یہ امن اس کی شہادت کا ثمر ہے

لگتا ہے حکومت ان پر ایک ڈاک کا ٹکٹ جاری کرکے ان کے ملک و قوم پر احسانات کا صلہ چکا چکی ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

مورخ کا کراچی کی گزشتہ تیس سال کی تاریخ کو سیاہ ترین دورکے طور پر لکھنا ہم اہل کراچی کو یقینا پسند نہیں آئے گا اس لیے کہ یہ شہر نہ صرف ہماری پہچان ہے بلکہ ہماری نئی نسلوں کی امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز ہے۔ اس شہر کا یہ وصف ہے کہ یہ اپنی ابتدا سے ہی شہر مہاجرین رہا ہے بلا شبہ ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کی سب سے زیادہ تعداد کراچی میں آباد ہوئی تھی اور وہ اس لیے کہ یہ شہر ان کی بے سرو سامانی اور اجڑے پن کو دورکرکے سنوارنے اور استحکام بخشنے کی استطاعت رکھتا تھا۔ گو کہ یہ شہر پہلے سے ہی مستحکم تھا مگر مہاجرین اپنے پیارے وطن کے اس دارالخلافہ کو لکھنوکی طرح شائستگی اور تہذیب کا مسکن، دہلی کی طرح وضعدار اور جی دار اور بمبئی وکلکتہ سے بڑھ کر صنعت و حرفت کا مرکز اور ترقی یافتہ بنانے کا عزم رکھتے تھے۔

انھوں نے بجا طور پر چند ہی سالوں میں اپنے خواب کو بہت حد تک عملی جامہ پہنادیا تھا تاہم مزید کچھ کرنے کی گنجائش ضرور موجود تھی کہ ایسے میں بد قسمتی اور نحوست کے آسیب نے اسے آگھیرا، پھر تباہی بربادی اور قتل و غارت گری اس کا مقدر بن گئی ایسا کون سا دن تھا جب بیس سے پچیس افراد قتل نہ ہوجاتے ہوں ۔ انھیں کیوں قتل کیا گیا کسی کو پتا نہیں تھا، مارنے والا کون تھا کسی کو پتا نہیں تھا، جب شہر کے کارخانے بند اور بازاروں کی رونقیں ختم کرادی جائیں تو بے روزگاری بھوک افلاس اور بے چینی جنم لیتی ہے پھر یہ منتوں اور مرادوں بھرا شہر اپنی اصل سمت کھوچکا تھا۔ اسے اپنے ہی لوگوں نے اجاڑکر رکھ دیا تھا۔

اسی دور میں ہزاروں معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ کئی نامور ہستیوں کو بھی تہہ تیغ کردیاگیا ان کا غم ضرور منایاگیا مگر قاتلوں کو پکڑنا کسی کے بس میں نہ تھا اسی دور میں حکیم محمد سعید جیسی بلند ہستی کو بھی ان کے محب وطن ہونے کی پاداش میں شہید کردیاگیا گزشتہ 17 اکتوبر کو ان کا یوم شہادت خاموشی سے گزرگیا اس وطن پر مر مٹنے والے شخص کی شہادت پر کسی اخبار میں کچھ نہیں لکھا گیا اورکسی ٹی وی چینل پر کچھ نہیں دکھایاگیا بڑے افسوس کی بات ہے کہ حکومتی سطح پر بھی کچھ نہیں کیا گیا۔

لگتا ہے حکومت ان پر ایک ڈاک کا ٹکٹ جاری کرکے ان کے ملک و قوم پر احسانات کا صلہ چکا چکی ہے۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اپنی پوری زندگی پاکستان پر نثار کردی تھی ان کا قول تھا ''پاکستان سے محبت کرو اور پاکستان کی تعمیر کرو'' انھوں نے یہ ہندی نعرہ ہر پاکستانیوں کو دیا تھا ۔ ہم نے بحیثیت قوم اس پیغام پر کتنا عمل کیا اس پر ہمیں ضرور افسوس رہے گا مگر انھوں نے اپنے قول کی عملی تعبیر پیش کی۔ ان کی ہر سوچ اور عمل پاکستان کے لیے تھا۔ گو کہ وطن دشمنوں نے انھیں وطن کی مزید خدمت کرنے سے روک دیا تھا مگر ایسے لوگ مرتے نہیں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں اور زندہ انسانوں کے لیے مشعل راہ بن جاتے ہیں۔ وہ دلی میں تحریک پاکستان کے پرجوش نوجوانوں میں سے تھے۔

قیام پاکستان کے بعد ہی وہ پاکستان تشریف لے آئے تھے گو کہ ان کے بھائی عبدالحمید نے انھیں اپنے ساتھ وہیں رک کر طب کی خدمت کرنے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ تو پاکستان کے شیدائی تھے پاکستان آنے سے کیسے رک سکتے تھے۔ کراچی پہنچ کر ایک چھوٹے سے مطب سے مریضوں کی خدمت کرنا شروع کی چونکہ آپ عزم وہمت کی جیتی جاگتی تصویر تھے چنانچہ اپنی محنت سے جلد ہی ہمدرد کو ایک انڈسٹری کی شکل دینے میں کامیاب ہوگئے۔ مشرقی طب کو نئی زندگی دی اور مغرب جو طب مشرق کا قائل نہیں تھا اسے بھی اس کا گرویدہ بنا دیا۔ آپ نے دولت کمانے کو زندگی کا مشق بنانے کے بجائے ہر سطح پر عوامی خدمت کرنے کو ترجیح دی۔ آپ کی علم سے محبت لازوال تھی۔ آپ کی کوششوں سے کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے اور کامیابی سے آج بھی چل رہے ہیں۔ آپ پاکستان کے ہر فرد کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ نے ہمدرد یونی ورسٹی قائم کرکے ثابت کردیا تھا کہ آپ علم سے زبانی طور پر نہیں بلکہ دل و جان سے محبت کرتے تھے۔ آپ کی خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صوبہ سندھ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ آپ نے اپنے اس منصب کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے اس کے ذریعے صرف تین ماہ میں پانچ جامعات کو چارٹر دلانے میں کامیاب ہوگئے تھے۔


لوگ تو بڑے عہدوں پر پہنچ کر ان سے ایسے چمٹ جاتے ہیں کہ کبھی چھوڑنے کا سوچتے تک نہیں لیکن آپ نے خود استعفیٰ دے کر مثال قائم کی تھی۔ بچوں کی دینی اخلاقی اور تہذیبی تعلیم و تربیت کے لیے مستقل ماہانہ بنیاد پر ایک میگزین نکالا جو ہمدرد نونہال کے نام سے بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی مقبول ہے اس میگزین نے بچوں کی علمی قابلیت اور ذہانت کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا جس کا بار بار اعتراف ان کے والدین نے کیا۔ ملکی معاملات میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے ہمیشہ کو شاں رہے۔ ملکی مفاد میں سیاست میں بھی حصہ لیا۔

آپ ذوالفقار علی بھٹو کے دل سے شیدائی تھے۔ آپ نے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے انتخاب میں بھی حصہ لیا تھا۔ آپ نے قومی اور عالمی معاملات میں حکومت کی رہنمائی کے لیے شام ہمدرد کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس کے ذریعے ملک کے معاملہ فہم اور ملکی و بین الاقوامی معاملات پر دسترس رکھنے والے لوگوں کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جہاں مختلف موضوعات پر اب بھی کھلی بحث کی جاتی ہے یہ ادارہ اب شوریٰ ہمدرد کہلاتا ہے۔

اس میں ہونے والی مفید مباحث کے فوائد سے خود حکومت معترف ہے۔ آپ کہنہ مشق لکھاری تھے۔ آپ کی تحاریر دینی، اخلاقی، تہذیبی اور وطن پرستی کا شاہکار، نمونہ ہیں مسلمان سائنسدانوں، اطبا اور تاریخ دانوں پر آپ نے بہت کچھ لکھا آپ نے ان کی خدمات کو سراہنے کے لیے کئی عالمی کانفرنسیں منعقد کرائیں۔ آپ نے طب مشرق کو اعلیٰ مقام دلانے کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو طب کو بھی اپنے دائرہ کار میں شامل کرنے پر قائل کرلیا تھا۔ آپ نے سیرت پاکؐ اور قرآنی تعلیمات پر کئی مضامین لکھے جن سے اپنوں کے علاوہ غیر بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔

وہ انسانی عظمت کے قائل تھے۔ دکھی لوگوں کو دیکھ کر خود دکھی ہوجاتے تھے۔ کئی غریب خاندانوں کو گزر و بسر کے لیے باقاعدہ امداد پہنچائی جاتی تھی۔ آپ کو پاکستان سے جنون کی حد تک عشق تھا اسی طرح امت مسلمہ کی بہتری اور ترقی کے دل کی گہرائیوں سے خواہاں تھے۔ علم کے حوالے سے آپ نے جو خدمات انجام دیں بلاشبہ وہ سرسید احمد خاں سے آپ کی دلی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے۔ آپ نے ایک موقعے پر کہاتھا کہ اگر میرا بس چلے تو صرف دس سالوں میں پوری پاکستانی قوم کو تعلیم یافتہ بنادوں۔

آپ ہر قسم کے تعصبات سے پاک تھے۔ کراچی سے دلی محبت کرتے تھے اس کی ترقی و ترویج میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ جب کراچی اجڑنا شروع ہوا اور قتل و غارت گری نے اسے اپنی آغوش میں لے لیا وہ کراچی کے دن بدن بگڑتے حالات سے بہت فکر مند رہتے تھے۔ وہ اس شہر مہاجرین کو اجڑتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ چنانچہ دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے ہمیشہ حکومت سے درخواست گزار رہے ان کی وطن اور کراچی سے محبت دشمنوں کو نہ جانے کیوں پسند نہیں آتی تھی۔ وہ آئے دن انھیں دھمکیاں دیتے رہتے تھے مگر آپ نے کبھی اپنی حفاظت کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں کیا۔

آپ اپنے دوستوں سے کہا کرتے تھے کہ مجھے دھمکیاں مل رہی ہیں مگر میں ڈرنیوالا نہیں ہوں۔ سابق سینیٹر پروفیسر خورشید احمد نے آپ کی وفات پر اپنے تاثرات میں لکھا تھا '' وہ کیسے شقی القلب تھے جنھوں نے ایسے پیارے انسان کو گولیوں کا نشانہ بنادیا۔ شاید حکیم صاحب جیسے عظیم انسان کی قربانی سے یہ شہر ظلم اور جبر سے نجات پانے کی راہ پر گامزن ہوجائے'' خدا کا شکر ہے کہ ان کی دعا قبول ہوئی اور بالآخر ظالموں کا صفایا ہوگیا اور امن بھی قائم ہوگیا، مگر یہ یقینا حکیم صاحب جیسے پاک صاف، نیک اور انسان دوست ہستی کی شہادت کا ثمر ہے۔
Load Next Story