پولیس نے چھرا مار جنونی کی عدم گرفتاری کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا
عوام کی جان و مال کے محافظ ہی انہیں سرعام لوٹ رہے ہیں
شہر قائد میں پولیس گردی کے بڑھتے واقعات، شہریوں کو اغوا کر کے تاوان اور سر عام رشوت وصولی کے واقعات نے ایک جانب کراچی پولیس کی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے تو دوسری جانب چھرا مار جنونی ملزم کی گرفتاری کی آڑ میں بے گناہ افراد کو اغوا کے بعد ان وارداتوں میں ملوث کر کے مبینہ طور پر بھاری تاوان وصول کرنے پر اے وی سی سی (اینٹی وائلنٹ کرائم سیل) پولیس کے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او سمیت 3 افسران کی گرفتاری نے کراچی پولیس چیف کی دوبارہ تعیناتی پر کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار کراچی پولیس کی جانب سے تادم تحریر کسی بھی واقعہ پر کوئی ردعمل تک سامنے نہیں آیا۔ شہر میں بدستور اسٹریٹ کرائمز کا جن بے قابو ہے، شہریوں سے رشوت وصولی، پولیس گردی اور عوام سے چھینا جھپٹی کی وارداتوں کی کئی فوٹیجز سامنے آنے پر نہ تو پولیس حکام کی جانب سے کوئی فوری ایکشن لیا جاتا ہے اور نہ ہی ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، تاہم آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ویڈیو فوٹیجز منظر عام پر آنے کے بعد واقعہ کا نوٹس ضرور لیتے ہیں، جس پر کسی حد تک کارروائی بھی ہوتی ہے۔
گزشتہ ماہ 25 ستمبر سے گلستان جوہر کے علاقے میں سر راہ خواتین کو تیز دھار آلے کے وار سے زخمی کرنے کے واقعات، بعدازاں گلشن جمال ، گلشن اقبال ، عزیز بھٹی ، حسن اسکوائر ، فیڈرل بی ایریا اور سعود آباد تک پہنچ چکے ہیں، لیکن ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پولیس جنونی ملزم کو نہ صرف گرفتار کرنے میں ناکام رہی بلکہ تاحال اس کی شناخت تک نہیں ہو سکی۔ پولیس کی ساری تفتیش ساہیوال اور چیچہ وطنی میں خواتین کو تیز دھار آلے سے وار کرنے والے ملزم وسیم کے گرد گھوم رہی ہے جسے پنجاب پولیس نے متعدد مقدمات میں گرفتار کیا ہوا ہے اور اس ملزم کی حوالگی کے لیے کراچی سے پولیس افسران پر مشتمل ایک ٹیم بھی اسے لینے گئی تھی، جسے ناکام واپس لوٹنا پڑا کیونکہ ملزم کا پنجاب پولیس نے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہوا ہے اور اس بنا پر اسے کراچی پولیس کے حوالے نہیں کیا جا سکا تاہم تفتیشی ٹیم نے وسیم سے تحقیقات ضرور کی تھیں، جو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔ لیکن دوسری طرف افسوسناک امر یہ ہے کہ پولیس نے ملزم کی گرفتار کو بھی کمائی کا ذریعہ بناتے ہوئے شہریوں کو اغوا کر کے ان وارداتوں میں ملوث کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں اس وقت منظر عام پر آیا جب جوڈیشنل مجسٹریٹ جنوبی نے کورنگی کے رہائشی جمال شاہ کی جانب سے عدالت میں دائر کی جانے والی درخواست پر گارڈن ہیڈ کوارٹرز میں قائم اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پر چھاپہ مار کر وہاں پر قید 7 افراد کو بازیاب کرالیا جس میں 2 بھائی خلیل اور جمال کے علاوہ ان کا پڑوسی فیضان بھی شامل تھا اور ان ہی افراد کی بازیابی کے لیے عدالت میں پیٹیشن دائر کی گئی تھی، جوڈیشل مجسٹریٹ کے چھاپے پر بازیاب افراد کا کہنا تھا کہ پولیس کی نفری نے چند روز قبل انھیں ہمارے گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لیا تھا اور ہمیں دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ ان کا تعلق خواتین کو چھرا مانے والے ملزم سے ہے جبکہ ہمیں تشدد کا نشانہ بنا کر خوفزدہ بھی کیا جاتا رہا اور رہائی کے عوض 5 لاکھ روپے تاوان کو بھی مطالبہ کیا جاتا رہا۔ بازیاب افراد نے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پر مزید الزام عائد کیا کہ پولیس نے دو ہفتے قبل ہمارے ایک رشتے دار کو گھر سے اغوا کرنے کے بعد مبینہ طور پر 5 لاکھ روپے تاوان وصول کرنے کے بعد چھوڑا تھا، اس اطلاع پر آئی جی سندھ متحرک ہوگئے اور انھوں نے فوری طور پر واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا، جس پر شہریوں کو اغوا کے بعد تاوان وصولی کے الزام میں ڈی ایس پی ایڈمن، ایس ایچ او اے وی سی سی سمیت دیگر کو نہ صرف لاک اپ کر دیا گیا بلکہ نبی بخش تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرا دیا گیا۔
شہر میں اغوا برائے تاوان کے ملزمان کی گرفتاری اور دیگر سنگین جرائم کے سدباب کے لیے قائم کیا جانے والا اینٹی وائلنٹ کرائم سیل جب خود شہریوں کے اغوا میں ملوث ہونے لگے تو شہری کس کے در پر جا کر فریاد کریں تاہم اس واقعے کے بعد ڈی آئی جی سی آئی اے ثاقب اسمٰعیل میمن نے تمام صورتحال کو خود مانیٹر کرتے ہوئے کہا کہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے افسران جس میں ڈی ایس پی ایڈمن تصدیق وارث شیخ ، ایس ایچ او اے وی سی سی ارشاد اور سب انسپکٹر یونس کے خلاف شہریوں کو حبس بیجا میں رکھنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے تاہم اگر بازیاب کیے جانے والے افراد ان کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کرانا چاہیں تو پولیس ان سے تعاون کرے گی۔ اس واقعہ سے ایک روز قبل بھی جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیروز آباد تھانے میں چھاپہ مار کر بلوچ کالونی کے رہائشی کو بازیاب کرایا تھا جس کی رہائی کے عوض پولیس لاکھوں روپے تاوان کا مطالبہ کر رہی تھی اور اس واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ خواتین کو چھرا مارنے کی وارداتوں کے شک میں پولیس نے آصف نامی نوجوان کو بھی حراست لیا تھا اور اس پر مبینہ طور پر تشدد کے ذریعے پولیس دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ چھرا مارنے کی وارداتوں کو قبول کر لے تاہم زیر حراست آصف پولیس کے چنگل سے فرار ہونے کے بعد گھر پہنچ گیا تھا اور بعدازاں اسے جناح اسپتال طبی امداد کے لیے لایا گیا، جہاں اس نے پولیس کی کارکردگی کا بھانڈا پھوڑا تھا، جس پر پولیس افسران میں کھلبلی مچ گئی اور فوری طور پر جناح اسپتال میں زیر علاج آصف کو دوبارہ سے حراست میں لے لیا گیا، جسے بعدازاں ورثا اور اہل محلہ کے سخت احتجاج کے بعد خاموشی سے چھوڑ دیا گیا جس نے گھر آکر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا پولیس مجھ سے اس جرم کا اقرار کرا رہی تھی جو میں نے کیا ہی نہیں۔
چھرا مار جنونی ملزم کی گرفتاری کو جہاں پولیس نے کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے وہیں پر شہر کے دو علاقوں فیڈرل بی ایریا اور سعود میں بھی چھرا مار جنونی ملزم نے دو لڑکیوں کو زخمی کر دیا، جوہر آباد کے علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 9 عسکری امام بارگاہ سنگم گراؤنڈ کے قریب موٹر سائیکل پر بھائی کے ہمراہ جانے والی 15 سالہ ایرج دختر ناصر کو موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہنے ہوئے ملزم نے پشت پر تیز دھار آلے کے وار سے حملہ کر کے زخمی کر دیا، ضلع وسطی (سینٹرل زون) میں نوعمر لڑکی کو تیز دھار آلے کے وار سے زخمی کرنے کے پہلے واقعے نے پولیس کو ایک بار پھر سے چکرا دیا ہے کہ ایسا ہی واقعہ سعود آباد کے علاقے آلامین سوسائٹی میں بھی پیش آیا، جہاں ایک موٹر سائیکل سوار ملزم نے 20 سالہ جازبہ جاوید کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر تیز دھار آلے کے وار حملہ کر کے زخمی کر دیا اور موقع سے فرار ہوگیا ، زخمی لڑکی کے مطابق ملزم بغیر ہیلمٹ تھا تاہم وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکی جبکہ اس واقعہ کے حوالے سے ایس ایس پی کورنگی نعمان صدیقی نے بتایا کہ جازبہ پر حملہ گزشتہ واقعات سے مماثلت نہیں رکھا، اس واقعہ میں لڑکی کو ہاتھ پر جبکہ گزشتہ واقعات میں ملزم نے خواتین کو پشت پر وار کر کے زخمی کیا تھا۔
پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے شہریوں اور پولیس کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کرنے کے لیے کمیونٹی پولیسنگ کے فروغ اور تھانوں میں رپورٹنگ سنٹر قائم کر کے وہاں پر خوش اخلاق اور پڑھے لکھے پولیس افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے اور ماڈل تھانے بھی قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ تھانے میں آنے والے شہریوں کو اس بات کا احساس نہ ہو کہ وہ کسی پولیس اسٹیشن آئے ہیں ، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ تھانوں کی سطح کے ساتھ سڑکوں پر گشت کرنے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ شہریوں سے ہتک آمیز رویے کے بجائے شائستگی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ پولیس کی عدم برداشت اور شہریوں پر تشدد کے واقعات کی کئی فوٹیجز منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھی اب اس حوالے سے سخت فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ پولیس اور شہریوں کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کیا جا سکے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار کراچی پولیس کی جانب سے تادم تحریر کسی بھی واقعہ پر کوئی ردعمل تک سامنے نہیں آیا۔ شہر میں بدستور اسٹریٹ کرائمز کا جن بے قابو ہے، شہریوں سے رشوت وصولی، پولیس گردی اور عوام سے چھینا جھپٹی کی وارداتوں کی کئی فوٹیجز سامنے آنے پر نہ تو پولیس حکام کی جانب سے کوئی فوری ایکشن لیا جاتا ہے اور نہ ہی ملزمان کی گرفتاری کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، تاہم آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے ویڈیو فوٹیجز منظر عام پر آنے کے بعد واقعہ کا نوٹس ضرور لیتے ہیں، جس پر کسی حد تک کارروائی بھی ہوتی ہے۔
گزشتہ ماہ 25 ستمبر سے گلستان جوہر کے علاقے میں سر راہ خواتین کو تیز دھار آلے کے وار سے زخمی کرنے کے واقعات، بعدازاں گلشن جمال ، گلشن اقبال ، عزیز بھٹی ، حسن اسکوائر ، فیڈرل بی ایریا اور سعود آباد تک پہنچ چکے ہیں، لیکن ایک ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پولیس جنونی ملزم کو نہ صرف گرفتار کرنے میں ناکام رہی بلکہ تاحال اس کی شناخت تک نہیں ہو سکی۔ پولیس کی ساری تفتیش ساہیوال اور چیچہ وطنی میں خواتین کو تیز دھار آلے سے وار کرنے والے ملزم وسیم کے گرد گھوم رہی ہے جسے پنجاب پولیس نے متعدد مقدمات میں گرفتار کیا ہوا ہے اور اس ملزم کی حوالگی کے لیے کراچی سے پولیس افسران پر مشتمل ایک ٹیم بھی اسے لینے گئی تھی، جسے ناکام واپس لوٹنا پڑا کیونکہ ملزم کا پنجاب پولیس نے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہوا ہے اور اس بنا پر اسے کراچی پولیس کے حوالے نہیں کیا جا سکا تاہم تفتیشی ٹیم نے وسیم سے تحقیقات ضرور کی تھیں، جو کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔ لیکن دوسری طرف افسوسناک امر یہ ہے کہ پولیس نے ملزم کی گرفتار کو بھی کمائی کا ذریعہ بناتے ہوئے شہریوں کو اغوا کر کے ان وارداتوں میں ملوث کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔
ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں اس وقت منظر عام پر آیا جب جوڈیشنل مجسٹریٹ جنوبی نے کورنگی کے رہائشی جمال شاہ کی جانب سے عدالت میں دائر کی جانے والی درخواست پر گارڈن ہیڈ کوارٹرز میں قائم اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پر چھاپہ مار کر وہاں پر قید 7 افراد کو بازیاب کرالیا جس میں 2 بھائی خلیل اور جمال کے علاوہ ان کا پڑوسی فیضان بھی شامل تھا اور ان ہی افراد کی بازیابی کے لیے عدالت میں پیٹیشن دائر کی گئی تھی، جوڈیشل مجسٹریٹ کے چھاپے پر بازیاب افراد کا کہنا تھا کہ پولیس کی نفری نے چند روز قبل انھیں ہمارے گھر پر چھاپہ مار کر حراست میں لیا تھا اور ہمیں دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ ان کا تعلق خواتین کو چھرا مانے والے ملزم سے ہے جبکہ ہمیں تشدد کا نشانہ بنا کر خوفزدہ بھی کیا جاتا رہا اور رہائی کے عوض 5 لاکھ روپے تاوان کو بھی مطالبہ کیا جاتا رہا۔ بازیاب افراد نے اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پر مزید الزام عائد کیا کہ پولیس نے دو ہفتے قبل ہمارے ایک رشتے دار کو گھر سے اغوا کرنے کے بعد مبینہ طور پر 5 لاکھ روپے تاوان وصول کرنے کے بعد چھوڑا تھا، اس اطلاع پر آئی جی سندھ متحرک ہوگئے اور انھوں نے فوری طور پر واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ملوث پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا، جس پر شہریوں کو اغوا کے بعد تاوان وصولی کے الزام میں ڈی ایس پی ایڈمن، ایس ایچ او اے وی سی سی سمیت دیگر کو نہ صرف لاک اپ کر دیا گیا بلکہ نبی بخش تھانے میں ان کے خلاف مقدمہ بھی درج کرا دیا گیا۔
شہر میں اغوا برائے تاوان کے ملزمان کی گرفتاری اور دیگر سنگین جرائم کے سدباب کے لیے قائم کیا جانے والا اینٹی وائلنٹ کرائم سیل جب خود شہریوں کے اغوا میں ملوث ہونے لگے تو شہری کس کے در پر جا کر فریاد کریں تاہم اس واقعے کے بعد ڈی آئی جی سی آئی اے ثاقب اسمٰعیل میمن نے تمام صورتحال کو خود مانیٹر کرتے ہوئے کہا کہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے افسران جس میں ڈی ایس پی ایڈمن تصدیق وارث شیخ ، ایس ایچ او اے وی سی سی ارشاد اور سب انسپکٹر یونس کے خلاف شہریوں کو حبس بیجا میں رکھنے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے تاہم اگر بازیاب کیے جانے والے افراد ان کے خلاف اغوا برائے تاوان کا مقدمہ درج کرانا چاہیں تو پولیس ان سے تعاون کرے گی۔ اس واقعہ سے ایک روز قبل بھی جوڈیشل مجسٹریٹ نے فیروز آباد تھانے میں چھاپہ مار کر بلوچ کالونی کے رہائشی کو بازیاب کرایا تھا جس کی رہائی کے عوض پولیس لاکھوں روپے تاوان کا مطالبہ کر رہی تھی اور اس واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ خواتین کو چھرا مارنے کی وارداتوں کے شک میں پولیس نے آصف نامی نوجوان کو بھی حراست لیا تھا اور اس پر مبینہ طور پر تشدد کے ذریعے پولیس دباؤ ڈال رہی تھی کہ وہ چھرا مارنے کی وارداتوں کو قبول کر لے تاہم زیر حراست آصف پولیس کے چنگل سے فرار ہونے کے بعد گھر پہنچ گیا تھا اور بعدازاں اسے جناح اسپتال طبی امداد کے لیے لایا گیا، جہاں اس نے پولیس کی کارکردگی کا بھانڈا پھوڑا تھا، جس پر پولیس افسران میں کھلبلی مچ گئی اور فوری طور پر جناح اسپتال میں زیر علاج آصف کو دوبارہ سے حراست میں لے لیا گیا، جسے بعدازاں ورثا اور اہل محلہ کے سخت احتجاج کے بعد خاموشی سے چھوڑ دیا گیا جس نے گھر آکر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا پولیس مجھ سے اس جرم کا اقرار کرا رہی تھی جو میں نے کیا ہی نہیں۔
چھرا مار جنونی ملزم کی گرفتاری کو جہاں پولیس نے کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے وہیں پر شہر کے دو علاقوں فیڈرل بی ایریا اور سعود میں بھی چھرا مار جنونی ملزم نے دو لڑکیوں کو زخمی کر دیا، جوہر آباد کے علاقے فیڈرل بی ایریا بلاک 9 عسکری امام بارگاہ سنگم گراؤنڈ کے قریب موٹر سائیکل پر بھائی کے ہمراہ جانے والی 15 سالہ ایرج دختر ناصر کو موٹر سائیکل سوار ہیلمٹ پہنے ہوئے ملزم نے پشت پر تیز دھار آلے کے وار سے حملہ کر کے زخمی کر دیا، ضلع وسطی (سینٹرل زون) میں نوعمر لڑکی کو تیز دھار آلے کے وار سے زخمی کرنے کے پہلے واقعے نے پولیس کو ایک بار پھر سے چکرا دیا ہے کہ ایسا ہی واقعہ سعود آباد کے علاقے آلامین سوسائٹی میں بھی پیش آیا، جہاں ایک موٹر سائیکل سوار ملزم نے 20 سالہ جازبہ جاوید کو بائیں ہاتھ کی کلائی پر تیز دھار آلے کے وار حملہ کر کے زخمی کر دیا اور موقع سے فرار ہوگیا ، زخمی لڑکی کے مطابق ملزم بغیر ہیلمٹ تھا تاہم وہ اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکی جبکہ اس واقعہ کے حوالے سے ایس ایس پی کورنگی نعمان صدیقی نے بتایا کہ جازبہ پر حملہ گزشتہ واقعات سے مماثلت نہیں رکھا، اس واقعہ میں لڑکی کو ہاتھ پر جبکہ گزشتہ واقعات میں ملزم نے خواتین کو پشت پر وار کر کے زخمی کیا تھا۔
پولیس کے اعلیٰ افسران کی جانب سے شہریوں اور پولیس کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کرنے کے لیے کمیونٹی پولیسنگ کے فروغ اور تھانوں میں رپورٹنگ سنٹر قائم کر کے وہاں پر خوش اخلاق اور پڑھے لکھے پولیس افسران کو تعینات کیا جا رہا ہے اور ماڈل تھانے بھی قائم کیے جا رہے ہیں تاکہ تھانے میں آنے والے شہریوں کو اس بات کا احساس نہ ہو کہ وہ کسی پولیس اسٹیشن آئے ہیں ، لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ تھانوں کی سطح کے ساتھ سڑکوں پر گشت کرنے والے پولیس افسران اور اہلکاروں کو بھی اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ شہریوں سے ہتک آمیز رویے کے بجائے شائستگی اور خوش اخلاقی سے پیش آئیں۔ پولیس کی عدم برداشت اور شہریوں پر تشدد کے واقعات کی کئی فوٹیجز منظر عام پر آنے کے بعد پولیس کے اعلیٰ افسران کو بھی اب اس حوالے سے سخت فیصلے کرنا ہوں گے تاکہ پولیس اور شہریوں کے درمیان حائل فاصلوں کو کم کیا جا سکے۔