اسد کا کلہ مضبوط ہے

شام کی جنگ شروع ہوتے وقت جتنے لوگ صدر بشار الاسد کو جاتا دیکھنے کے خواہشمند تھے، اب ان کا عشرعشیر بھی ایسا نہیں چاہتے


سردار قریشی October 28, 2017

DUBAI: اگرچہ شام کی چھ سالہ خونریز جنگ ابھی دور دور تک ختم ہوتی نظر نہیں آتی، اس کا ایک نتیجہ واضح ہوکر سامنے آرہا ہے اور وہ یہ کہ صدر بشار الاسد کہیں نہیں جا رہے۔ جہاں تک میدانِ جنگ کا تعلق ہے تو وہاں ایسا کوئی نہیں بچا جو ان کا تختہ الٹنے کی خواہش ہی نہیں اس کی صلاحیت بھی رکھتا ہو۔ باغی فوجیں پسپا ہو رہی ہیں اور صدر ٹرمپ نے ان کی مدد کرنے اور انھیں اسلحہ مہیا کرنے کا سی آئی اے کا مجوزہ پروگرام منسوخ کردیا ہے۔ اسلامی ریاست گروپ المعروف داعش کو، جو خلافت قائم کرکے شام پر حکومت کرنے کا اپنا ایجنڈا رکھتا ہے، اس کے مضبوط ٹھکانوں سے نکال باہرکیا جا رہا ہے۔

دوسرے لفظوں میں صدر اسد کا کِلہ (کھونٹا) مضبوط ہے یا یوں کہہ لیں کہ ان کی چیچ (ہاتھ کی چھوٹی انگلی) سید کے ہاتھ میں ہے اور انھیں خطرہ تو دورکی بات کوئی اندیشہ بھی لاحق نہیں۔ علاقائی طاقتیں، غیر ملکی حکام اور خود شامی اس طرح بڑھ چڑھ کرکام کر رہے ہیں جیسے انھیں یقین ہوکہ وہ (اسد) آنے والے کئی سالوں تک راج کریں گے، یہ الگ بات کہ ان کا ملک سکڑ کر بہت چھوٹا سا رہ جائے گا۔ ان کے اتحادی فتح کا جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں جب کہ ان کی حکومت شیرازہ بکھرے ہوئے ملک کی تعمیر نوکی باتیں کرتی ہے، اس نے ابھی پچھلے ہی مہینے ایک بین الاقوامی تجارتی میلے کا اہتمام کیا تھا جب کہ بجلی کی تنصیبات ازسرنو تعمیر کرنے کے لیے ایران کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہونا بھی اہمیت کا حامل ہے۔

اور تو اور باغیوں کے پرانے حلیف بھی بد دل ہوکر انھیں چھوڑ رہے ہیں اور انھوں نے حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کردیا ہے۔ جب سے حکومت نے طویل محاصرے کے بعد پہاڑی شہر مدایا کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا ہے، وہاں ان لوگوں کی زندگی میں بہتری آنا شروع ہوگئی ہے جو جنگ میں کام آنے سے بچ گئے تھے۔ اچانک چھپ کر حملہ کرنے والے شہر چھوڑ کر جا چکے ہیں، بجلی واپس آچکی ہے، بازاروں اور مارکیٹوں میں خوراک کی موجودگی نظر آتی ہے، کیفے اور ہوٹل پھر سے کھل گئے ہیں اور لوگوں نے گھروں سے باہر نکلنا شروع کردیا ہے۔

ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر،کہ ماضی میں حکومت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے کہیں انھیں نشانہ نہ بنایا جائے، بات چیت کرتے ہوئے کہا ''ہم جنگ سے تنگ آچکے ہیں اور سلامتی کے ساتھ پْرامن طور پر رہناچاہتے ہیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم حکومت کا ساتھ دیں۔'' ان سب باتوں سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اسد کے لیے مستقبل کا راستہ اب خطرات سے خالی ہے۔

دنیا کے اکثر حصوں میں انھیں ایک تباہ حال اور منقسم ملک کے سربراہ کی حیثیت سے ناپسند کیا جاتا ہے، اگر وہ جنگ جیت گئے تب بھی انھیں حکومت کرنے کے لیے ایک کمزور ملک ملے گا جو غیر ملکی طاقتوں کا دست نگر اور تعمیر نو کے لیے وسائل سے محروم ہوگا، مگر ملک اور بحیثیت مجموعی مشرق وسطیٰ کے لیے ان کی سوچ اورکاوشوں کو سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے جو مستقبل میں شام کے استحکام، پناہ گزینوں کی وطن واپسی کی راہ ہموار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے تباہ شدہ شہروں کی تعمیر نوکے لیے شامی حکومت کو بین الاقوامی فنڈز ملنے کا باعث بن سکتی ہیں۔

2011 میں عرب کے موسمِ بہارکے دوران سر اٹھانے والی شورش نے شام ہی کا تیا پانچا نہیں کیا، عوامی مظاہروں اور مسلح بغاوتوں نے تیونس، مصر، لیبیااور یمن کے لیڈروں کو بھی اقتدار سے نکال باہرکیا۔ یہ تو صدر اسد کی قسمت اچھی تھی کہ اپنے عوام کے خلاف طاقت کے اندھے استعمال کے باوجود وہ بچ گئے۔ وہ خود بھی جنگ کی تباہ کاریوں کا اعتراف کرتے ہیں مگر ان کا کہنا ہے کہ اس نے ملک کو درپیش خطرات دورکرکے قوم کو متحد کردیا ہے۔ پچھلے مہینے شام کے دارالحکومت دمشق میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا ''ہم نے اپنے بہترین نوجوانوں کو گنوا دیا اوراپنے بنیادی ڈھانچے سے محروم ہوگئے۔

مالی طور پر بھی ہم نے بھاری نقصان اٹھایا جس کے اثرات کئی نسلوں تک محسوس کیے جائیں گے، لیکن اس کا یہ فائدہ ہوا کہ بدلے میں ہمیں رہنے کے لیے صاف ستھرا اور حقیقی معنوں میں انسانی معاشرہ ملا۔'' شام کا بحران 2011 میں صدر اسد کے خلاف عوامی مظاہروں سے شروع ہوا، جسے ان کی فوجوں نے بزور قوت کچلنا چاہا۔ اس پر مخالفین نے ہتھیار اٹھالیے اور امریکا، سعودی عرب اور دیگر ممالک نے نہ صرف باغیوں کی سیاسی حمایت کی بلکہ انھیں اسلحہ اورپیسے بھی دئے۔

لیکن بشار الاسد بغاوت کوکچلنے میں کامیاب ہوگئے جس میں ان کے غیرملکی حامیوں کی بھرپور مالی اور فوجی امداد کا کلیدی کردار تھا۔ اب شام کے تمام بڑے شہروں اور ان میں رہنے والے لوگوں پر ان کی حکومت کا مکمل کنٹرول ہے جو عموماً ملک کے دیگر حصوں کی نسبت بہتر حالات میںزندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے اتحادی روس، ایران اور حزب اللہ ان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلے، اور ان کی منتشر فوج کو منظم کرنے اور جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے میں ان کی پوری مدد کی۔ اس کے برعکس باغی، جو مختلف نظریات کے حامل دھڑوں کا مجموعہ تھے، کبھی کوئی متحدہ محاذ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے، نہ ہی وہ تمام شامیوں کو اس بات کا قائل کر سکے کہ وہ انھیں بہترمستقبل دیں گے۔

القاعدہ سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند ان کی صفوں میں شامل ہوگئے اور ان کے زیرقبضہ بہت تھوڑا علاقہ رہ گیا ہے کیونکہ ان کی پشت پر موجود قوتوں نے ان کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اوروہ اپنی پوری توجہ داعش سے لڑنے پر مرکوزکیے ہوئے ہیں۔ ترکی میں قائم انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والے گروپ، سچ اور انصاف کا بول بالا چاہنے والے شامی، کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر، بسام الاحمد کے بقول شامی حکومت کا تختہ الٹنے کا اب صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔

شام کی جنگ شروع ہوتے وقت جتنے لوگ صدر بشار الاسد کو جاتا دیکھنے کے خواہشمند تھے، اب ان کا عشرعشیر بھی ایسا نہیں چاہتے، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کئی لحاظ سے ایک محدود صدر بن کر رہ گئے ہیں، شام کا زیادہ تر علاقہ ان کے کنٹرول سے باہر ہے اور غیر ملکی قوتوں نے وہاں اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر بنا رکھے ہیں، جس سے پورے شام پر حکومت کرنے کے ان کے دعویٰ پر زد پڑتی ہے۔ ترک فوجوں نے مقامی باغیوں کی مدد سے ملک کے شمالی علاقے پر قبضہ جما رکھا ہے، جب کہ مشرق میں امریکا کرد اور عرب جنگجوؤں کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف برسر پیکار ہے۔

یہاں تک کہ جن علاقوں پر برائے نام ہی سہی، صدر اسد کاکنٹرول ہے وہاں بھی روس، ایران، حزب اللہ اور جنگ سے زور پکڑنے والے مقامی مسلح گروپ اکثر حکومت سے کہیں زیادہ اپناکنٹرول ثابت کرنے کا مظاہرہ کرتے دیکھے گئے ہیں اور جہاں تک روس کا تعلق ہے، شام کی تمام تر بین الاقوامی سفارتکاری کی باگ ڈور اس نے اپنے ہاتھ میں لے رکھی ہے اور وہ تشدد رکوانے کی کوشش کے طور پر ملک میں موجود غیر ملکی قوتوں سے محفوظ زون قائم کرنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔

جنگ میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے اور وہ آنے والے کئی عشروں تک اسد اور ان کے اتحادیوں پر بوجھ بنے رہیں گے۔ عالمی بینک کی ایک تازہ رپورٹ میں جنگ کے ابتدائی چھ سالوں میں ملک کو اقتصادی طور پر پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ 226 بلین ڈالر لگایا گیا ہے، جو جنگ چھڑنے سے پہلے 2010 میں اس کی مجموعی ملکی پیداوار سے چار گنا زیادہ ہے۔

دنیا بھرکے ذرایع ابلاغ میں ہر روز شام کے ملبوں کا ڈھیر بنے ہوئے شہروں کے جو مناظر دکھائے جاتے ہیں ان سے جنگ میں ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا اندازہ تو ہوتا ہے، لیکن وہاں کے عوام کا اعتماد مجروح ہونے اور مستقبل سے مایوس ہونے کی صورت میں پہنچنے والا نقصان اس سے کہیں زیادہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں