سری لنکا لاہور سے لاہور تک

سری لنکن کرکٹ ٹیم پر شدت پسندوں کی طرف سے لاہور میں حملے کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ٹیموں کے لئے نو گو ایریا بنا ہوا تھا


Mian Asghar Saleemi October 29, 2017
نیت اگر صاف ہو اور کچھ کر گزرنے کی لگن اور جستجو موجود ہو تو ناممکن کو ممکن بنایا جانا کوئی مشکل نہیں۔ فوٹو: فائل

کہا جاتا ہے کہ کھیل آپس میں پیار محبت بانٹتے اور روٹھے ہوئوں کو قریب لانے کا سبب بنتے ہیں،صحت مندی کی علامت اور امن کے سفیر سمجھے جاتے ہیں، مگر پاکستان میں دہشت گردی نے جہاں ہزاروں گھر برباد کئے وہاں کھیل کے میدانوں کو بھی ویران کر دیا۔کرکٹ ورلڈکپ ، مختلف کھیلوں کے خلاف ہوم سیریز ، ہاکی چیمپئنز ٹرافی، سیف گیمز سمیت متعدد ایونٹس پاک سرزمین کے سٹیڈیمز کی رونقیں بڑھاتے، امن اور کھیلوں سے پیار کرنے والے پاکستانیوں کا جوش وخروش دیدنی ہوتا۔

شائقین ملکی کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ مہمان پلیئرز کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے اور دنیا بھر کے مبصرین سے مہذب کرائوڈ کا خطاب پاتے۔ دہشت گردی کا ایسا دور آیاکہ یہ سب رونقیں گم ہو گئیں۔ ہم اپنے ہوم ایونٹس بھی غیر ملکوں کی میزبانی میں کروانے پر مجبورہوتے گئے، ہر سال امید باندھی، اس بار امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی اور ہم سپورٹس ہیروز کو اپنے درمیان متحرک پائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ سری لنکن کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آ ہی گئی تو سکیورٹی میں غفلت نے مایوسیاں بکھیر دیں۔

دہشت گرد تو مہمان سری لنکن ٹیم کے ایک ایک کھلاڑی کے خون کے پیاسے نظر آئے لیکن بس ڈرائیور مہرمحمد خلیل کی جرأت مندی اور بہادری نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا اور وہ مہمان کھلاڑیوں کو بحفاظت سٹیڈیم لے آئے۔ پاکستانی گرائونڈز کو آباد نہ دیکھنے والے خفیہ طاقتوںکو سانحہ لاہور کی شکل میں ایک بہتر میسر آ گیا اور انہوں نے اس ایشوکو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ نتیجہ کے طور پر غیر ملکی ٹیموں نے پاکستان میں آ کر کھیلنے سے صاف صاف انکار کر دیا ، اورتو اور افغانستان، بنگلہ دیش کی ٹیمیں بھی پاک سر زمین پر کھیلنے سے انکاری ہوگئیں۔

نیوٹرل مقام پر ہوم سیریز کھیلنے کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کو متحدہ عرب امارات اور انگلینڈ میں ہوم سیریز کھیلنا پڑیں جہاں نت نئے تنازعات نے جنم لیا۔ عالمی چیمپئن پاکستان بلائنڈ کرکٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں کھیلتی دکھائی دی تو قومی ہاکی ٹیم کو بھی ہالینڈ کے خلاف 2میچوں کی سیریز یو اے ای میں کھیلنے کے علاوہ ایشیا کپ کے لئے تربیتی کیمپ بھی ہالینڈ میں لگانا پڑا جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوئے۔

دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا تو انٹرنیشنل ایونٹس تو درکنار ملک بھر میں ہونے والے ڈومیسٹک ایونٹس بھی کروانے مشکل ہو گئے۔ 8 سالہ آمرانہ دور کے خاتمے کے بعد ملک میں جمہوریت کا بول بالا ہوا، تو امید کی کرن نظر آنا شروع ہو گئی تھی کہ کھیلوں پر چھائے سیاہ بادل اب چھٹنا شروع ہو جائیں گے لیکن افسوس پہلی حکومت کی طرح موجودہ سرکار کی پالیسیاں بھی جوں کی توں رہیں جس کے بعد خود کش حملوں کا سلسلہ رکنے کی بجائے تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔

دہشت گردی کی ان مجرمانہ کاروائیوں کی وجہ سے پاکستان میں کھیلوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہا، مایوسیوں اور تاریکیوں کے اس گھپ اندھیرے میں پاکستان آرمی میدان میں آئی اور ہمارے پاک فوج کے بہادرافسروں اور جوانوں نے جرأت وہ بہادری کی وہ تاریخ رقم کی کہ اپنے تو اپنے غیر بھی عش عش کر اٹھے، یوں تو پاکستان آرمی کے کارناموں کی تاریخ ان گنت کامیابیوں سے عبارت ہے،ان کارناموں کی تفصیل کو ایک تحریر، تقریر یا نشست میں بیان کرنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے، حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو یہ پاکستان آرمی ہی ہے جو ہر کام میں آگے آگے نظر آتی ہے، زلزلہ زدگان کی مدد ہو یا سیلاب میں پھنسے شہریوں کو بحفاظت نکالنا ہو، ان کے رہنے سہنے اور کھانے پینے کا انتظام کرنا ہو یا ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہو، ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہو یا پاک سرزمین سے دہشت گردوں کا صفایا کرنا ہو، پاکستان آرمی پیش پیش نظر آئے گی۔

یہ دنیا کی سب سے بڑی حقیقت بھی ہے کہ پاکستان نہ صرف دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جو چاروں اطراف سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہے بلکہ اس کی بھارت، افغانستان سمیت دوسرے ہمسایہ ملکوں سے طویل سرحدیں بھی موجود ہیں جن کی احسن طریقے سے حفاظت کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں، ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا تو ہماری بہادر افواج نے ''ضرب عضب'' اور ردالفاد کے نام سے آپریشن شروع کیا جس میں ہمارے فوجی افسروں اور جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دیا، اب ان آپریشز کی کامیابی کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں جس کا واضح ثبوت پی ایس ایل ایڈیشن ٹوفائنل اور ورلڈ الیون کے بعد لاہور میں سری لنکا کے خلاف شیڈول ٹوئنٹی20 میچ کی میزبانی ہے۔

کہتے ہیں کہ برے وقت میں سایہ بھی انسان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے، سانحہ لبرٹی کیا ہوا، پاکستانی کرکٹ سمیت دوسری ملکی کھیلوں پر گویا قیامت ہی ٹوٹ پڑی ہو، غیر ملکی ٹیموں نے ہم سے آنکھیں پھیر لیں تاہم پی سی بی کی کوششوں کے بعد سر ی لنکا کی کر کٹ ٹیم تقریبا 9سال کے طویل عرصہ کے بعد پاکستان پہنچ چکی ہے اور آج شام چھ بجے قذافی سٹیڈیم میں گرین شرٹس کے خلاف ایکشن میں دکھائی دے گی۔اگر یہ لکھا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سری لنکن ٹیم نے لاہور میں 9 سال قبل جو سفر شروع کیا تھا، وہ آج وہیں سے دوبارہ شروع ہوگا۔

مہمانوں کی مہمان نوازی کے لئے حکومت پنجاب ہماری پاک فوج و دیگرحکومتی ادارے بالخصوص پی سی بی بھر پور میدان میں ہے اور آئی لینڈرز کی آمد پر قذافی سٹیڈیم کو نہ صرف دلہن کی طرح سجا دیا گیا ہے بلکہ لاہوریوں کی مہمان نوازی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سری لنکن ٹیم کے استقبال کا انوکھا طریقہ بھی اختیار کیا گیا ہے ۔پی سی بی کی جانب سے اس بار سری لنکن کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو انہیں کی زبان میں خوش آمدید کہا جائے گا، اس سلسلے میں قذافی سٹیڈیم اور نشتر سپورٹس کمپلیکس کے مرکزی درازوں پر سنہالی زبان میں بینرز بھی لگا دیئے گئے۔

میچ کیلئے سکیورٹی کے سخت انتظامات کئے گئے ہیں ، قذافی سٹیڈیم کے اطراف دکانیں اور شادی ہالز کوبندکردیا گیا ہے، میچ کیلئے واسا نے ایمرجنسی کیمپ اور نیشنل ہاکی سٹیڈیم میں20 بیڈز پر مشتمل ایمبرجنسی ہسپتال بھی قائم کر دیا گیا ہے۔ پنجاب سپورٹس بورڈ کے سکیورٹی اینڈ ویجیلنس سیل کے ذریعے ہر آنے جانے والے کی کڑی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ کوئیک ریسپانس سنٹر بنا کر ایل ڈی اے، واسا، سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سمیت متعدد محکموں کے افسران و اہلکاروں کی ڈیوٹیاں لگا دی گئی ہیں تاکہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں احسن انداز میں نمٹا جا سکے۔

سری لنکن کرکٹ ٹیم پر شدت پسندوں کی طرف سے لاہور میں حملے کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ٹیموں کے لئے نو گو ایریا بنا ہوا تھا لیکن آئی لینڈرز نے9 سال کے بعد زندہ دلوں کے شہر میں آکر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کھیلوں کے حوالے سے محفوظ ملک ہے۔ ورلڈ الیون کے بعد سری لنکن ٹیم کی لاہور آمد پاکستان ہاکی فیڈریشن، پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سمیت کھیلوں کی تنظیموں، ایسوسی ایشنوں اور فیڈریشنوں کے بڑوں کے لئے یہ کھلم کھلا اور واضح پیغام ہے کہ نیت اگر صاف ہو اور کچھ کر گزرنے کی لگن اور جستجو موجود ہو تو ناممکن کو ممکن بنایا جانا کوئی مشکل نہیں۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں