی تاریخ کے زخمیوں کی فہرست نکال کر پڑھ لیں ۔ وہ سب کے سب ایسے ہی تجربات کرتے ہوئے زخموں سے دوچار ہوئے اور آج تک تاریخ میں پڑے درد سے کراہ رہے ہیں۔
رابندر ناتھ ٹیگورکہتا ہے '' اگر قدرت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انسان بے وقوف ہے وہ اپنی تاریخ کے آغاز سے ہی قدرت کے خلاف برسر پیکار رہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ہر طرف سے اپنے آپ کو تکلیف دینے کا بہت شوق ہے اوپنیشد Upanishad میں ہے کہ ہم دولت کی خواہش اس وجہ سے نہیں کرتے کہ دولت بذات خود ایک حقیقت ہے بلکہ اس لیے خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں اپنا آپ عزیز ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دولت میں اپنے آپ کو ''محسوس'' کرتے ہیں اس لیے ہم اس سے محبت کرتے ہیں وہ چیزیں جو ہمارے جذبات ابھاریں ہمیں اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں'' جب ہم یہ دیکھنے کے لیے کہ انسان واقعی بے وقوف ہے۔
تاریخ میں جھانکتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم چلتا ہے کہ تاریخ کے آغاز سے پہلے اور بعد اور آج تک انسان ایک ہی جیسی حرکتیں، خواہشات، اقدامات کرتا آرہا ہے۔ اس کی زبان، روپ، لباس اور طرز زندگی وقت کے ساتھ ساتھ ضرور بدلتا رہا ہے اور آج بھی بدل رہا ہے لیکن اس کی ذہنیت وہیں کی وہیں ہے، اس میں ہزاروں سال کے سفر اور تجربات کے بعد بھی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی۔
وہ آج بھی اپنی حد تک حیوان ہی حیوان ہے، اس نے مہذب نظر آنے اور بننے کی جتنی بھی کوششیں کیں وہ سب کی سب مکمل ناکامی ہی سے دوچار ہوئیں، بیکن نے کہا تھا '' تاریخ تباہ شدہ سمندر جہاز کے تختوں جیسی ہے اور اسی میں انحطاط، بگاڑ اور موت کے سوا کوئی خاص بات نہیں ہوتی'' ہزاروں اقسام (پلٹ ڈاؤن، نیندر تھل، چیلین، ایکولیئن، ماؤ سیڑین، آرگینشین، کرومیگنن، رہوڈیشین اور پیکن مین) کے انسان ہزاروں سال زندگی کرتے، لڑتے، سوچتے، ایجاد کرتے، تصاویر و مجسمے بناتے اور بچے پیدا کرتے رہے تاہم انھوں نے آنے والی نسلوں کے لیے چند چقماق اور کھرونچوں کے سوا کچھ نہیں چھوڑا یہ آثار بھی لاکھوں سال تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے اور ہمارے تجسس کی کدال اور پھاوڑوں کے ذریعے ہی منظر عام پر آئے۔ اٹلانٹس جیسی ہزاروں تہذیبیں سمندر یا زمین تلے غائب ہوگئیں اور آج ان کی محض داستانیں ہی باقی ہیں۔
انسانی یاد داشت سے کہیں چمٹی ہوئی بابل، مصر، ایران، کریٹ، یونان اور روم جیسی چند قابل رحم اکاد کا تہذیبوں پر غورکیجیے اور ان کی شان و شوکت اور زوال پر نظر ڈالیے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ تاریخ اور انسان کس قدرغیر یقینی چیز ہے۔
ارسطو نے کہا تھا کہ ''تمام چیزیں دریافت ہوچکی ہیں اورکئی بار بھلائی جاچکی ہیں'' وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ترقی محض ایک مغالطہ ہے انسانی معاملات سمندر کی طرح ہوتے ہیں جس کی سطح پر بظاہر زبردست ہلچل دکھائی دیتی ہے مگر اندر سے یہ غیر متغیر اور ساکن ہوتا ہے جسے ہم ترقی کہتے ہیں وہ شاید محض ظاہری تبدیلی ہے لباس، نقل و حمل، حکومت، نفسیات اور مذاہب میں ایک کے بعد دوسرے رجحانات، عیسوی سائنس، تجزیہ، کردار، جمہوریت، موٹرکاریں اور پتلونیں ترقی نہیں تبدیلیاں ہیں یہ پرانے کاموں کے نئے انداز ہیں ۔
انسان وہ ہی کا وہ ہی ہے بے وقوف، لالچی، جھوٹا، دغا باز اور دولت کا پجاری، وہ کل بھی وہ ہی حرکتیں کرتا پھرتا تھا جو آج کرتا پھرتا ہے۔ بس ایک چیز نہ کل بدلی تھی نہ ہی آج بدلی ہے اور نہ ہی کل بدلے گی اور وہ قدرت کا قانون ہے جب جب انسان نے اسے توڑنے کی کوشش کی وہ خود ٹوٹ پھوٹ گیا اور آج بھی ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اگر آپ کو اس بات پر کوئی شک ہے تو آپ ذرا غور سے دیکھیں آپ کو اپنے ہی ملک میں ٹوٹے پھوٹے لوگ باآسانی نظر آجائیں گے۔ انھیں دیکھنے کے لیے آپ کو غیر ملک جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
ہمارے سابق حکمران ان ہی لوگوں میں شامل ہیں جن کی ساری زندگی لیبارٹری میں تجربے پہ تجربے کرتے گذر رہی ہے چونکہ وہ ہمیشہ ہی غلط محلول کو غلط محلول میں ڈال رہے ہیں۔اس لیے ان کے نصیب میں دھماکے پر دھماکے آتے جارہے ہیں، ایسے ایسے دھماکے جن سے پرہیزکرنے کی انتہا سے زیادہ ضرورت تھی لیکن وہ اپنی عادت اپنی نادانی کے ہاتھوں انتہائی مجبور ہیں ۔ اس لیے آج جو نتیجے ان کے سامنے کھڑے ہنس رہے ہیں وہ سب کے سب ان ہی کے عظیم الشان تجربے ہیں۔
یاد رہے کچھ تجربات ایسے ہوتے ہیں جوکامیابی سے ہمکنار ہوجاتے ہیں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو آدھی کامیابی اور آدھی ناکامی سے دو چارہوتے ہیں اورکچھ ایسے ہوتے ہیں جن پر آپ جتنی چاہیں کوششیں کرلیں جتنی چاہیں زور آزمائی کرلیں جتنی چاہیں ذہانت اور عقل وشعور سے کام لے لیں لیکن وہ کبھی بھی کامیابی سے دوچار ہو ہی نہیں پاتے ہیں ۔
ان کا نتیجہ ہمیشہ ناکامی کی ہی صورت میں نکلتا ہے جیسے لوٹی ہوئی اور ناجائز طریقوں سے کمائی گئی دولت کو بچانے کے تجربات ۔ ایسے تجربات ہمیشہ نئے نئے حادثوں اور سانحوں کو جنم دینے کے علاوہ اورکوئی نتیجہ نہیں دیتے ہیں اور ان حادثوں اور سانحوں کے نتیجے میں آپ کا زخموں سے پالا پڑنا لازم ہوتا ہے آپ اورکچھ نہ کریں انسانی تاریخ کے زخمیوں کی فہرست نکال کر پڑھ لیں ۔ وہ سب کے سب ایسے ہی تجربات کرتے ہوئے زخموں سے دوچار ہوئے اور آج تک تاریخ میں پڑے درد سے کراہ رہے ہیں۔
رابندر ناتھ ٹیگورکہتا ہے '' اگر قدرت کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انسان بے وقوف ہے وہ اپنی تاریخ کے آغاز سے ہی قدرت کے خلاف برسر پیکار رہا ہے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو ہر طرف سے اپنے آپ کو تکلیف دینے کا بہت شوق ہے اوپنیشد Upanishad میں ہے کہ ہم دولت کی خواہش اس وجہ سے نہیں کرتے کہ دولت بذات خود ایک حقیقت ہے بلکہ اس لیے خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں اپنا آپ عزیز ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دولت میں اپنے آپ کو ''محسوس'' کرتے ہیں اس لیے ہم اس سے محبت کرتے ہیں وہ چیزیں جو ہمارے جذبات ابھاریں ہمیں اپنے وجود کا احساس دلاتی ہیں'' جب ہم یہ دیکھنے کے لیے کہ انسان واقعی بے وقوف ہے۔
تاریخ میں جھانکتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم چلتا ہے کہ تاریخ کے آغاز سے پہلے اور بعد اور آج تک انسان ایک ہی جیسی حرکتیں، خواہشات، اقدامات کرتا آرہا ہے۔ اس کی زبان، روپ، لباس اور طرز زندگی وقت کے ساتھ ساتھ ضرور بدلتا رہا ہے اور آج بھی بدل رہا ہے لیکن اس کی ذہنیت وہیں کی وہیں ہے، اس میں ہزاروں سال کے سفر اور تجربات کے بعد بھی تبدیلی ممکن نہیں ہوسکی۔
وہ آج بھی اپنی حد تک حیوان ہی حیوان ہے، اس نے مہذب نظر آنے اور بننے کی جتنی بھی کوششیں کیں وہ سب کی سب مکمل ناکامی ہی سے دوچار ہوئیں، بیکن نے کہا تھا '' تاریخ تباہ شدہ سمندر جہاز کے تختوں جیسی ہے اور اسی میں انحطاط، بگاڑ اور موت کے سوا کوئی خاص بات نہیں ہوتی'' ہزاروں اقسام (پلٹ ڈاؤن، نیندر تھل، چیلین، ایکولیئن، ماؤ سیڑین، آرگینشین، کرومیگنن، رہوڈیشین اور پیکن مین) کے انسان ہزاروں سال زندگی کرتے، لڑتے، سوچتے، ایجاد کرتے، تصاویر و مجسمے بناتے اور بچے پیدا کرتے رہے تاہم انھوں نے آنے والی نسلوں کے لیے چند چقماق اور کھرونچوں کے سوا کچھ نہیں چھوڑا یہ آثار بھی لاکھوں سال تک دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے اور ہمارے تجسس کی کدال اور پھاوڑوں کے ذریعے ہی منظر عام پر آئے۔ اٹلانٹس جیسی ہزاروں تہذیبیں سمندر یا زمین تلے غائب ہوگئیں اور آج ان کی محض داستانیں ہی باقی ہیں۔
انسانی یاد داشت سے کہیں چمٹی ہوئی بابل، مصر، ایران، کریٹ، یونان اور روم جیسی چند قابل رحم اکاد کا تہذیبوں پر غورکیجیے اور ان کی شان و شوکت اور زوال پر نظر ڈالیے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ تاریخ اور انسان کس قدرغیر یقینی چیز ہے۔
ارسطو نے کہا تھا کہ ''تمام چیزیں دریافت ہوچکی ہیں اورکئی بار بھلائی جاچکی ہیں'' وہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ترقی محض ایک مغالطہ ہے انسانی معاملات سمندر کی طرح ہوتے ہیں جس کی سطح پر بظاہر زبردست ہلچل دکھائی دیتی ہے مگر اندر سے یہ غیر متغیر اور ساکن ہوتا ہے جسے ہم ترقی کہتے ہیں وہ شاید محض ظاہری تبدیلی ہے لباس، نقل و حمل، حکومت، نفسیات اور مذاہب میں ایک کے بعد دوسرے رجحانات، عیسوی سائنس، تجزیہ، کردار، جمہوریت، موٹرکاریں اور پتلونیں ترقی نہیں تبدیلیاں ہیں یہ پرانے کاموں کے نئے انداز ہیں ۔
انسان وہ ہی کا وہ ہی ہے بے وقوف، لالچی، جھوٹا، دغا باز اور دولت کا پجاری، وہ کل بھی وہ ہی حرکتیں کرتا پھرتا تھا جو آج کرتا پھرتا ہے۔ بس ایک چیز نہ کل بدلی تھی نہ ہی آج بدلی ہے اور نہ ہی کل بدلے گی اور وہ قدرت کا قانون ہے جب جب انسان نے اسے توڑنے کی کوشش کی وہ خود ٹوٹ پھوٹ گیا اور آج بھی ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اگر آپ کو اس بات پر کوئی شک ہے تو آپ ذرا غور سے دیکھیں آپ کو اپنے ہی ملک میں ٹوٹے پھوٹے لوگ باآسانی نظر آجائیں گے۔ انھیں دیکھنے کے لیے آپ کو غیر ملک جانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