مفتی عبدالقوی گرفتار…قندیل بلوچ کیس کیا درست سمت چل پڑا
مفتی عبدالقوی قندیل کے قتل کی وجہ بنا، ایس پی کینٹ ڈاکٹر فہد
DUBAI:
ماڈل قندیل بلوچ کو قتل ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر قتل کی تفتیش تاحال مکمل نہیں ہو سکی، تاہم پولیس نے ایک سال اور تین ماہ کی تاخیر کے بعد مفتی عبدالقوی کواعانت جرم کے الزام میں گرفتارکر لیا ہے۔
پولیس نے اس مقدمے کی طویل تفتیش کی ہے، جس دوران پولیس نے اعانت جرم کے الزام میں مفتی عبدالقوی کو اس مقدمے میں نامزد کر دیا تھا مگر ایک سال تک پولیس نے نامعلوم وجوہات کی وجہ سے ملزم کی گرفتاری سے گریز کیا، بااثر ملزم کوخصوصی رعایت دی گئی اور مقدمے میں نامزد ہونے کے باوجودکئی ماہ تک اسے گرفتار نہیں کیا گیا، تاہم گزشتہ دنوں ایک اعلی افسر کی ہدایت پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کو 15 جولائی 2016ء کو مظفر آباد پولیس کے علاقے میں غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔
مقتولہ کے والد محمد عظیم کی درخواست پر پولیس نے قندیل کے بھائی وسیم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا تھا جبکہ محمد عظیم نے اپنے دوسرے بیٹے اسلم شاہین پر اعانت جر م کا الزام لگایا تھا۔ دوران تفتیش ملزم وسیم نے پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنے کزن حق نواز کے ساتھ مل کر اپنی ہمشیرہ کا گلا دبا کر قتل کیا، جس پر پولیس نے حق نواز کو بھی گرفتار کر لیا تھا، بعدازاں مدعی نے مفتی عبدالقوی اور دیگرملزمان پر بھی قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگا دیا۔
پولیس کی جانب سے گرفتاری کے فیصلے کا علم ہونے پر ملزم مفتی عبد القوی نے اس مقدمے میں عبوری ضمانت کر وا لی تھی، تاہم بعدازاں عدالت نے قرار دیا کہ پولیس نے ملزم کا قندیل بلوچ اور مقدمہ کے ملزموں کے ساتھ رابطے کا کال ڈیٹا حاصل کیا ہے جس کی روشنی میں ملزم ٹھہرایا گیا ہے اور کوئی بدنیتی بادی النظر میں سامنے نہیں آئی، اس لئے ضمانت خارج کی جاتی ہے۔ عدالت میں ضمانت منسوخ ہونے پر ملزم عدالت سے فرار ہو گیا اور مظفر گڑھ میں جھنگ بائی پاس کے قریب اپنے ایک دوست کے گھر میں پناہ لے لی، مفتی عبدالقوی نے اپنا موبائل فون اور گاڑی ڈرائیور کے حوالے کر دی اور اسے ملتان شہر کی طرف روانہ کر دیا پولیس نے مفتی کے موبائل فون کو ٹریس کر کے ڈرائیور کو گرفتار کیا، پھر ڈرائیور کی نشاندہی پر پولیس نے چھاپہ مار کر ملزم کو گرفتار کر لیا۔ مفتی عبدالقوی کو گرفتاری کے بعد پولیس لائن منتقل کیا گیا جہاں پر سی پی او ملتان محمد سلیم نے ملزم سے خود تفتیش کی، تفتیش کے بعد ملزم کو تھانہ چہلیک منتقل کر دیا گیا۔ سٹی پولیس آفیسر ملتان محمد سلیم نے قندیل بلوچ قتل کیس کے تفتیشی افسر نور اکبر کو ناقص تفتیش کرنے اور ملزم کو عدالت سے فرار میں مدد دینے کے الزام میں ملازمت سے برطرف اور اسے گرفتاری کا حکم دیا، جس پر مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے قبل قندیل بلوچ قتل کیس کی تفتیش کر نے والے سب سے پہلے تفتیشی افسر الیاس حید ر کوبھی ناقص تفتیش کے الزام میں معطل کیا گیا تھا۔
اس اہم مقدمے کی تفتیش کی نگرانی چار ضلعی پولیس سربراہان کر چکے ہیں، ان میں سابق سی پی اوملتان محمداظہر اکرم ،ڈاکٹر رضوان ، احسن یونس اور موجودہ سی پی او محمدسلیم شامل ہیں۔ قندیل بلوچ قتل کیس میں افسران کی غیر ضروری دلچسپی اور بعض تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے تفتیش میں بے شمار خامیاں سامنے آئی ہیں، تفتیشی افسران پر دباؤ ڈالا گیا اور میرٹ کے بجائے افسران کی خواہش کے مطابق تفتیش کرنے کی ہدایات ملتی رہیں۔ اس قتل کے مقدمہ کے اندراج میں ہی بے شمار خامیاں سامنے آئیں جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ مقدمے میں مقتولہ کا اصل نام درج نہیں ہے مقتولہ کا اصل نام فوزیہ عظیم ہے یہی نام اس کے شناختی کارڈ اور دیگر سرکاری دستاویزات پر بھی درج ہے لیکن ایف آئی آر میں مقتولہ کا نام قندیل بلوچ درج ہے۔ مقدمے میں کسی گواہ کا ذکر نہیں، گواہو ں کے بغیر ملزمان کو عدالت سے سزا دلوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایف آئی آر میں ایک طرف قندیل کو قتل کرنے کی وجہ غیرت قرار دیا گیا تو دوسری طرف یہ بھی لکھا گیا کہ ملزم وسیم نے پیسے کی لالچ میں قتل کیا، تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ملزم وسیم اور حق نواز نے قندیل کو قتل کیا سعودی عرب میں مقیم قندیل کے بھائی عارف نے قتل کا منصوبہ بنایا اور اس نے اپنے بھائی وسیم کو قتل پر اکسایا، عارف نے اپنے خاندان والوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر قندیل کو قتل نہ کیا گیا تو وہ خود کشی کر لے گا۔ مقتولہ کے بھائی اسلم شاہین کے اعانت جرم میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے۔ ان چارملزمان کے علاوہ متعدد بے گناہ افراد کو اس مقدمے میں ملوث کیا گیا اور انہیں گرفتار کروا کر رقوم ہتھیائی گئیں۔
اس ضمن میں ایس پی کینٹ ڈاکٹر فہد نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ مفتی عبدالقوی قتل کی وجہ بنا، اس کے ساتھ قندیل کی تصاویر منظر عام پر آ نے کے بعد اس کے بھائیوں نے قتل کا فیصلہ کیا۔ مقتولہ قندیل نے قتل سے کچھ عرصہ قبل اپنے بیان میں کہاتھا کہ اسے مفتی عبدالقوی سے جان کا خطرہ ہے، اس نے تحفظ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا ۔ قندیل بلوچ قتل کیس میں مفتی عبدالقوی ان دنوں پولیس کی تحویل میں ہے اور وہ ملزم سے تفتیش کر رہی ہے، گرفتاری کے فورا بعد ملزم نے شکایت کی کہ اسے دل کی تکلیف شروع ہوگئی ہے جس پر انہیں ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروا دیا گیا جہاں پر پانچ روز داخل رہنے کے بعد انہیں ڈسچارج کر دیا گیا، ذرائع کا کہنا ہے مفتی عبدالقوی بالکل تندرست ہیں، انہوں نے تفتیش سے بچنے کے لئے بیماری کا ڈرامہ کیا ہے۔
ماڈل قندیل بلوچ کو قتل ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مگر قتل کی تفتیش تاحال مکمل نہیں ہو سکی، تاہم پولیس نے ایک سال اور تین ماہ کی تاخیر کے بعد مفتی عبدالقوی کواعانت جرم کے الزام میں گرفتارکر لیا ہے۔
پولیس نے اس مقدمے کی طویل تفتیش کی ہے، جس دوران پولیس نے اعانت جرم کے الزام میں مفتی عبدالقوی کو اس مقدمے میں نامزد کر دیا تھا مگر ایک سال تک پولیس نے نامعلوم وجوہات کی وجہ سے ملزم کی گرفتاری سے گریز کیا، بااثر ملزم کوخصوصی رعایت دی گئی اور مقدمے میں نامزد ہونے کے باوجودکئی ماہ تک اسے گرفتار نہیں کیا گیا، تاہم گزشتہ دنوں ایک اعلی افسر کی ہدایت پر پولیس نے ملزم کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والی فوزیہ عظیم عرف قندیل بلوچ کو 15 جولائی 2016ء کو مظفر آباد پولیس کے علاقے میں غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا تھا۔
مقتولہ کے والد محمد عظیم کی درخواست پر پولیس نے قندیل کے بھائی وسیم کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا تھا جبکہ محمد عظیم نے اپنے دوسرے بیٹے اسلم شاہین پر اعانت جر م کا الزام لگایا تھا۔ دوران تفتیش ملزم وسیم نے پولیس کو بتایا کہ اس نے اپنے کزن حق نواز کے ساتھ مل کر اپنی ہمشیرہ کا گلا دبا کر قتل کیا، جس پر پولیس نے حق نواز کو بھی گرفتار کر لیا تھا، بعدازاں مدعی نے مفتی عبدالقوی اور دیگرملزمان پر بھی قتل میں ملوث ہونے کا الزام لگا دیا۔
پولیس کی جانب سے گرفتاری کے فیصلے کا علم ہونے پر ملزم مفتی عبد القوی نے اس مقدمے میں عبوری ضمانت کر وا لی تھی، تاہم بعدازاں عدالت نے قرار دیا کہ پولیس نے ملزم کا قندیل بلوچ اور مقدمہ کے ملزموں کے ساتھ رابطے کا کال ڈیٹا حاصل کیا ہے جس کی روشنی میں ملزم ٹھہرایا گیا ہے اور کوئی بدنیتی بادی النظر میں سامنے نہیں آئی، اس لئے ضمانت خارج کی جاتی ہے۔ عدالت میں ضمانت منسوخ ہونے پر ملزم عدالت سے فرار ہو گیا اور مظفر گڑھ میں جھنگ بائی پاس کے قریب اپنے ایک دوست کے گھر میں پناہ لے لی، مفتی عبدالقوی نے اپنا موبائل فون اور گاڑی ڈرائیور کے حوالے کر دی اور اسے ملتان شہر کی طرف روانہ کر دیا پولیس نے مفتی کے موبائل فون کو ٹریس کر کے ڈرائیور کو گرفتار کیا، پھر ڈرائیور کی نشاندہی پر پولیس نے چھاپہ مار کر ملزم کو گرفتار کر لیا۔ مفتی عبدالقوی کو گرفتاری کے بعد پولیس لائن منتقل کیا گیا جہاں پر سی پی او ملتان محمد سلیم نے ملزم سے خود تفتیش کی، تفتیش کے بعد ملزم کو تھانہ چہلیک منتقل کر دیا گیا۔ سٹی پولیس آفیسر ملتان محمد سلیم نے قندیل بلوچ قتل کیس کے تفتیشی افسر نور اکبر کو ناقص تفتیش کرنے اور ملزم کو عدالت سے فرار میں مدد دینے کے الزام میں ملازمت سے برطرف اور اسے گرفتاری کا حکم دیا، جس پر مقدمہ درج کرکے اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے قبل قندیل بلوچ قتل کیس کی تفتیش کر نے والے سب سے پہلے تفتیشی افسر الیاس حید ر کوبھی ناقص تفتیش کے الزام میں معطل کیا گیا تھا۔
اس اہم مقدمے کی تفتیش کی نگرانی چار ضلعی پولیس سربراہان کر چکے ہیں، ان میں سابق سی پی اوملتان محمداظہر اکرم ،ڈاکٹر رضوان ، احسن یونس اور موجودہ سی پی او محمدسلیم شامل ہیں۔ قندیل بلوچ قتل کیس میں افسران کی غیر ضروری دلچسپی اور بعض تنظیموں کے دباؤ کی وجہ سے تفتیش میں بے شمار خامیاں سامنے آئی ہیں، تفتیشی افسران پر دباؤ ڈالا گیا اور میرٹ کے بجائے افسران کی خواہش کے مطابق تفتیش کرنے کی ہدایات ملتی رہیں۔ اس قتل کے مقدمہ کے اندراج میں ہی بے شمار خامیاں سامنے آئیں جس سے ملزمان کو فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ مقدمے میں مقتولہ کا اصل نام درج نہیں ہے مقتولہ کا اصل نام فوزیہ عظیم ہے یہی نام اس کے شناختی کارڈ اور دیگر سرکاری دستاویزات پر بھی درج ہے لیکن ایف آئی آر میں مقتولہ کا نام قندیل بلوچ درج ہے۔ مقدمے میں کسی گواہ کا ذکر نہیں، گواہو ں کے بغیر ملزمان کو عدالت سے سزا دلوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ایف آئی آر میں ایک طرف قندیل کو قتل کرنے کی وجہ غیرت قرار دیا گیا تو دوسری طرف یہ بھی لکھا گیا کہ ملزم وسیم نے پیسے کی لالچ میں قتل کیا، تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ملزم وسیم اور حق نواز نے قندیل کو قتل کیا سعودی عرب میں مقیم قندیل کے بھائی عارف نے قتل کا منصوبہ بنایا اور اس نے اپنے بھائی وسیم کو قتل پر اکسایا، عارف نے اپنے خاندان والوں کو دھمکی دی تھی کہ اگر قندیل کو قتل نہ کیا گیا تو وہ خود کشی کر لے گا۔ مقتولہ کے بھائی اسلم شاہین کے اعانت جرم میں ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے۔ ان چارملزمان کے علاوہ متعدد بے گناہ افراد کو اس مقدمے میں ملوث کیا گیا اور انہیں گرفتار کروا کر رقوم ہتھیائی گئیں۔
اس ضمن میں ایس پی کینٹ ڈاکٹر فہد نے ''ایکسپریس'' کو بتایا کہ مفتی عبدالقوی قتل کی وجہ بنا، اس کے ساتھ قندیل کی تصاویر منظر عام پر آ نے کے بعد اس کے بھائیوں نے قتل کا فیصلہ کیا۔ مقتولہ قندیل نے قتل سے کچھ عرصہ قبل اپنے بیان میں کہاتھا کہ اسے مفتی عبدالقوی سے جان کا خطرہ ہے، اس نے تحفظ فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا تھا ۔ قندیل بلوچ قتل کیس میں مفتی عبدالقوی ان دنوں پولیس کی تحویل میں ہے اور وہ ملزم سے تفتیش کر رہی ہے، گرفتاری کے فورا بعد ملزم نے شکایت کی کہ اسے دل کی تکلیف شروع ہوگئی ہے جس پر انہیں ملتان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروا دیا گیا جہاں پر پانچ روز داخل رہنے کے بعد انہیں ڈسچارج کر دیا گیا، ذرائع کا کہنا ہے مفتی عبدالقوی بالکل تندرست ہیں، انہوں نے تفتیش سے بچنے کے لئے بیماری کا ڈرامہ کیا ہے۔