جماعت اسلامی دوراہے پر
آئی جے آئی میں جماعتِ اسلامی کی جدوجہد کا فائدہ نواز شریف اور ایم ایم اے میں محنت کا ثمر مولانا فضل الرحمٰن لے گئے۔
جب سے سید منور حسن امیر جماعتِ اسلامی بنے ہیں،تاثر یہ ہے کہ اُنھوںنے جماعتِ اسلامی کے 'انقلابی اور دعوتی' تشخص کو پھر سے بحال کر دیا ہے۔ قاضی حسین احمد بہت متحرک شخصیت تھے، تاہم ان کی پر جوش شخصیت پر جماعت کی 'دعوت' سے زیادہ اس کی 'سیاست' کا غلبہ تھا۔ اُنھوں نے اپنے دورِ امارت میں جماعت اسلامی پر ہر نوع کا انتخابی تجربہ کیا، اسلامی جمہوری اتحاد، اسلامی فرنٹ اور متحدہ مجلسِ عمل کا تجربہ، الیکشن بائیکاٹ کا تجربہ۔
لیکن نتیجہ وہی رہا، ڈھاک کے تین پات۔ آئی جے آئی میں جماعتِ اسلامی کی جدوجہد کا تمام تر فائدہ نواز شریف کو ہوااور متحدہ مجلسِ عمل میں اُس کی محنت کا سارا ثمر مولانا فضل الرحمٰن اُچک لے گئے۔ قاضی حسین کے برعکس، سید منور حسن کا مزاج بالکل دُوسرا ہے۔ بحیثیتِ امیر، سید منور حسن کے ریکارڈ پر نظر ڈالیں، تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے جماعتِ اسلامی کو تبدیلی و اصلاح اور دعوت و انقلاب کا فراموش کردہ اموختہ یاد کرانے کی بھرپور کوشش کی۔ سید منور حسن، ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی، دونوں ''اسٹیٹس کو'' کی پارٹیاں ہیں اور ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔
جماعتِ اسلامی نے 1997ء کے انتخابات کا صرف اسلیے بائیکاٹ کر دیا تھا کہ نگران حکومت نے '' انتخاب سے پہلے احتساب'' کا جماعتِ اسلامی کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تھا۔ جماعتِ اسلامی کے بائیکاٹ کا انتخابی فائدہ بالواسطہ طور پر ن لیگ ہی کو پہنچا۔ جماعتِ اسلامی 1997ء سے 1999ء تک ن لیگ کے خلاف مسلسل برسر ِجنگ رہی۔یہ محاذ آرائی اُس وقت نقطہ ء عروج کو پہنچ گئی، جب فروری 1999ء میں 'وزیرِاعظم نواز شریف' کی دعوت پر' وزیرِ اعظم اٹل بہاری واجپائی' امن یاترا کے لیے لاہور پہنچے۔ جماعتِ اسلامی نے اس پر بھر پُور احتجاج کرنے کی ٹھان لی۔ بھارتی وزیرِ اعظم کے دورہ لاہور کے آخری روز لٹن روڈ لاہور پر یہ بڑا ہی دردناک منظر تھا۔ پولیس نے دفتر جماعتِ اسلامی پر دھاوا بول دیا ہے۔ رات گئے تک جماعتِ اسلامی کے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔
یہ پُر تشدد مناظر ابھی تازہ ہی تھے کہ کرگل آپریشن پر جماعتِ اسلامی اور ن لیگ میں پھر ٹھن گئی۔ تاآنکہ 12اکتوبر 1999ء کو جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف حکومت کا خاتمہ کر دیا، اور قاضی حسین احمد کا اس پر مختصر تبصرہ یہ تھا کہ: ''نواز شریف کے طرزِ حکومت کے باعث فوجی مداخلت ناگزیر ہو چکی تھی۔'' ایک طویل عرصہ بعد، جنرل مشرف کے دور آخر میں، جماعتِ اسلامی اور ن لیگ، آل پارٹیز کانفرنس کے پلیٹ فارم پر پھر اکٹھی ہوتی ہیں۔ لیکن تجدیدِ تعلقات کا یہ تجربہ بھیانک ثابت ہوتا ہے۔ عدلیہ بحالی کے ایشو پر جماعتِ اسلامی 18 فروری 2008 ء کے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیتی ہے۔
اور، عین وقت پر ن لیگ، جماعت اسلامی کو بائیکاٹ کے پائیدان پر چھوڑ کر انتخابات میں چلی جاتی ہے۔ 1997ء کی طرح 2008 ء کے جماعتی بائیکاٹ کا فائدہ بھی بالواسطہ طور پر پھر ن لیگ کو ہوتا ہے لیکن، عدلیہ تحریک کا سب سے دلچسپ واقعہ 16مارچ 2009 ء کو پیش آتا ہے، جب جماعتِ اسلامی کے کارکن اِدھر مال روڈ پر پولیس کے ہاتھوں بُری طرح پِٹ رہے ہیں اور اُدھر ن لیگ کا لانگ مارچ راستہ بدل کر گوجرانوالہ جا پہنچتا ہے۔ یہی نہیں، نواز شریف، جنرل پرویز کیانی کی کال پر لانگ مارچ منتشر کرنے سے پیشتر، قاضی حسین احمد اور سید منور حسن سے بات کرنا بھی ضروری نہیں سمجھتے۔
عدلیہ بحالی کے بعد پنجاب میں ن لیگ کی حکومت پھر سے بحال ہو جاتی ہے، اور سب کو نظر آ رہا ہے کہ برائے اقتدار ن لیگ اور پیپلز پارٹی متحد ہیں۔ اس کا ثبوت یہ تھا کہ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت اکثریت کھو چکی تھی، لیکن پیپلز پارٹی، شہباز شریف حکومت کو ٹف ٹائم دینے سے گریزاں تھی۔ اس صورتحال پر جب سید منور حسن نے یہ کہنا شروع کیا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی۔ بظاہر یہ کوئی نئی بات نہیں تھی کہ اصولی طورپر جماعتِ اسلامی کا موقف ہمیشہ یہی رہا ہے۔ لیکن اب کی بار اس میں نیا پن اس لیے محسوس ہو رہا تھا کہ ٹھیک یہی بات تحریکِ انصاف کے عمران خان بھی بار بار کہہ رہے تھے۔ حقیقتاً یہ پہلی بار ہے کہ انتخابی سیاست میں جماعتِ اسلامی کے ہم آواز کوئی دوسری آواز اُبھری ہے۔
سید صاحب کی اصطلاح میں کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی طور پر جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف فی الوقت ایک ہی سکے دو رخ ہیں۔ پچھلے ایک سال میں سید منور حسن اور عمران خان کے اخباری بیانات پڑھیں تو لگتا ہی نہیں، یہ دو مختلف پارٹی قائدین کے بیانات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے نمایاں ترین قائدین دور طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ یا جماعتِ اسلامی سے وابستہ رہ چکے ہیں ۔ مثلاً جاوید ہاشمی، حفیظ اللہ نیازی، اعجاز احمد چوہدری، میاں محمود الرشید۔ یہ وہ پسِ منظر ہے، جس میں جماعتِ اسلامی کو آیندہ انتخابات کے لیے ن لیگ سے اتحاد کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، اور اندرونی سطح پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے کہ ن لیگ سے اتحاد کی صورت میں جماعتِ اسلامی کے اندر کس طرح کا رد ِعمل ہو سکتا ہے۔
اندرونی حلقوں میں یہ بات تسلیم کی جا رہی ہے کہ جماعت اسلامی کا نوجوان ووٹر بہر طور ن لیگ کے برعکس تحریک انصاف سے اتحاد کا خواہاں ہے۔ جماعتِ اسلامی، ن لیگ کی طرف جاتی ہے یا تحریکِ انصاف کی طرف، یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ لاہور میں لیاقت بلوچ، فرید پراچہ اور امیرالعظیم کی سیٹوں پر ن لیگ کی طرف سے جماعتِ اسلامی کو ابھی تک کوئی حتمی جواب نہیں ملا۔ لیاقت بلوچ کی زیرِ قیادت اعلیٰ سطحی وفد پچھلے دنوں اسلام آباد میں جاوید ہاشمی سے مل چکا ہے۔ یہ ملاقات بے نتیجہ رہی۔ ظاہراً تحریک ِانصاف،جماعت اسلامی اور ن لیگ کے موجودہ رابطوں کے باعث متذبذب نظر آ رہی ہے۔ وجوہا ت جو بھی ہوں، جماعت اسلامی دوراہے پر کھڑی ہے، ایک طرف انتخابی سیاست ہے، اور دوسری طرف نظریاتی سیاست۔ انتخابی سیاست کا تقاضا، جماعتِ اسلامی کو ن لیگ کی طرف راغب کر رہا ہے اور نظریاتی سیاست کا تقاضا، تحریکِ انصاف سے اتحاد پر مجبور کر رہا ہے۔ اس تناظر میں آیندہ انتخابات جماعتِ اسلامی کے لیے ایک سخت آزمایش ثابت ہوں گے،
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک