صائب فیصلہ کیا ہونا چاہیے
افغان جنگ میں غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ کسی وقت یہ جنگ اپنے منطقی انجام تک پہنچ کرختم ہوسکتی ہے۔
چودہ روز کے اندردوسری کل جماعتی کانفرنس کا اہتمام۔دونوں کے ایجنڈے اورشریک جماعتوں میںکوئی زیادہ فرق نہیں تھا۔البتہ جمعیت کی کانفرنس میں سیاسی قیادت کی شرکت کا دائرہ قدرے وسیع تھا۔ اس کے علاوہ دونوں کانفرنسوںمیں مقاصداور حکمت عملی کا فرق بھی واضح نظر آیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی کانفرنس میںگوکہ عسکریت پسندوں سے مذاکرات پراتفاق کیاگیا تھا،مگرواضح حکمت عملی طے نہیں کی جا سکی۔
اس کے برعکس جمعیت علمائے اسلام کی کانفرنس میں عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے لیے جو طریقہ کار وضع کیا گیا اورکانفرنس کے اختتام پرجاری کردہ پانچ نکاتی اعلامیے میں جو اقدامات تجویزکیے گئے ہیں،وہ روایتی ہونے کے باوجود معروضیت سے زیادہ قریب محسوس ہورہے ہیں۔اس اعلامیے کے مطابق: عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے لیے گرینڈ جرگہ کوبااختیار بنانے کے لیے مختلف مکتبہ فکر کی جماعتوں کاشامل کیا جانا۔ شہداء کے لواحقین اور زخمیوںکی فلاح وبہبود کے لیے ٹرسٹ کاقیام۔پاکستان کے آئین اورقانون کے دائرہ کارکے اندر رہتے ہوئے فریقین سے مذاکرات کا آغاز۔ ملک سے لاقانونیت کے خاتمے اور ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات۔ موجودہ،عبوری اورآیندہ قائم ہونے والی حکومت اور اپوزیشن اس کانفرنس کی سفارشات پر عملدرآمد کی پابند ہوں گی۔ لیکن ان دونوں کانفرنسوںکے پس پشت فکری رجحان،ان کی عمل پذیری اور نتائج کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں،جن پر غور کرنا ضرری ہے۔
پہلاسوال یہ ہے کہ آیاقبائلی علاقوں میں موجود شدت پسند عناصر سے مذاکرات کا کوئی منطقی جواز ہے؟کیااس کے بعد دیگر جرائم پیشہ افراد جن میں اغواء برائے تاوان،ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث عناصر سے بھی مذاکرات کی وکالت کی جائے گی؟ کیااس طرح ان عناصر کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے جن کے ہاتھوںسے ہزاروں پاکستانیوں، سیکڑوںفوجی لقمہ اجل بن چکے ہیں، درجنوں فوجیوں کے سرقلم ہوچکے ہیں اورجو فوجی تنصیبات پر حملے کرچکے ہوں؟کیا سیاسی جماعتیں پاکستان کے آئین میں ان عناصر کی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں لانے پر آمادہ ہوچکی ہیں؟ کیامذاکرات کے علاوہ کوئی اور متبادل ممکن نہیں؟ ساتھ ہی اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 65 برسوں کے دوران وہ کون سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جو اس قسم کی صورتحال کا سبب بنی ہیں۔ لہٰذاضروری ہے کہ اس خطے کی تاریخ پر بھی نظر ڈال لی جائے،جس کی وجہ سے خرابیِ بسیار اس سطح تک پہنچی ہے اور واپسی کا راستہ نظر نہیں آرہا۔
انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان پرمکمل قبضے کے بعد زار روس کے حملوں سے بچنے اور افغان سرحدکے ساتھ آباد قبائلیوں کی شورشوں کاسدباب کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے بعض دور رس اقدامات کیے تھے۔اس سلسلے میںسرہنری مورٹیمر ڈیورینڈ(Sir Henry Mortimer Durand) نے سب سے پہلے افغانستان کو برطانوی اورروسی سلطنتوںکے درمیان بفرزون بنانے کی خاطر ڈورنڈلائن کے نام سے سوبرس کے لیے افغانستان اوربرٹش انڈیاکے درمیان ایک سرحدی خط کھینچا۔دوسرا اقدام اس علاقے میں موجود قبائل کی قوت کو کم کرنے کے لیے برٹش انڈیاکی حدود میں آنے والے قبائلی علاقے میںسات نیم خود مختارریجن اوران کے ساتھ ہی چھ چھوٹے زون تشکیل دیے،جو فرنٹئیرریجن(FR) کہلاتے ہیں۔برٹش حکومت نے قبائلی علاقے کواس وقت کے سرحدی صوبےNWFP کی صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے مرکز کے زیر انتظام رکھااور وہاںپولیٹیکل ایجنٹس مقررکیے جو گورنر کے ذریعے دہلی کی مرکزی حکومت کو جوابدہ ہوتے تھے۔اس کے علاوہ قبائل کو کنٹرول کرنے کے لیے وہاںبرٹش انڈیامیں لاگوقوانین یعنی انڈین پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ کااطلاق کرنے کے بجائےFrontier Crimes Regulationsنام کا ایک قانون نافذکیاگیا،جو آج تک جاری ہے۔
1947ء میں آزادی کے بعد بھارت نے شمال مشرقی سرحد پر موجود قبائلی علاقوں کوانتظامی طورپرقریبی ریاستوں میں ضم کردیا۔اس کے برعکس پاکستان نے قبائلی علاقوں میں نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے اورFrontier Crimes Regulations کوبرقراررکھا۔پاکستان میں بننے والے مختلف آئینوںمیں بھی پاکستان کے صدرکو ان علاقوںکی مجاز اتھارٹی تسلیم کیا گیا، جوNWFP کے گورنرکے ذریعے ان علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ کا تقررکرکے انھیں براہ راست کنٹرول کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ البتہ1973ء کے آئین میں قبائلی علاقوں کے شہریوں کوقومی اسمبلی میں نمایندگی کا حق دیدیاگیا،لیکن نہ توان علاقوںکو الگ صوبائی حیثیت دینے کی زحمت گوارا کی گئی اور نہ ہی انھیںصوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کیا گیا ۔حالانکہ ان علاقوںمیںقبائلیوں کو مساوی شہری حقوق دینے اور Frontier Crimes Regulations ختم کرنے کے لیے مسلسل آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ لیکن ان ناانصافیوں کے باوجود1947ء سے1980ء تک یہ علاقے خاصے پرسکون اور پرامن ہواکرتے تھے اور کسی قسم کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی آماجگاہ نہیں تھے۔
لیکن دسمبر 1979ء میں جب ببرک کارمل کی درخواست پرروسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں ،تو خطے میں ایک نیا عالمی تناؤ پیدا ہوا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے اور سوویت یونین کو زچ کرنے کے لیے امریکانے پاکستان کی مدد سے براہ راست کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔جس کا بھرپور فائدہ اس وقت کے فوجی آمرجنرل ضیاء الحق نے اٹھایا۔انھوں نے خلیجی ریاستوں کے تعاون سے افغانستان میں برسرپیکار قبائلی عمائدین اور مذہبی رہنمائوں کی امداد کے لیے جہاد کا تصورعام کیا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں قائم ایک مخصوص مسلک کے مدارس میں عسکری تربیت کااہتمام کیااور دنیابھر سے آنے والے جنگجوجتھوں کوقبائلی علاقوں میں قیام کی سہولیات فراہم کیں۔اس صورتحال کے تین انتہائی خوفناک نتائج سامنے آئے۔
اول، نوآبادیاتی دورکا پولیٹیکل ایجنٹ کاانسٹیٹیوشن کمزورہوا اور اس کی انتظامی حیثیت تقریباًختم ہوگئی۔ساتھ ہی قبائلی ملکوں(Maliks)کی فیصلہ کن اہمیت کو بھی نقصان پہنچا ۔دوئم قبائلی علاقوں میںدیگر ممالک کے جنگجو جتھوں کے رہائش پذیر ہونے سے علاقے کا تاریخی ثقافتیFabricتبدیل ہوا اور ایک مخصوص مسلک کی اجارہ داری قائم ہوئی۔سوئم،جنگجو جتھوں کی سرگرمیوں سے صرف نظر اور اکثرمواقعے پر ان کی سرپرستی کے نتیجے میں شدت پسند عناصر کومضبوط ہونے کا موقع ملا،جو آج پاکستان کی ریاستی رٹ کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔
عجب طرفہ تماشہ ہے کہ افغان جنگ دوران اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ کسی وقت یہ جنگ اپنے منطقی انجام تک پہنچ کرختم ہوسکتی ہے۔ لہٰذا 1986ء میں ہونے والے جنیوامعاہدے کے نتیجے میںجب روسی فوجوں کا انخلاء شروع ہوا اور 1991ء میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ پورا عالمی سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے لگا،تو پاکستانی منصوبہ ساز اس تبدیلی کے لیے ذہنی طورپر تیار نہیں تھے۔چونکہ انھوںنے جنگجو جتھوں کے مستقبل اور ان کی واپسی کے لیے کوئی لائحہ عمل پہلے سے طے نہیں کیاتھا،اس لیے یہ عناصر قبائلی علاقوںمیں مستقلاً قیام پذیرہوگئے۔
9/11کے بعد جب خطے کی صورتحال میں ایک نیا موڑ آیا،تواسے بھی پاکستانی منصوبہ سازوں نے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے اور سرد جنگ کی نفسیات سے نکلنے کی کوشش نہیں کی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا کلیدی حصہ اور امریکاقریبی حلیف ہونے کے باوجوداس کامکمل اعتمادحاصل کرنے میں ناکام رہا۔دوسری طرف وہ عناصر جن کی پاکستان افغان جنگ اور اس کے بعد9/11 سے پہلے تک سرپرستی کرتارہاتھا، صحیح طورپر اعتماد میں نہ لیے جانے کے سبب پاکستان کے مخالف ہوگئے۔ ساتھ ہی کچھ پاکستان مخالف عناصر بھی ان کی صفوں میں گھس گئے،جنہوں نے قبائلی علاقوں میں موجود عناصر اور حکومت پاکستان کے درمیان اختلافات کی خلیج کو وسیع تر کیا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ شدت پسند عناصر سے مذاکرات کرنے کے بجائے قبائلی علاقوں میں انتظامی رٹ بحال کرنے پر توجہ دی جائے۔اس علاقے کو فوری طورپر یا تو الگ صوبے کی شکل دی جائے یا پھر پختونخواہ میں ضم کرکے اس کے انتظامی ڈھانچہ کو پورے ملک کے مساوی لانے کی کوشش کی جائے۔ان تمام امتیازی اور نوآبادیاتی قوانین کا خاتمہ کیا جائے جن کی وجہ سے انتظامی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔ پاکستان کودرپیش مسائل کا دوسراحل نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی ہے،جس کی مدد سے امن وامان کے مسائل پر قابو پانا آسان ہے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے تحفظ اور جمہوری طرز حکمرانی کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ روایتی طرز سیاست کو خیرآباد کہتے ہوئے سیاست کے نئے اصول وضابط کو اپنایا جائے اور ان عناصر سے مذاکرات سے گریز کیا جائے ،جو پاکستان کے وجود اور اس کے نظم حکمرانی کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اس کے برعکس جمعیت علمائے اسلام کی کانفرنس میں عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے لیے جو طریقہ کار وضع کیا گیا اورکانفرنس کے اختتام پرجاری کردہ پانچ نکاتی اعلامیے میں جو اقدامات تجویزکیے گئے ہیں،وہ روایتی ہونے کے باوجود معروضیت سے زیادہ قریب محسوس ہورہے ہیں۔اس اعلامیے کے مطابق: عسکریت پسندوں سے مذاکرات کے لیے گرینڈ جرگہ کوبااختیار بنانے کے لیے مختلف مکتبہ فکر کی جماعتوں کاشامل کیا جانا۔ شہداء کے لواحقین اور زخمیوںکی فلاح وبہبود کے لیے ٹرسٹ کاقیام۔پاکستان کے آئین اورقانون کے دائرہ کارکے اندر رہتے ہوئے فریقین سے مذاکرات کا آغاز۔ ملک سے لاقانونیت کے خاتمے اور ریاست کی رٹ قائم کرنے کے لیے عملی اقدامات۔ موجودہ،عبوری اورآیندہ قائم ہونے والی حکومت اور اپوزیشن اس کانفرنس کی سفارشات پر عملدرآمد کی پابند ہوں گی۔ لیکن ان دونوں کانفرنسوںکے پس پشت فکری رجحان،ان کی عمل پذیری اور نتائج کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں،جن پر غور کرنا ضرری ہے۔
