’’بھوت آجائے گا۔۔۔‘‘

رشتہ داروں کے گھر پلنے والے بچے میں بھی بعض اوقات کئی طرح کی ذہنی و نفسیاتی الجھنیں اور خوف پیدا ہوسکتے ہیں۔

ڈر خوف جذباتی ہیجان اور فطری ضروریات سے محرومی کے باعث بچہ ہر وقت روتا اور چلاتا ہے۔ فوٹو: فائل

والدین کی لاعلمی و لاپروائی کے باعث بعض اوقات بچوں میں بے جا خوف پیدا ہو جاتا ہے۔نتیجتاً بچہ خود اعتمادی سے محروم ہو جاتا ہے اور اکیلے رہنے سے ڈرنے لگتا ہے ۔

زندہ رہنے کی قدرتی خواہش اس کو بیرونی ماحول سے رابطہ رکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ بچے کی شخصیت کی تعمیر ماں کے رویے پر منحصر ہے کیوں کہ بچے کو فطری طور پر صرف غذا کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہ ماں کے پیار کا بھی بھوکا ہوتا ہے۔ یہ پیار اور ممتا کا احساس بچے میں تحفظ کا احساس پیدا کرتا ہے اور وہ پرسکون، مطمئن اور خوش دل بچہ بنتا ہے، لیکن اگر بچے کی ضرورت کا احساس نہ کیا جائے اور پیار کے بہ جائے غصہ کیا جائے یا مارا پیٹا جائے تو بچے میں ڈر اور خوف پیدا ہو جاتا ہے۔

ڈر خوف جذباتی ہیجان اور فطری ضروریات سے محرومی کے باعث بچہ ہر وقت روتا اور چلاتا ہے اور چڑچڑا ہو جاتا ہے، اس وقت بھی بعض والدین بچے کی اندرونی کیفیات کو سمجھنے کے بہ جائے اسے مزید سختی سے جھڑکتے ہیں چناں چہ وہ اور بھی سہم جاتا ہے۔ یہ احساس اگر مستقل ہو اور بچہ ماں کی توجہ محبت و شفقت سے مسلسل محروم رہے تو جذباتی عدم تحفظ کے احساسات کے ساتھ اس میں غیر محفوظ ہونے کا خوف ابھرنے لگتا ہے۔

ماں کے بعد بچے میں پیار کی فطری طلب باپ کو اس کے ماحول کا جز بناتی ہے اور بچہ چاہتا ہے کہ باپ بھی اس سے پیار کرے اس سے کھیلے اور باتیں کرے، لیکن اگر باپ سے بھی بچے کو شفقت و محبت بھرا احساس نہیں ملتا تو بچے کے اندر محبت و شفقت کی پیاس بڑھ جاتی ہے۔ آیائوں کے ہاتھوں پلنے والے بچوں کی ذہنی و نفسیاتی حالت اس کا واضح ثبوت ہے۔ ماں جب بچے کو گود میں اٹھاتی ہے، پیار کرتی ہے، تو بچہ خود کو بہت محفوظ اور مطمئن و پرسکون محسوس کرتا ہے۔ ایسا بچہ آگے چل کر بہت متحمل مزاج، پر اعتماد اور خوش دل انسان بنتا ہے۔ بہ صورت دیگر بچوں میں جذباتی عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ کئی طرح کے نفسیاتی و ذہنی مسائل اور وہم و خوف پیدا ہو جاتے ہیں۔ ایسے بچے بڑے ہو کر عموماً خشک مزاج سنجیدہ یا جارح پسند ہو جاتے ہیں۔


عموماً چھ سال کی عمر تک بچے کوئی نہ کوئی عارضی خوف محسوس کرتے ہیں، ایسے میں اگر والدین نرمی، شفقت و محبت اور بھرپور توجہ کے ساتھ بچے کے اس خوف کو دور کر دیں تو اس کی آیندہ زندگی پرسکون گزرتی ہے، لیکن اگر والدین بچے کی اس ذہنی و جسمانی کیفیت کا درست اندازہ نہ کر سکیں یا عدم توجہ کا مظاہرہ کریں، ہر ایک کے سامنے بچے کے خوف کا ذکر کریں، اس کا مذاق اڑائیں یا خود بچے کو بار بار کسی چیز، واقعہ یا بات سے ڈراتے رہیں یا خوف کی حالت میں جب بچے کو ماں باپ کی توجہ محبت اور تحفظ کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو اور وہ ان کے قریب آنا چاہے تو اسے جھڑک کر خود سے دور کر دیں یا ناگواری کا اظہار کریں تو پھر خوف کی یہ حالت بچے میں مستقل ٹھہر جاتی ہے اور اس کی آیندہ زندگی کو متاثر کرنے کے ساتھ کئی طرح کے نفسیاتی و جسمانی مسائل پیدا کرتی ہے۔

مشترکہ خاندانی نظام میں ایک ہی گھر میں مختلف عمر، حیثیتوں اور مزاج کے بڑے افراد کے ساتھ چھوٹے بڑے بچے بھی موجود ہوتے ہیں۔ ہر عمر کے بچوں کی پرورش و تربیت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں، لیکن مشترکہ خاندانی نظام میں عموماً بڑے بچے گھر کے چھوٹے بچوں کو اپنے دبائو میں رکھتے ہیں۔

وہ بچہ جو اکائی خاندانی نظام میں رہتا ہے اور ماں باپ دونوں ملازمت پیشہ ہونے یا اپنی ذاتی و نجی مصروفیات و سرگرمیوں کے باعث دن کا بیشتر وقت گھر سے باہر گزارتے ہیں اور بچے کو گھر میں تنہا ملازموں اور آیائوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے تو ایسے بچے میں عدم تحفظ کے احساس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ رشتہ داروں کے گھر پلنے والے بچے میں بھی بعض اوقات کئی طرح کی ذہنی و نفسیاتی الجھنیں اور خوف پیدا ہوسکتے ہیں۔

اکثر مائیں بچوں کو شرارتوں سے باز رکھنے اور اپنا کہنا منوانے کے لیے مختلف چیزوں سے ڈراتے ہیں جو انہیں مستقبل میں مختلف مسائل سے دوچار کرتے ہیں۔ اس ہی طرح کے خوف کا شکار ایک چار سالہ بچی کو بچپن میں سلانے کے لیے ڈرایا جاتا کہ ''لیٹی رہو ورنہ بھوت آجائے گا!'' ساتھ ہی اس کی ماں پلنگ پر انگلی سے ٹک ٹک کی آواز پیدا کرتی کہ دیکھو بھوت آرہا ہے اور خود ڈرائونی سی آواز بنا کر کہتی کہ ''میں آرہا ہوں، کون بچہ سو نہیں رہا، میں اسے کھا جائوں گا!'' یوں وہ بچپن میں تو سو جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس میں اس آواز کا اتنا خوف پیدا ہوا کہ وہ جہاں بھی ٹک ٹک کی آواز سنتی، سہم جاتی، حتیٰ کہ چھت پر کسی کے چلنے، کودنے، کیل ٹھوکنے یا دروازہ کھلنے کی آوازوں سے بھی خوف محسوس کرتی ہے اور ڈر جاتی ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے میں والدین کو خصوصی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ان کے بچے مستقل میں کسی ایسی کیفیت سے بچ سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کی عزت نفس کو متاثر کرنے والے کاموں سے گریز کریں اور کسی موقع پر اگر بچہ کسی چیز سے ڈر جائے تو بہ جائے اسے مزید خوف زدہ کرنے کے، اسے اس کیفیت سے باہر لے کر آئیں اور اسے حقیقت سے آگاہ کریں تاکہ مستقبل میں اس کی شخصیت کسی منفی اثر سے محفوظ رہ سکے۔
Load Next Story