’’ خوش آمدید سری لنکا‘‘
سکیورٹی خدشات کو چوکوں، چھکوں کی برسات سے دھو ڈالنے کا وقت آگیا
مارچ 2009میں سری لنکن کرکٹ ٹیم کی بس پر حملہ پاکستانی کھیلوں کیلئے سیاہ باب ثابت ہوا۔
مہمان آئی لینڈرز کو صدر مملکت کے برابر سکیورٹی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن ٹیسٹ میچ کیلئے قذافی سٹیڈیم آتے ہوئے راستے میں دہشت گرد دن دیہاڑے دندناتے اور سرعام گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے کئی سوالیہ نشان چھوڑ کر فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے، ملکی ساکھ پامال ہوئی اور شائقین اپنے میدانوں میں انٹرنیشنل مقابلوں کو ترس گئے، سکیورٹی صورتحال قدرے بہتر ہونے پر چند سپورٹس فیڈریشنز نے اکا دکا بین الا قوامی مقابلوں کا اہتمام کیا لیکن کرکٹ کی بحالی کیلئے زیادہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی مسلسل کوشش سے مئی 2015میں زمبابوے کی ٹیم 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کیلئے لاہور آئی،انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے یہ اقدام بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا، بہترین سکیورٹی انتظامات نے خدشات غلط ثابت کردیئے، بعد ازاں رواں سال پاکستان سپرلیگ کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں ہی ہوا تو حکام نے ہوش اور شائقین نے جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میچ کو یادگار بنادیا،دنیا بھر میں ایک مثبت پیغام گیا کہ امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے فعال اور عوام کرکٹ سے بے پناہ محبت کرنے والے ہیں۔
ورلڈ الیون کی میزبانی کیلئے بات چیت تو ایک عرصہ سے چل رہی تھی لیکن پی ایس ایل فائنل کے بعد پی سی بی کا کیس مضبوط ہوگیا،لاہور میں میچ کھیل کر جانے والے غیر ملکی کرکٹرز نے پاکستان کی ساکھ مزید بہتر کرنے میں کردار ادا کیا، آئی سی سی ٹاسک فورس برائے پاکستان کے سربراہ جائلز کلارک نے پاکستان دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی سیریز کیلئے عملی کوششوں کا آغاز کیا، منصوبہ بندی کرتے ہوئے کئی مشکلات درپیش تھیں۔
اس وقت چیئرمین شہریار خان کی عہدے کی مدت ختم ہورہی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیئے جانے کی وجہ سے سیاسی منظر نامے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی، سابق وزیر اعظم کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب 17ستمبر کو شیڈول کئے جانے کی وجہ سے ورلڈ الیون کا مجوزہ شیڈول بھی متصادم ہوگیا۔
یواے ای میں سری لنکا کے خلاف سیریز کیلئے قومی ٹیم کی روانگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹرز کی میزبانی کا مرحلہ 25اگست سے قبل مکمل ہونا ضروری تھا، ان حالات میں ورلڈ الیون کی سیریزکے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے تھے لیکن قوم نے تمام مشکلات کو آہنی عزم سے شکست دینے کا ارادہ کرتے ہوئے مقابلے ضمنی الیکشن سے قبل ہی کروانے کا فیصلہ کرلیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سکیورٹی انتظامات کیلئے کمر کس لی تو دوسری طرف پی سی بی نے میسر وقت میں قذافی سٹیڈیم کی تزئین و آرائش، نشریاتی حقوق فروخت، مہمان کرکٹرز کی رہائش اور آمدورفت سمیت مختلف امور کی انجام دہی کا بیڑا اٹھالیا۔
تیاریوں کے کٹھن مراحل طے کرنے کے بعد لاہور میں میلہ سجایا گیا تو نہ صرف قذافی سٹیڈیم میں آنے والے شائقین بلکہ ملک بھر میں انٹرنیشنل کرکٹ کا شاندار استقبال کیا، ورلڈ الیون میں شامل 7ملکوں سے تعلق رکھنے والے 14کرکٹرز دبئی میں اکٹھے ہونے کے بعد زندہ دلوں کے شہر میں پہنچے تو ہاتھ کے چھالوں کی طرح ان کا خیال رکھا گیا، یہ صرف 3ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے ایک چابی تھے۔
ایونٹ کا کامیاب انعقاد سے سری لنکن ٹیم کو بھی ایک میچ کیلئے پاکستان آنے کا حوصلہ ملا، بورڈ حکام نے کولمبو میں آئی سی سی اجلاس کے دوران اس مختصر دورہ کیلئے آنے کی حامی بھری تو دنیا کی نظریں اس بات پر مرکوز ہوگئیں کہ جس ٹیم پر تقریبا 9 سال قبل حملہ ہونے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوئے وہی کرکٹ کی بحالی کے عمل میں شریک ہوگی یا نہیں،یہ دورہ دہری اہمیت کا حامل تھا کہ دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے آئی لینڈرز آرہے تھے تو دوسرے طویل وقفے کے بعد صف اول کی ٹیموں میں سے کسی کا یہ پہلا ٹور تھا،کپتان اپل تھارنگا، پیسر لیستھ مالنگا،مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم کی بس کے سوار سورنگا لکمل اور کاپوگدیرا سمیت 40کھلاڑیوں نے بورڈ کو خط میں اپنے تحفظات ظاہر کئے۔
بورڈ نے اس کے باوجود ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ٹیم بھجوانے کا حتمی فیصلہ کیا تو لیستھ مالنگا سمیت چند کرکٹرز نے ابوظہبی اور لاہورکے میچز کیلئے الگ الگ سکواڈ منتخب کرنے کی درخواست کردی لیکن سری لنکا کے وزیر کھیل دیاسری جیاسکیرا نے کہا کہ یواے ای میں کھیلنے والے پلیئرز ہی پاکستان جائیں گے، بالآخر بورڈ نے اپل تھارنگا کی جگہ تھسارا پریرا کو کپتان مقرر کردیا، آل رائونڈر لاہور میں آزادی کپ سیریز کیلئے ورلڈ الیون میں شامل تھے، سکواڈ میں تھسارا پریرا (کپتان)، تھیس دلشان مناریوا، دنشکا گوناتھیلاکا، سدیرا سماراوکراما، آشان پریانجن، مہیلا اڈواتے، دسون شناکا، سچتھ پتھیرانا، وکرم سنجایا، لاہیرو گماگے، سیکوگے پرسنا، وشوا فرنینڈو، اسورو اڈانا، جیفری ونڈرسے اور چتورنگا ڈی سلوا کو شامل کیا، ہیڈ کوچ نک پوتھاس اور فزیو بالا سنگھم نے بھی لاہور آنے سے انکار کیا۔
آئی لینڈرز آج پاکستانی سرزمین پر ایکشن میں نظر آئیں گے تو قذافی سٹیڈیم میں وزیر کھیل دیا سری جیا سیکرا اور بورڈ کے صدر تھالنگا سماتھی پالا کی قیادت میں سری لنکن وفد بھی میچ دیکھنے کیلئے موجود ہوگا، میچ کے سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا وفد لاہور پہنچ چکا ہے، سربراہی آئی سی سی جنرل منیجر جیفری جان کر رہے ہیں،آئی سی سی کے انویسٹی گیشن آفیسر الیگزینڈر جان مارشل بھی شامل ہیں،سینئر اینٹی کرپشن یونٹ آفیسر پال سٹون بھی وفد میں شامل ہیں،آئی سی سی وفد میچ کے انعقاد پر اپنی آزاد مانیٹرنگ رپورٹ تیار کرے گا، آئندہ ماہ مجوزہ ویسٹ انڈین ٹیم کے ٹور کا بڑا انحصار آئی سی سی آفیشلز کی رپورٹ پر ہوگا۔
شائقین سٹیڈیم دونوں ٹیموں کو ایکشن میں دیکھنے کیلئے بیتاب تو دوسری جانب ادارے میچ کے پر امن انعقاد کیلئے مستعد ہیں، نشتر پارک کا پورا علاقہ سکیورٹی اہلکاروں میں ہے، عام شہریوں کی آمد رفت روک دی گئی ہے، اطراف کی دکانیں اور ریسٹورنٹس مکمل طور بند ہیں،سٹیڈیم کے اطراف میں رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیاں موجود ہیں۔
سکیورٹی اداروںنے مسلسل دو روز فل ڈریس ریہرسل کرتے ہوئے اپنی تیاریوں کی جانچ کرلی، رینجرز، پولیس،الیٹ فورس، ریسکیو 1122 کی گاڑیوں اور ایمبولینسز، ٹریفک وارڈنز، ڈولفن سکواڈز کے ساتھ حال ہی متعارف کروائے جانے والی بائیک ایمبولینس بھی ڈیوٹی پر ہیں، ہیلی کاپٹر پورے علاقے اور اطراف کی سڑکوں کی مسلسل فضائی نگرانی کررہا ہے،ٹکٹیں حاصل کرپانے والے میچ دیکھنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، پورے ملک کے شائقین کرکٹ بخارمیں مبتلا ہوکر قذافی سٹیڈیم پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں، پوری قوم چوکوں، چھکوں کی برسات میں سکیورٹی خدشات دھوڈالنے کیلئے بے قرار نظر آتی ہے۔
اگرچہ سری لنکن ٹیم ٹی ٹوئنٹی سیریز کے ابوظہبی میں کھیلے جانے والے دونوں میچز ہارچکی،پاکستانی بولرز نے آئی لینڈرز کی ناتجربہ کار بیٹنگ کا خوب امتحان لیتے ہوئے کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا،تاہم آسان ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے گرین شرٹس کی کمزوریاں بھی آشکار ہوئی ہیں،ٹاپ آرڈر کی کارکردگی پریشان کن رہی ہے،ہوم گرائونڈ پر شائقین اپنی ٹیم سے بیٹنگ میں بھی بہتر کارکردگی کی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہوں گے، دوسری جانب سری لنکن سائیڈ میں شامل کئی نوجوان کرکٹرز اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھلاچکے ہیں، مختصر فارمیٹ میں ایک پلیئر کی اچھی کارکردگی بھی میچ کا نقشہ بدل دیتی ہے،آئی لینڈرز سیریز ہارنے کے بعد ایک فتح کے ساتھ اشک شوئی کرنے کی کوشش کریں گے۔
مہمان آئی لینڈرز کو صدر مملکت کے برابر سکیورٹی فراہم کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن ٹیسٹ میچ کیلئے قذافی سٹیڈیم آتے ہوئے راستے میں دہشت گرد دن دیہاڑے دندناتے اور سرعام گولیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے کئی سوالیہ نشان چھوڑ کر فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے، ملکی ساکھ پامال ہوئی اور شائقین اپنے میدانوں میں انٹرنیشنل مقابلوں کو ترس گئے، سکیورٹی صورتحال قدرے بہتر ہونے پر چند سپورٹس فیڈریشنز نے اکا دکا بین الا قوامی مقابلوں کا اہتمام کیا لیکن کرکٹ کی بحالی کیلئے زیادہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔
سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی مسلسل کوشش سے مئی 2015میں زمبابوے کی ٹیم 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلنے کیلئے لاہور آئی،انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے یہ اقدام بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا، بہترین سکیورٹی انتظامات نے خدشات غلط ثابت کردیئے، بعد ازاں رواں سال پاکستان سپرلیگ کا فائنل قذافی سٹیڈیم میں ہی ہوا تو حکام نے ہوش اور شائقین نے جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس میچ کو یادگار بنادیا،دنیا بھر میں ایک مثبت پیغام گیا کہ امن قائم رکھنے کے ذمہ دار ادارے فعال اور عوام کرکٹ سے بے پناہ محبت کرنے والے ہیں۔
ورلڈ الیون کی میزبانی کیلئے بات چیت تو ایک عرصہ سے چل رہی تھی لیکن پی ایس ایل فائنل کے بعد پی سی بی کا کیس مضبوط ہوگیا،لاہور میں میچ کھیل کر جانے والے غیر ملکی کرکٹرز نے پاکستان کی ساکھ مزید بہتر کرنے میں کردار ادا کیا، آئی سی سی ٹاسک فورس برائے پاکستان کے سربراہ جائلز کلارک نے پاکستان دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی سیریز کیلئے عملی کوششوں کا آغاز کیا، منصوبہ بندی کرتے ہوئے کئی مشکلات درپیش تھیں۔
اس وقت چیئرمین شہریار خان کی عہدے کی مدت ختم ہورہی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیئے جانے کی وجہ سے سیاسی منظر نامے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی، سابق وزیر اعظم کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب 17ستمبر کو شیڈول کئے جانے کی وجہ سے ورلڈ الیون کا مجوزہ شیڈول بھی متصادم ہوگیا۔
یواے ای میں سری لنکا کے خلاف سیریز کیلئے قومی ٹیم کی روانگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹرز کی میزبانی کا مرحلہ 25اگست سے قبل مکمل ہونا ضروری تھا، ان حالات میں ورلڈ الیون کی سیریزکے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے تھے لیکن قوم نے تمام مشکلات کو آہنی عزم سے شکست دینے کا ارادہ کرتے ہوئے مقابلے ضمنی الیکشن سے قبل ہی کروانے کا فیصلہ کرلیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سکیورٹی انتظامات کیلئے کمر کس لی تو دوسری طرف پی سی بی نے میسر وقت میں قذافی سٹیڈیم کی تزئین و آرائش، نشریاتی حقوق فروخت، مہمان کرکٹرز کی رہائش اور آمدورفت سمیت مختلف امور کی انجام دہی کا بیڑا اٹھالیا۔
تیاریوں کے کٹھن مراحل طے کرنے کے بعد لاہور میں میلہ سجایا گیا تو نہ صرف قذافی سٹیڈیم میں آنے والے شائقین بلکہ ملک بھر میں انٹرنیشنل کرکٹ کا شاندار استقبال کیا، ورلڈ الیون میں شامل 7ملکوں سے تعلق رکھنے والے 14کرکٹرز دبئی میں اکٹھے ہونے کے بعد زندہ دلوں کے شہر میں پہنچے تو ہاتھ کے چھالوں کی طرح ان کا خیال رکھا گیا، یہ صرف 3ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کیلئے ایک چابی تھے۔
ایونٹ کا کامیاب انعقاد سے سری لنکن ٹیم کو بھی ایک میچ کیلئے پاکستان آنے کا حوصلہ ملا، بورڈ حکام نے کولمبو میں آئی سی سی اجلاس کے دوران اس مختصر دورہ کیلئے آنے کی حامی بھری تو دنیا کی نظریں اس بات پر مرکوز ہوگئیں کہ جس ٹیم پر تقریبا 9 سال قبل حملہ ہونے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کے دروازے بند ہوئے وہی کرکٹ کی بحالی کے عمل میں شریک ہوگی یا نہیں،یہ دورہ دہری اہمیت کا حامل تھا کہ دہشت گردوں کا نشانہ بننے والے آئی لینڈرز آرہے تھے تو دوسرے طویل وقفے کے بعد صف اول کی ٹیموں میں سے کسی کا یہ پہلا ٹور تھا،کپتان اپل تھارنگا، پیسر لیستھ مالنگا،مارچ 2009 میں سری لنکن ٹیم کی بس کے سوار سورنگا لکمل اور کاپوگدیرا سمیت 40کھلاڑیوں نے بورڈ کو خط میں اپنے تحفظات ظاہر کئے۔
بورڈ نے اس کے باوجود ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں ٹیم بھجوانے کا حتمی فیصلہ کیا تو لیستھ مالنگا سمیت چند کرکٹرز نے ابوظہبی اور لاہورکے میچز کیلئے الگ الگ سکواڈ منتخب کرنے کی درخواست کردی لیکن سری لنکا کے وزیر کھیل دیاسری جیاسکیرا نے کہا کہ یواے ای میں کھیلنے والے پلیئرز ہی پاکستان جائیں گے، بالآخر بورڈ نے اپل تھارنگا کی جگہ تھسارا پریرا کو کپتان مقرر کردیا، آل رائونڈر لاہور میں آزادی کپ سیریز کیلئے ورلڈ الیون میں شامل تھے، سکواڈ میں تھسارا پریرا (کپتان)، تھیس دلشان مناریوا، دنشکا گوناتھیلاکا، سدیرا سماراوکراما، آشان پریانجن، مہیلا اڈواتے، دسون شناکا، سچتھ پتھیرانا، وکرم سنجایا، لاہیرو گماگے، سیکوگے پرسنا، وشوا فرنینڈو، اسورو اڈانا، جیفری ونڈرسے اور چتورنگا ڈی سلوا کو شامل کیا، ہیڈ کوچ نک پوتھاس اور فزیو بالا سنگھم نے بھی لاہور آنے سے انکار کیا۔
آئی لینڈرز آج پاکستانی سرزمین پر ایکشن میں نظر آئیں گے تو قذافی سٹیڈیم میں وزیر کھیل دیا سری جیا سیکرا اور بورڈ کے صدر تھالنگا سماتھی پالا کی قیادت میں سری لنکن وفد بھی میچ دیکھنے کیلئے موجود ہوگا، میچ کے سکیورٹی انتظامات کا جائزہ لینے کیلئے انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کا وفد لاہور پہنچ چکا ہے، سربراہی آئی سی سی جنرل منیجر جیفری جان کر رہے ہیں،آئی سی سی کے انویسٹی گیشن آفیسر الیگزینڈر جان مارشل بھی شامل ہیں،سینئر اینٹی کرپشن یونٹ آفیسر پال سٹون بھی وفد میں شامل ہیں،آئی سی سی وفد میچ کے انعقاد پر اپنی آزاد مانیٹرنگ رپورٹ تیار کرے گا، آئندہ ماہ مجوزہ ویسٹ انڈین ٹیم کے ٹور کا بڑا انحصار آئی سی سی آفیشلز کی رپورٹ پر ہوگا۔
شائقین سٹیڈیم دونوں ٹیموں کو ایکشن میں دیکھنے کیلئے بیتاب تو دوسری جانب ادارے میچ کے پر امن انعقاد کیلئے مستعد ہیں، نشتر پارک کا پورا علاقہ سکیورٹی اہلکاروں میں ہے، عام شہریوں کی آمد رفت روک دی گئی ہے، اطراف کی دکانیں اور ریسٹورنٹس مکمل طور بند ہیں،سٹیڈیم کے اطراف میں رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیاں موجود ہیں۔
سکیورٹی اداروںنے مسلسل دو روز فل ڈریس ریہرسل کرتے ہوئے اپنی تیاریوں کی جانچ کرلی، رینجرز، پولیس،الیٹ فورس، ریسکیو 1122 کی گاڑیوں اور ایمبولینسز، ٹریفک وارڈنز، ڈولفن سکواڈز کے ساتھ حال ہی متعارف کروائے جانے والی بائیک ایمبولینس بھی ڈیوٹی پر ہیں، ہیلی کاپٹر پورے علاقے اور اطراف کی سڑکوں کی مسلسل فضائی نگرانی کررہا ہے،ٹکٹیں حاصل کرپانے والے میچ دیکھنے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، پورے ملک کے شائقین کرکٹ بخارمیں مبتلا ہوکر قذافی سٹیڈیم پر نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں، پوری قوم چوکوں، چھکوں کی برسات میں سکیورٹی خدشات دھوڈالنے کیلئے بے قرار نظر آتی ہے۔
اگرچہ سری لنکن ٹیم ٹی ٹوئنٹی سیریز کے ابوظہبی میں کھیلے جانے والے دونوں میچز ہارچکی،پاکستانی بولرز نے آئی لینڈرز کی ناتجربہ کار بیٹنگ کا خوب امتحان لیتے ہوئے کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں دیا،تاہم آسان ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے گرین شرٹس کی کمزوریاں بھی آشکار ہوئی ہیں،ٹاپ آرڈر کی کارکردگی پریشان کن رہی ہے،ہوم گرائونڈ پر شائقین اپنی ٹیم سے بیٹنگ میں بھی بہتر کارکردگی کی توقعات وابستہ کئے ہوئے ہوں گے، دوسری جانب سری لنکن سائیڈ میں شامل کئی نوجوان کرکٹرز اپنی صلاحیتوں کی جھلک دکھلاچکے ہیں، مختصر فارمیٹ میں ایک پلیئر کی اچھی کارکردگی بھی میچ کا نقشہ بدل دیتی ہے،آئی لینڈرز سیریز ہارنے کے بعد ایک فتح کے ساتھ اشک شوئی کرنے کی کوشش کریں گے۔