بھارتی جارحیت کے کیا مقاصد ہیں

امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مقصد بھارت کو چین کے گھیراؤ کے لیے استعمال کرنا ہے


Editorial October 29, 2017
امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مقصد بھارت کو چین کے گھیراؤ کے لیے استعمال کرنا ہے۔ فوٹو: فائل

DUBAI: پاک فوج نے کنٹرول لائن کی خلاف ورزی پر بھارتی جاسوس ڈرون مار گرایا اور اس کی تصاویر بھی جاری کر دی گئیں، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق بھارتی جاسوس ڈرون کنٹرول لائن کے رکھ چکری سیکٹر میں گرایا گیا اور اس کا ملبہ بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارتی جاسوس ڈرون پاکستانی علاقے میں جاسوسی کر رہا تھا، واضح رہے گزشتہ سال نومبر میں بھی بھارتی ڈرون جاسوسی کے لیے پاکستانی حدود میں گھس آیا تھا تاہم پاک فوج نے اسے بھی مار گرایا تھا۔

ادھر پاکستان نے بھارت کو جدید میزائل بردار امریکی ڈرونز کی فراہمی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ عالمی طاقتوں کو بھارت کے معاہدوں اور کسی بھی ٹیکنالوجی کی فراہمی سے قبل بین الاقوامی ذمے داریوں اور معاہدوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ہفتہ وار بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت ٹی ٹی پی اور دیگر کالعدم تنظیموں کی مدد کرتا ہے اور دہشتگردوں کا معاون ملک ہے، عالمی طاقتوں کو بھارت کے معاہدوں اورٹیکنالوجی کی فراہمی سے قبل عالمی ذمے داریوں و معاہدوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔

بھارت کی کنٹرول لائن پر جارحیت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ بھارتی سیکیورٹی فورسز آئے روز کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتی رہتی ہیں۔اس کے نتیجے میں پاکستانی شہریوں کی شہادتیں بھی ہوئی ہیں۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق بھارت نے اس سال کے آغاز سے کنٹرول لائن کی 1140 بار خلاف ورزی کی۔ کچھ عرصہ پہلے بھارت نے نام نہاد سرجیکل اسٹرائیک کا شوشا بھی چھوڑا تھا۔ اب بھارت جاسوسی کے لیے ڈرون ٹیکنالوجی بھی استعمال کر رہا ہے۔

پاکستان نے بھارت کے جس جاسوس ڈرون کو گرایا ہے اس کا مقصد بھی کنٹرول لائن کے پاس پاکستانی پوسٹوں کی تصاویر وغیرہ حاصل کرنا تھا۔ کنٹرول لائن پر جو صورتحال بن رہی ہے یہ خاصی تشویش ناک ہے۔ بھارت کا حوصلہ اس لیے بڑھ رہا ہے کہ امریکا اس کا اسٹرٹیجک اتحادی بن چکا ہے جب کہ بھارت نے اسرائیل کے ساتھ بھی اچھے تعلقات قائم کر رکھے ہیں۔ اسرائیل سے وہ جدید دفاعی ٹیکنالوجی بھی حاصل کررہا ہے۔

جنوبی ایشیا اور وسط ایشیا کے لیے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ترجیحات میں تبدیلیاں آنے کے باعث بھارت کا کردار بڑھ گیا ہے اور بھارتی قیادت کو اس کا مکمل ادراک ہے۔ بھارتی پالیسی ساز اس بدلی ہوئی صورت حال سے مکمل فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ بھارت افغانستان اور وسط ایشیا میں اپنے تجارتی مفادات کو مسلسل بڑھا رہا ہے۔امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان میں بھارت کا فوجی کردار بھی بڑھانا چاہتے ہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں کا مقصد بھارت کو چین کے گھیراؤ کے لیے استعمال کرنا ہے۔ امریکا بھارت کو معاشی امداد بھی دے رہا اور دفاعی شعبے میں بھی تعاون کررہا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سول نیوکلیائی ٹیکنالوجی کا معاہدہ ہوچکا ہے اور امریکا بھارت کو ڈرون ٹیکنالوجی سے بھی لیس کررہا ہے۔ یوں جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بھارت کی جانب ہورہا ہے اور اس حوالے سے پاکستان کی تشویش بجا ہے۔کیونکہ بھارت کے عزائم واضح ہیں اور وہ اس خطے کی سپرپاور بننا چاہتا ہے۔بھارت کے جارحانہ عزائم بھی کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔

پاکستان کے لیے نئی صورت حال میں اپنی ایڈجسٹمنٹ کرنی ہے۔ کنٹرول لائن پر بھارتی جارحیت روکنے کے لیے بھارت پر سفارتی دباؤ ڈالنا انتہائی ضروری ہے۔ اقوام عالم کو باور کرایا جانا چاہیے کہ بھارت اس خطے میں جنگ کے شعلے بھڑکانا چاہتا ہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے وزارت خارجہ کو متحرک کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی پالیسی ہمارے سامنے ہے۔

ایسی صورت میں اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم استعمال کیا جانا چاہیے اور جنگ سے بچنے کی حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے کیونکہ بھارت تو جارحیت کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان کے دشمنوں کی بھی کوشش ہو گی کہ بھارت کی جارحیت کو بڑھایا جائے۔ ویسے بھی کہا جا رہا ہے کہ بھارت کی کنٹرول لائن پر جارحیت کا مقصد یہ ہے کہ وہ یہاں بفرزون قائم کرنا چاہتا ہے۔اس سے لگتا ہے کہ بھارت کی نیت ٹھیک نہیں ہے۔

بہرحال پاکستان کو بھارت کی حکمت عملی کا جواب دینے کے لیے کاؤنٹر اسٹرٹیجی اختیار کرنی چاہیے۔ یہ حکمت عملی ایسی ہونی چاہیے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ چین اور روس پاکستان کے لیے ڈھال کا کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وسط ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں چین اور روس کے مفادات کا تحفظ اسی میں ہے کہ بھارت کے بڑھتے ہوئے عسکری اور معاشی پھیلاؤ کو روکا جائے۔اس لیے نئے حالات کو سامنے رکھ کر مستقبل کی صف بندی کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں