کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں حصہ اول
اب نہ علم کی خوشبو ہے اور نہ شرافت اور تہذیب، اب کوچے نہیں مہکتے ہیں
حضرت لال شہباز قلندر کی تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے اکبر الٰہ آبادی کے یہ اشعار یاد آگئے، جس میں میرے بھی خیالات کی ترجمانی ہے:
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
جو خرد مند ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں یہ بات
خیر خواہی وہ نہیں ہے جو ہو ڈر سے پیدا
رنج دنیا سے بہت مضطرب الحال تھا یہ
دل میں تسکین ہوئی مذہب کے اثر سے پیدا
جن حضرات نے صوفیوں کی صحبت اختیار کی انھیں دنیا بھی ملی اور دین بھی چونکہ دین اور دنیا دو مختلف چیزیں ہرگز نہیں ہیں۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ بغیر دنیا کے کامیابی کی گرہیں کبھی نہیں کھل سکتی ہیں، جب تک حقوق کی ادائیگی اور امتحانات و آزمائشوں کی پل صراط پر برہنہ پا نہ دوڑا جائے۔ انصاف کی حکمرانی کا شعور اور ہر کام میں توازن کا برقرار رکھنا ضروری ہے۔
علم کی ایک شاخ ہے۔ علما و دانش وروں کی صحبت، فہم القرآن اور دنیاوی علوم سے استفادہ کرنے والے اس دنیا کو کچھ دے کر جاتے ہیں لے کر نہیں۔ لیکن ہماری حکومت کے سربراہان اس نکتے سے غافل ہیں، مزاروں پر عرس کرانا اس میں شرکت اور دھمال ڈالنا بزرگوں اور صوفیوں کے تعلیم کے منافی ہے درویشوں نے تو وہ راستے دکھائے ہیں جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔
حضرت لال شہباز قلندر 537 میں مروند افغانستان میں پیدا ہوئے 673 سیہون سندھ میں وفات پائی۔ آپؒ اپنے کشف و کرامات ، علم و ریاضت کے حوالے سے اپنی دائمی شہرت رکھتے ہیں۔ موج کوثر کے مصنف شیخ اکرام اپنی کتاب برٹن کی ''ہسٹری آف سندھ'' کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضرت لال شہباز قلندر بہت بڑے عالم تھے، لسانیات اور صرف و نحو (قواعد) میں مہارت رکھتے تھے۔ برٹن کے زمانے کی صرف و نحو کی کتابیں ''میزان الصرف'' اور ''صرفِ صفیرہ'' حضرت لال شہباز سے منسوب کی جاتی ہیں۔
حضرت لال شہباز قلندر بابا ابراہیم کے مرید تھے، بابا ابراہیم سید جمال مجرد کی مریدی میں ان دونوں بزرگوں کی صحبت میں رہ کر خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ اس کے بعد حرمین شریف گئے اور حج بیت اللہ کا فرض ادا کیا۔ بغداد گئے اور پھر سندھ میں تشریف لائے اور مختلف جگہوں پر جاکر دین اسلام کی تعلیم کو عام کیا اور اس کے بعد صوبہ سندھ کے ہی ہو رہے۔ آپؒ نے سیہون شریف میں جہاں ہندوؤں کی آبادی تھی اپنے علم اور کرامات کی بدولت اسلام کے چراغ روشن کیے۔ بد کردار اور گمراہ لوگوں نے آکر اسلام کی حقانیت کو جانا اور حق کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔
ایسے کامل بزرگ کے مزار پر سیاسی ہتھکنڈوں کو آزمانا اور برائی کو پروان چڑھانا نامناسب ہے، گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جب سندھ کے دورے پر گئے تو انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے جن میں شاہ محمود قریشی بھی شامل تھے لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینا چاہی لیکن افسوس مقتدر حضرات نے رکاوٹیں کھڑی کردیں ان کی اس حرکت کو پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بوکھلاہٹ اور روایت شکنی سے تعبیر کیا ہے۔
جس سرزمین کو لال شہباز قلندر نے کفر و الحاد سے پاک کیا، افسوس آج خود حکمرانوں کی بدولت وہاں پوجا پاٹ شروع ہوچکی ہے، ایسا کیوں ہے؟ جواب سے سب واقف ہیں کہ محض ووٹ بینک بڑھانے کے طریقے ہیں، لیکن ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وقتی فائدے کے لیے اپنا مذہب اور اپنے خالق کو بھول جائے اور کافروں کی زبان میں بات کرنے لگے انھیں خوش کرنے کے لیے بتوں کے سامنے سر جھکادے کیا ایسی صورت میں بتوں کے سامنے سر نگوں ہونے والا مسلم کہلانے کے قابل ہے، یہ تو منافقت ہوئی اور منافقوں کے لیے جہنم کی آگ دہکائی گئی ہے، وہ یہ بات ہرگز نہ بھولیں۔ دنیا کے دن تو جیسے تیسے گزر ہی جاتے ہیں لیکن عاقبت خراب ہوجاتی ہے۔ اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ اقتدار کی خاطر جہنم کا سودا کرنا کبھی نہ ختم ہونے والا خسارہ ہے۔
بھارت کے اینکر کو ویڈیو میں حیران ہوتے اور باآواز بلند اس خبر کو پڑھتے ہوئے بے شمار لوگوں نے دیکھا ہوگا، حقیقت اور جھوٹ کی اس نے اس طرح رونمائی کی ہے کہ ''پاکستان میں جہاں مندروں کو توڑا جاتا ہے، اسی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پوجا پاٹ کرنے شیو کے مندر جاتے ہیں۔ انھی مقتدر حضرات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور شیری رحمان شامل ہیں، شیری رحمان کھڑی ہیں ، بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ ہاتھ میں پوجا کی تھالی لیے شیو کے سامنے پوجا کی حالت میں بیٹھے ہیں۔ سیکڑوں لوگ ان کے ساتھ تھے، کراچی کلفٹن میں یہ مندر واقع ہے، جہاں بلاول زرداری نے تقریر کرتے ہوئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا''۔
اینکر نے پوجا پاٹ تو دکھادی لیکن اپنے جھوٹ کو سچا ثابت کرنے کے لیے مندروں کو توڑتے، یا غیر مسلموں کے ساتھ برا سلوک ہوتے نہیں دکھا سکے۔ اس لیے کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے، یہاں مسلم اور غیر مسلموں کے برابر کے حقوق ہیں، رہا مندر توڑنے کا الزام، تو شاید ہی کوئی ایک آدھ واقعہ ذاتی دشمنی کے تحت ہوا ہو، ورنہ تو ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے۔ وہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کرے یا مے نوشی باقاعدہ انھیں پرمٹ دیا جاتا ہے۔
ایسے لوگ جن کا دین ایمان روپیہ، پیسہ ہی ہو، وہ کیا اس ملک پر حکومت کرنے کے حقدار ہیں جس کی بنیاد لاالہ الا اللہ پر رکھی گئی ہو اور یہ بات آئین کی بھی نفی کرتی ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
ہاتھ بے زور ہیں' الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی' پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے' باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر اور پسر آزر ہیں
نواز شریف اور آصف زرداری نے ملک کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ اب نہ علم کی خوشبو ہے اور نہ شرافت اور تہذیب، اب کوچے نہیں مہکتے ہیں، بلکہ کچرے کی بدبو ہر سو رقص کرتی ہوئی انسان کے اجسام میں داخل اور نت نئی بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے۔ شرافت قتل و غارت کو عروج حاصل ہوا ہے۔
اب محض کھیل کود، اور 10 روپے کے نوٹ اور شرٹ پر تھوک کے چھینٹے آنے پر قتل و غارت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ مشال قتل کیس کو لے لیجیے جسے سازش کے تحت قتل کروایا گیا اور قتل بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ سیکڑوں طلبا نے اس پر ایسے چڑھائی کی جیسے قلعہ فتح کر رہے ہوں، یا تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہوں، ایک جم غفیر تھا۔ کہاں تھی انتظامیہ پرنسپل اور اساتذہ۔ پولیس غائب اور رینجرز غائب، اس کی وجہ انھیں آواز ہی نہ دی گئی۔
(جاری ہے)
نہ کتابوں سے نہ کالج کے ہے در سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
جو خرد مند ہیں وہ خوب سمجھتے ہیں یہ بات
خیر خواہی وہ نہیں ہے جو ہو ڈر سے پیدا
رنج دنیا سے بہت مضطرب الحال تھا یہ
دل میں تسکین ہوئی مذہب کے اثر سے پیدا
جن حضرات نے صوفیوں کی صحبت اختیار کی انھیں دنیا بھی ملی اور دین بھی چونکہ دین اور دنیا دو مختلف چیزیں ہرگز نہیں ہیں۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ بغیر دنیا کے کامیابی کی گرہیں کبھی نہیں کھل سکتی ہیں، جب تک حقوق کی ادائیگی اور امتحانات و آزمائشوں کی پل صراط پر برہنہ پا نہ دوڑا جائے۔ انصاف کی حکمرانی کا شعور اور ہر کام میں توازن کا برقرار رکھنا ضروری ہے۔
علم کی ایک شاخ ہے۔ علما و دانش وروں کی صحبت، فہم القرآن اور دنیاوی علوم سے استفادہ کرنے والے اس دنیا کو کچھ دے کر جاتے ہیں لے کر نہیں۔ لیکن ہماری حکومت کے سربراہان اس نکتے سے غافل ہیں، مزاروں پر عرس کرانا اس میں شرکت اور دھمال ڈالنا بزرگوں اور صوفیوں کے تعلیم کے منافی ہے درویشوں نے تو وہ راستے دکھائے ہیں جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔
حضرت لال شہباز قلندر 537 میں مروند افغانستان میں پیدا ہوئے 673 سیہون سندھ میں وفات پائی۔ آپؒ اپنے کشف و کرامات ، علم و ریاضت کے حوالے سے اپنی دائمی شہرت رکھتے ہیں۔ موج کوثر کے مصنف شیخ اکرام اپنی کتاب برٹن کی ''ہسٹری آف سندھ'' کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ حضرت لال شہباز قلندر بہت بڑے عالم تھے، لسانیات اور صرف و نحو (قواعد) میں مہارت رکھتے تھے۔ برٹن کے زمانے کی صرف و نحو کی کتابیں ''میزان الصرف'' اور ''صرفِ صفیرہ'' حضرت لال شہباز سے منسوب کی جاتی ہیں۔
حضرت لال شہباز قلندر بابا ابراہیم کے مرید تھے، بابا ابراہیم سید جمال مجرد کی مریدی میں ان دونوں بزرگوں کی صحبت میں رہ کر خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ اس کے بعد حرمین شریف گئے اور حج بیت اللہ کا فرض ادا کیا۔ بغداد گئے اور پھر سندھ میں تشریف لائے اور مختلف جگہوں پر جاکر دین اسلام کی تعلیم کو عام کیا اور اس کے بعد صوبہ سندھ کے ہی ہو رہے۔ آپؒ نے سیہون شریف میں جہاں ہندوؤں کی آبادی تھی اپنے علم اور کرامات کی بدولت اسلام کے چراغ روشن کیے۔ بد کردار اور گمراہ لوگوں نے آکر اسلام کی حقانیت کو جانا اور حق کے جھنڈے تلے جمع ہوگئے۔
ایسے کامل بزرگ کے مزار پر سیاسی ہتھکنڈوں کو آزمانا اور برائی کو پروان چڑھانا نامناسب ہے، گزشتہ دنوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان جب سندھ کے دورے پر گئے تو انھوں نے اور ان کے ساتھیوں نے جن میں شاہ محمود قریشی بھی شامل تھے لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دینا چاہی لیکن افسوس مقتدر حضرات نے رکاوٹیں کھڑی کردیں ان کی اس حرکت کو پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے بوکھلاہٹ اور روایت شکنی سے تعبیر کیا ہے۔
جس سرزمین کو لال شہباز قلندر نے کفر و الحاد سے پاک کیا، افسوس آج خود حکمرانوں کی بدولت وہاں پوجا پاٹ شروع ہوچکی ہے، ایسا کیوں ہے؟ جواب سے سب واقف ہیں کہ محض ووٹ بینک بڑھانے کے طریقے ہیں، لیکن ایک مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وقتی فائدے کے لیے اپنا مذہب اور اپنے خالق کو بھول جائے اور کافروں کی زبان میں بات کرنے لگے انھیں خوش کرنے کے لیے بتوں کے سامنے سر جھکادے کیا ایسی صورت میں بتوں کے سامنے سر نگوں ہونے والا مسلم کہلانے کے قابل ہے، یہ تو منافقت ہوئی اور منافقوں کے لیے جہنم کی آگ دہکائی گئی ہے، وہ یہ بات ہرگز نہ بھولیں۔ دنیا کے دن تو جیسے تیسے گزر ہی جاتے ہیں لیکن عاقبت خراب ہوجاتی ہے۔ اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ اقتدار کی خاطر جہنم کا سودا کرنا کبھی نہ ختم ہونے والا خسارہ ہے۔
بھارت کے اینکر کو ویڈیو میں حیران ہوتے اور باآواز بلند اس خبر کو پڑھتے ہوئے بے شمار لوگوں نے دیکھا ہوگا، حقیقت اور جھوٹ کی اس نے اس طرح رونمائی کی ہے کہ ''پاکستان میں جہاں مندروں کو توڑا جاتا ہے، اسی پاکستان میں پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت پوجا پاٹ کرنے شیو کے مندر جاتے ہیں۔ انھی مقتدر حضرات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اور شیری رحمان شامل ہیں، شیری رحمان کھڑی ہیں ، بلاول زرداری اور وزیر اعلیٰ سندھ ہاتھ میں پوجا کی تھالی لیے شیو کے سامنے پوجا کی حالت میں بیٹھے ہیں۔ سیکڑوں لوگ ان کے ساتھ تھے، کراچی کلفٹن میں یہ مندر واقع ہے، جہاں بلاول زرداری نے تقریر کرتے ہوئے خیرسگالی کے جذبات کا اظہار کیا''۔
اینکر نے پوجا پاٹ تو دکھادی لیکن اپنے جھوٹ کو سچا ثابت کرنے کے لیے مندروں کو توڑتے، یا غیر مسلموں کے ساتھ برا سلوک ہوتے نہیں دکھا سکے۔ اس لیے کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے، یہاں مسلم اور غیر مسلموں کے برابر کے حقوق ہیں، رہا مندر توڑنے کا الزام، تو شاید ہی کوئی ایک آدھ واقعہ ذاتی دشمنی کے تحت ہوا ہو، ورنہ تو ہر شخص مکمل طور پر آزاد ہے۔ وہ مذہبی رسومات کی ادائیگی کرے یا مے نوشی باقاعدہ انھیں پرمٹ دیا جاتا ہے۔
ایسے لوگ جن کا دین ایمان روپیہ، پیسہ ہی ہو، وہ کیا اس ملک پر حکومت کرنے کے حقدار ہیں جس کی بنیاد لاالہ الا اللہ پر رکھی گئی ہو اور یہ بات آئین کی بھی نفی کرتی ہو۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
ہاتھ بے زور ہیں' الحاد سے دل خوگر ہیں
امتی باعثِ رسوائی' پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے' باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر اور پسر آزر ہیں
نواز شریف اور آصف زرداری نے ملک کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ اب نہ علم کی خوشبو ہے اور نہ شرافت اور تہذیب، اب کوچے نہیں مہکتے ہیں، بلکہ کچرے کی بدبو ہر سو رقص کرتی ہوئی انسان کے اجسام میں داخل اور نت نئی بیماریوں میں مبتلا کرتی ہے۔ شرافت قتل و غارت کو عروج حاصل ہوا ہے۔
اب محض کھیل کود، اور 10 روپے کے نوٹ اور شرٹ پر تھوک کے چھینٹے آنے پر قتل و غارت کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ مشال قتل کیس کو لے لیجیے جسے سازش کے تحت قتل کروایا گیا اور قتل بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ سیکڑوں طلبا نے اس پر ایسے چڑھائی کی جیسے قلعہ فتح کر رہے ہوں، یا تبلیغ کا فریضہ انجام دے رہے ہوں، ایک جم غفیر تھا۔ کہاں تھی انتظامیہ پرنسپل اور اساتذہ۔ پولیس غائب اور رینجرز غائب، اس کی وجہ انھیں آواز ہی نہ دی گئی۔
(جاری ہے)