آم‘ ساون‘ غالب اور اقبال

ساون نہیں برستا نہ برسے‘ تو کیا ہم آموں کو بھی اس غم میں فراموش کر دیں

rvmsyndlcate@gmail.com

بارے آموں کا اور ساون کا کچھ بیاں ہو جائے۔ آموں کا اس وقت بازار میں بول بالا ہے۔ اور ساون اس برس ہمیں غچہ دے گیا۔ کیا قیامت ہے کہ آدھا سا ون گزر گیا اور ہم ساون کی امنڈتی اودی کالی گھٹائوں کو ترس رہے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہے کہ تھوڑی گھٹا گِھر کر آتی ہے اور ہم جھرجھری لیتے ہیں کہ اب یہ گھٹا برسے گی اور جھل تھل ہو جائیں گے۔ مگر دیکھتے دیکھتے وہ گھٹا ہمیں جُل دے کر غائب غُلہ ہو جاتی ہے۔ ہم دوستوں سے انھی محرومی کا ذکر کرتے ہیں کہ گھٹا آئی اور گزر گئی۔ ہم چھینٹے کو ترستے رہ گئے۔ اور وہ دوست کہتے ہیں کہ اچھا ادھر تمہارے علاقے بارش نہیں ہوئی۔ ادھر ہمارے ڈیفنس کے علاقے میں تو جل تھل ہو گئے۔ تب ہمیں مدتوں پہلے کا سنا ہوا ایک فلمی گانے کا بول یاد آنے لگا ہے۔ خورشید کی سریلی آوازکو تصویر میں لائے اور یہ بول سنیے ع

بدریا برس گئی اُس پار

اس بول میں جو درد ہے اور جو احساس محرومی اُبلا پڑ رہا ہے، اسے ہم جیسے ساون کے محرومین ہی جانتے ہیں۔ لیجیے اس پر ہمیں داغ کا ایک شعر یاد آ گیا

ذرا چھینٹا پڑ ے تو داغ کلکتہ نکل جائیں

عظیم آباد میں ہم منتظر ساون کے بیٹھے ہیں

ادھر ہم ہیں چھینٹے کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ چھینٹا اب پڑتا ہے نہ تب پڑتا ہے۔

ساون نہیں برستا نہ برسے' تو کیا ہم آموں کو بھی اس غم میں فراموش کر دیں۔ ہم نے کہا تھا کہ ساون سوکھا جا رہا ہے مگر آم اس طرف سے بے پروا اپنی بہار دکھا رہے ہیں۔ یہ آم بھی عجب پھل ہے۔ پھلوں کے حساب سے کوئی ایسا نامور پھل بھی نہیں ہے۔ مگر جب بازار میں اس کی نمود ہوتی ہے تو باقی سب پھل پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ پھر بس یار آموں ہی کا کلمہ پڑھتے اور ہونٹ چاٹتے نظر آتے ہیں۔

ارے آپ کو پتہ ہے کہ آموں کے عشاق میں ہمارے دو نامی گرامی شاعر بھی شامل ہیں۔ بھلا کون۔ غالب اور اقبال۔ غالب نے تو شعر لکھ کر آم کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور آم کو بہشت کا پھل بتایا ہے۔ کہتے ہیں کہ: باغبانوں نے باغ جنت سے

انگبیں کے بہ حکم رب الناس

بھر کے بھیجے ہیں سر بہ مُہر گلاس

اور اب اس ذیل میں ایک لطیفہ بھی سن لیجیے۔ مرزا غالب اپنے گھر کے چبوترے پر بیٹھے تھے۔ یار دوست جمع تھے۔ سامنے سے کچھ گدھے گزرے۔ گزر گاہ کے ایک گوشے میں آم کی گٹھلیوں اور چھلکوں کو دیکھ کر ایک گدھا ٹھٹھکا۔ گٹھلیوں چھلکوں کو سونگھا اور اگے بڑھ گیا۔ ایک دوست نے از راہ تفنن کہا مرزا صاحب آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔ مرزا مسکرائے۔ بولے ''ہاں گدھے آم نہیں کھاتے۔''


آموں کی ایک فصل علامہ اقبال پر بہت بھاری گزری۔ حکیم صاحب نے انھیں ہدایت کی کہ آموں سے پرہیز کیجیے۔ مگر جب دیکھا کہ مریض بہت مچل رہا ہے تو کہا کہ اچھا آپ دن میں ایک آم کھا سکتے ہیں۔ تب علامہ صاحب نے علی بخش کو ہدایت کی کہ بازار میں گھوم پھر کر دیکھو۔ جو آم سب سے بڑا نظر آئے وہ خرید کر لایا کرو۔

اقبالیات کے محققین عجب بد ذوق ہیں۔ کسی نے اقبال اور آم کے مضمون میں تحقیق کے جوہر نہیں دکھائے۔ ہاں یاد آیا ایک برس ڈاکٹر جمیل جالبی یوم اقبال کی تقریب سے پنجاب یونیورسٹی کے بلاوے پر کراچی سے یہاں آئے تھے۔ انھوں نے اقبال کے خطوط کو اپنے مقالہ میں چھانا پھٹکا تھا۔ کچھ خطوط انھوں نے آم وجامن کے حوالے سے بھی برآمد کیے تھے۔ ایک خط دربارۂ آم ملاحظہ فرمائیے۔

''آموں کی کشش' کششِ علم سے کچھ کم نہیں۔ یہ بات بلا مبالغہ عرض کرتا ہوں کہ کھانے پینے کی چیزوں میں صرف آم ہی ایک ایسی شے ہے جس سے مجھے محبت ہے۔ ہاں آموں پر ایک لطیفہ یاد آ گیا۔ گزشتہ سال مولانا اکبر نے مجھے لنگڑا آم بھیجا تھا۔ میں نے پارسل کی رسید اس طرح لکھی ؎

اثر یہ تیرے اعجاز مسیحائی کا ہے اکبر

الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا

اس زمانے میں آموں کے نام سب سے بڑھ کر لنگڑے کی دھوم تھی۔ اکبر الہ آبادی نے اس تقریب سے علامہ کو لنگڑے کا تحفہ بھیجا۔ اب لنگڑا لنگڑاتا لنگڑاتا کہیں پیچھے رہ گیا۔ اب کون اس کا نام لیوا ہے۔ اب تو چونسہ کا بول بالا ہے۔
عجب بات ہے کہ یوں تو آم و جامن کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ مگر آموں کے رسیا آم کھاتے ہوئے اتنے مست ہو جاتے ہیں کہ غریب جامن کو خاطر ہی میں نہیں لاتے۔ علامہ اقبال نے اپنے خطوں میں جامن کا ذکر کیا تو ہے۔ مگر کس حوالے سے۔ مولانا گرامی کو شاید ذیابیطس کی شکایت تھی۔ انھیں خط میں لکھتے ہیں ''جامن کی گٹھلی خشک کیجیے۔ پھر اسے پیس کر اور کپڑے میں چھان کر اور ذرا سا نمک ملا کر پانی کے ساتھ ہر روز دو تین ماشہ صبح کھایا کیجیے۔

علامہ صاحب سے معذرت کے ساتھ۔ جامن کی گٹھلی ذیابیطس کی دوا کے طور پر برحق۔ مگر خود جامن کا بھی تو موسم کے پھلوں میں کوئی مقام ہے۔

خیر ایسی بات بھی نہیں ہے کہ جامن کے قدر دان سرے سے مفقود ہوں۔ ہمارے زمانے میں جامن کی سب سے بڑی قدر دان برما کی نامی گرامی جمہوری رہنما آنگ سان سُو چِی ہیں۔ انھوں نے کسی بھلے وقت میں ایک اخبار میں کالموں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جو Letters From Burma کے عنوان سے شایع ہوتے تھے۔ ان تحریروں کی نوعیت سیاسی معاملات سے مختلف تھی۔ یہاں وہ برمی لوگوں کی عام دلچسپیوں' روز مرہ کی زندگی اور لوگوں کے عمومی دکھ درد کے بارے میں لکھتی تھیں۔

کچھ کالم ساون بھادوں کے حوالے سے بھی لکھے گئے۔ بارش کے دنوں میں گھروں کا جو حال ہو جاتا تھا اس کا بڑا سچا نقشہ نظر آتا ہے۔ ایک کالم میں انھوں نے جامنوں کا تذکرہ اس حوالے سے کیا ہے کہ ساون بھادوں کے موسم کا یہ پھل ان کے لیے کیا معنی رکھتا تھا۔ انھوں نے بچپن میں جو ایک نظم سنی تھی وہ کچھ یوں تھی کہ یہ برکھا کا موسم ہے۔ مینہ برس رہا ہے۔ آئو چلو باہر نکل کر گدرائی ہوئی جامنیں گودوں میں بھر کر لائیں۔ جامن کیا ہوتی ہے۔ ماں سے بچی نے پوچھا۔ مگر جامن رنگون میں مشکل ہی سے نظر آتی تھی۔

ہاں جب ایک مرتبہ اپنی ماں کے ساتھ وہ دلی گئی تو وہاں اس نے اس پھل کو دیکھا۔ جا بجا چھابڑی والے جامنوں سے بھری چھابڑیاں لیے بیٹھے تھے۔ کہتی ہے کہ میری ماں نے بہت سی جامنیں خرید کر مجھے دیں۔ کہا کہ یہ ہوتی ہیں جامنیں۔ ان کا ذائقہ کیا ہوتا ہے۔ زبان اور تالو پر وہ کس قسم کا اثر چھوڑتی ہیں' اس کا ذکر انھوں نے بڑے لطف کے ساتھ کیا ہے۔

اور اپنے شہر لاہور میں جب صبح ہی صبح ہم ان دنوں باغ جناح کی طرف جاتے ہیں تو وہاں جا بجا جامنوں کے پیڑوں کے نیچے اودی اودی جامنیں کچھ کچلی ہوئی سی بکھری نظر آتی ہیں۔ بچے اور بڑے بہت انہماک سے انھیں کچلی ہوئی جامنوں کے بیچ سے پکی پکی صحیح و سالم جامنیں چُن کر اپنے دامنوں میں بھرتے نظر آتے ہیں۔

تو مت بھولو کہ برکھا کی یہ رت خالی آموں کی رت نہیں ہوتی۔ آموں کے ساتھ جامنیں بھی ہیں۔ اور جامنوں کا اپنا ذائقہ ہے اور اپنا رنگ و روپ ہے جسے ہم جامنی رنگ کہتے ہیں۔ چاہیں تو آپ انھیں اودی اودی جامنیں کہہ لیں۔ آم کھائو اور اودی جامنوں کو یاد رکھو۔
Load Next Story