پورا سچ بولیں۔۔۔۔۔۔۔

پورا سچ لکھنے اور بولنے سے ہی ہم حالات کا غیر جانب درانہ تجزیہ کرتے ہوئے صحیح نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔


Israil Ishaq Wahgra March 03, 2013
زیادہ بولنے سے انسان زیادہ سمجھدار نہیں لگتا۔ فوٹو: فائل

ایک بحری جہاز پر کام کرتے ہوئے ایک ملاح کو پانچ سال گزر گئے تھے، وہ کشتی کو اپنے ہنر اور تجربے دونوں کی بنیاد پر چلاتا تھا۔

ایک رات اس نے شراب پی لی اور وہ نشہ کی حالت میں تھا۔ ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ کیپٹن نے لاگ بک میں اس واقعہ کا اندراج کیا ''ملاح نے کل رات شراب پی۔'' ملاح نے جب یہ جملہ پڑھا تو بڑا پریشان ہوا، اسے پتا تھا کہ اس کی وجہ سے اس کے کیرئیر پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ وہ کیپٹن کے پاس گیا، اس سے معافی مانگی اور کہا کہ لاگ بک میں صرف اس جملہ کا اضافہ کر دیں کہ یہ واقعہ پانچ سال میں پہلی بار ہوا تھا۔ یہ فی الواقع پورا سچ تھا، مگر کیپٹن نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس نے لاگ بک میں جو کچھ لکھا ہے، وہ سچ ہے۔ وہ سچ تو تھا، مگر پورا سچ نہیں تھا۔

اگلے دن ملاح نے لاگ بک میں ایک فقرہ لکھا کہ ''کیپٹن آج رات نشے میں نہیں تھا۔'' جب کیپٹن نے یہ جملہ پڑھا تو ملاح سے کہنے لگا کہ وہ یہ جملہ تبدیل کرے یا اس میں اضافہ کرے، تاکہ پورا سچ واضح ہو۔ اس جملے سے تو ایسے ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے کیپٹن ہر دوسری رات نشے میںگزارتا ہے۔ ملاح نے کیپٹن سے کہا کہ اس نے لاگ بک میں جو کچھ لکھاہے، و ہ سچ ہے۔ دراصل کیپٹن اور ملاح، دونوں کے فقرے سچ پر مبنی تھے، مگر وہ پورا سچ نہیں تھے، اس وجہ سے ان جملوں سے گمراہ کن پیغام ملتا تھا۔

ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ ہمیشہ پورا سچ لکھیں اور بولیں، صرف اس صورت میں ہم حالات کا غیر جانب درانہ تجزیہ کرتے ہوئے صحیح نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

الفاظ کی اہمیت

الفاظ انسانی فطرت کی عکاسی کرتے ہیں۔ لفظ دوسروں کو صدمہ پہنچا سکتے ہیں اور رشتے ناتوں کو تباہ کر سکتے ہیں۔ اکثر لوگ کسی فطری حادثے سے زیادہ نامناسب الفاظ سے تباہ ہوتے ہیں۔ عقل مند اور بے وقوف میں فرق الفاظ کے انتخاب کا ہوتا ہے۔ عقل مند لوگ بری سے بری بات کو بھی موزوں الفاظ میں بیان کرتے ہیں، جب کہ بے وقوف لوگ اچھی بات کو بھی نا مناسب الفاظ میں بیان کر کے بات کی ساری خوبصورتی خاک میں ملا دیتے ہیں۔ لفظوں کا انتخاب احتیاط سے اور ہمیشہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ سب کچھ نہیں کہہ دینا چاہیے بلکہ کچھ باتیں ان کہی بھی رہنے دینی چاہیں۔

زیادہ بولنے سے انسان زیادہ سمجھدار نہیں لگتا۔ زیادہ بولنے کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ آپ اپنی بات دوسروں تک پہنچا بھی رہے ہیں۔ کم بولو، زیادہ کہو۔ بے وقوف انسان ہمیشہ بغیر سوچے بولتا ہے، جب کہ عقل مند انسان اپنی زبان کھولنے سے پہلے ہزار بار سوچتا ہے، اور بہترین الفاظ کا انتخاب کرتا ہے۔ تلخ الفاظ ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیشہ الفاظ کا انتخاب کرتے وقت احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ماں باپ بچوں کے لیے جو الفاظ استعمال کرتے ہیں، اس سے ان بچوں کی تقدیر متعین ہوتی ہے۔

دوسروں میں خوشیاں بانٹنا

ایک بچہ آئس کریم کی دکان پر گیا اور ویٹر سے پوچھاکہ آئس کریم کتنے کی ہے؟ ''20 روپے کی''، ویٹر نے جواب دیا۔ بچے نے اپنے ہاتھ میں موجود پیسے دیکھے اور ویٹر سے دوبار پوچھا کہ چھوٹا کپ کتنے کا ہے؟ ویٹر نے جواب دیا، ''18روپے کا ہے۔'' اس پر لڑکے نے ویٹر کو چھوٹا کپ لانے کا کہا۔ بچے نے آئس کریم کھائی اور چلا گیا، اس کے جانے کے بعد جب ویٹر نے خالی کپ اٹھایا تو وہ یہ دیکھ کر بڑا خوش ہوا کہ بچے نے اس کے لیے دو روپے کا سکہ بطور ٹپ، رکھ چھوڑا تھا۔ دراصل بچے نے آئس کریم کی قیمت اس لیے پوچھی تھی کہ وہ ویٹر کو ٹپ دینا چاہتا تھا، اس لیے اس نے آئس کریم کا چھوٹا کپ کھا لیا اورویٹر کو ٹپ بھی دے دی۔ یوں اس نے اپنی چھوٹی سی خوشی ترک کر کے ویٹر کو ایک بہت بڑی خوشی دے دی۔

بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنے تھوڑے سے وقت اور توجہ یا چھوٹی سی خوشی اور قربانی کے عوض کسی دوسرے کی زندگی کو خوشیوں سے بھر سکتے ہیں۔ اس سے ہی آپ کو زندگی میں حقیقی خوشی اور سکون ملتا ہے۔ اس لئے آپ کو ایسی کسی بھی قربانی سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔

ملنساری اپنائیں

ملنساری کا مطلب ہے کہ آپ دوسروں کا خیال رکھیں۔ جب آپ دوسروں کا خیال رکھیں گے تو اس سے وہ دروازے کھل جائیں گے جو کسی دوسری خوبی سے نہیں کھلتے۔ ملنساری عمیق اخلاقی رجحان سے جنم لیتی ہے۔ اس پر خرچ کچھ بھی نہیں ہوتا، جب کہ اس سے حاصل بہت کچھ ہوتا ہے۔

کوئی بھی شخص چاہے کتنا مرضی مصروف ہو اور چاہے کتنے بڑے عہدے پر فائز کیوں نہ ہو، وہ ملنساری اپنا سکتا ہے۔ ملنساری یہ ہے کہ آپ بس یا ٹرین میں سفر کر رہے ہیں، اور کسی معذور یا بڑی عمر کے فرد کو کھڑا دیکھ کر اس کے لئے اپنی سیٹ خالی کر دیتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی سرمایہ کاری ہے، جس سے منافع بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے۔ اس سے دوسرے شخص کی اہمیت اور قدروقیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ایک ایسے معاشرے میں جو تفریق در تفریق کا شکار ہو رہا ہے ، یہ بہت ضروری ہے کہ ہم ایک دوسرے کے قریب آئیں، اور دوسروں کو احساس دلائیں کہ ہم ایک ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں