مائی اللہ وسائی سرائیکی میں گیت گائیکی متعارف کرانے والی فنکارہ

ریاست بہاولپور کی واحد گلوکارہ، جو آل انڈیا ریڈیو پر بھی گاتی رہیں


نذیر خالد October 29, 2017
کافی گائیکی میں ان کا منفرد انداز انہی کے ساتھ ختم ہو گیا۔ فوٹو : فائل

پاکستان میں اللہ وسائی نام کی تین گلوکارائیں ہوئی ہیں، جن کے عروج کا دور لگ بھگ ایک ہی ہے، ان میں سے دو تو ایسی تھیں جن کا یہ پیدائشی نام مرتے وقت اور عدم شہرت سے لے کر شہرت کی بلندیوں تک رہا مگر ان میں سے تیسری اللہ وسائی جب شو بز میں معروف ہوئیں تو ان کا نام تبدیل ہوگیا۔

قدرت نے ان تینوں اللہ وسائیوں کی ایسے تقسیم کی کہ ایک سندھی زبان کو مل گئیں، دوسری سرائیکی زبان اور تیسری پنجابی اور اردو زبان کو، تینوں اللہ وسائیاں اپنی اپنی سلطنت میں ملکائیں رہیں،لاکھوں ،کروڑوں دلوں پر راج کیا۔ اللہ وسائی کا مطلب کیا بنتا ہے؟ وسائی کے معنی ہیں بسنا،آبادہونا، خوش حال ہونا اور یوں پورے نام کا مطلب ہے وہ جس کو اللہ تعالی نے بسایا،خوشحال کیا اور رنگ لگائے ہوں۔ ایسا لگتا ہے ان تینوں عظیم سنگیت کاروں پر ان کے ناموں کا اثر یوں ہوا کہ وہ اسم با مسمی بن کر سامنے آئیں۔

ان میں سندھ کی مائی اللہ وسائی بہت ہی سریلی گلوکارہ تھیں، افسوس کہ ان کی بڑھاپے کی زندگی بہت آسودہ نہ رہی، اولاد نہ ہونے کی بنا پر وہ اپنے مرشد کے حکم کی تعمیل میں ایک دربار پر بیٹھ گئیں اور ہمیشہ کیلئے سیاہ لبادہ اوڑھ لیا، ان کی ریکارڈنگ موجود ہے، جو سننے کے لائق ہے، ایسی پختہ گائیکی کہ جیسے وہ سنگیت کی استاد ہوں۔ دوسری اللہ وسائی میڈم نور جہاں ہیں، جن کا خاندانی نام اللہ وسائی تھا، مگر شو بز میں آنے کے بعد تبدیل کر کے نور جہاں رکھ دیا گیا۔

وہ چھ برس کی عمر میں سٹیج پر آئیں، کلکتہ جیسے شہر میں دھوم مچائی اور آغاحشر کی تھیڑیکل کمپنی میں بڑا نام کمایا، وہیں سے بطور چائلڈ سٹار وہ سلور سکرین یعنی موشن فلموں میں چلی گئیں، ان کی شہرت کو ان کی وفات کے بعد بھی ذرہ برابر زوال نہیں آیا، لیکن گائیکی کے جو معیار انہوں نے قائم کر دیئے اس کو چھونے کے لئے نور جہاں ہونا ضروری ہے۔ تیسری اللہ وسائی سرائیکی وسیب کی ایک بڑی گلوکارہ تسلیم کی جانے والی درویش صفت فنکارہ تھیں، آج ہم سرائیکی وسیب کی مائی اللہ وسائی کا ذکر کریں گے، ان کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ ان کی وفات کو ہوگیا ہے لیکن کان رس لوگ بالعموم اور سرائیکی لوگ بالخصوص ان کو ہمیشہ یاد کرتے ہیں۔

سرائیکی یا ریاستی مائی اللہ وسائی کا تعلق بہاولپور سے تھا، ان کی وفات 1985ء میں ہوئی، بعض ان کی عمر پچھتر سال بتاتے ہیں اور ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر جو ریڈیو پاکستان بہاولپور پر مائی صاحبہ کو ریکارڈ کرتے رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ انہوں نے پچاسی برس سے زیادہ کی عمر پائی۔ پیدائش سے لے کر وفات پانے تک مائی اللہ وسائی نے اپنے وسیب کو وسائے رکھا۔ ان کے سسرال والے نواب آف بہاولپور کے شاہی گویے تھے۔ مائی اللہ وسائی کے باپ کا نام گامے خاں تھا ،خانقاہ شریف (بہاولپور کا نواحی قصبہ) کے رہنے والے تھے، کافی گائیکی میں پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے والی پروین نذر مرحومہ بھی اسی قصبہ سے تھیں اور ملکی سطح پر غزل گائیکی میں اپنی شناخت بنانے والی خوبرو گلوکارہ گلبہار بانوبھی یہیں سے گئی ہیں۔

مائی اللہ وسائی پر بہت کم لکھا گیا ہے مگر اس وقت ایسے بے شمار لوگ موجود ہیں، جنہوں نے مائی اللہ وسائی کو کئی بار سنا یا ان کے ساتھ رہے، ان پر تحریر کئے جانے والے اس مضمون کا بڑا ماخذ یہی لوگ ہیں۔ ڈاکٹر نصراللہ خان ناصر ریڈیو پاکستان بہاولپور کے اسٹیشن ڈائریکٹر رہے ہیں اور ریڈیو پاکستان کے لئے مائی اللہ وسائی کو دریافت کرنے کا سہرا بھی انہی کے سر ہے، انہوں نے مائی صاحبہ کو متعدد بار ریکارڈ کیا۔ ان کے بقول ''مائی اللہ وسائی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کے ہم عصر تمام بڑے گلوکار بشمول اُمید علی خان، توکل حسین خان اور بڑے غلام علی خان صاحب ان سے اچھی طرح واقف تھے اور مائی اللہ وسائی کے فن کو سمجھتے تھے'' روایت ہے کہ استاد بڑے غلام علی خان بہاولپور میں مائی اللہ وسائی کے مہمان بھی ہوئے۔

دوسرا امتیاز اس عظیم گلو کارہ کو یہ بھی حاصل ہے کہ اس پورے خطہ میں یہ ایک ایسی خاتون گلوکار تھیں جن کی آواز ریکارڈ ہوئی حالانکہ ان کے ہم عصر استاد توکل حسین خان بھی تھے جنہوں نے اپنی آواز ریکارڈ کرانے سے انکار کئے رکھا اور نتیجہ یہ کہ آج ہم اس عظیم استاد کی آواز سننے سے یکسر محروم ہیں۔ بقول ڈاکٹر نصراللہ مائی صاحبہ اپنے انداز کی منفرد گلوکارہ تھیں، وہ اس طرح کہ جیسے زاہدہ پروین نے کافی کو خالص کلاسیکل انگ میں گایا ہے، پروین نذر مرحومہ نے اس رنگ اورانگ کو آگے بڑھایا، مگر مائی اللہ وسائی نے جس انگ میں گایا، ان کے کام کو کوئی آگے لے کر نہیں چلا ، وہ ان کی اپنی زندگی تک ہی محدود رہا۔

مائی اللہ وسائی کی گائیگی کا خاص وصف یہ تھا کہ وہ کلاسیکل گائیکی کو گیت گائیکی کے قریب لے آئیں، سرائیکی میں گیت گائیکی کو متعارف کرانے والی بھی مائی اللہ وسائی ہی ہیں، سہروں کی گائیکی ان کی شہرت کی ایک اور خاص وجہ تھی وہ سہروں کو بھی نیم کلاسیکل شکل میں گاتی تھیں۔ مائی صاحبہ نے خرم بہاولپوری (مولانا نصیرالدین خرم بہاولپوری) کا کلام بہت گایا ہے اور اس کی ایک وجہ ان کی خرم بہاولپوری سے جذباتی وابستگی بھی تھی، مائی اللہ وسائی کا ایک وصف خاص یہ بھی تھا کہ بڑھاپے میں یعنی 80 سال کی عمر میں بھی ان کی آواز جوان لگتی تھی اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ان کی جتنی ریکارڈنگ بھی اس وقت موجود ہے۔

وہ ساری کی ساری ریڈیو کی ہے جو ان کی 80 سال سے 85 سال کی عمر کے درمیان کی گئیں۔ ڈاکٹر نصر اللہ خان ناصر جب مائی اللہ وسائی کو ریڈیو پر لے کر آئے اس وقت ان کی عمر 80 سال تھی۔ ریڈیو کے لئے مائی اللہ وسائی کی دریافت یوں ہوئی کہ ریڈیو بہاولپور نے احمد پور شرقیہ میں ایک لائیو پروگرام بعنوان''جھوکاں دے میلے'' شروع کیا جس میں مقامی فنکاروں کو لائیو گا نے کا موقع دیاگیا تھا ، اس میں مائی اللہ وسائی بھی آئیں، وہ گائیکی میں اپنامقابل نہ رکھتی تھیں اور ان کی آواز کی رینج بہت زیادہ تھی، جتنا چاہتیں اپنی آواز کو اٹھاتیں۔