پہلاسوال یہ ہے کہ آیاقبائلی علاقوں میں موجود شدت پسند عناصر سے مذاکرات کا کوئی منطقی جواز ہے؟کیااس کے بعد دیگر جرائم پیشہ افراد جن میں اغواء برائے تاوان،ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم میں ملوث عناصر سے بھی مذاکرات کی وکالت کی جائے گی؟ کیااس طرح ان عناصر کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے جن کے ہاتھوںسے ہزاروں پاکستانیوں، سیکڑوںفوجی لقمہ اجل بن چکے ہیں، درجنوں فوجیوں کے سرقلم ہوچکے ہیں اورجو فوجی تنصیبات پر حملے کرچکے ہوں؟کیا سیاسی جماعتیں پاکستان کے آئین میں ان عناصر کی خواہشات کے مطابق تبدیلیاں لانے پر آمادہ ہوچکی ہیں؟ کیامذاکرات کے علاوہ کوئی اور متبادل ممکن نہیں؟ ساتھ ہی اس پہلو پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ 65 برسوں کے دوران وہ کون سی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جو اس قسم کی صورتحال کا سبب بنی ہیں۔ لہٰذاضروری ہے کہ اس خطے کی تاریخ پر بھی نظر ڈال لی جائے،جس کی وجہ سے خرابیِ بسیار اس سطح تک پہنچی ہے اور واپسی کا راستہ نظر نہیں آرہا۔
انیسویں صدی کے وسط میں ہندوستان پرمکمل قبضے کے بعد زار روس کے حملوں سے بچنے اور افغان سرحدکے ساتھ آباد قبائلیوں کی شورشوں کاسدباب کرنے کے لیے برطانوی حکومت نے بعض دور رس اقدامات کیے تھے۔اس سلسلے میںسرہنری مورٹیمر ڈیورینڈ(Sir Henry Mortimer Durand) نے سب سے پہلے افغانستان کو برطانوی اورروسی سلطنتوںکے درمیان بفرزون بنانے کی خاطر ڈورنڈلائن کے نام سے سوبرس کے لیے افغانستان اوربرٹش انڈیاکے درمیان ایک سرحدی خط کھینچا۔دوسرا اقدام اس علاقے میں موجود قبائل کی قوت کو کم کرنے کے لیے برٹش انڈیاکی حدود میں آنے والے قبائلی علاقے میںسات نیم خود مختارریجن اوران کے ساتھ ہی چھ چھوٹے زون تشکیل دیے،جو فرنٹئیرریجن(FR) کہلاتے ہیں۔برٹش حکومت نے قبائلی علاقے کواس وقت کے سرحدی صوبےNWFP کی صوبائی حکومت کے حوالے کرنے کے بجائے مرکز کے زیر انتظام رکھااور وہاںپولیٹیکل ایجنٹس مقررکیے جو گورنر کے ذریعے دہلی کی مرکزی حکومت کو جوابدہ ہوتے تھے۔اس کے علاوہ قبائل کو کنٹرول کرنے کے لیے وہاںبرٹش انڈیامیں لاگوقوانین یعنی انڈین پینل کوڈ اور کرمنل پروسیجر کوڈ کااطلاق کرنے کے بجائےFrontier Crimes Regulationsنام کا ایک قانون نافذکیاگیا،جو آج تک جاری ہے۔
1947ء میں آزادی کے بعد بھارت نے شمال مشرقی سرحد پر موجود قبائلی علاقوں کوانتظامی طورپرقریبی ریاستوں میں ضم کردیا۔اس کے برعکس پاکستان نے قبائلی علاقوں میں نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے اورFrontier Crimes Regulations کوبرقراررکھا۔پاکستان میں بننے والے مختلف آئینوںمیں بھی پاکستان کے صدرکو ان علاقوںکی مجاز اتھارٹی تسلیم کیا گیا، جوNWFP کے گورنرکے ذریعے ان علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ کا تقررکرکے انھیں براہ راست کنٹرول کرتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ البتہ1973ء کے آئین میں قبائلی علاقوں کے شہریوں کوقومی اسمبلی میں نمایندگی کا حق دیدیاگیا،لیکن نہ توان علاقوںکو الگ صوبائی حیثیت دینے کی زحمت گوارا کی گئی اور نہ ہی انھیںصوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کیا گیا ۔حالانکہ ان علاقوںمیںقبائلیوں کو مساوی شہری حقوق دینے اور Frontier Crimes Regulations ختم کرنے کے لیے مسلسل آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ لیکن ان ناانصافیوں کے باوجود1947ء سے1980ء تک یہ علاقے خاصے پرسکون اور پرامن ہواکرتے تھے اور کسی قسم کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی آماجگاہ نہیں تھے۔
لیکن دسمبر 1979ء میں جب ببرک کارمل کی درخواست پرروسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں ،تو خطے میں ایک نیا عالمی تناؤ پیدا ہوا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھانے اور سوویت یونین کو زچ کرنے کے لیے امریکانے پاکستان کی مدد سے براہ راست کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔جس کا بھرپور فائدہ اس وقت کے فوجی آمرجنرل ضیاء الحق نے اٹھایا۔انھوں نے خلیجی ریاستوں کے تعاون سے افغانستان میں برسرپیکار قبائلی عمائدین اور مذہبی رہنمائوں کی امداد کے لیے جہاد کا تصورعام کیا۔ اس مقصد کے لیے پاکستان میں قائم ایک مخصوص مسلک کے مدارس میں عسکری تربیت کااہتمام کیااور دنیابھر سے آنے والے جنگجوجتھوں کوقبائلی علاقوں میں قیام کی سہولیات فراہم کیں۔اس صورتحال کے تین انتہائی خوفناک نتائج سامنے آئے۔
اول، نوآبادیاتی دورکا پولیٹیکل ایجنٹ کاانسٹیٹیوشن کمزورہوا اور اس کی انتظامی حیثیت تقریباًختم ہوگئی۔ساتھ ہی قبائلی ملکوں(Maliks)کی فیصلہ کن اہمیت کو بھی نقصان پہنچا ۔دوئم قبائلی علاقوں میںدیگر ممالک کے جنگجو جتھوں کے رہائش پذیر ہونے سے علاقے کا تاریخی ثقافتیFabricتبدیل ہوا اور ایک مخصوص مسلک کی اجارہ داری قائم ہوئی۔سوئم،جنگجو جتھوں کی سرگرمیوں سے صرف نظر اور اکثرمواقعے پر ان کی سرپرستی کے نتیجے میں شدت پسند عناصر کومضبوط ہونے کا موقع ملا،جو آج پاکستان کی ریاستی رٹ کے لیے چیلنج بن چکے ہیں۔
عجب طرفہ تماشہ ہے کہ افغان جنگ دوران اس پہلو پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ کسی وقت یہ جنگ اپنے منطقی انجام تک پہنچ کرختم ہوسکتی ہے۔ لہٰذا 1986ء میں ہونے والے جنیوامعاہدے کے نتیجے میںجب روسی فوجوں کا انخلاء شروع ہوا اور 1991ء میں سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ پورا عالمی سیاسی منظرنامہ تبدیل ہونے لگا،تو پاکستانی منصوبہ ساز اس تبدیلی کے لیے ذہنی طورپر تیار نہیں تھے۔چونکہ انھوںنے جنگجو جتھوں کے مستقبل اور ان کی واپسی کے لیے کوئی لائحہ عمل پہلے سے طے نہیں کیاتھا،اس لیے یہ عناصر قبائلی علاقوںمیں مستقلاً قیام پذیرہوگئے۔
9/11کے بعد جب خطے کی صورتحال میں ایک نیا موڑ آیا،تواسے بھی پاکستانی منصوبہ سازوں نے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے اور سرد جنگ کی نفسیات سے نکلنے کی کوشش نہیں کی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک طرف پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کا کلیدی حصہ اور امریکاقریبی حلیف ہونے کے باوجوداس کامکمل اعتمادحاصل کرنے میں ناکام رہا۔دوسری طرف وہ عناصر جن کی پاکستان افغان جنگ اور اس کے بعد9/11 سے پہلے تک سرپرستی کرتارہاتھا، صحیح طورپر اعتماد میں نہ لیے جانے کے سبب پاکستان کے مخالف ہوگئے۔ ساتھ ہی کچھ پاکستان مخالف عناصر بھی ان کی صفوں میں گھس گئے،جنہوں نے قبائلی علاقوں میں موجود عناصر اور حکومت پاکستان کے درمیان اختلافات کی خلیج کو وسیع تر کیا۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ شدت پسند عناصر سے مذاکرات کرنے کے بجائے قبائلی علاقوں میں انتظامی رٹ بحال کرنے پر توجہ دی جائے۔اس علاقے کو فوری طورپر یا تو الگ صوبے کی شکل دی جائے یا پھر پختونخواہ میں ضم کرکے اس کے انتظامی ڈھانچہ کو پورے ملک کے مساوی لانے کی کوشش کی جائے۔ان تمام امتیازی اور نوآبادیاتی قوانین کا خاتمہ کیا جائے جن کی وجہ سے انتظامی پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔ پاکستان کودرپیش مسائل کا دوسراحل نچلی سطح تک اقتدار کی منتقلی ہے،جس کی مدد سے امن وامان کے مسائل پر قابو پانا آسان ہے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے آئین کے تحفظ اور جمہوری طرز حکمرانی کے تسلسل کے لیے ضروری ہے کہ روایتی طرز سیاست کو خیرآباد کہتے ہوئے سیاست کے نئے اصول وضابط کو اپنایا جائے اور ان عناصر سے مذاکرات سے گریز کیا جائے ،جو پاکستان کے وجود اور اس کے نظم حکمرانی کے لیے مسلسل خطرہ بنے ہوئے ہیں۔