نیو جرسی میں ’’اجنبی آشنا‘‘ کی رونمائی

تقریب کا پہلا مرحلہ تقسیم ایوارڈز کا تھا اس مرحلے کے بعد کتاب ’’اجنبی آشنا‘‘ کا آغاز کیا گیا

hamdam.younus@gmail.com

امریکا کی دو بڑی ریاستوں نیویارک اور نیو جرسی میں اکتوبر کا مہینہ آتے آتے امریکن پاکستانی کمیونٹی کی ثقافتی، سماجی اور ادبی سرگرمیاں سرد پڑتے ہوئے اپنے آخری مراحل میں داخل ہونے لگتی ہیں۔ کیونکہ نومبر سے سردی کے موسم کا آغاز ہوتا ہے اور دسمبر سے سردیاں اپنے شباب پر آجاتی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ برف باری کے سلسلے بھی شروع ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے اکتوبر میں تقریبات کی بھرمار ہوجاتی ہے۔

گزشتہ دنوں 15 اکتوبر کو شاہ نواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کی جانب سے نیو جرسی کے علاقے ایڈیسن کے شاہ نواز ریسٹورنٹ میں میرے نئے شعری مجموعے ''اجنبی آشنا'' کی تقریب رونمائی کا اہتمام کیا گیاتھا۔ اسی دن شاہ نواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کے ساتھ شب و روز تعاون کرنے والی کچھ شخصیات کو ان کی خدمات پر ایوارڈز بھی دیے گئے اس طرح کتاب کی تقریب اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئی تھی۔

اس تقریب کے مہمان خصوصی نیو یارک میں کونسلر پاکستان کمیونٹی ویلفیئر محمد حنیف چنا تھے اور تقریب کے صدر نیو یارک کے معروف تجزیہ نگار، شاعر اور دانشور واصف حسین واصف تھے۔ جب کہ تقریب کی نظامت کے فرائض مشہور شاعرہ اور کامران ادبی فاؤنڈیشن کی سرپرست فرح کامران نے ادا کیے تھے۔ تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا تھا اور ابتدا میں شاہ نواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کے روح رواں نادر خان اور مہمان خصوصی کے ہاتھوں تقسیم ایوارڈز کا مرحلہ انجام پذیر ہوا اس دوران نیو جرسی کی مشہور سماجی شخصیت واحد شبلی نے شاہ نواز اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ اس وقت دوسری کمیونٹیز کی طرح پاکستانی کمیونٹی کو بھی اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر جیسے اداروں کی شدید ضرورت ہے۔

بیشتر گھروں میں موجود عمر رسیدہ افراد تنہائی کا شکار رہتے ہیں اور انھیں اپنے افراد خانہ سے وہ مناسب توجہ نہیں ملتی جن کے وہ حق دار ہوتے ہیں۔ گھر کے جوان افراد اپنے بزرگوں سے اکثر دامن بچاتے ہیں اور ان کی ذہنی تفریح سے اور ان کی دلجوئی سے کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے کیونکہ یہاں کے افراد کی زندگی مشینی انداز کی زندگی ہوتی ہے اسی لیے اڈلٹ ڈے کیئر سینٹر میں بزرگ افراد کی نہ صرف اچھی طرح دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ ان کی ذہنی تفریح کے انتظامات بھی کیے جاتے ہیں اور ان ڈور گیمز کے ساتھ بعض خوشگوار ایونٹس سے بھی انھیں ہمکنار کیا جاتا ہے اور آئے دن ان کی ذہنی تفریح کے پروگرام بھی مرتب کیے جاتے ہیں۔

تقریب کا پہلا مرحلہ تقسیم ایوارڈز کا تھا اس مرحلے کے بعد کتاب ''اجنبی آشنا'' کا آغاز کیا گیا اور فرح کامران نے کتاب اور صاحب کتاب کا مختصر سا تعارف پیش کرنے کے بعد یکے بعد دیگرے مقررین حضرات کو مدعو کیا سب سے پہلے پروفیسر حماد خان نے جو خود بھی ایک اچھے شاعر ہیں صاحب کتاب کے بارے میں اپنا خوبصورت مقالہ پیش کیا انھوں نے کہاکہ یونس ہمدم منفرد لہجہ کے شاعر ہیں اور بحیثیت فلمی نغمہ نگار بھی یہ صف اول کے نغمہ نگاروں میں شامل رہے ہیں، غزل گوئی کی مسلسل محنت اور ریاضت سے جہاں انھوں نے پاکستان میں اپنا مقام بنایا ہے وہاں امریکا میں بھی ان کی شاعری کے چرچے ہیں ان کے کلام میں ترنم ہے ان کی گیتوں میں بھی غزل کا انداز موجود ہے اور پھر یہ غزل کی انفرادیت کو بھی برقرار رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتے ہیں ان کی غزلیں سننے والوں کو اپنے ہی دل کی آواز محسوس ہوتی ہیں۔

سینئر شاعر اور معروف کالم نگار فرحت ندیم ہمایوں نے صاحب کتاب کے بارے میں کہاکہ یہ ایک پیدائشی فنکار ہیں۔ انھوں نے اپنے دور میں فلم انڈسٹری میں اپنے سپر ہٹ گیتوں سے اپنی پہچان پیدا کی ان کے نغمات میں ادبی چاشنی بھی ہے پھر فرحت ندیم ہمایوں نے کتاب ''اجنبی آشنا'' سے دو منتخب اشعار بھی سنائے:

جو مقدر میں نہ ہو اس کی تمنا کیوں ہے
جب کسی کی نہیں دنیا تو یہ دنیا کیوں ہے

لوگ تقدیر بھی خود لکھتے ہیں اپنی ہمدم
ہے یہ گر جھوٹ کتابوں میں یہ لکھا کیوں ہے

فرحت ندیم ہمایوں کے بعد شاعر آفتاب قمر زیدی اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں صاحب کتاب کے تیس سال پرانے دوست اور کئی میگا فلموں ''ان داتا، آگ ہی آگ، میری عدالت اور بارود کی چھاؤں'' کے پروڈیوسر نے صاحب کتاب سے اپنی دیرینہ دوستی اور ان کے خوبصورت اور ہٹ گیتوں کے ساتھ فلم انڈسٹری کی بہت سی باتوں اور یادوں کو بھی شیئر کیا ان کے بعد مہمان خصوصی محمد حنیف چنا نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ نیو جرسی میں شعر و ادب کی ایسی شاندار تقریبات کا انعقاد بہت ہی خوش آئند اور اس پرہجوم تقریب کو سراہتے ہوئے صاحب کتاب کو بھی اپنے شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور اس تقریب کو ایک یادگار تقریب بھی قرار دیا۔ مہمان خصوصی کے بعد فرح کامران نے صاحب کتاب کو ڈائس پر مدعو کرتے ہوئے کہاکہ اب مرحلہ ہے کلام شاعر بزبان شاعر پھر میں نے اپنی چند نئی غزلیں سامعین کی نذر کیں۔ ایک غزل جسے بہت زیادہ پسند کیا گیا اور کئی اشعار کو بار بار سناگیا اس غزل کے چند اشعار قارئین کی نذر کررہاہوں:


مرجاتا ہے انسان مگر کردار تو زندہ رہتا ہے
نفرت کو موت آجاتی ہے پر پیار تو زندہ رہتا ہے

جو شاہ بنے محلوں میں رہیں دل ان کے چھوٹے ہوتے ہیں
کٹیا کے کشادہ دامن میں ایثار تو زندہ رہتا ہے

جو جھوٹے سکے ہوتے ہیں وہ تھوڑے دن ہی چلتے ہیں
پھر نظروں سے گرجاتے ہیں بازار تو زندہ رہتا ہے

پھولوں کے دامن میں بھی تو کچھ گھٹ گھٹ کر مرجاتے ہیں
کانٹوں سے رکھے جو یارانہ وہ یار تو زندہ رہتا ہے

دولت کے پجاری بیگانے بن جاتے ہیں اپنوں کے لیے
دو پیسے دے کر اپنوں کو نادار تو زندہ رہتا ہے

صاحب کتاب کے بعد صاحب صدر واصف حسین واصف نے اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے کہاکہ صاحب کتاب کے اندر ایک دنیا آباد ہے انھوں نے محبت کے گیت لکھے ہیں اور بے شمار نوجوان دالوں کو گرمایا ہے انھوں نے ایک طرف پیار بانٹا ہے اور دوسری طرف اپنی شاعری سے لوگوں کو خوشیاں دی ہیں اور فی زمانہ یہ کام بڑا مشکل ہوتا ہے لیکن ان کے شعر و نغمہ نے اس کام کو آسان بنادیا ہے ان کے اشعار لوگوں کو اچھے لگتے ہیں۔ دراصل شاعری بھی ایک عبادت جو ٹوٹے دلوں کو جوڑتی ہے اس موقع پر نیو یارک کے ایک مشہور اور نوجوان سنگر سلیم خان نے آرکسٹرا کے اہتمام کے ساتھ یونس ہمدم کا لکھا ہوا اور اے نیئر کا گایا ہوا فلم شرمیلی کا سپر ہٹ گیت:

جی رہے ہیں ہم تنہا اور تیرا غم تنہا
کیسے ہم اٹھائیںگے تیرا ہر سم تنہا

سناکر ساری محفل کو لوٹ لیا۔ کتاب کی تقریب کے بعد ایک مختصر سی محفل مشاعرہ بھی سجائی گئی جس میں نیو یارک اور نیو جرسی کے چند معروف شعرا و شاعرات نے اپنے خوبصورت کلام سے سامعین کو نوازا جن شاعروں نے حصہ لیا ان میں فرحت ندیم ہمایوں، واصف حسین واصف، فرح کامران، حماد خان، یاسین زبیری، زرین یاسین، جمیل عثمان، آفتاب قمر اور ایک بار سامعین کی فرمائش پر یونس ہمدم نے پھر اپنا کلام سنایا اس دوران ایک پر تکلف عشائیہ کا بھی اہتمام تھا اور اس طرح یہ کتاب کی تقریب یادگار لمحات کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
Load Next Story