جوامع الحکایات و لوامع الروایات
موت کو کسی طرح ٹالا نہیں جا سکتا۔ پھر کسے معلوم کہ عین گناہ کی حالت ہی میں موت آ جائے۔
محمد عوفی کی تالیف ''جوامع الحکایات و لوامع الروایات'' فارسی زبان و ادب کی ان نادر اور اہم کتابوں میں سے ایک ہے، جو اپنی افادی حیثیت اور موضوعی خصوصیت کی بنا پر لازوال شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کی حق دار ہیں۔
اس کتاب کی تین خصوصیتیں اسے، اس قسم کی دوسری ادبی مساعی سے ممیز کرتی ہیں۔ اول یہ کہ حکایتوں کا بیشتر حصہ تاریخ رنگ کا حامل ہے۔ دوسری یہ کہ موضوعات کی کثرت اور رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ تیسری یہ کہ دوسری ہم رنگ کتابوں کے مقابلے میں اس کی حکایتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس نادر تاریخی کتاب کا اردو ترجمہ ممتاز رومانوی شاعر اختر شیرانی نے کیا تھا۔ انجمن ترقی اردو، پاکستان نے حال ہی میں دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب کا نیا ایڈیشن شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں سے چند منتخب حکایتیں ذیل میں دی جا رہی ہیں۔
فضول خرچی
ایک رات مامون کا ایک مصاحب اُسے قصے کہانیاں اور اشعار سنا رہا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے یہ حکایت بھی سنائی کہ میرے پڑوس میں ایک بہت دین دار، نیک اور کفایت شعار آدمی رہتا تھا۔ اس کا اکلوتا بیٹا ابھی نو عمر اور ناتجربے کار تھا۔
مرتے وقت اس نے بیٹے کو وصیت کی کہ خدا نے مجھے بہت روپیہ پیسہ دیا ہے، اتنا کہ سنبھال کر رکھو اور سنبھل کر خرچ کرو تو کئی پشتوں تک کے لیے بہت ہوگا۔ ابھی تمہیں معلوم نہیں کہ پیسہ پیدا کرنے میں کیسی محنت مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اسے کچھ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میں نے خون پسینہ ایک کرکے یہ دولت جمع کی ہے اور تمہیں مفت ہاتھ لگے گی۔ اس کے باوجود میری محنت و مصیبت کا خیال رکھنا اور اس کی قدر کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یار دوستوں کے ساتھ مل کر چند ہی روز میں اڑا دو۔ خدا نخواستہ ایسا ہو تو میری دو باتیں یاد رکھنا۔ وہ یہ کہ اگر مکان کا سامان تک فروخت کرنے کی نوبت آجائے تو ہرج نہیں۔
لیکن مکان ہرگز فروخت نہ کرنا کیوں کہ بے گھر آدمی کا دنیا بھر میں کہیں ٹھکانا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ خواہ کیسی ہی بپتا کیوں نہ پڑے، زمانہ ادھر سے اُدھر ہی کیوں نہ ہو جائے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا۔ اس مکان کے فلاں حصے میں، میں نے ایک رسی لٹکا دی ہے، اس کے نیچے ایک کرسی بچھی ہے۔ اس کرسی پر چڑھ کر رسی کا پھندا گلے میں ڈال لینا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر نیچے سے ہٹا دینا کیوں کہ مفلسی، فقیری اور بے شرمی کی زندگی سے موت اچھی ہوتی ہے۔''
یہ وصیت کرکے باپ تو اللہ کے گھر سدھارا اور بیٹے نے اس کا کفن میلا ہونے سے پہلے ہی گلچھرے اڑانے شروع کردیئے۔ زمانے بھر کے بے فکرے اور اچکے دوست بن گئے اور دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹنے لگے۔ راگ رنگ کی محفلیں جمنے لگیں اور عیش و عشرت کے جلسے ہونے لگے:
ہر روز روز عید تھا، ہر شب شب برات!
اسراف اور فضول خرچی تو وہ بدبلا ہے کہ ایک گھڑی میں بادشاہی خزانے خالی ہوجائیں۔ اس شخص کے مال و دولت کی بساط ہی کیا تھی۔ دیکھتے دیکھتے ہوا ہوگئی اور تھوڑے ہی دنوں میں گھر کے اثاثے کے کوڑے ہونے لگے۔
ایک دن اس ناعاقبت اندیش نوجوان کی آنکھ کھلی تو جیب میں پائی تک نہ تھی:
جس وقت کا دھڑکا تھا وہ وقت آگیا آخر!
دو چار دن فاقے کیے۔ بھوک کے مارے برا حال ہوا، مگر کوئی دوست پاس نہ آیا:
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
جب فاقوں کے مارے بدن میں جان نہ رہی تو وہ خودکشی کے ارادے سے باپ کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچا۔ کرسی پر چھڑ کر چھت سے بندھی ہوئی رسی کا پھندا گلے میں ڈالا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر دور پھینک دیا۔
جیسے ہی کرسی ہٹی اور رسی کی گرفت اس کے گلے پر مضبوط ہوئی، وہ نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی چھت کی ایک لکڑی کی کڑی سے ہزاروں اشرفیاں آگریں۔
یہ دیکھ کر نوجوان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور وہ سمجھا کہ خودکشی کی نصیحت سے اس کے عقل مند باپ کا کیا مقصد تھا۔ فوراً وضو کیا اور دو رکت نماز شکرانے کی پڑھی۔
عین مصیبت کے وقت دس ہزار اشرفیوں کا ملنا ایسی بات نہ تھی کہ اس نوجوان پر اثر نہ ہوتا۔ اس نے برے دوستوں کی صحبت اور فضول خرچی سے توبہ کی اور کفایت شعاری سے بہت آرام کی زندگی بسر کرنے لگا۔
لاعلمی، شرم کی بات نہیں
ایک مرتبہ شعبی سے کسی شخص نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔ اس نے جواب دیا، ''مجھے نہیں معلوم۔''
اس شخص نے کہا، ''یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی؟''
شعبی نے جواب دیا، ''یہ کہتے ہوئے فرشتوں کو شرم نہیں آئی تو مجھے کیوں آئے؟ خدا نے جب انہیں حکم دیا کہ چیزوں کے نام بتائو تو انہوں نے جواب دیا، ''ہم نہیں جانتے۔'' جیسا کہ قرآن بتاتا ہے۔ ''قالوا سبحانک لاعلم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم۔''
سبکتگین کی نصیحت
سلطان محمود انار اللہ برہانہ نے اپنی ولی عہدی کے زمانے میں غزنین میں ایک بڑا شاندار اور خوبصورت باغ بنوایا۔ جب وہ بن کر تیار ہو چکا تو محمود نے اپنے باپ امیر سبکتگین کی اس باغ میں پرتکلف دعوت کی۔
سبکتگین نے یہ باغ دیکھا تو بیٹے کی عالی ہمتی پر تعجب کیا اور بہت تعریف کرنے کے بعد اس سے کہا کہ بیٹا،''یوں تو جو عمارت بھی تو بناتا ہے اور جو درخت بھی لگاتا ہے، جلد پھل دینے لگتا ہے۔ لیکن اب نیکی کے باغ میں نیک نامی کے پودے لگا، یعنی ارباب ہنر کی تربیت کر۔ ان کی امیدوں کی جوئبار کو اپنے احسان کے پانی سے سیراب کر تاکہ وہ سائے دار اور میوے دار ہو جائیں اور ان سے عام مسلمانوں کو فائدہ پہنچے اور اس فائدے کی برکت سے حکومت تیرے خاندان میں باقی رہے۔''
جاہلوں کی صحبت
ایک دن مشورشاعر شہید کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھا۔ اتنے میں ایک جاہل شخص آیا اور سلام کر کے بولا،''تنہا بیٹھے ہو؟''
شہید نے جواب دیا، ''تنہا تو اب ہوا ہوں کیوں کہ تمہاری وجہ سے کتاب بند کرنی پڑی۔''
ابراہیم ادہم کی نصیحتیں
ایک بوڑھے شخص نے شیخ ابراہیم ادہم کی خدمت میں عرض کی کہ میں بہت گنہ گار اور بدکردار ہوں۔ لاکھ چاہتا ہوں کہ گناہ نہ کروں۔ مگر اپنے نفس پر قابو نہیں رہتا۔ مہربانی فرما کر مجھے کوئی ایسی نصیحت کیجیے کہ اس سے میرا دل نرم پڑ جائے اور میری یہ بری عادت جاتی رہے۔
ابراہیم ادہم نے جواب دیا،''جس وقت تم گناہ کرنا اور خدا کے گناہ گار بننا چاہو، اس وقت ارادہ کر لو کہ اب خدا کا رزق نہ کھائو گے۔''
بوڑھے نے پوچھا،''اگر خدا کا رزق نہ کھائوں تو پھر کیا کھائوں؟''
فرمایا،''پھر یہ کتنی بری بات ہے کہ تم خدا کا رزق کھائو اور اس کا حکم نہ بجا لائو!''
بوڑھے نے درخواست کی،''ایک اور نصیحت کیجیے۔''
شیخ نے جواب میں کہا،''جس وقت گناہ کرنا چاہو، خدا کی زمین پر نہ رہو بلکہ اس سے باہر نکل جائو۔''
بوڑھے نے کہا،''یہ تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اگر میں اس کی زمین پر نہ رہوں تو کہاں جائوں؟''
شیخ نے فرمایا،''پھر یہ کتنی بری بات ہے کہ تم اس کا رزق کھائو، اس کی زمین میں رہو اور اس کا کہنا نہ مانو۔''
بوڑھے نے عرض کی،''کوئی اور نصیحت کیجیے۔''
ابراہیم ادہم نے جواب دیا،''جب کوئی گناہ کرو، ایسی جگہ چھپ کر کرو کہ خدا تمھیں نہ دیکھ سکے۔''
بوڑھا بولا،''یہ تو اور بھی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ خدا دیکھتا ہے اور کائنات کی کوئی چیز اور کوئی حرکت اس کی نظر سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔''
ابراہیم ادہم نے فرمایا،''پھر یہ کس قدر بری حرکت ہے کہ تم اس کا رزق کھائو، اس کی زمین میں رہو اور گناہ اس طرح کرو کہ وہ تمھیں دیکھ لے۔''
بوڑھے نے پوچھا،''چوتھی نصیحت کیا ہے؟''
فرمایا،''جس وقت موت کا فرشتہ تمھارے پاس آئے تو اس سے کہنا کہ مجھے اتنی مہلت دے کہ میں توبہ کر سکوں اور قیامت کی تیاری سے فارغ ہو سکوں۔''
بوڑھے نے جواب دیا،''وہ میری بات نہ مانے گا۔''
شیخ نے فرمایا،''تم جانتے ہو کہ موت کو کسی طرح ٹالا نہیں جا سکتا۔ پھر کسے معلوم کہ عین گناہ کی حالت ہی میں موت آ جائے۔''
بوڑھے نے کہا،''یا شیخ، یہ نصیحتیں میرے لیے بہت کافی ہیں۔''
کہتے ہیں اس دن کے بعد یہ شخص اتنا نیک ہو گیا کہ اپنے زمانے کے مشہور عابدوں اور زاہدوں میں گنا جانے لگا۔
اس کتاب کی تین خصوصیتیں اسے، اس قسم کی دوسری ادبی مساعی سے ممیز کرتی ہیں۔ اول یہ کہ حکایتوں کا بیشتر حصہ تاریخ رنگ کا حامل ہے۔ دوسری یہ کہ موضوعات کی کثرت اور رنگا رنگی نظر آتی ہے۔ تیسری یہ کہ دوسری ہم رنگ کتابوں کے مقابلے میں اس کی حکایتوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اس نادر تاریخی کتاب کا اردو ترجمہ ممتاز رومانوی شاعر اختر شیرانی نے کیا تھا۔ انجمن ترقی اردو، پاکستان نے حال ہی میں دو جلدوں پر مشتمل اس کتاب کا نیا ایڈیشن شائع کیا ہے۔ اس کتاب میں سے چند منتخب حکایتیں ذیل میں دی جا رہی ہیں۔
فضول خرچی
ایک رات مامون کا ایک مصاحب اُسے قصے کہانیاں اور اشعار سنا رہا تھا۔ اس سلسلے میں اس نے یہ حکایت بھی سنائی کہ میرے پڑوس میں ایک بہت دین دار، نیک اور کفایت شعار آدمی رہتا تھا۔ اس کا اکلوتا بیٹا ابھی نو عمر اور ناتجربے کار تھا۔
مرتے وقت اس نے بیٹے کو وصیت کی کہ خدا نے مجھے بہت روپیہ پیسہ دیا ہے، اتنا کہ سنبھال کر رکھو اور سنبھل کر خرچ کرو تو کئی پشتوں تک کے لیے بہت ہوگا۔ ابھی تمہیں معلوم نہیں کہ پیسہ پیدا کرنے میں کیسی محنت مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اسے کچھ میرا ہی دل جانتا ہے۔ میں نے خون پسینہ ایک کرکے یہ دولت جمع کی ہے اور تمہیں مفت ہاتھ لگے گی۔ اس کے باوجود میری محنت و مصیبت کا خیال رکھنا اور اس کی قدر کرنا۔ ایسا نہ ہو کہ یار دوستوں کے ساتھ مل کر چند ہی روز میں اڑا دو۔ خدا نخواستہ ایسا ہو تو میری دو باتیں یاد رکھنا۔ وہ یہ کہ اگر مکان کا سامان تک فروخت کرنے کی نوبت آجائے تو ہرج نہیں۔
لیکن مکان ہرگز فروخت نہ کرنا کیوں کہ بے گھر آدمی کا دنیا بھر میں کہیں ٹھکانا نہیں ہوتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ خواہ کیسی ہی بپتا کیوں نہ پڑے، زمانہ ادھر سے اُدھر ہی کیوں نہ ہو جائے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا۔ اس مکان کے فلاں حصے میں، میں نے ایک رسی لٹکا دی ہے، اس کے نیچے ایک کرسی بچھی ہے۔ اس کرسی پر چڑھ کر رسی کا پھندا گلے میں ڈال لینا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر نیچے سے ہٹا دینا کیوں کہ مفلسی، فقیری اور بے شرمی کی زندگی سے موت اچھی ہوتی ہے۔''
یہ وصیت کرکے باپ تو اللہ کے گھر سدھارا اور بیٹے نے اس کا کفن میلا ہونے سے پہلے ہی گلچھرے اڑانے شروع کردیئے۔ زمانے بھر کے بے فکرے اور اچکے دوست بن گئے اور دونوں ہاتھوں سے اسے لوٹنے لگے۔ راگ رنگ کی محفلیں جمنے لگیں اور عیش و عشرت کے جلسے ہونے لگے:
ہر روز روز عید تھا، ہر شب شب برات!
اسراف اور فضول خرچی تو وہ بدبلا ہے کہ ایک گھڑی میں بادشاہی خزانے خالی ہوجائیں۔ اس شخص کے مال و دولت کی بساط ہی کیا تھی۔ دیکھتے دیکھتے ہوا ہوگئی اور تھوڑے ہی دنوں میں گھر کے اثاثے کے کوڑے ہونے لگے۔
ایک دن اس ناعاقبت اندیش نوجوان کی آنکھ کھلی تو جیب میں پائی تک نہ تھی:
جس وقت کا دھڑکا تھا وہ وقت آگیا آخر!
دو چار دن فاقے کیے۔ بھوک کے مارے برا حال ہوا، مگر کوئی دوست پاس نہ آیا:
سیہ بختی میں کب کوئی کسی کا ساتھ دیتا ہے
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
جب فاقوں کے مارے بدن میں جان نہ رہی تو وہ خودکشی کے ارادے سے باپ کے بتائے ہوئے کمرے میں پہنچا۔ کرسی پر چھڑ کر چھت سے بندھی ہوئی رسی کا پھندا گلے میں ڈالا اور کرسی کو ٹھوکر مار کر دور پھینک دیا۔
جیسے ہی کرسی ہٹی اور رسی کی گرفت اس کے گلے پر مضبوط ہوئی، وہ نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی چھت کی ایک لکڑی کی کڑی سے ہزاروں اشرفیاں آگریں۔
یہ دیکھ کر نوجوان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا اور وہ سمجھا کہ خودکشی کی نصیحت سے اس کے عقل مند باپ کا کیا مقصد تھا۔ فوراً وضو کیا اور دو رکت نماز شکرانے کی پڑھی۔
عین مصیبت کے وقت دس ہزار اشرفیوں کا ملنا ایسی بات نہ تھی کہ اس نوجوان پر اثر نہ ہوتا۔ اس نے برے دوستوں کی صحبت اور فضول خرچی سے توبہ کی اور کفایت شعاری سے بہت آرام کی زندگی بسر کرنے لگا۔
لاعلمی، شرم کی بات نہیں
ایک مرتبہ شعبی سے کسی شخص نے کوئی مسئلہ دریافت کیا۔ اس نے جواب دیا، ''مجھے نہیں معلوم۔''
اس شخص نے کہا، ''یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آتی؟''
شعبی نے جواب دیا، ''یہ کہتے ہوئے فرشتوں کو شرم نہیں آئی تو مجھے کیوں آئے؟ خدا نے جب انہیں حکم دیا کہ چیزوں کے نام بتائو تو انہوں نے جواب دیا، ''ہم نہیں جانتے۔'' جیسا کہ قرآن بتاتا ہے۔ ''قالوا سبحانک لاعلم لنا الا ما علمتنا انک انت العلیم الحکیم۔''
سبکتگین کی نصیحت
سلطان محمود انار اللہ برہانہ نے اپنی ولی عہدی کے زمانے میں غزنین میں ایک بڑا شاندار اور خوبصورت باغ بنوایا۔ جب وہ بن کر تیار ہو چکا تو محمود نے اپنے باپ امیر سبکتگین کی اس باغ میں پرتکلف دعوت کی۔
سبکتگین نے یہ باغ دیکھا تو بیٹے کی عالی ہمتی پر تعجب کیا اور بہت تعریف کرنے کے بعد اس سے کہا کہ بیٹا،''یوں تو جو عمارت بھی تو بناتا ہے اور جو درخت بھی لگاتا ہے، جلد پھل دینے لگتا ہے۔ لیکن اب نیکی کے باغ میں نیک نامی کے پودے لگا، یعنی ارباب ہنر کی تربیت کر۔ ان کی امیدوں کی جوئبار کو اپنے احسان کے پانی سے سیراب کر تاکہ وہ سائے دار اور میوے دار ہو جائیں اور ان سے عام مسلمانوں کو فائدہ پہنچے اور اس فائدے کی برکت سے حکومت تیرے خاندان میں باقی رہے۔''
جاہلوں کی صحبت
ایک دن مشورشاعر شہید کسی کتاب کے مطالعے میں محو تھا۔ اتنے میں ایک جاہل شخص آیا اور سلام کر کے بولا،''تنہا بیٹھے ہو؟''
شہید نے جواب دیا، ''تنہا تو اب ہوا ہوں کیوں کہ تمہاری وجہ سے کتاب بند کرنی پڑی۔''
ابراہیم ادہم کی نصیحتیں
ایک بوڑھے شخص نے شیخ ابراہیم ادہم کی خدمت میں عرض کی کہ میں بہت گنہ گار اور بدکردار ہوں۔ لاکھ چاہتا ہوں کہ گناہ نہ کروں۔ مگر اپنے نفس پر قابو نہیں رہتا۔ مہربانی فرما کر مجھے کوئی ایسی نصیحت کیجیے کہ اس سے میرا دل نرم پڑ جائے اور میری یہ بری عادت جاتی رہے۔
ابراہیم ادہم نے جواب دیا،''جس وقت تم گناہ کرنا اور خدا کے گناہ گار بننا چاہو، اس وقت ارادہ کر لو کہ اب خدا کا رزق نہ کھائو گے۔''
بوڑھے نے پوچھا،''اگر خدا کا رزق نہ کھائوں تو پھر کیا کھائوں؟''
فرمایا،''پھر یہ کتنی بری بات ہے کہ تم خدا کا رزق کھائو اور اس کا حکم نہ بجا لائو!''
بوڑھے نے درخواست کی،''ایک اور نصیحت کیجیے۔''
شیخ نے جواب میں کہا،''جس وقت گناہ کرنا چاہو، خدا کی زمین پر نہ رہو بلکہ اس سے باہر نکل جائو۔''
بوڑھے نے کہا،''یہ تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ اگر میں اس کی زمین پر نہ رہوں تو کہاں جائوں؟''
شیخ نے فرمایا،''پھر یہ کتنی بری بات ہے کہ تم اس کا رزق کھائو، اس کی زمین میں رہو اور اس کا کہنا نہ مانو۔''
بوڑھے نے عرض کی،''کوئی اور نصیحت کیجیے۔''
ابراہیم ادہم نے جواب دیا،''جب کوئی گناہ کرو، ایسی جگہ چھپ کر کرو کہ خدا تمھیں نہ دیکھ سکے۔''
بوڑھا بولا،''یہ تو اور بھی زیادہ مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ خدا دیکھتا ہے اور کائنات کی کوئی چیز اور کوئی حرکت اس کی نظر سے چھپی ہوئی نہیں ہے۔''
ابراہیم ادہم نے فرمایا،''پھر یہ کس قدر بری حرکت ہے کہ تم اس کا رزق کھائو، اس کی زمین میں رہو اور گناہ اس طرح کرو کہ وہ تمھیں دیکھ لے۔''
بوڑھے نے پوچھا،''چوتھی نصیحت کیا ہے؟''
فرمایا،''جس وقت موت کا فرشتہ تمھارے پاس آئے تو اس سے کہنا کہ مجھے اتنی مہلت دے کہ میں توبہ کر سکوں اور قیامت کی تیاری سے فارغ ہو سکوں۔''
بوڑھے نے جواب دیا،''وہ میری بات نہ مانے گا۔''
شیخ نے فرمایا،''تم جانتے ہو کہ موت کو کسی طرح ٹالا نہیں جا سکتا۔ پھر کسے معلوم کہ عین گناہ کی حالت ہی میں موت آ جائے۔''
بوڑھے نے کہا،''یا شیخ، یہ نصیحتیں میرے لیے بہت کافی ہیں۔''
کہتے ہیں اس دن کے بعد یہ شخص اتنا نیک ہو گیا کہ اپنے زمانے کے مشہور عابدوں اور زاہدوں میں گنا جانے لگا۔