امریکی وزیر دفاع کے انکشافات

امریکا کے نئے وزیر دفاع کے بیانات سے ایسا محسوس ہوتاہےکہ اوباما حکومت اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں لانا چاہتی ہے۔


Zaheer Akhter Bedari March 03, 2013
[email protected]

SWAT: بارک اوباما کے دوسری بارصدر منتخب ہونے کے بعد اوباما حکومت کے بعض کلیدی عہدوں پر ایسے لوگوں کو لایا گیا ہے جو ایشیاء کی سیاست میں غالباً نئی راہیں تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ سابقہ سیکریٹری آف اسٹیٹ ہیلری کلنٹن کی جگہ جان کیری کو نیا سیکریٹری آف اسٹیٹ یا وزیرخارجہ بنایا گیا ہے جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ جنوبی ایشیاء کی سیاست میں پاکستان کے لیے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں اسی طرح امریکا کا نیا وزیر دفاع چک ہیگل کو مقرر کیا گیا ہے۔

چک ہیگل نے عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہی یہ انکشاف کیا ہے کہ ''بھارت افغان محاذ کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے، سرحد پار سے پاکستان کے شمالی علاقوں پر ہونے والے حملوں میں بھی بھارت معاون و مددگار ہے اور بھارت دہشت گردوں کی مالی مدد بھی کر رہا ہے'' چک ہیگل کے ان بیانات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اوباما کی نئی حکومت کی خارجہ پالیسی میں کچھ بنیادی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ کیونکہ موجودہ اوباما حکومت سے پہلے کی حکومتوں کا عمومی رجحان بھارت نواز رہا ہے۔کیا یہ اقدامات کسی تبدیلی کے نشان ہیں یا کسی ضرورت کے؟

امریکی وزیردفاع نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ '' امریکا دنیا کا سب سے بڑا طاقت ورملک ہونے کے باوجود اکیلا کچھ نہیں کرسکتا'' ایشیاء اور جنوبی ایشیاء کے حوالے سے امریکا کی عشروں پر محیط پالیسی کا مرکزی خیال ''چین کو محصور رکھنا ہی رہا ہے۔'' امریکا کی بھارت نواز پالیسی کا بنیادی مقصد بھی بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرنا ہی رہا ہے۔ روس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد امریکی خارجہ پالیسی میں چین دشمنی کے پس منظر میں بھی یہی خیال کارفرما رہا ہے کہ مستقبل میں چین ہی امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

امریکا کے سیاسی مفکرین اور تھنک ٹینک اس بات پر متفق رہے ہیں کہ اگر مستقبل میں کوئی ملک امریکی مفادات، امریکا کی سپر پاوری کے لیے خطرہ بن سکتا ہے تو وہ چین ہی ہے۔ ایشیاء کی امریکی پالیسیوں میں یہی خیال کارفرما رہا ہے اور اسی حوالے سے امریکی حکومتیں بھارت کی ناز برداریوں میں مصروف رہی ہیں۔ 2014 تک افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کے حوالے سے بھی میڈیا میں یہی خبریں چلتی رہیں کہ امریکا افغانستان سے واپسی کے بعد بھارت کو افغانستان میں پاکستان سے زیادہ اہم رول اور ذمے داریاں دینا چاہتا ہے اور پاکستان کی حکومت ان خبروں سے پریشان بھی رہی ہے۔

ایشیاء کے حوالے سے امریکا کی پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی بہ ظاہر نظر نہیں آتی لیکن امریکا کے نئے وزیر دفاع چک ہیگل کے ان تازہ بیانات سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جنوبی ایشیاء اور افغانستان کی پالیسیوں میں اوباما حکومت کچھ تبدیلیاں لانا چاہتی ہے۔ چک ہیگل کے بیانات اس لیے زیادہ اہم بلکہ اہم ترین ہیں کہ پاکستان نے پچھلے چند دنوں میں دو ایسے دور رس اہم فیصلے کیے ہیں جو براہ راست اس خطے میں امریکی پالیسیوں، امریکی مفادات سے متصادم ہیں۔ ایران سے گیس پائپ لائن کے مسئلے پر امریکا کی پہلی اور دوسری حکومت کا رویہ نہ صرف مخالفانہ بلکہ جارحانہ رہا ہے۔امریکا اس معاہدے کو رکوانے کے لیے ہر ممکنہ دباؤ ڈالتا رہا ہے لیکن زرداری حکومت نے اس دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ کرلیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق 2014 تک پاکستان کو ایرانی گیس کی سپلائی شروع ہوجائے گی۔

دوسرا بڑا فیصلہ موجودہ حکومت نے گوادر پورٹ کے حوالے سے کیا ہے۔ گوادر پورٹ کا انتظام چین کے حوالے کردیا گیا ہے، جس پر امریکا سخت تشویش کا اظہار کرتا رہا ہے۔ گوادر پورٹ کے چین کے زیر نگرانی آنے سے اس خطے میں امریکی مفادات کو ایک بڑی ضرب لگی ہے۔ کیونکہ آنے والے دنوں میں یہ پورٹ تجارتی اور سیاسی حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہوگی۔ پاکستان کے ان دو امریکا مخالف فیصلوں کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ امریکا پاکستان کو اس گستاخی کی سزا دینے کے لیے سخت اقدامات کرتا اور بھارت کو اور سر پر چڑھاتا لیکن نئے امریکی وزیر دفاع کے تازہ بیانات بڑے حیرت انگیز ہیں جن میں بھارت پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔

پاکستان کا حکمران طبقہ بھارت پر اس قسم کے الزامات بہت پہلے لگاتا آرہا ہے لیکن امریکا نے ان الزامات کا کبھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اب چک ہیگل کی طرف سے بھارت پر یہی الزامات عائد کرنا پاکستانی الزامات کی تصدیق ہے اور حیرت کی بات ہے کہ بھارت جو امریکا کی چھوٹی چھوٹی بھارت مخالف باتوں پر آسمان سر پر اٹھالیتا رہا ہے وہ ان سخت ترین الزامات پر چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے صرف اتنا کہا گیا کہ ''ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے'' اس دبی دبی سی شکایت یا تردید سے اندازہ ہوتا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں کچھ وقتی تبدیلیاں ہونے جارہی ہیں۔

سوشلسٹ بلاک کی تحلیل کے بعد اب مغربی ملکوں اورچین، روس کے درمیان کوئی بڑا نظریاتی اختلاف باقی نہیں رہا جس کے نتیجے میں مبینہ سرد جنگ کا خاتمہ ہونے کی نوید دی گئی، لیکن منڈی کی معیشت کے اندر مستقل طور پر ایسے تضادات موجود رہتے ہیں جو سرد جنگ کو کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھتے ہیں۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی اصل وجہ دنیا کی منڈیوں پر قبضے کی کوششیں بتایا جاتا ہے۔ کیا ان عالمی جنگوں کے بعد دنیا کی منڈیوں پر قبضے کی کوششیں ختم ہوگئی ہیں؟ نہیں۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی عمارت ہی مقابلے اور مسابقت پر اٹھتی ہیں اور یہ منافع اور مسابقت کی لڑائی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک سرمایہ دارانہ نظام باقی ہے یعنی سردجنگ اس نظام میں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہے گی، کیا امریکا کے نئے وزیر دفاع چک ہیگل کے تازہ بیانات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے؟

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 65 سال سے کشمیر کا مسئلہ لٹکا ہوا ہے اس مسئلے کے حل کے لیے امریکا نے آج تک کوئی سنجیدہ اور مخلصانہ کوشش نہیں کی حالانکہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں یہی حال فلسطین کے مسئلے کا ہے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بھی اب تک اقوام متحدہ نے کئی قراردادیں منظور کی ہیں لیکن امریکا یا اس کے اتحادیوں نے کبھی ان دونوں مسئلوں کو حل کرنے کی مخلصانہ اور ایماندارانہ کوششیں نہیں کیں، کیونکہ ان دونوں مسئلوں کے ساتھ امریکا اور اس کے حلیفوں کے سیاسی اور اقتصادی مفادات وابستہ ہیں۔ امریکا مشرق وسطیٰ پر اپنی بالادستی برقرار رکھنا چاہتا ہے کیونکہ تیل کی دولت پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اس خطے پر اس کی بالادستی ضروری ہے۔

امریکا اس بالادستی کو اسرائیل کے ذریعے برقرار رکھے ہوئے ہے۔اس لیے فلسطین کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اسرائیل کی تلوار جب تک عرب ملکوں کے سر پر لٹکتی رہے گی عرب ملک امریکا اور مغربی ملکوں سے اربوں ڈالر کے ہتھیار خریدتے رہیں گے یہ ان کے اقتصادی مفادات ہیں، کشمیر کے مسئلے پر امریکا منصفانہ موقف اس لیے اختیار نہیں کرتا کہ چین کے خلاف اسے بھارت کی ضرورت ہے اور بھارت کی 2 ارب انسانوں کی تجارتی منڈی بھی کشمیر کی غیرمنصفانہ پالیسی سے وابستہ ہے پھر اس کے اقتصادی مفادات یہ ہیں کہ یہ دونوں ملک کشمیر کی وجہ سے اسلحے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں جس کا براہ راست فائدہ مغربی ملکوں کو ہورہا ہے، اربوں ڈالر کے ہتھیار دونوں ملک خرید رہے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس خطے میں امریکا کے سیاسی اور اقتصادی مفادات ختم ہوگئے ہیں یا ان میں کوئی تبدیلی آرہی ہے؟ یہ سوال اس لیے پیدا ہورہا ہے کہ امریکا کے نئے وزیر دفاع چک ہیگل جو بیانات دے رہے ہیں وہ امریکا کی 65 سالہ پالیسیوں سے متصادم نظر آتے ہیں۔ 2014 میں امریکا افغانستان سے نکل جائے گا۔ امریکی فوجوں کی محفوظ واپسی اور امریکا کے کھربوں ڈالر کے اسلحے کی واپسی کو محفوظ بنانا بھی امریکا کے لیے ضروری ہے۔ امریکا کو 10 سالہ افغان جنگ کے دوران یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کی مذہبی انتہاپسند طاقتوں کی نکیل پاکستان اور اس کی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اور امریکی فوجوں اور امریکی اسلحے کی محفوظ واپسی کے لیے اس وقت پاکستانی حکومت کی خوشنودی ضروری ہے۔

امریکا اور اس کے سرمایہ دارانہ نظام کی پالیسیاں ان کے سیاسی اور اقتصادی مفادات کے گرد گھومتی ہیں کسی اصول کسی اخلاقیات کا ان سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا۔ ہمارا خیال ہے کہ امریکا کے وزیر خارجہ کی تعیناتی اور امریکا کے وزیر دفاع کے بیانات کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ سمجھنا کہ امریکا اس خطے میں کوئی نئی پالیسی اپنانے جارہا ہے خوش فہمی کے علاوہ کچھ نہیں رہا، چک ہیگل کا یہ کہنا کہ ''امریکا دنیا کی سپرپاور ہونے کے باوجود اکیلا کچھ نہیں کرسکتا'' یہ ایک اعتراف حقیقت بھی ہے، اعتراف گناہ بھی، اس بیان کا ہم آیندہ کسی کالم میں تفصیلی جائزہ لیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں