جب ادھار کی واپسی کا تقاضا جرم بن گیا

تاجرسرفراز نے پیسوں کا مطالبہ کیا تو ارشد نے اس کے سر میں گولی مار دی

تاجرسرفراز نے پیسوں کا مطالبہ کیا تو ارشد نے اس کے سر میں گولی مار دی

عمومی طور پر انسان خود کو ٹھیک اور دوسروں کو غلط تصورکرتا ہے، بعض اوقات لوگ اپنا قصور ہونے کے باوجود خود کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے دوسروں کی جان تک لینے سے گریز نہیں کرتے، اسی طرح کا ایک واقعہ گوجرانوالہ میں پیش آیا جہاں ایک معمر تاجر نے دوسرے تاجر کے روپے دینے کے بجائے اسے موت دے دی۔

شہر کا دل اردو بازار ہے، جہاں ایک بک ڈپو کا مالک ملک سرفراز پشتوں سے کاروبار کر رہا تھا، لیکن تھوڑے ہی فاصلہ پر بک ڈپو کی ایک اور دکان تھی، جس کاکاروبار آئے روز خراب ہو رہا تھا، لیکن اس دکان کے مالک نے اپنی خامیاں دور کرنے کے بجائے حسد کرنا شروع کردیا اور لاہور سے مال خریدنے کے بجائے ملک سرفراز سے ہی ادھار پر سٹیشنری،کتابیں ،کاپیاں لے کر فروخت کرنے لگا۔ اس دوران دونوں کا لین دین چلتا رہا مگر ایک وقت آیا جب ملک سرفراز نے اس دکان دار کو سامان دینا بند کردیا اور کہا کہ پہلے اس کے اڑھائی لاکھ روپے ادا کرے پھر مال دے گا۔ پھر ایک روز ملک سرفراز اور ارشد عرف اچھا کے درمیان معمولی تلخ کلامی ہوئی اور سرفراز نے بازار کے کچھ تاجروں کے سامنے تقاضا کیا کہ اس کے پیسے جلد ازجلد دے ورنہ وہ بازار کی یونین کے پاس معاملہ لے جائے گا۔


15 اکتوبر بروز اتوار ملک سرفراز روزانہ کی طرح موٹرسائیکل پر دکان آرہا تھا کہ بازار میں داخل ہوتے ہی اسے ایک فون آیا کہ آج سارے حساب کتاب چکتا کر دیئے جائیں گے، فون کرنے والے نے یہ کہتے ہی کال کاٹ دی۔ تھوڑا آگے جانے پر سرفراز کو کسی نے آواز دے کر روکا تو جب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہاں ایک نقاب پوش کھڑا تھا، جس نے سرفراز کے سر میں گولی مار دی اور فرار ہو گیا۔ تاجر کے دن دیہاڑے قتل کی واردات کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ واقعہ کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دی گئی، پولیس کی فرانزک ٹیم بھی آگئی اور موقع سے شواہد اکٹھے کیے گئے۔ عینی شاہدین کے بیانات لیے گئے سب نے کہا کہ دیکھا ضرور ہے قاتل شلوار قمیض میں تھا مگر کسی نے شکل نہیں دیکھی، کیوں کہ قاتل نے نقاب کر رکھا تھا۔

تاجروں نے قتل کے خلاف احتجاج کیا اور بازار بند کردیا اور فوری قاتل کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا۔ ایس پی سٹی علی وسیم ،ڈی ایس پی رانا زاہد اور ایس ایچ او انصر مان نے تاجروں کے وفد سے ملاقات کر کے مذاکرات کیے اور ان کو 48 گھنٹے کے اندر اندر ملزم کو پکڑنے کی یقین دہانی کروائی، جس پر تاجر برادری نے اپنا احتجاج ختم کیا۔ پولیس نے تفتیش کا آغاز کرتے ہوئے آس پاس کی گلیوں اور بازاروں سے سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیجز حاصل کیں جس میں ایک جگہ پر نقاب پوش ملزم کی تصویر ملی جو کہ جیب سے کچھ نکال رہاتھا پولیس نے سی سی ٹی وی فوٹیجز سے تصاویر لیں اور ملزم کی گرفتاری کے کوشش جاری کردیں جن لوگوں سے اس دن فون کیے تھے ان سے بات چیت کی گئی لیکن پولیس سمجھ نہ پارہی تھی کہ آخر معاملہ کیاہے اور کوئی دن دیہاڑے اتنا بے رحمانہ قتل کیوں کرے گا؟

ایس ایچ او انصر مان نے دوبارہ سے سب افراد سے ملاقات کی اور جو آخری کال کی گئی تھی وہ ارشد عرف اچھا کی تھی لیکن اس نے پولیس کے سب سوالوں کے مطمئن ہوکر جواب دیے پولیس کو شک نہ ہونے دیا تاہم باریکی سے جب دیکھا گیا تو صرف ناک کی مشابہت پر پولیس نے ارشد عرف اچھا پر شک کیا اور اسے زیر حراست لے کر تفتیش شروع کردی، جس دوران ملزم نے اعتراف جرم کر لیا اور کہا اسے ملک سرفراز پر غصہ تھا، اس نے لوگوں کے سامنے مجھے بے عزت کیا، میں نے روپے دینے تھے لیکن اس نے میری بے عزتی کی جس پر میں نے اسے ماردیا۔ قاتل ارشد عرف اچھا کی عمر 60 سال کے قریب ہے اس نے بتایاکہ کاروبار تباہ ہونے کی وجہ سے بھی پریشان تھا لیکن اس نے خود کی خامیاں دورکرنے کے بجائے قتل جیسا سنگین جرم کردیا۔
Load Next Story