بیگم مائی، مائی اللہ وسائی کی بیٹی جو سندھ میں بیاہی گئی تھیں، اب وہ بھی اللہ کو پیاری ہو چکی ہیں ،ایک بار وہ بہاولپور آئی ہوئی تھیں تو ان کے ساتھ ان کی عظیم ماں کے حوالے سے کچھ گفتگو ہوئی، بقول بیگم مائی ''بہاولپور کے نواحی قصبہ خانقاہ شریف سے تعلق رکھنے والے امیر بخش خاں رشتے میں مائی اللہ وسائی کے سگے بھتیجے تھے اور کلاسیکل گویے تھے، ہم دو بہنیں اور تین بھائی ہیں جو مائی اللہ وسائی کی اولاد ہیں۔ برکت علی مولائی، حکیم خادم حسین حیدری، امید علی ، فیض مائی اور بیگم مائی، فیض مائی اپنی ماں کے ساتھ مل کر گاتی تھیں ، سنا ہے مائی اللہ وسائی کے ایل پی ریکارڈ بھی بنے تھے، His Master Voice کمپنی نے مائی اللہ وسائی کے ریکار ڈ تیار کیے تھے اور اب ہم سنتے ہیں کہ لوک ورثہ والوں کے پاس یہ ریکارڈ محفوظ ہیں یا پھر خان پور کے نزدیک شیدانی شریف کے جمالو میاں کوریجہ کے پاس ہیں''۔

بقول بیگم مائی، مائی اللہ وسائی آنے جانے والوں اور ملنے والوں کی بے حد آؤ بھگت کرتیں ''بسم اللہ آئے وے سائیں'' ان کا تکیہ کلام تھا۔ صبح اٹھ کر نماز پڑھتیں پھر ریاض کرتیں، گاؤں میں کوئی عور ت گانے والی نہ تھی، اس لئے ہمارے والد حکیم عثمان انہیں گانے سے روکتے تھے'' اس ملاقات میں مائی اللہ وسائی کی صاحبزادی بیگم مائی نے مائی اللہ وسائی کے حوالے سے یہ باتیں بھی بتائیں کہ ''ادنی سے ادنی شخص اگر گانے کی فرمائش کرتا تو سازوں کے بغیر بھی اور جہاں ہوتیں تھیں گانا سنا دیتی تھیں، ہم انہیں روکتے کہ آپ اس طرح نہ کیا کریں تو وہ ہرگز نہ رکتیں جب ہم کہتے ساز تو آنے دیں تو جواب دیتیں کہ ساز آنے تک وہ شخص چلا جائے گا تو پھر میرے گانے کا کیا فائدہ۔وہ کہتیں کہ بغیر میوزک کے بھی گانا گانے سے اگر کسی کی روح خوش ہوتی ہے تو اس کی روح کو کیوں نہ خوش کیا جائے''۔

اب چند اقتباسات وسیب کے معروف دانشور اور محقق حفیظ خان کی چند برس قبل شائع ہونے والی تصنیف "خرم بہاولپوری" سے بطور حوالہ درج کرتے ہیں جو مائی اللہ وسائی کی شخصیت کے کچھ مزید پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں لیکن اس سے قبل خرم بہاولپوری کا مختصر تعارف ان احباب کے لئے جو ان کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ خرم بہاولپوری، خواجہ غلام فرید کے بعد نمایاں مقام رکھنے والے سرائیکی شاعر ہیں وہ عالم دین اور حافظ قرآن تھے، فارسی کے عالم اور نہایت عمدہ شاعر،سرائیکی کے اولین غزل گو شاعر ہونے کا اعزاز بھی انہی کو حاصل ہے، 1950ء میں تقریباً 96 سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ۔۔۔۔۔۔ حفیظ خان اپنی کتاب کے صفحہ 32پر لکھتے ہیں۔

"اللہ وسائی نے کافی کی گائیکی میں ناموری کمائی تو ایک زمانہ اس کی طرف دیوانہ وارکھنچا چلا آیا اور یوں اس کے گرد امراء کے ہجوم کے ساتھ ساتھ سفید پوش اور مفلس تخلیق کاروںکا حلقہ بھی بنتا چلا گیا کہ جو حقیقی معنوں میںاس کی جمالیاتی اثر پذیری سے زیادہ اس کے فن کے دلدادہ تھے، ان کی اکثریت اللہ وسائی کے ہاں ڈیرے جمائے رہتی، مگر اس وقت آل انڈیا ریڈیو دہلی سے سرائیکی کافی گانے والی اس منفرد گائیکہ کی جانب سے نہ تو ان کی دلجوئی میں کبھی کمی آئی ا ور نہ ہی میزبانی میں، اللہ وسائی کے انہی قدردانوں میں ایک خرم بھی تھے۔ اللہ وسائی خوبرو تو تھی ہی، مگراس سے زیادہ اس کی عشوہ طرازی، طرحداری اور اس سے بھی زیادہ کمال عطائے حسن نے اسے مقبول خاص و عام بنا دیا تھا۔

بہاولپور سے تعلق رکھنے والے استاد امید علی خان کے شاگرد خاص کلاسیکل سنگیت کار استاد مبارک علی خان کا کہنا ہے کہ مائی اللہ وسائی ایک ایسی پختہ آواز والی گلوکارہ تھیں جنہیں ان گنت محافل میں سنا لیکن انہیں کبھی بے سرا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ پکی آواز کی مالک تھیں اکثر شادی بیاہ کی تقریبات میں گاتی تھیں اور پورا وسیب ان کی آواز پر فریفتہ تھا، وہ بعض اوقات کھڑے ہو کر گاتیں اور کبھی بیٹھ کر شادیوں میں ان کے گائے ہوئے سہرے عوام میں بے حد مقبول رہے۔ اکثر یہ دیکھا کہ وہ اپنا گانا مولود شریف سے شروع کرتیں اور پھر آہستہ آہستہ خواجہ فرید سائیں کی کافیوں پر آجاتیں اور کئی بار ایسا ہوا کہ رات آٹھ بجے گیس کی روشنی میں وہ گانا شروع کرتیں، صبح کے آٹھ بج جاتے، سورج چڑھ آتا لیکن لوگ بیٹھے ان کا گانا سنتے رہتے۔

ایک نعت رسول مقبولﷺ جس کا مصرعہ ہے'' واہ شان تیری صلی علی عربی جوانا'' بہت مشہور تھی اور لوگ فرمائش کرکے ان سے یہ سنا کرتے تھے، اس کی شاعری اور طرز دونوں نہایت دل پذیر ہیں۔ پھر خواجہ صاحب کی یہ کافی'' شاہ رانجھا البیلا، جوگی جادوگر وے ''۔ وہ سر پر دوپٹہ لے کر گاتی تھیں اور کبھی سر سے دوپٹہ اترنے نہ دیتیں۔ ان کے والد استاد گامے خان دھرپدی گائیک تھے اور سیوک کہلاتے تھے۔ مائی صاحبہ کا بچپن خانقاہ شریف میں گزرا جہاں ان کے والدین مستقل طور پر رہائش پذیر تھے ،جوان ہوئیں تو ڈیرہ نواب صاحب(احمد پور شرقیہ) میں بیاہی گئیں ۔استاد عاشق حسین( عاشق رمضان کی جوڑی والے عاشق) اور ممتاز بیگم ( حسینہ ممتاز کی جوڑی والی ممتاز)کے چچا سے ان کی شادی ہوئی اور ان کے بھائی جن کا نام محمد بخش تھا وہ بھی بہت اچھے گائیک تھے۔

مائی اللہ وسائی کے ہم عصروں میں سے ایک نام تو حسین بخش ڈھاڈی کا ہے، دوسرا نام حیات بی بی عرف حیاتاں کا ہے جو گائیکی میں استاد کے درجہ پر فائز تھیں۔ مائی اللہ وسائی خوش طبع ، ہنس مکھ اور خلیق خاتون تھیں، ان کے گلے میں تسبیح اور ہاتھ میں لاٹھی ہوتی تھی اور لوگوں میں ان کا احترام اس حد تھا کہ لوگ انہیں صرف اللہ وسائی نہیں بلکہ مائی اللہ وسائی کہہ کر بلاتے تھے۔ کافی گائیکی میں پرائیڈ آف پرفارمنس حاصل کرنے والی میڈم پروین نذر کے میاں استاد نذر حسین خان جن کے والد علی بخش خان خود موسیقی کے بہت بڑے استاد اور گوالیار گھرانہ کے شاگرد تھے ،بھی اسی قصبہ خانقاہ شریف کے رہنے والے تھے جہاں مائی اللہ وسائی کا مائیکہ تھا۔ استاد نذر حسین اپنی شادی سے قبل یعنی نوجوانی میں مائی اللہ وسائی کے ساتھ چار پانچ سال تک ہارمونیم پر سنگت کرتے رہے ۔

