قدیم روم میں دی جانے والی انسانیت سوز سزا
غرض اس دور میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔
یہ دوسری صدی عیسوی کا قصہ ہے۔
روم کی عظیم سلطنت میں ''اینڈروکلس'' (Androcles) نامی ایک غلام رہتا تھا۔ اس کا آقا، روم کے ایک افریقی مقبوضہ کی انتظامیہ میں روم کی حکومت کی طرف سے قونصل (سفیر) رہ چکا تھا۔ اس زمانے میں آقا کو غلام پر ہر طرح کا اختیار اور تصرف حاصل تھا۔ یہاں تک کہ اگر آقا اپنے غلام کو کسی بات پر قتل بھی کر دیتاتو اس سے اس جرم پر کوئی تعرض نہ کیا جاتا کیونکہ اس کا یہ عمل کوئی جرم ہی شمار نہیں ہوتا تھا۔ غرض اس دور میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو شخص بھی ایک بار غلام بنا لیا جاتا تو پھر اس کے لیے غلامی کی زندگی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔
اس ماحول میں اینڈروکلس کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی اور وہ ہر وقت کے ظلم و ستم سے عاجز آچکا تھا۔ وہ مسلسل اس سوچ و فکر میں غلطاں و پیچاں رہتا کہ کیسے اس غلامی سے نجات پائے؟ آخر جب اس کو اور کوئی راہ نہ سوجھی تو اس نے تنگ آکر وہاں سے فرار ہوجانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا کیونکہ آقاؤں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ غلام آزادی پانے کے لیے فرار کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی لیے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور اگر کوئی غلام یہ جسارت کرتا تھا توتمام تر وسائل بروئے کار لاکر اس غلام کو دوبارہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی اور اگر شومئی قسمت غلام پکڑا جاتا تو پھر اس کو اتنی خوفناک اور اذیت ناک سزائیں دی جاتیں جو دوسرے غلاموں کے لیے عبرت کا باعث ہوتیں تاکہ وہ فرار کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لائیں۔
یہ سب باتیں جاننے کے باوجود اینڈروکلس نے فرار ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا، کیونکہ آزادی کی خواہش انسان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ اینڈروکلس نے بھی سوچا کہ اگر اس کی کوشش کامیاب ہوگئی تو وہ آزادی حاصل کرے گا اور اگر وہ ناکام ہوگیا تو پھر روز روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی دن اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ یوں ایک دن موقع ملنے پر اینڈروکلس وہاں سے فرار ہوگیا اور شہر سے دور نکل کر جنگل کے ایک ویران حصے میں واقع ایک غار میں جاچھپا۔ اسے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ قسمت ابھی اس کے ساتھ ایک اور مذاق کرنے والی ہے۔
اس نے پناہ حاصل کرنے اورچھپنے کے لیے جس غار کا انتخاب کیا تھا وہ غار ایک خونخوار شیر کی کمین گاہ تھی۔ ابھی اینڈروکلس کو غار میں چھپے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کو غار کے دہانے کی طرف سے ایک شیر کی غراہٹ کی آواز سنائی دی۔ اینڈروکلس نے سہم کر جب غار کے دہانے کی طرف دیکھا تو اسے ایک قوی الجثہ شیر لنگڑاتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ شیر کو دیکھ کر اینڈروکلس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ڈر کے مارے اینڈروکلس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں مگر اس کا یہ عمل اضطراری تھا اور اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے مصیبت ٹل نہیںجاتی۔ بہرحال اینڈروکلس کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کی کیونکہ اور کوئی ترکیب نہیں تھی اس لیے وہ آنکھیں بند کیے قسمت کے آخری وار کا انتظار کرنے لگا کہ کب شیر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا کام تمام کرتا ہے۔
جب تھوڑی دیر گزر گئی اور کچھ بھی نہ ہوا تو اینڈروکلس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو ایک عجیب منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شیر اس سے کچھ فاصلے پر زمین پر لیٹا ہوا بے چارگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اینڈروکلس کو حیرت کے ساتھ ساتھ کچھ حوصلہ بھی ہوا اور وہ ہمت کرکے شیر کی طرف کھسکنے لگا۔ نزدیک پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ شیر نے اپنا ایک پنجہ آگے کو کیا ہوا ہے اور اس میں ایک بڑا سا کانٹا چبھا ہوا ہے۔ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چل رہا تھا اور یقینا شکار تک کرنے سے قاصر تھا۔ اینڈروکلس کا دل ہمدردی سے بھر آیا اور اس نے نتائج کی پروا کیے بغیر ہاتھ بڑھا کر شیر کے پاؤں میں سے اس کانٹے کو باہر نکال کر شیر کو اس اذیت سے نجات دلادی جو وہ نہ جانے کب سے جھیل رہا تھا۔ تکلیف سے چھٹکارا ملنے پر شیر اینڈروکلس کو ممنون نظروں سے دیکھنے لگا۔
اس طرح اینڈروکلس اور شیر کی دوستی ہوگئی اور وہ دونوں آرام و سکون سے مل جل کر غار میں رہنے لگے۔ اسی طرح تین برس گزرگئے۔ بالآخر ایک دن اینڈروکلس نے فیصلہ کیا کہ اتنا طویل عرصہ گزرچکا ہے اب تک یقینا اس کا آقا اسے بھول گیا ہوگا۔ اسی سوچ کے نتیجے میں اس نے جنگل سے نکل کر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ شہر پہنچ کر ابھی وہ بازار میں گھوم پھر ہی رہا تھا کہ ناجانے کیسے بازار میں گشت کرتے سپاہیوں کے ایک دستے کو اس پر شک گزرا۔ جب سپاہیوں نے اس سے اس کی شناخت طلب کی تو اینڈروکلس گھبرا گیا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو سپاہیوں کو یقین ہوگیا کہ وہ کوئی مجرم ہے۔ سپاہیوں نے تعاقب کرکے اس کو پکڑلیا۔ پکڑے جانے پر جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس کی پشت پر داغی جانے والی مہر غلامی نے سارا راز فاش کردیا اور پتا چل گیا کہ وہ ایک مفرور غلام ہے۔ سپاہیوں نے اسے حوالۂ زنداں کیا جہاں اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔
اس زمانے میں سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہیں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا اور بے شمار تماشائیوں کی موجودگی میں شیر اس قیدی کی تکہ بوٹی کرکے اسے ہڑپ کرجاتا تھا۔ ایک جانب تو اینڈروکلس قید خانے میں پڑا اپنی زندگی کے دن گن رہا تھا تو دوسری طرف بادشاہ کے شکاری جنگل میں جال لگا کر ایک نیا شیر پکڑنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ آخر کار ان کی مراد بر آئی اور ان کے جال میں ایک تندرست و توانا شیر پھنس گیا۔ شیر کو شہر لایا گیا اور تین دن تک اسے کھانے کو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ تین دن بعد بادشاہ کے حکم سے سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عمل درآمدکرنے کے اعلان کی شہر بھر میں منادی کروادی گئی۔
مقررہ دن ساری خلقت اسٹیڈیم میں اس انسانیت سوز نظارے کو دیکھنے کے لیے موجود تھی۔ سپاہی قید خانے سے اینڈروکلس کو کھینچتے ہوئے اسٹیڈیم کے بیچ بنے میدان نما حصے میں لے آئے اور پھر ایک جانب رکھے شیر کے پنجرے کو کھول دیا۔ بھوک سے بے تاب درندہ ایک غضبناک دھاڑ کے ساتھ اچھل کر پنجرے سے باہر آیا اور لاغر و ناتواں اینڈروکلس کی طرف لپکا۔ لیکن پھر سب لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ شیر جیسے ہی اینڈروکلس کے پاس پہنچا تو ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے اسے سونگھنے لگا۔ تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا اور بادشاہ بھی انتہائی حیرت سے اینڈروکلس کے قدموں میں بیٹھے شیر کو اس کے پاؤں چاٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ درحقیقت یہ وہی شیر تھا جس کے پیر سے اینڈروکلس نے کانٹا نکالا تھا۔ ایک انسان کے احسان کو یاد رکھنے کی یہ داستان سن کر بادشاہ اور اینڈروکلس کا آقا بھی بہت متاثر ہوئے اور اینڈروکلس کو رہائی کے ساتھ غلامی سے آزادی کا پروانہ بھی دے دیا گیا۔
یہ کہانی کوئی فرضی کہانی نہیں ہے۔ اس واقعہ کا ذکر پہلی صدی عیسوی کے معروف یونانی ادیب ''اپی اون (Apion) نے اپنی کتاب عجائبات مصر (Wonders of Egypt) میں کیا ہے جو اس واقعہ کا عینی شاہد تھا۔ یہ کتاب اب ناپید ہوچکی ہے مگر دوسری صدی عیسوی کے ایک لاطینی ادیب ''اؤلس گیلیس (Avlvs Gellivs) نے اپنی کتاب ''ایٹک نائٹس (Attic Night) میں اپی اون کی کتاب اور اس واقعہ کا تذکرہ کرکے اسے زندہ جاوید کردیا۔ اؤلیس گیلیس روم میں پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا اور بعدازاں ایتھنز میں تعلیم حاصل کی۔
اینڈروکلس کی یہ کہانی بعد میں چھٹی صدی عیسوی میں ''ایک گڈریا اور شیر'' اور بارہویں صدی عیسوی میں ''وائے وین، دی نائٹ آف دی لائن (Yvain, the Knight of the Lion) کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ یہ کہانی اتنی مقبول ہوئی کہ ادوار میں بھی یہ مختلف ناموں سے سامنے آتی رہی۔ یہاں تک کہ 1912ء میں مشہور انگریز ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شاء نے اس پر ایک ڈرامہ ''اینڈروکلس اینڈ دی لائن (Androcles and the Lion) لکھ کر اینڈروکلس کو ماورائی کردار بنا دیا۔ سینما اور ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد اس کہانی پر کئی ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بھی بنیں۔ جس کی تازہ مثال 2000ء میں بننے والی مشہور فلم گلیڈئیٹر ''Gladiator'' ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قدیم یونان میں قیدیوں کو درندوں کے آگے پھینک کر سزائے موت دیئے جانے کی سزا عام تھی۔ اس بہیمانہ اور سنگ دلانہ طریقے سے سزا دینے کے عمل کو لوگ تفریح کا ذریعہ سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کو بھی ایک خونی کھیل کا درجہ حاصل تھا جس کو ''بیسٹیاریی'' (Bestiarii) کہا جاتا تھا۔ تاریخ اس طریقے سے سزا دینے کے اصل مقصد کے بارے میں تو خاموش ہے لیکن یہ ضرور بتاتی ہے کہ شروع میں شاید یہ قربانی دینے کی کوئی مذہبی رسم رہی ہوگی جو بعد میں قانونی سزا میں تبدیل ہوگئی۔ خاص طور پر دنیا کے ان علاقوں میں جہاں شیر اور دیگر درندے قدرتی طور پر پائے جاتے تھے۔ اور انہیں مذہبی لحاظ سے مقدس سمجھا جاتا تھا۔
جیسا کہ براعظم ایشیا کے چند حصے اور افریقہ۔ مصری دیو مالا میں زیر زمین شیطان کے تصوراتی کردار ''امیت (Ammit) کے بارے میں عقیدہ تھا کہ وہ گناہ گار لوگوں کی روحوں کو نگل جاتا ہے۔ مصریوں کے تصور کے مطابق امیت مگر مچھ نما انسانی شکل رکھتا تھا جو بن مانس کی طرح چاروں ہاتھ پیروں پر چلتا تھا۔ مصری دیو مالا میں ایک اور کردار ''سیکھ میت (Sekhmet) بھی ہے جو سورج دیوتا کی بیٹی اور آگ اور جنگ کی دیوی تصور کی جاتی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق سیکھ میت جب سانس لیتی ہے تو اس کی حدت سے صحرا وجود میں آتے ہیں۔
مصری دیو مالا میں اس دیوی کو شیرنی کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے عقیدے کے مطابق اس نے اپنی پیدائش کے فوراً بعد تقریباً ساری انسانی آبادی کو نگل لیا تھا۔ تاریخ میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ قدیم مصر اور لیبیا میں زندہ اورمردہ انسانوں کو شیروں اور مگر مچھوں کی خوراک کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ سکندر اعظم کے دور کا بھی ایک ایسا ہی واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ جب اس کے ایک ساتھی ''لے پیماکس (Lysimachvs) نے سینٹرل ایشیا میں جنگ کے دوران ایک شخص کو سزائے موت سنائے جانے کے خلاف آواز بلند کی تو سکندر نے اس کو بھوکے شیر کے سامنے پھینکوا دیا، اسی طرح اڑھائی سو سال قبل از مسیح میں ''جنگ مرکینری (Mercenary)'' کے بعد جنرل ہمیلکر (Hamilcar)'' نے جنگی قیدیوں کو درندوں کے آگے پھینکوا دیا تھا۔ ''پینک (Punic)'' وارز میں پکڑے جانے والے رومیوں کو ''ہنی بال (Hannibal)'' نے مجبور کیا کہ وہ ہاتھیوں کے سامنے کھڑے ہوں۔
روم کے علاقے میں شیر بہت کم پائے جاتے تھے اور ساتویں صدی عیسوی میں ''نماپومپیلیس (Numa Pompilivs) نے کیونکہ انسانی قربانی دینے پر پابندی لگادی تھی اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور میں درندوں کے سامنے انسانوں کو پھینکنے کا عمل ایک مذہبی رسم کی بجائے کھیل تماشے کے طور پر انجام دیا جاتا تھا۔ ان درندوں میں شیروں کے علاوہ چیتے، بھگیار اور ریچھ وغیرہ شامل تھے۔
قیدیوں کو درندوں کے سامنے ڈلوانے کی سزا قدیم روم میں رائج کرنے کا ذمہ دار دو کمانڈروں کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایک ''لوسیس اٹمیلس (Lucivs Aemilius) جس نے مقدونیہ کو 186 قبل مسیح میں شکست سے دوچار کیا تھا اور دوسرا اس کا بیٹا ''سیکپیو ایمیلینس)جس نے 146 قبل مسیح میں افریقہ کے مشہور شہر ''کارتھیج (Carthage) کو فتح کیا تھا۔ یہ قبیح رسم ''کارتھیج'' سے ہی روم لائی گئی اور ابتداعاً غداروں اور بھگوڑوں کو دی جاتی تھی تاکہ عوام کو عبرت ہو۔ اس سزا پر عمل درآمد کے نتائج اتنے مفید ثابت ہوئے کہ بتدریج یہ طریقۂ کار مقبولیت حاصل کرنا چلا گیا اور یوں دیگر سنگین جرائم پر بھی یہ سزا دی جانے لگی۔ مجرموں کو یا تو ستونوں کے ساتھ باندھ کران پر درندے چھوڑ دیئے جاتے یا پھر انہیں نہتا کرکے جانوروں کے سامنے ڈال دیا جاتا۔ اس سزاپر عمل درآمد کے لیے شیر، دوسرے ملکوں سے روم لائے جاتے تھے۔
علاوہ ازیں ریچھ، مغربی یورپ کے علاقے ''گاؤل (Gaul)'' جرمنی اور یہاں تک کہ شمالی افریقہ سے روم منتقل کیے جاتے۔ چند مورخین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر ان جانوروں کی روم درآمد کی وجہ سے شمالی افریقہ میں جنگلی حیات کو نقصان پہنچا۔درندوں کی خوراک بننے والے بدنصیبوں کو ان کے شہری حقوق سے بھی محروم کردیا جاتا تھا۔ مثلاً وہ اپنی وصیت نہیں لکھ سکتے تھے۔ اور ان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جاتی تھیں۔ ہاں البتہ آجروں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے غلاموں یا ملازمین کو بغیر عدالتی فیصلے کے یہ سزا دے سکیں۔ اسی طرح فوجیوں اور ان کے بچوں (ماسوائے غداروں یا بھگوڑوں کے) کو بھی اس سزا سے استثنا حاصل تھا۔
بالآخر 681ء میں روم میں اس سزا پر پابندی عائد کردی گئی۔ سزا کے خاتمے کے بعد بازنطینی سلطنت میں 1022ء میں اس کی صرف ایک مثال تاریخ میں ملتی ہے جب بازنطینی حکمران بارسل دوم (Basil II) کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے کے جرم میں فوج کے متعدد جرنیلوں کو گرفتار کرکے قید کردیا گیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں اور ان شاہی خواجہ سراؤں کو بھوکے شیروں کے آگے پھینک دیا گیا جنہوں نے جرنیلوں کی معاونت کی تھی یا دوسری مثال پانچویں صدی سے پندرہویں صدی عیسوی پر محیط دور جسے یورپ کی تاریخ میں ''مڈل ایجز'' یا ''مڈیول ایجز'' کہا جاتا ہے کہ دوران ملتی ہے جب ''سارے لانے (Saare-Laane) کے بشپ کو یہ سزا دی گئی۔ یہ واقعہ موجودہ ''ایسبٹونیلہ'' کے ''بشپس کیسل'' میں پیش آیا۔
روم کی عظیم سلطنت میں ''اینڈروکلس'' (Androcles) نامی ایک غلام رہتا تھا۔ اس کا آقا، روم کے ایک افریقی مقبوضہ کی انتظامیہ میں روم کی حکومت کی طرف سے قونصل (سفیر) رہ چکا تھا۔ اس زمانے میں آقا کو غلام پر ہر طرح کا اختیار اور تصرف حاصل تھا۔ یہاں تک کہ اگر آقا اپنے غلام کو کسی بات پر قتل بھی کر دیتاتو اس سے اس جرم پر کوئی تعرض نہ کیا جاتا کیونکہ اس کا یہ عمل کوئی جرم ہی شمار نہیں ہوتا تھا۔ غرض اس دور میں غلامی اپنی بدترین شکل میں رائج تھی اور غلام کو انسان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو شخص بھی ایک بار غلام بنا لیا جاتا تو پھر اس کے لیے غلامی کی زندگی سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا تھا۔
اس ماحول میں اینڈروکلس کی زندگی اجیرن ہوچکی تھی اور وہ ہر وقت کے ظلم و ستم سے عاجز آچکا تھا۔ وہ مسلسل اس سوچ و فکر میں غلطاں و پیچاں رہتا کہ کیسے اس غلامی سے نجات پائے؟ آخر جب اس کو اور کوئی راہ نہ سوجھی تو اس نے تنگ آکر وہاں سے فرار ہوجانے کا فیصلہ کیا لیکن یہ کام اتنا آسان نہ تھا کیونکہ آقاؤں کو بھی اس بات کا ادراک تھا کہ غلام آزادی پانے کے لیے فرار کا راستہ اختیار کرسکتے ہیں۔ اسی لیے ان پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی اور اگر کوئی غلام یہ جسارت کرتا تھا توتمام تر وسائل بروئے کار لاکر اس غلام کو دوبارہ پکڑنے کی کوشش کی جاتی اور اگر شومئی قسمت غلام پکڑا جاتا تو پھر اس کو اتنی خوفناک اور اذیت ناک سزائیں دی جاتیں جو دوسرے غلاموں کے لیے عبرت کا باعث ہوتیں تاکہ وہ فرار کا خیال بھی اپنے دل میں نہ لائیں۔
یہ سب باتیں جاننے کے باوجود اینڈروکلس نے فرار ہونے کا مصمم ارادہ کرلیا، کیونکہ آزادی کی خواہش انسان کے خمیر میں گندھی ہوئی ہے۔ اینڈروکلس نے بھی سوچا کہ اگر اس کی کوشش کامیاب ہوگئی تو وہ آزادی حاصل کرے گا اور اگر وہ ناکام ہوگیا تو پھر روز روز کے مرنے سے بہتر ہے کہ ایک ہی دن اس کی زندگی کا خاتمہ ہوجائے۔ یوں ایک دن موقع ملنے پر اینڈروکلس وہاں سے فرار ہوگیا اور شہر سے دور نکل کر جنگل کے ایک ویران حصے میں واقع ایک غار میں جاچھپا۔ اسے مگر یہ معلوم نہ تھا کہ قسمت ابھی اس کے ساتھ ایک اور مذاق کرنے والی ہے۔
اس نے پناہ حاصل کرنے اورچھپنے کے لیے جس غار کا انتخاب کیا تھا وہ غار ایک خونخوار شیر کی کمین گاہ تھی۔ ابھی اینڈروکلس کو غار میں چھپے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ اس کو غار کے دہانے کی طرف سے ایک شیر کی غراہٹ کی آواز سنائی دی۔ اینڈروکلس نے سہم کر جب غار کے دہانے کی طرف دیکھا تو اسے ایک قوی الجثہ شیر لنگڑاتا ہوا آتا دکھائی دیا۔ شیر کو دیکھ کر اینڈروکلس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ ڈر کے مارے اینڈروکلس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں مگر اس کا یہ عمل اضطراری تھا اور اس کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے سے مصیبت ٹل نہیںجاتی۔ بہرحال اینڈروکلس کے پاس اس صورتحال سے بچ نکلنے کی کیونکہ اور کوئی ترکیب نہیں تھی اس لیے وہ آنکھیں بند کیے قسمت کے آخری وار کا انتظار کرنے لگا کہ کب شیر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے اس کا کام تمام کرتا ہے۔
جب تھوڑی دیر گزر گئی اور کچھ بھی نہ ہوا تو اینڈروکلس نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں تو ایک عجیب منظر دیکھ کر حیران رہ گیا۔ شیر اس سے کچھ فاصلے پر زمین پر لیٹا ہوا بے چارگی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر اینڈروکلس کو حیرت کے ساتھ ساتھ کچھ حوصلہ بھی ہوا اور وہ ہمت کرکے شیر کی طرف کھسکنے لگا۔ نزدیک پہنچنے پر اس نے دیکھا کہ شیر نے اپنا ایک پنجہ آگے کو کیا ہوا ہے اور اس میں ایک بڑا سا کانٹا چبھا ہوا ہے۔ اسی تکلیف کی وجہ سے وہ لنگڑا کر چل رہا تھا اور یقینا شکار تک کرنے سے قاصر تھا۔ اینڈروکلس کا دل ہمدردی سے بھر آیا اور اس نے نتائج کی پروا کیے بغیر ہاتھ بڑھا کر شیر کے پاؤں میں سے اس کانٹے کو باہر نکال کر شیر کو اس اذیت سے نجات دلادی جو وہ نہ جانے کب سے جھیل رہا تھا۔ تکلیف سے چھٹکارا ملنے پر شیر اینڈروکلس کو ممنون نظروں سے دیکھنے لگا۔
اس طرح اینڈروکلس اور شیر کی دوستی ہوگئی اور وہ دونوں آرام و سکون سے مل جل کر غار میں رہنے لگے۔ اسی طرح تین برس گزرگئے۔ بالآخر ایک دن اینڈروکلس نے فیصلہ کیا کہ اتنا طویل عرصہ گزرچکا ہے اب تک یقینا اس کا آقا اسے بھول گیا ہوگا۔ اسی سوچ کے نتیجے میں اس نے جنگل سے نکل کر شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ شہر پہنچ کر ابھی وہ بازار میں گھوم پھر ہی رہا تھا کہ ناجانے کیسے بازار میں گشت کرتے سپاہیوں کے ایک دستے کو اس پر شک گزرا۔ جب سپاہیوں نے اس سے اس کی شناخت طلب کی تو اینڈروکلس گھبرا گیا اور وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔ اب تو سپاہیوں کو یقین ہوگیا کہ وہ کوئی مجرم ہے۔ سپاہیوں نے تعاقب کرکے اس کو پکڑلیا۔ پکڑے جانے پر جب اس کی تلاشی لی گئی تو اس کی پشت پر داغی جانے والی مہر غلامی نے سارا راز فاش کردیا اور پتا چل گیا کہ وہ ایک مفرور غلام ہے۔ سپاہیوں نے اسے حوالۂ زنداں کیا جہاں اسے موت کی سزا سنا دی گئی۔
اس زمانے میں سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عمل درآمد کرنے کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہیں بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دیا جاتا تھا اور بے شمار تماشائیوں کی موجودگی میں شیر اس قیدی کی تکہ بوٹی کرکے اسے ہڑپ کرجاتا تھا۔ ایک جانب تو اینڈروکلس قید خانے میں پڑا اپنی زندگی کے دن گن رہا تھا تو دوسری طرف بادشاہ کے شکاری جنگل میں جال لگا کر ایک نیا شیر پکڑنے کے لیے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ آخر کار ان کی مراد بر آئی اور ان کے جال میں ایک تندرست و توانا شیر پھنس گیا۔ شیر کو شہر لایا گیا اور تین دن تک اسے کھانے کو کچھ بھی نہیں دیا گیا۔ تین دن بعد بادشاہ کے حکم سے سزائے موت کے مجرموں کی سزا پر عمل درآمدکرنے کے اعلان کی شہر بھر میں منادی کروادی گئی۔
مقررہ دن ساری خلقت اسٹیڈیم میں اس انسانیت سوز نظارے کو دیکھنے کے لیے موجود تھی۔ سپاہی قید خانے سے اینڈروکلس کو کھینچتے ہوئے اسٹیڈیم کے بیچ بنے میدان نما حصے میں لے آئے اور پھر ایک جانب رکھے شیر کے پنجرے کو کھول دیا۔ بھوک سے بے تاب درندہ ایک غضبناک دھاڑ کے ساتھ اچھل کر پنجرے سے باہر آیا اور لاغر و ناتواں اینڈروکلس کی طرف لپکا۔ لیکن پھر سب لوگوں نے ایک عجیب منظر دیکھا۔ شیر جیسے ہی اینڈروکلس کے پاس پہنچا تو ٹھٹھک کر رک گیا اور پھر اس کے گرد چکر لگاتے ہوئے اسے سونگھنے لگا۔ تماشائیوں کو سانپ سونگھ گیا اور بادشاہ بھی انتہائی حیرت سے اینڈروکلس کے قدموں میں بیٹھے شیر کو اس کے پاؤں چاٹتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ درحقیقت یہ وہی شیر تھا جس کے پیر سے اینڈروکلس نے کانٹا نکالا تھا۔ ایک انسان کے احسان کو یاد رکھنے کی یہ داستان سن کر بادشاہ اور اینڈروکلس کا آقا بھی بہت متاثر ہوئے اور اینڈروکلس کو رہائی کے ساتھ غلامی سے آزادی کا پروانہ بھی دے دیا گیا۔
یہ کہانی کوئی فرضی کہانی نہیں ہے۔ اس واقعہ کا ذکر پہلی صدی عیسوی کے معروف یونانی ادیب ''اپی اون (Apion) نے اپنی کتاب عجائبات مصر (Wonders of Egypt) میں کیا ہے جو اس واقعہ کا عینی شاہد تھا۔ یہ کتاب اب ناپید ہوچکی ہے مگر دوسری صدی عیسوی کے ایک لاطینی ادیب ''اؤلس گیلیس (Avlvs Gellivs) نے اپنی کتاب ''ایٹک نائٹس (Attic Night) میں اپی اون کی کتاب اور اس واقعہ کا تذکرہ کرکے اسے زندہ جاوید کردیا۔ اؤلیس گیلیس روم میں پیدا ہوا اور یہیں پلا بڑھا اور بعدازاں ایتھنز میں تعلیم حاصل کی۔
اینڈروکلس کی یہ کہانی بعد میں چھٹی صدی عیسوی میں ''ایک گڈریا اور شیر'' اور بارہویں صدی عیسوی میں ''وائے وین، دی نائٹ آف دی لائن (Yvain, the Knight of the Lion) کے عنوان سے منظر عام پر آئی۔ یہ کہانی اتنی مقبول ہوئی کہ ادوار میں بھی یہ مختلف ناموں سے سامنے آتی رہی۔ یہاں تک کہ 1912ء میں مشہور انگریز ڈرامہ نگار جارج برنارڈ شاء نے اس پر ایک ڈرامہ ''اینڈروکلس اینڈ دی لائن (Androcles and the Lion) لکھ کر اینڈروکلس کو ماورائی کردار بنا دیا۔ سینما اور ٹیلی ویژن کی آمد کے بعد اس کہانی پر کئی ٹی وی ڈرامے اور فلمیں بھی بنیں۔ جس کی تازہ مثال 2000ء میں بننے والی مشہور فلم گلیڈئیٹر ''Gladiator'' ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ قدیم یونان میں قیدیوں کو درندوں کے آگے پھینک کر سزائے موت دیئے جانے کی سزا عام تھی۔ اس بہیمانہ اور سنگ دلانہ طریقے سے سزا دینے کے عمل کو لوگ تفریح کا ذریعہ سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک اس کو بھی ایک خونی کھیل کا درجہ حاصل تھا جس کو ''بیسٹیاریی'' (Bestiarii) کہا جاتا تھا۔ تاریخ اس طریقے سے سزا دینے کے اصل مقصد کے بارے میں تو خاموش ہے لیکن یہ ضرور بتاتی ہے کہ شروع میں شاید یہ قربانی دینے کی کوئی مذہبی رسم رہی ہوگی جو بعد میں قانونی سزا میں تبدیل ہوگئی۔ خاص طور پر دنیا کے ان علاقوں میں جہاں شیر اور دیگر درندے قدرتی طور پر پائے جاتے تھے۔ اور انہیں مذہبی لحاظ سے مقدس سمجھا جاتا تھا۔
جیسا کہ براعظم ایشیا کے چند حصے اور افریقہ۔ مصری دیو مالا میں زیر زمین شیطان کے تصوراتی کردار ''امیت (Ammit) کے بارے میں عقیدہ تھا کہ وہ گناہ گار لوگوں کی روحوں کو نگل جاتا ہے۔ مصریوں کے تصور کے مطابق امیت مگر مچھ نما انسانی شکل رکھتا تھا جو بن مانس کی طرح چاروں ہاتھ پیروں پر چلتا تھا۔ مصری دیو مالا میں ایک اور کردار ''سیکھ میت (Sekhmet) بھی ہے جو سورج دیوتا کی بیٹی اور آگ اور جنگ کی دیوی تصور کی جاتی ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق سیکھ میت جب سانس لیتی ہے تو اس کی حدت سے صحرا وجود میں آتے ہیں۔
مصری دیو مالا میں اس دیوی کو شیرنی کی حیثیت حاصل ہے اور ان کے عقیدے کے مطابق اس نے اپنی پیدائش کے فوراً بعد تقریباً ساری انسانی آبادی کو نگل لیا تھا۔ تاریخ میں ایسے شواہد بھی ملے ہیں کہ قدیم مصر اور لیبیا میں زندہ اورمردہ انسانوں کو شیروں اور مگر مچھوں کی خوراک کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ سکندر اعظم کے دور کا بھی ایک ایسا ہی واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ جب اس کے ایک ساتھی ''لے پیماکس (Lysimachvs) نے سینٹرل ایشیا میں جنگ کے دوران ایک شخص کو سزائے موت سنائے جانے کے خلاف آواز بلند کی تو سکندر نے اس کو بھوکے شیر کے سامنے پھینکوا دیا، اسی طرح اڑھائی سو سال قبل از مسیح میں ''جنگ مرکینری (Mercenary)'' کے بعد جنرل ہمیلکر (Hamilcar)'' نے جنگی قیدیوں کو درندوں کے آگے پھینکوا دیا تھا۔ ''پینک (Punic)'' وارز میں پکڑے جانے والے رومیوں کو ''ہنی بال (Hannibal)'' نے مجبور کیا کہ وہ ہاتھیوں کے سامنے کھڑے ہوں۔
روم کے علاقے میں شیر بہت کم پائے جاتے تھے اور ساتویں صدی عیسوی میں ''نماپومپیلیس (Numa Pompilivs) نے کیونکہ انسانی قربانی دینے پر پابندی لگادی تھی اس لیے خیال کیا جاتا ہے کہ اس دور میں درندوں کے سامنے انسانوں کو پھینکنے کا عمل ایک مذہبی رسم کی بجائے کھیل تماشے کے طور پر انجام دیا جاتا تھا۔ ان درندوں میں شیروں کے علاوہ چیتے، بھگیار اور ریچھ وغیرہ شامل تھے۔
قیدیوں کو درندوں کے سامنے ڈلوانے کی سزا قدیم روم میں رائج کرنے کا ذمہ دار دو کمانڈروں کو قرار دیا جاتا ہے۔ ایک ''لوسیس اٹمیلس (Lucivs Aemilius) جس نے مقدونیہ کو 186 قبل مسیح میں شکست سے دوچار کیا تھا اور دوسرا اس کا بیٹا ''سیکپیو ایمیلینس)جس نے 146 قبل مسیح میں افریقہ کے مشہور شہر ''کارتھیج (Carthage) کو فتح کیا تھا۔ یہ قبیح رسم ''کارتھیج'' سے ہی روم لائی گئی اور ابتداعاً غداروں اور بھگوڑوں کو دی جاتی تھی تاکہ عوام کو عبرت ہو۔ اس سزا پر عمل درآمد کے نتائج اتنے مفید ثابت ہوئے کہ بتدریج یہ طریقۂ کار مقبولیت حاصل کرنا چلا گیا اور یوں دیگر سنگین جرائم پر بھی یہ سزا دی جانے لگی۔ مجرموں کو یا تو ستونوں کے ساتھ باندھ کران پر درندے چھوڑ دیئے جاتے یا پھر انہیں نہتا کرکے جانوروں کے سامنے ڈال دیا جاتا۔ اس سزاپر عمل درآمد کے لیے شیر، دوسرے ملکوں سے روم لائے جاتے تھے۔
علاوہ ازیں ریچھ، مغربی یورپ کے علاقے ''گاؤل (Gaul)'' جرمنی اور یہاں تک کہ شمالی افریقہ سے روم منتقل کیے جاتے۔ چند مورخین کا خیال ہے کہ بڑے پیمانے پر ان جانوروں کی روم درآمد کی وجہ سے شمالی افریقہ میں جنگلی حیات کو نقصان پہنچا۔درندوں کی خوراک بننے والے بدنصیبوں کو ان کے شہری حقوق سے بھی محروم کردیا جاتا تھا۔ مثلاً وہ اپنی وصیت نہیں لکھ سکتے تھے۔ اور ان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جاتی تھیں۔ ہاں البتہ آجروں کو یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ اپنے غلاموں یا ملازمین کو بغیر عدالتی فیصلے کے یہ سزا دے سکیں۔ اسی طرح فوجیوں اور ان کے بچوں (ماسوائے غداروں یا بھگوڑوں کے) کو بھی اس سزا سے استثنا حاصل تھا۔
بالآخر 681ء میں روم میں اس سزا پر پابندی عائد کردی گئی۔ سزا کے خاتمے کے بعد بازنطینی سلطنت میں 1022ء میں اس کی صرف ایک مثال تاریخ میں ملتی ہے جب بازنطینی حکمران بارسل دوم (Basil II) کے خلاف بغاوت کی سازش کرنے کے جرم میں فوج کے متعدد جرنیلوں کو گرفتار کرکے قید کردیا گیا اور ان کی جائیدادیں ضبط کرلی گئیں اور ان شاہی خواجہ سراؤں کو بھوکے شیروں کے آگے پھینک دیا گیا جنہوں نے جرنیلوں کی معاونت کی تھی یا دوسری مثال پانچویں صدی سے پندرہویں صدی عیسوی پر محیط دور جسے یورپ کی تاریخ میں ''مڈل ایجز'' یا ''مڈیول ایجز'' کہا جاتا ہے کہ دوران ملتی ہے جب ''سارے لانے (Saare-Laane) کے بشپ کو یہ سزا دی گئی۔ یہ واقعہ موجودہ ''ایسبٹونیلہ'' کے ''بشپس کیسل'' میں پیش آیا۔