الیکٹرونک میڈیا اور عوامی مزاج
خبر کی دوڑ دراصل خود خبررساں اداروں اور اُن سے وابستہ افراد کے لیے اعصاب شکن تجربہ بن گئی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پہلے کے لوگ سماجی و سیاسی نظریات نہیں رکھتے تھے۔ فوٹو : فائل
اس سے کوئی بحث نہیں کہ آپ ٹی وی چینلز یا الیکٹرونک میڈیا کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں اور اسے اپنی روزمرہ زندگی میں کتنا وقت دیتے ہیں، لیکن آپ اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتے کہ یہ اس دور کا بہت طاقت ور ذریعۂ ابلاغ ہے۔ عوامی رائے سازی میں یہ بہت تیز اور مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔
سماجی رُجحانات کی تشکیل میں اس کا حصہ بہت نمایاں ہوتا ہے۔ قومی اور تہذیبی رویوں کی تبدیلی کے لیے یہ بہت فعال ثابت ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ سیاسی اور جنگی حالات میں بھی اس کی اثر انگیزی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب حقائق کے شواہد صرف ہمارے یہاں ہی نہیں، بلکہ عالمی سطح پر حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس عہد کی انسانی صورتِ حال کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اکیس ویں صدی میں الیکٹرونک میڈیا کو جنگی حکمتِ عملی کے طور پر اختیار کرکے کسی بھی طرح کے کولیٹرل ڈیمیج کے بغیر وہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جو بڑے بڑے مہلک ہتھیاروں سے بھی اتنی آسانی سے ممکن نہیں۔
اب اگر معاملہ یہ ہے، جو یقیناً ہے تو پھر ایک باشعور قوم کے اہلِ اختیار، اشرافیہ اور ادب و دانش سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اپنے الیکٹرونک میڈیا کے طریقِ کار، ضابطۂ اخلاق، حدود، اختیار اور ذمے داریوں کے بارے میں واضح نقطۂ نظر کے ساتھ احکامات اور اقدامات کے حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے، ان احکامات اور اقدامات کا تعین ملکی صورتِ حال اور قومی مفاد کو لازمی طور سے پیشِ نظر رکھ کر کیا جائے گا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ وقت کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور مسائل کے حوالے سے اس میں جب اور جس طرح کی تبدیلی کی ضرورت ہو، اُس پر فوری توجہ دی جائے گی۔ اس لیے کہ زندہ اور باشعور قوم اپنی تہذیبی شخصیت اور اجتماعی کردار کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی غفلت کا شکار نہیں ہوتی، چہ جائے کہ ایسا حساس اور وقیع معاملہ جو رائے عامہ اور قومی رویے کے لیے تباہ کن ثابت ہو۔
یہ تو ہوا تمہیدی اور اصولی بیان۔ اب آئیے ذرا یہ دیکھیں کہ ہمارے یہاں الیکٹرونک میڈیا کا طریقِ کار کیا ہے اور کیا اس کا کوئی ضابطۂ اخلاق ہے جو اُسے حدود اور ذمے داریوں کا پابند بناتا ہو؟ پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی جو پیمرا کے نام سے ملک کے طول و عرض میں جانی پہچانی جاتی ہے، الیکٹرونک میڈیا کے اصول و ضوابط بنانے اور اُن کی پابندی کی نگرانی کرنے والا ادارہ ہے۔ دنیا کے ہر مہذب ملک میں اِس شعبے کی نگہبانی کا ایسا ہی کوئی ادارہ پایا جاتا ہے۔ گویا ہمارے یہاں ادارہ ہے اور اُس کے پاس قواعد و ضوابط کی دستاویز بھی موجود ہے۔ تاہم الیکٹرونک میڈیا کی صورتِ حال، طریقِ کار، سروکار اور معیار کو دیکھ کر یہ قطعاً نہیں معلوم ہوتا ہے کہ پیمرا واقعی کوئی اتھارٹی ہے اور اگر ہے تو اُس کے پاس قواعد و ضوابط کی کوئی دستاویز بھی ہے کہ وہ ٹی وی چینلز کو جس کا پابند بناسکے۔
حوالے تو کئی ایک ہوسکتے ہیں، لیکن یہاں ہم صرف تین کے بارے میں گفتگو کریں گے۔ سب سے پہلے خبروں کو لیجیے۔ اگر آپ محض دو ہفتے، بلکہ اس سے بھی کم دن پابندی سے خبریں سنیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ اعصابی دباؤ یا ذہنی اختلال کا شکار نہ ہوں۔ یہ بات کسی مخصوص چینل یا چند خاص چینلز کے بارے میں نہیں کہی گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ خبر کی دوڑ کے مسئلے نے سب کے سب چینلز کو ہیجان خیزی کا مریضانہ حد تک عادی بنا دیا ہے۔
معمول کی خبریں، نیوز اپ ڈیٹ اور بریکنگ نیوز آپ کسی بھی مرحلے پر اطمینان اور تحمل سے بیٹھ کر اب اپنے اردگرد اور ملک کی صورتِ حال اور دنیا کے حالات کے بارے میں نہیں جان سکتے۔ ایک تو اب یہ خود اپنی جگہ بڑا مسئلہ ہے کہ عہدِحاضر کی دنیا میں اچھی اور بری خبروں کا توازن بری طرح بگڑ چکا ہے۔ بری، افسوس ناک، پریشان کن اور افسردہ کردینے والی خبریں پہلے بھی آتی تھیں، لیکن اُن کا تناسب بڑی حد تک کم ہوتا تھا، جو کہ اب یہ بہت بڑھ گیا ہے۔ تاہم یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے کرائم رپورٹر بھی اس بات کو جانتے اور سمجھتے تھے اور خبر نویسی کے عمل میں اِس کا پورا لحاظ رکھتے تھے کہ انھیں کسی مسئلے کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنا ہے، نہ کہ اُس مسئلے کو اپنے قارئین یا سامعین کے اعصاب پر سوار کردینا ہے، لیکن آج کے خبر نویس ایسا کوئی لحاظ رکھتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
خبر کی دوڑ دراصل خود خبررساں اداروں اور اُن سے وابستہ افراد کے لیے اعصاب شکن تجربہ بن گئی ہے۔ یہی تجربہ اُن کی خبرنویسی میں منتقل ہوجاتا ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ اب خبر کی دوڑ کا معاملہ صرف خبر کو سب سے پہلے نشر کرنے تک نہیں ہے، بلکہ اُس کو ہر ممکنہ اور قطعی غیرضروری حد تک کھود نکالنا اب اس کا حصہ ہے۔ یہی نہیں، اس کے بعد یہ بھی مسئلہ ہے کہ خبر کو نشر کس طرح کیا جائے کہ وہ سننے والوں کا دھیان باقی سب چیزوں سے ہٹا دے اور دھماکا خیز ثابت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اب خبر پڑھنے والوں کے لہجے کو ہموار اور مستحکم نہیں پاتے۔ اس کے برعکس یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ خبر دینے کے بجائے کسی اندوہ ناک کیفیت میں چیخ پکار رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ آج سیاسی صورتِ حال سے لے کر سماجی مسائل تک اور کھیلوں کی خبر سے عالمی حالات تک ہر خبر سننے والے کے اعصاب پر اثرانداز ہوتی ہے، اور اسے ہیجانی کیفیت میں مبتلا کرتی ہے۔
خبروں کے سلسلے میں یہ پہلو بھی غورطلب ہے کہ اب ہر ٹی وی چینل اور اُس سے وابستہ افراد جو خبر دینے یا اُن کا تجزیہ کرنے کے کام پر مامور ہیں، وہ اپنی ذمے داری اور حد سے قطعی نابلد نظر آتے ہیں۔ ہماری عمر کے جن لوگوں نے گذشتہ زندگی میں ریڈیو پاکستان، پاکستان ٹیلی وژن اور اخبارات و رسائل کا زمانہ دیکھا ہے، اُن کے لیے یہ بات تعجب ہی کا نہیں، سخت کوفت کا باعث بھی ہے کہ آج صحافی، رپورٹر اور تجزیہ کار حضرات کی اکثریت اِس شعور سے عاری ہے کہ اُن کی ذمے داری خبر کو خبر کی طرح دینا اور بالکل غیر جانب دارانہ انداز میں پیش کرنا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ پہلے کے لوگ سماجی و سیاسی نظریات نہیں رکھتے تھے۔ بے شک رکھتے تھے، لیکن خبر کے معاملے میں وہ پوری ذمے داری برتتے تھے کہ اُن کے نظریات اُن کے فرائضِ منصبی اور پیشہ وارانہ دیانت پر اثر انداز نہ ہوں۔ آج یہ چینلز کی پالیسی کا حصہ نظر آتا ہے کہ وہ حکومتِ وقت کے ساتھ ہیں یا پھر حکومت مخالف قوتوں کے طرف دار ہیں۔ اسی سے اُن کا رویہ طے ہوتا ہے اور ان کا کردار بھی۔
دوسرا حوالہ جس پر ہم بات کریں گے، سیاسی تجزیے کے پروگرام ہیں۔ اس قبیل کے پروگرام نئے نہیں ہیں اور نہ ہی صرف ہمارے یہاں ہوتے ہیں۔ یہ پروگرام ساری دنیا میں ہوتے ہیں اور ٹی وی نہیں ریڈیو کے زمانے سے ہوتے آرہے ہیں۔ البتہ گذشتہ دور اور اس زمانے میں فرق یہ ہے کہ پہلے ایسے پروگرام ان لوگوں سے کرائے جاتے تھے جو اپنے علم، بصیرت، اسلوب اور دلائل سے موضوعات اور مسائل کا تجزیہ کرکے، اپنے سامعین کو رائے قائم کرنے کا موقع فراہم کرتے تھے۔ اس کے برعکس اب یہ پروگرام اکثر و بیشتر اُن لوگوں کے ذریعے پیش کیے جاتے ہیں جو مناظرہ بازی سے آغاز کرکے ہلڑبازی کی طرف جا نکلتے ہیں۔ اُن کی گفتگو میں بصیرت، اسلوب میں رچاؤ اور دلائل میں وزن بالکل نہیں ہوتا۔ وہ یہ کوشش بھی کرتے نظر نہیں آتے کہ پروگرام کے شرکا کو متوازن اور مہذب انداز سے مکالمے کی فضا بنا کر دیں۔ انھیں آزادانہ رائے کا موقع فراہم کریں۔
اُن کے مؤقف کو بے کم و کاست سامنے لائیں اور گفتگو کے دھارے کو حقائق سے ہم آہنگ رکھتے ہوئے نتائجِ فکر کی طرف پیش رفت کریں۔ اوّل تو وہ خود کو سب سے بڑا دانش ور سمجھتے ہیں اور مکمل آگاہی کے بغیر فیصلہ کن بیانات پروگرام کے شرکا سے زیادہ خود جاری کرتے ہیں۔ اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کا بیان حرفِ آخر کے طور پر قبول کیا جائے۔ وہ اپنی رائے کو دوسروں پر اور سب سے بڑھ کر اپنے سامعین پر شدومد سے مسلط کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اب رہی بات اُن کی رائے یا نقطۂ نظر کی تو وہ اُن کی ذاتی رائے بھی نہیں ہوتی۔ وہ اُن کے چینل کی رائے ہوتی ہے، یعنی چینل کو ایجنسیز، حکومت یا اپوزیشن جس کا بھی تعاون حاصل ہے، یہ رائے اُس کی پوری نمائندگی کرتی ہوئی نظر آتی ہے، جسے وہ بیانِ حلفی، کھرے سچ اور صداقت و دیانت کے آخری معیار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
تیسرا حوالہ ہے تھوک کے حساب سے پیش کیے جانے والے ڈرامے۔ داستان، کہانی اور ڈرامے سے انسان کی فطری دل چسپی کا اظہار اُس کی باقاعدہ تمدنی زندگی سے بھی پہلے ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی کوئی قوم یا تہذیب ماقبل تاریخ ادوار سے آج تک ایسی نہیں ملتی جس کے یہاں کسی نہ کسی صورت میں کہانی یا ڈرامے سے عوامی دل چسپی کا اظہار نظر نہ آئے۔ اس عوامی ذوق سے ہر دور کے کمرشل ذہن رکھنے والے افراد اور اداروں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ الیکٹرونک میڈیا پر بھی ڈراما سب سے نمایاں حصہ رکھتا ہے۔ ہمارے یہاں اس وقت فلم انڈسٹری تو وجود و عدم کے مابین کہیں عالمِ برزخ میں پائی جاتی ہے، لیکن ہالی وڈ اور بولی وڈ کی دھواں دھار سپلائی کے باوجود الیکٹرونک میڈیا پر راج بہرحال ڈرامے کا ہے۔ اسی لیے ٹی وی چینلز کی معاشی کام یابی کے لیے ڈرامے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہمارے یہاں اِس وقت ڈرامے کی مختلف شکلیں رائج ہیں، لیکن فی الحال ہم صرف مخصوص روایتی ڈرامے کی بات کررہے ہیں۔ یہ ڈرامے انٹرٹینمنٹ والے سب چینلز پر دکھائے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے، عوامی دل چسپی اور معلومات کا دائرہ اس گلوبل ولیج میں بہت وسیع ہوچکا ہے۔ اس کا ایک رُخ ہمیں اپنے ڈراموں میں بھی دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ سچ ہے کہ انسان کی بنیادی اور گہری دل چسپی اپنی یعنی اپنے اطراف کی زندگی اور اُس کے تجربات میں ہوتی ہے۔ اس لیے ان ڈراموں میں خصوصیت کے ساتھ اسی زندگی کو فوکس کیا جاتا، اور اس کا احوال سنایا اور دکھایا جاتا ہے- لیکن اگر آپ تھوڑا سا وقت دے کر چند ایک ڈرامے بھی دیکھ لیں تو آپ خود سے یہ پوچھنے پر مجبور ہوں گے کہ کیا واقعی ہماری زندگی ایسی ہے؟
اس سوال کی ضرورت آپ کو شدت سے پیش آئے گی۔ اس لیے کہ جو زندگی، جیسے کردار، اُن کا جو مزاج، رویے اور تجربات ان ڈراموں میں دکھائے جارہے ہیں، آپ اُن سے کسی صورت میں خود کو ہم آہنگ کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتے۔ ان کے حالات اور واقعات کو آپ اپنی تہذیبی اقدار اور سماجی اخلاقیات سے متصادم دیکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ کچھ چیزیں تو آپ کو سخت کراہت انگیز اور مذہبی احکامات سے بھی متصادم محسوس ہوں گی۔ مثال کے طور پر آپ کو ساس بہو، نند بھاوج، سالی بہنوئی اور سسر بہو جیسے رشتوں میں وہ کچھ دیکھنے کو ملے گا جس کا ہمارے یہاں شاید تصور بھی اس سے پہلے محال تھا۔ حرمت کے رشتوں میں غلاظت کے وہ پہلو تلاش کرلیے گئے ہیں جس کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی آدمی کو گھن آئے۔ نوجوانوں سے لے کر عمر رسیدہ لوگوں تک اور کنوارے لڑکوں لڑکیوں سے لے کر شادی شدہ اور بال بچوں دار افراد تک جن میں مرد یا عورت کی کوئی تخصیص نہیں، سب کے سب جس طرح کے رومانی جذبات رکھتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ تفریح کا نہیں تذلیل کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اس لیے کہ یہ جذبات اصل میں جنسی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔
میاں بیوی کے درمیان اختلاف یا لڑائی جھگڑا کوئی انوکھی شے نہیں اور نہ ہی اس عہد اور ہمارے معاشرے سے مخصوص ہے۔ ہر زمانے اور ہر معاشرے میں یہ رشتہ کم و بیش ملتی جلتی کیفیت کا حامل رہا ہے، لیکن ان ڈراموں میں اختلاف کی جو شکلیں پیش کی جارہی ہیں، وہ مکروہ حد تک عجیب و غریب ہیں۔ اس جھگڑے میں یہاں تک دکھایا جاتا ہے کہ اختلاف اور اشتعال کے لمحات میں میاں نے بیوی کو طلاق دے دی۔ اس کے بعد لڑکی کے گھر والے اپنی بیٹی کو خاموشی اختیار کرکے اسی شوہر کے ساتھ رہنے پر مصر ہیں، اس لیے کہ علاحدگی کی صورت خاندان کی معاشرے میں بدنامی ہوگی یا یہ کہ اُس کی چھوٹی بہنوں کی شادی نہیں ہوپائے گی۔ اس کے علاوہ کہیں شوہر نے سالی سے مراسم قائم کرلیے ہیں تو لڑکی کا خاندان رسوائی کے خوف سے چپ ہے، کہیں حلالے کی شکلیں پیش کی جارہی ہیں، کہیں دوست کی بیوی کو طلاق دلوا کر اُس سے شادی کی جارہی ہے اور کہیں ہم دردی کے نام پر جنسی مراسم کا کھیل کھیلا ہے۔ یہ اور ایسے ہی کتنے مسائل اور رویے ان ڈراموں کا مرکزی موضوع ہیں۔
کیا یہ واقعی ہماری دنیا ہے؟ پوری ذمے داری اور دیانت کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ جتنا کچھ اور جو کچھ دکھایا جارہا ہے، وہ ہماری حقیقی دنیا کی واقعاتی عکاسی نہیں کرتا۔ اس امکان کو کلیتاً رد نہیں کیا جاسکتا کہ ایسے کچھ واقعات اور کردار ہمارے یہاں پائے جاتے ہوں گے، لیکن جو کچھ دکھایا جارہا ہے، وہ پورے معاشرے کو سر بہ سر انھی معاملات اور رجحانات کے زیرِاثر دکھاتا ہے، جو حقیقت کے منافی ہے۔ اب کہنے کو کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب تو ڈراما ہے، اس پر اتنا سنجیدہ ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ نہیں، بات یہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ واقعی پوری سنجیدگی سے توجہ کا طالب ہے۔ چاہے خبریں نشر کی جارہی ہوں یا سیاسی و سماجی تجزیے کیے جارہے ہوں یا پھر ڈرامے دکھائے جارہے ہوں، یہ سب وقت گزاری کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ یہ عوامی مزاج کی تشکیل کا مسئلہ ہے۔
اس لیے کہ یہ سب چیزیں عوام کے ذہنوں پر اثر انداز ہوتی ہیں، اُن کے رویے بناتی ہیں، اُن کے کردار میں راہ پاتی ہیں۔ ایک زمانہ تھا لوگ ادیبوں شاعروں کو آئیڈیلائز کیا کرتے تھے۔ ان کے کلام اور کہانیوں کا اثر لیا کرتے تھے۔ اب بھی کسی نہ کسی سطح پر یہ عمل ہوتا ہوگا، لیکن اب بہت زیادہ توجہ کا مرکز الیکٹرونک میڈیا ہے۔ وہ ذہنوں کو بدلنے اور رویوں کو بنانے کا کام کرتا ہے۔ چناںچہ ہم اُس کی طرف سے غافل نہیں ہوسکتے۔ اُس پر مسلسل نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اوّل تو یہ کام خود چینل کے سرکردہ اور ذمے دار اہل کاروں کو کرنا چاہیے، لیکن شاید وہ اپنے معاشی دباؤ اور مالکان کی منشا کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس لیے اب یہ آپ کی اور ہماری ذمے داری ہے کہ ہم ایسے کسی بھی مسئلے کو سرسری انداز میں نہ دیکھیں، بلکہ اُس کا سنجیدگی سے جائزہ لیں اور اُس پر اپنی رائے کا کھل کر اور ذمے داری سے اظہار کریں۔ اس لیے کہ مال و زر کی اندھی دوڑ میں شامل ان چینلز کے ہاتھوں ہمیں اپنے معاشرے اور نئی نسل کو ہرگز گروی نہیں رکھنا۔