انہوں نے بتایا کہ مائی اللہ وسائی بہت ہی درویش اور سخی خاتون تھیں کہیں پروگرام کرکے لوٹنا، راستے میں کسی بزرگ پیر، فقیر کا مزار نظر آتا تو مائی صاحبہ ساری رقم وہاں فقیروں ،درویشوں میں بانٹ دیتیں۔ وہ سریلی خاتون تھیں آواز بہت بلند اورصاف تھی، شادی بیاہ کے گیت سہرے وغیرہ ان کی گائیکی کا خاص میدان تھا۔ بہاولپور میں سن اسی اور نوے کی دہائیوں میں شہرت پانے والی گلوکار جوڑی کی بات ہوگی تو عاشق رمضان کا نام لیا جائیگا، استاد عاشق نے بتایا کہ وہ میرے اور ممتاز بیگم کے دادا کا گھر تھا۔ مائی اللہ وسائی کی شادی محمد عثمان کے ساتھ ہوئی جو سنہارو کے نام سے مشہور تھے وہ سنگیت میں گنی تھے مگر حکمت کرتے تھے، مائی اللہ وسائی کے والد خود بہت بڑے گائیک تھے۔

علی تنہا کا تعلق ملتان سے ہے اور وہ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے ہیں ،اس وسیب کے دانشور ہیں اور شعر و ادب و موسیقی ان کے من پسند شعبے رہے ہیں، انہوں نے اپنی تصنیف ''ریت میں سونا'' کے صفحہ 117پر تحریر کیا ہے کہ ''...استاد حسین بخش خان ڈھاڈی اور مائی اللہ وسائی نے بھی ان (استاد امیر خان ملتانی) سے کسب فیض کیا مگر انہوں نے باقاعدہ امیر خان صاحب سے شاگردی کا ناطہ قائم نہ کیا'' اسی طرح صفحہ 122پر رقم طراز ہے''...خیر گائیکی میں اس ( بدرو ملتانی ) کی دوسری معاصرین میں نگینہ جان ملتانی، مائی نواب ککی، بدرو ملنگ والی ، لعلاں گوگڑاں والی، مائی اللہ وسائی بھی اپنی جدت اور حسن غنا کے حساب سے مشہور تھیں۔ شازیہ ناز مائی اللہ وسائی کی پوتی ہیںجو ان کے بیٹے حکیم خادم حسین حیدری کی بیٹی ہیں اور اپنی دادی کے گائے ہوئے گیت انہی کے انداز میں گانے کی کوشش کرتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی پہلی استاد ان کی دادی ہی تھیں۔ بقول شازیہ ناز کہ میری دادی کا گانے کا انگ نہ تو میڈیم نور جہاں والا تھا اور نہ ہی زاہدہ پروین والا بلکہ ان کا اپنا گانے کا ایک الگ انداز تھا جو کسی کی بھی نقل نہیں تھا۔ وہ وقت کو مد نظر رکھتے ہوئے سہرا گاتیں اور کبھی بے وقت سہرا نہ گاتی تھیں ۔ میری دادی نے ا س وسیب کے بہت سے لوگوں کو گانا سکھایا، گو انہوں نے باقاعدہ استاد شاگرد کا رشتہ قائم نہ کیا مگر ایک غیر رسمی انداز میں کئی لوگوں نے ان سے فیض حاصل کیا۔ اگر کوئی باقاعدہ شاگرد ہونے کے لئے انہیں کہتا تو وہ آگے سے کہتیں کہ میں ابھی خود سیکھ رہی ہوں۔ میں نے بچپن سے لے کر دادی جان کے فوت ہونے تک ان کے ساتھ سنگت کی، ہر پروگرام میں ان کے ساتھ جاتی اور جس خوبصورتی کے ساتھ اور ہر وقت کا الگ سہرا میری دادی جان گاتی تھیں، ان جیسا کوئی نہیں گا سکتا۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں