کہیں حسن گہنا نہ جائے

کراچی میں اس وقت پندرہ ہزار کے لگ بھگ بیوٹی پارلر ہیں جن میں سے صرف تین ہزار بیوٹی پارلر رجسٹرڈ ہیں۔


Sana Ghori March 03, 2013
خوب صورتی کے لیے بنیادی شرط صحت مند اور چمک دار جلد ہے۔ فوٹو: فائل

یوں تو خوب صورتی اور حسن وجمال کو عطیہ خداوندی تصور کیا جاتا ہے، لیکن اسے مزید سنوارنا، بدلتے تقاضوں اور اپنی منشا کے مطابق ڈھالنا اب کوئی مسئلہ نہیں رہا۔

محض تھوڑی سی کوشش سے اپنے روپ کو من چاہا رنگ دیا جا سکتا ہے۔ اُلجھے ہوئے اور بے رونق بالوں کو ایسا نرم و ملائم جگمگاتا بنا یا جا سکتا ہے کہ کسی کو گمان بھی نہیں رہتا کہ یہ زلفیں کبھی مسائل کا شکار رہی ہیں۔

چہرے اور ہاتھ پیروں کی اچھی رنگت کے ساتھ ان کے غیر ضروری بالوں کے لیے بھی اب جدید لیزر ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ آپ یقیناً سوچ رہی ہوں گی کہ آپ بھی اپنے روپ سنگھار کے لیے یہ سب کرتی ہیں، لیکن ٹھہریے،کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ اپنے حسن کے لیے جن ہاتھوں کا سہارا لے رہی ہیں وہ کس قدر ماہر اور تجربے کار ہیں؟ انہیں جلد اور بالوں جیسے حساس معاملے کے حوالے سے کس قدر معلومات ہیں اور وہ اس ضمن میں کیا حفاظتی تدابیر اختیار کر رہے ہیں؟ شاید بہت کم خواتین ایسی ہوں جو ان باتوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھتی ہوں۔

ایک اندازے کے مطابق کراچی میں اس وقت پندرہ ہزار کے لگ بھگ بیوٹی پارلر ہیں جن میں سے صرف تین ہزار بیوٹی پارلر رجسٹرڈ ہیں۔ مختلف پارلروں میں ایک لاکھ سے زاید خواتین کام کرتی ہیں۔ انسانی جلد جیسے حساس معاملے کے لیے ان خواتین کو صرف تین ماہ کا بیوٹیشن کورس کرایا جاتا ہے، جس کے بعد یہ خواتین اپنا بیوٹی پارلر کھول لیتی ہیں یا کسی بیوٹی پارلر سے وابستہ ہو جاتی ہیں۔ پھر ہمارے معاشرے میں اب تو سجنے سنورنے کے لیے ان پارلروں کا رخ کرنا ایک فخریہ رواج بن چکا ہے۔

بیوٹیشن اگر تعلیم یافتہ ہوں بھی تو وہ اکثر استعمال کی جانے والی اشیا اور مصنوعات میں شامل جزئیات اور ان کے دیگر اثرات سے ناواقف ہوتی ہیں، جس کے نتائج خواتین کو بھگتنے پڑتے ہیں، چوں کہ اس کام کے ذریعے بہ آسانی پیسے کمائے جا سکتے ہیں، اس لیے بہت سے پارلروں میں غیر تربیت یافتہ بیوٹیشن کی خدمات اور غیر معیاری مصنوعات استعمال کی جاتی ہیں، جس کے نتیجے میں خواتین میں مختلف جلدی امراض میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق روزانہ جلدی امراض میں مبتلا 8 سے 10 خواتین کلینکس اور اسپتال کا رخ کرتی ہیں۔ بہت سے واقعات ایسے بھی ہیں جن میں انہیں مختلف سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑا، جیسے سر کے بال اترنا، چہرے اور ہاتھ، پیروں کی جلد کا خراب اور بد رنگ ہوجانا یا جھلس جانا، خطرناک کیمیائی اجزا کی حامل ناقص منہدی سے شدید الرجی اور ہاتھوں میں کالے دھبّے پڑنے کی شکایت بھی پائی جاتی ہیں۔

آج ہمارے پارلروں میں ایک دن میں گورا کرنے والے فیشلز تو موجود ہیں جو فوری نتائج بھی دیتے ہیں، لیکن اس کے بعد بعض اوقات چہرے پر روکھا پن، جلد کا بے جان ہو جانا، جھریاں پڑجانا اور رنگت کی خرابی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک تاثر یہ بھی ہے کہ یہ کیمیائی اجزا جسم کے بیرونی حصّوں پر ہی اثر انداز ہوتے ہیں، جب کہ ایسا ہر گز نہیں۔ مختلف بیوٹی پروڈکٹس میں شامل یہ خطرناک کیمیکل جلد میں جذب ہو کر جلد کے اندرونی نظام کو بھی شدید متاثر کرتے ہیں۔

بہت سی خواتین ان غیر معیاری بیوٹی پارلروں کا شکار ہو کر شدید ذہنی الجھن کا شکار ہیں، لیکن کیا کیجیے کہ صنف نازک سے خوب صورتی اور سجنے سنورنے کی خواہش جدا کرنا ایسا ہی ہے جیسے کسی پھول سے اس کی خوش بو الگ کرنے کی بات کی جائے، پھر اکثر خواتین کے خوب صورت ہونے اور نہ ہونے کا تعین بھی دوسرے ہی کرتے ہیں۔ اس لیے خوب صورت سے خوب صورت خاتون کا بھی اپنے حسن سے متعلق احساس کم تری میں مبتلا ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں،

خوب صورت نظر آنا ہر ایک کا حق ہے مگر اس کے لیے توازن اور احتیاط دونوں کی ضرورت ہوتی ہے، ورنہ آپ کی جیب اور قدرتی دل کشی پر شدید اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک طرف آپ اپنی جلد کی رہی سہی صحت اور خوب صورتی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں تو دوسری طرف آپ اور بھی زیادہ اذیت اور کوفت کا شکار ہو کر اس وقت کو کوس رہی ہوتی ہیں، جب آپ نے مسائل کا سبب بننے والے بیوٹیشن کا رخ کیا ہوتا ہے۔

بہتر یہ ہے کہ بیوٹی پارلر کا رخ کرتے لمحے کم سے کم وہاں کی مہارت اور قابلیت کو ضرور ملحوظ رکھیں، بہ صورت دیگر آپ کے گھریلو ٹوٹکے ہی اس کا بہتر متبادل ہیں جو اگر اتنے کارگر نہ بھی ہوں تو کم سے کم اپنے مضر اثرات بھی نہیں رکھتے۔

بہت سی خواتین اپنی بھوئوں کی تراش خراش بھی کرتی ہیں اور اس بات کا خیال نہیں رکھتیں کہ مستقل اور خصوصاً چھوٹی عمر میں بھوئیں ترشوانے سے آنکھ کا نازک ترین اوپری حصّہ (پپوٹا) ڈھیلا پڑ جاتا ہے، جس سے خواتین کے چہرے کی خوب صورتی متاثر ہونے لگتی ہے۔ بھوئوں کی یہ تراش خراش جلد کو سخت کر دیتی ہے، جس کی وجہ سے چہرے کی عضلات میں تبدیلی ہوتی ہے اور دیکھنے والوں کو اس میں بے ساختگی یا معصومیت کی کمی محسوس ہوتی ہے۔

یہ بات بھی یاد رکھیے کہ مختلف قسم کی کریموں کا مرکب استعمال کر کے آپ کی رنگت ایک ہفتے میں نکھر ضرور جائے گی لیکن طبی ماہرین کے مطابق ایسی مصنوعات تیزی سے جلدی امراض میں اضافہ کر رہی ہیں۔ خوب صورتی کے لیے بنیادی شرط صحت مند اور چمک دار جلد ہے۔ چہرے پہ موجود بالوں کی وجہ سے احساس کم تری کا شکار ہونا ٹھیک نہیں۔ غیر ضروری بالوں کے خاتمے کے لیے صرف اور صرف کسی ماہر ڈرماٹالوجسٹ سے رابطہ کریں۔ بہت سی مائیں کم عمری میں ہی اپنی بچیوں کے چہرے کی ویکسنگ کروادیتی ہیں، جو کہ انتہائی غلط اقدام ہے۔ اول تو چہرے کے بالوں کو یوں مستقل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا واحد حل لیزر ٹریٹمنٹ ہی ہوتا ہے جو کہ ایک مہنگا عمل ہے۔ ساتھ ہی لیزر ٹریٹمنٹ ایک جلدی امراض کا ڈاکٹر ہی کر سکتا ہے، کوئی بیوٹی پارلر یا صرف بیوٹیشن نہیں! پرانے زمانے میں مائیں بچوں کی پیشانی کا رواں دیسی ٹوٹکوں سے نکالتی تھیں، جن کا چلن آج کل خاصا کم ہو گیا ہے۔

خوب صورت نظر آنے کی خواہش ہر شخص کرتا ہے۔ خواتین اِس حوالے سے زیادہ حساس ہوتی ہیں اِس لیے بیوٹی پارلروں کی بھرمار ہے۔ بیوٹی پارلروں کے کام میں گذشتہ چند برسوں میں بے حد ترقی ہوئی ہے۔ حکومت کی جانب سے بیوٹی پارلر کھولنے کے لیے کوئی طریقہ وضع نہیں کیا گیا نہ حکومت سے کوئی اجازت لینا ہوتی ہے اور نہ کسی قسم کا اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہر دوسرا شخص اسے معقول کاروبار سمجھتے ہوئے شروع کر رہا ہے، جس کے نتائج جلد بازی اور غفلت کا مظاہرہ کرنے والی خواتین بھگت رہی ہیں، لہٰذا خواتین کو خود ہی اپنے ان معاملات سے متعلق احتیاط کرنی ہوگی۔ محض تھوڑی سی احتیاط آپ کو مستقبل میں چہرے، بالوں یا جلد وغیرہ کے کسی بڑے مسئلے سے بچا سکتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں