امریکی سامراج اور پاکستان

امریکا نے پچھلے 30 سالوں میں ہزاروں ارب ڈالر اس لیے خرچ نہیں کیے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر سے دستبردار ہوجائے۔


Zamrad Naqvi March 03, 2013

GILGIT: ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکی مخالفت کے باوجود ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر جلد کام شروع ہو گا۔ ایران کے صدر محمود احمد ی نژاد نے صدر زرداری سے ملاقات میں کہا کہ ایران اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن کی تعمیر ایک عظیم اور اہم واقعہ ہے۔

تازہ ترین صورت یہ ہے کہ صدر آصف علی زرداری اپنے لاہور میں قیام کے دوران اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ایران' پاکستان پائپ لائن منصوبے سے نہیں روک سکتی۔ لیکن اس گیس پائپ لائن منصوبے کے خلاف اندرون وبیرون ملک سازشیں جاری ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کسی بھی قومی مفاد کے منصوبے کے محافظ اس ملک کے عوام ہوتے ہیں۔ پاکستان کو اس منصوبے پر عملدرآمد سے روکنے کے لیے امریکا اور جرمنی سمیت مغربی ممالک نے اپنی کوششیں تیز کر دی ہیں۔ امریکا نے اس گیس پائپ لائن پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان نے ایران سے گیس کی خریداری شروع کی تو اس پر اقتصادی پابندیاں لگ سکتی ہیں۔

بہر حال ایران گیس پائپ لائن کی منظوری اور اس پر عمل درآمدگی کی ٹائمنگ قابل غور ہے۔ اس پر عملدرآمد اس وقت ہونے جا رہا ہے جب امریکا کو اپنی افواج کا افغانستان سے انخلا کا مرحلہ درپیش ہے۔ پاکستان اپنے قومی مفادات کی حفاظت کے لیے وہی قدم اٹھایا ہے جو 1980ء میں اپنے جوہری پروگرام کی ترقی کے لیے اٹھایا تھا کیونکہ اس وقت امریکا نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف پاکستان کی مدد سے لڑنا تھا۔ چنانچہ اس نے نہ صرف پاکستان پر سے پابندیاں اٹھا لی تھیں بلکہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی ترقی پر اس نے اپنی آنکھیں بھی بند کر لی تھیں لیکن اس وقت امریکا نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو بے وقوفی میں نظر انداز نہیں کیا تھا۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام امریکا کے ہاتھ میں دو دھاری تلوار تھا جس سے اس نے بہت سے اسٹرٹیجک فوائد حاصل کیے۔

پاکستان کے جوہری پروگرام کے ذریعے بھارت کو قابو میں لایا گیا تو دوسری طرف اسے سوویت یونین کے اثرو رسوخ سے بھی نکالا گیا۔ نتیجہ اس کا یہ نکلا کہ بھارت اب اس خطے میں امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے۔ نہرو اور اندرا گاندھی کبھی بھی امریکا کے قابو نہ آئے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ گاندھی کے قتل کے بعد ایک طویل عرصے سے نہرو خاندان کو اقتدار سے نکال باہر کر دیا گیا ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے اپنی پوری قوت کے ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ذریعے بھارتی تجارت پر قبضہ کر لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت میں ان لوگوں کی تعداد پچاس کروڑ سے زیادہ ہے جن کو روزانہ ایک وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ پاکستان کے ایٹم بم سے امریکا نے بھارت کو اپنی اوقات میں رکھا تو خود پاکستان نہ اپنے ایٹم بم سے کشمیر حاصل کر سکا اور نہ ہی دوسرے تنازعات حل ہو سکے جب کہ پاکستان کی بھی 8کروڑ کی آبادی خط غربت سے گر کر ایک وقت کی روٹی سے محروم ہو چکی ہے۔

پاکستان کے لیے اب یہ ایک ایسی ذمے داری بن چکی ہے جس کے ذریعے پاکستان کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ یہ کہہ کر یہ ایٹم بم کسی بھی وقت دہشت گردوں کے قبضے میں جا سکتے ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں دہشت گردی کا لیول اس حد تک بڑھایا جا رہا ہے کہ اس کو جواز بنا کر عالمی رائے عامہ کو ہموار کر کے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے ذریعے پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر قبضہ کیا جا سکے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے ایٹمی طاقت بننے کے بعد اس کی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کا خاتمہ چاہتی تھی۔ لیکن امریکا کو یہ منظور نہیں تھا کیوں کہ سامراج کا طویل ایجنڈہ ''نامکمل'' تھا۔ ابھی تو پاکستان کے ذریعے صرف سوویت یونین کا خاتمہ کیا گیا تھا۔ یہ ٹھیک ہے کہ پاکستان توڑنا ' بنگلہ دیش کا بننا اور ذوالفقار علی بھٹو کا خاتمہ امریکا کے مفاد میںتھا، وہ بھٹو جو تیل کو سامراج کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے۔

لیکن امریکا ابھی پاکستانکے حق میں ہے۔ کیونکہ برصغیر جس سامراجی ایجنڈے کے تحت تقسیم کیا گیا، اس میں صرف سوویت یونین کا خاتمہ ہی شامل نہیں تھا بلکہ مشرق وسطی کی بادشاہتوں اور ان کے ذریعے اسرائیل کی حفالت بھی شامل تھی تاکہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کیا جا سکے۔ یہ قبضہ اب مکمل ہو چکا ہے۔ سوائے ایرانی تیل کے۔ امریکی سامراج کی تیس سالوں کی جدوجہد کے بعد نہ صرف یہ بلکہ سینٹرل ایشیا کے تیل کے اور دوسری قدرتی وسائل بھی اس کے قبضے میں آ چکے ہیںجب کہ سامراج نے پروپیگنڈا یہ کیا کہ سوویت یونین گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتا ہے جس کی منصوبہ بندی سامراج نے روسی انقلاب کے بعد شروع کر دی تھی۔ مجھے ہنسی آتی ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ امریکا افغانستان سے شکست کھا کر نکل رہا ہے۔

امریکا نے پچھلے 30 سالوں میں ہزاروں ارب ڈالر اس لیے خرچ نہیں کیے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر سے دستبردار ہو جائے جس کے ذریعے وہ اگلے سو سال تک دنیا پر اپنی بادشاہت قائم رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف ہمارے مجاہدین کی عقل کا اندازہ اس سے لگائیں کہ پہلے تو انھوں نے سوویت یونین کے خلاف امریکی سامراج کا اتحادی بن کر خود اپنے ہاتھوں افغانستان پر امریکی قبضہ کرایا۔ اب اس بات پر جشن منایا جا رہا ہے کہ افغانستان آزاد ہو رہا ہے۔ کس قیمت پر ... کہ پاکستان سے مشرق وسطیٰ تک کا علاقہ امریکی غلامی میں جا چکا ہے اور تیل کے ذخائر پر قبضہ مکمل ہو چکا ہے۔ لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ تباہ برباد' زخمی ہوئے ... ہیں کوئی جو ان کا احتساب کر سکے... اس دنیا میں تو نہیں آخرت میں ضرور ان کا احتساب ہو گا۔ ان سنگین جرائم پر جو انھوں نے مسلمانوں کے خلاف کیے... پہلے بھی یہ دھوکا کھا چکے ہیں۔ (30 سال پہلے) پھر دھوکا کھانے جا رہے ہیں۔

امریکی سامراج پاک ایران گیس پائپ لائن پر اس لیے پریشان ہے کہ ایران اور پاکستان کی دوری کہیں قربت میں نہ بدل جائے۔ جو اس نے دونوں ملکوں کے درمیان مسلک کی بنیاد پر پیدا کر رکھی تھی، اگر دوری قربت میں بدل گئی اور مسلمانوں کو اس سازش کی سمجھ آ گئی تو امریکا کے مفادات اس پورے خطے میں پھر سے خطرے میں پڑ جائیں گے ... کیونکہ سامراج مسلمانوں کو مذہب کے نام پر آپس میں لڑا کر ہی اپنے مفادات کو تحفظ کر سکتا ہے... اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں اس کے پاس۔پرویز مشرف اگلے ایک سال میں مستقبل کے حوالے سے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو جائیں گے جو ان کے سیاسی مستقبل بلکہ زندگی کا بھی فیصلہ کرے گا۔ مارچ میں وہ ملک سے باہر گئے تھے۔ مارچ کا آخری ہی بتائے گا وہ کب واپس آئیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں