پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
ایک امریکی اسکالر فرانسس پریچٹ نے داستان امیر حمزہ کے ایک خلاصہ کو سامنے رکھ کر انگریزی میں اسے قلمبند کر ڈالا۔
کراچی کے ادبی میلہ کے بیان میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا تو ہم بھول ہی گئے۔ وہ یہ کہ وہاں داستان گویوں کی ایک جوڑی بھی نمودار ہوئی تھی۔ تو یہ عجوبہ بھی ہوا کہ اکیسویں صدی کے اس ادبی میلہ میں انیسویں صدی بھی آن دھمکی۔ یعنی داستان گوئی کی ایک محفل بھی آراستہ ہوئی۔ سامعین حیران کہ اس محفل کا بستر تو کب کا لپٹ چکا تھا۔ انیسویں صدی کا مردہ اکیسویں صدی میں آ کر کیسے زندہ ہوا۔
ادب کی تاریخ میں ایسے معجزے ہوتے رہتے ہیں۔ جس مصنف کو جس لکھنے والے کو نئے لکھنے والے رد کر دیتے ہیں اس عذر کے ساتھ کہ یہ نیا زمانہ ہے، نئے اس کے مسائل ہیں، نئے اس کے اظہار کے رنگ ہیں۔ مگر آگے چل کر کسی بھی زمانے میں نئی ہوا اس طرح سے چلتی ہے کہ پرانے رنگ پھر سے کھل اٹھتے ہیں۔
داستان میں سب سے معتوب داستان امیر حمزہ تھی۔ اس کے سارے دفتر معہ اس دفتر کے جس کا نام طلسم ہوش ربا ہے دفتر پارینہ بن چکے تھے اور اب تو کسی کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس کے دفتر کتنے تھے۔ سنتالیس یا اڑتالیس یا انچاس۔
آں دفتر را گاؤ خورد۔ اس سارے دفتر کو گائے چر گئی اور گائے قصاب کے ہتھے چڑھ گئی۔ مگر اچانک ہمارے زمانے میں نامی گرامی محقق شمس الرحمٰن فاروقی نے اعلان کیا کہ وہ سب دفتر میرے کتب خانے میں محفوظ ہیں اور میں نے الف سے ی تک سارے دفتر پڑھے ہیں بلکہ چاٹ ڈالے ہیں۔ جنھیں چاٹ نہ سکا، انھیں دوبارہ پڑھا اور سہ بار پڑھا اور پھر انھوں نے اس کے تنقیدی مطالعے کے نام پر اپنے دفتر لکھنے شروع کر دیے۔
چلیے تحقیق بھی ہو گئی، تنقید بھی ہو گئی۔ مگر معاملہ اس پر آ کر ختم نہیں ہوا۔ سب سے پہلے تو ایک امریکی اسکالر فرانسس پریچٹ نے داستان امیر حمزہ کے ایک خلاصہ کو سامنے رکھ کر انگریزی میں اسے قلمبند کر ڈالا۔ یہ انگریزی ترجمہ علماء اور محققین نے پڑھا اور مطمئن ہو گئے۔ مگر آگے چل کر جب ایک نوخیز اہل قلم مشرف فاروقی نے اس کا ترجمہ کیا تو اس ترجمہ کو پر لگ گئے۔ سنتے ہیں کہ اس کی مغرب کے ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی۔
بس انھیں دنوں ایک بی بی ہم سے ملیں اور نوید سنائی کہ میں طلسم ہوش ربا کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی تیاری کر رہی ہوں۔ یہ تھیں شہناز اعجاز الدین۔ ہم نے حیرت سے انھیں سر سے پیر تک دیکھا اور کہا کہ بی بی یہ تمہارے دماغ میں کیا سمائی ہے۔ تم انگریزی کے چمن کی گل تازہ۔ یہ داستاں اردو کے ایک خزاں رسیدہ گلشن کا مرجھایا پھول۔ تمہارے لیے یہ پوری روایت اجنبی ہے۔ اس کے ترجمہ کا تمہیں خیال کیسے آیا۔ بولیں، واہ، میں نے تو بچپن سے اس داستان کو پڑھ رکھا ہے۔ اردو چھوڑ ہمارے گھر میں تو فارسی کا بھی چلن رہا ہے۔ ہم نے کہا کہ اگر تمہارے سر پر یہ سودا سوار ہو ہی گیا ہے تو پھر بسم اللہ کرو۔ تو اس بی بی نے رئیس احمد جعفری کے خلاصے کو سامنے رکھا اور خلاصہ بھی ضخیم ناولوں سے بڑھ کر ضخیم ہے۔ بہرحال اسے سامنے رکھا اور انگریزی میں رواں ہو گئیں۔ لیجیے پینگوئن والوں نے اس ترجمہ کو سنگھوایا اور اس داستان کا انگریزی ایڈیشن چھاپ ڈالا۔ اس ترجمہ نے بھی قبولیت حاصل کر لی۔
ادھر ہم حیران کہ مغرب والوں کو کیا ہو گیا۔ ان کے چراغ سے اکتساب نور کر کے تو ہمارے یہاں کے جدیدیت کے نام لیوائوں نے اپنا چراغ جلایا تھا۔ اب ہم نئے فکشن کے نام لیوا ہیں۔ انھیں کس باولے کتے نے کاٹا ہے کہ ہماری ایک باسی داستان کو سر چڑھا رہے ہیں۔ کسی دانشور نے ہمیں سمجھایا کہ اس عمل کو انگریزی ادب میں Revival کہتے ہیں۔ وہاں یہ عمل ہوتا رہتا ہے۔ اسی زمانے میں جنوبی امریکا کے ناول نگاروں نے ایک نیا گل کھلایا۔ جس قصہ کہانی کو ہم مافوق الفطرت اور خلاف عقل کہہ کر رد کرتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے میجک ریلزم Magic Realism یعنی جادوئی حقیقت نگاری کی اصطلاح وضع کی۔
یہ نیا لیبل مغربی ادب کی مارکیٹ میں خواب چلا۔ اس چکر میں ہمارا پرانا مال بھی نیا مال بن گیا اور مغرب کی مارکیٹ میں اس کی نکاس کی صورت پیدا ہو گئی۔ اور ابھی یہ ذکر ہو رہا تھا اور فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اپنی داستانوں کی روایت یا مخصوص طور پر اس داستان کی تجدید کا سہرا شمس الرحمٰن فاروقی کے سر باندھیں یا اس کے لیے جنوبی امریکا کے ناول نگار مارکیز کا شکریہ ادا کریں کہ ادھر دلی میں ایک اور شگوفہ پھوٹا۔ دو نوجوانوں محمود فاروقی اور دانش حسین کو دور کی سوجھی کہ چلو ہم چار قدم اور آگے آ جاتے ہیں اور شائقین داستان کے لیے دستان گوئی کی محفل سجاتے ہیں۔ لیجیے دلی شہر میں ان پر بھی داد کے ڈونگرے برسنے لگے۔ یعنی کہ داستان گوئی جو کل تک متروک تھی دم کے دم میں ہٹ ہو گئی۔ سنتے ہیں کہ دلی کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ان نئے نویلے داستان گویوں کا سکہ چلتا ہے۔
سنا ہے کہ محمود فاروقی تو ان دنوں ہنی مون منا رہے ہیں۔ دانش حسین نے ایک اور نوجوان کو اپنے ساتھ ملایا اور کراچی کے ادبی میلہ میں آ کر اپنا رنگ جمایا۔
مگر یہاں انھوں نے ایک اور کام کیا، داستان امیر حمزہ کو الگ رکھا سوچا کہ ہمارے زمانے کی ایک دستان حیات جو ابھر کر سامنے آئی ہے اور جسے اس وقت ہندوستان پاکستان میں بڑے شوق سے سنا جا رہا ہے اسے اپنی داستان گوئی کی روایت میں رچا کر پیش کریں۔ ہم نے کہا کہ عزیزو، تم نے خوب کہا کہ منٹو صاحب بھی اب ہمارے لیے ایک داستانی شخصیت ہیں، تم نے اچھا کیا کہ اس داستان حیات کو اپنا لیا۔ مگر کیا مضائقہ تھا کہ داستان امیر حمزہ کی بھی تھوڑی جھلک آج کے ناظرین کو دکھا دیتے۔ مگر وہاں جو آج کے ناظرین اکٹھے تھے انھوں نے اس نئی داستان ہی کے حوالے ان داستان گویوں پر داد کے اتنے ڈونگرے برسائے کہ وہ نہال ہو گئے۔
ہاں اس چکر میں ایک اور واقعہ ہوا۔ تقسیم کے بعد ہندوستان میں اردو زبان نکو بن گئی تھی۔ ادھر پاکستان عالم وجود میں آیا، ادھر ہندوستان میں مسلمان عتاب میں آ گئے۔ سب سے بڑھ کر نزلہ اردو زبان پر گرا۔ مگر زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ عجب ہوا کہ ایک تو بمبئی کی فلم اردو سے پیچھا نہیں چھڑا سکی۔ پھر کسی کسی فلم ساز کو غالب کی شاعری ستانے لگی۔ اس شاعری کی خوشبو فلمی اور موسیقی کی دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ لیجیے غالب ہندوستان میں یار و اغیار کے بیچ کریز Craze بن گیا۔ پھر کچھ اردو کے شاعر اور انشا نگار جیسے فیض اور منٹو کریز بنے اور اب داستان گوئی کی محفل۔ ایں گل دیگر شگفت۔ بس اسی راستے اردو کی ساکھ پھر سے بحال ہوتی نظر آنے لگی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب بمبئی کی فلم میں زبان تو وہی اردو چلی آتی ہے مگر وہ اب ہندی فلم کہلاتی ہے۔ بہرحال پھر بھی سودا برا نہیں رہا۔ اصل میں برصغیر کی ساری تاریخ ہی اُوبڑ کھابڑ ہے۔ سو اس میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی کوئی منطق نہیں ہوتی۔ بس انھیں برصغیر کی تاریخ کے معجزوں میں شمار کیجیے۔ انگریزی میں اسے Revival کہہ لیجیے اور غالب نے کیا خوب کہا ؎
پھر اسی بے وفا پر مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
ادب کی تاریخ میں ایسے معجزے ہوتے رہتے ہیں۔ جس مصنف کو جس لکھنے والے کو نئے لکھنے والے رد کر دیتے ہیں اس عذر کے ساتھ کہ یہ نیا زمانہ ہے، نئے اس کے مسائل ہیں، نئے اس کے اظہار کے رنگ ہیں۔ مگر آگے چل کر کسی بھی زمانے میں نئی ہوا اس طرح سے چلتی ہے کہ پرانے رنگ پھر سے کھل اٹھتے ہیں۔
داستان میں سب سے معتوب داستان امیر حمزہ تھی۔ اس کے سارے دفتر معہ اس دفتر کے جس کا نام طلسم ہوش ربا ہے دفتر پارینہ بن چکے تھے اور اب تو کسی کو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ اس کے دفتر کتنے تھے۔ سنتالیس یا اڑتالیس یا انچاس۔
آں دفتر را گاؤ خورد۔ اس سارے دفتر کو گائے چر گئی اور گائے قصاب کے ہتھے چڑھ گئی۔ مگر اچانک ہمارے زمانے میں نامی گرامی محقق شمس الرحمٰن فاروقی نے اعلان کیا کہ وہ سب دفتر میرے کتب خانے میں محفوظ ہیں اور میں نے الف سے ی تک سارے دفتر پڑھے ہیں بلکہ چاٹ ڈالے ہیں۔ جنھیں چاٹ نہ سکا، انھیں دوبارہ پڑھا اور سہ بار پڑھا اور پھر انھوں نے اس کے تنقیدی مطالعے کے نام پر اپنے دفتر لکھنے شروع کر دیے۔
چلیے تحقیق بھی ہو گئی، تنقید بھی ہو گئی۔ مگر معاملہ اس پر آ کر ختم نہیں ہوا۔ سب سے پہلے تو ایک امریکی اسکالر فرانسس پریچٹ نے داستان امیر حمزہ کے ایک خلاصہ کو سامنے رکھ کر انگریزی میں اسے قلمبند کر ڈالا۔ یہ انگریزی ترجمہ علماء اور محققین نے پڑھا اور مطمئن ہو گئے۔ مگر آگے چل کر جب ایک نوخیز اہل قلم مشرف فاروقی نے اس کا ترجمہ کیا تو اس ترجمہ کو پر لگ گئے۔ سنتے ہیں کہ اس کی مغرب کے ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ہوئی۔
بس انھیں دنوں ایک بی بی ہم سے ملیں اور نوید سنائی کہ میں طلسم ہوش ربا کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی تیاری کر رہی ہوں۔ یہ تھیں شہناز اعجاز الدین۔ ہم نے حیرت سے انھیں سر سے پیر تک دیکھا اور کہا کہ بی بی یہ تمہارے دماغ میں کیا سمائی ہے۔ تم انگریزی کے چمن کی گل تازہ۔ یہ داستاں اردو کے ایک خزاں رسیدہ گلشن کا مرجھایا پھول۔ تمہارے لیے یہ پوری روایت اجنبی ہے۔ اس کے ترجمہ کا تمہیں خیال کیسے آیا۔ بولیں، واہ، میں نے تو بچپن سے اس داستان کو پڑھ رکھا ہے۔ اردو چھوڑ ہمارے گھر میں تو فارسی کا بھی چلن رہا ہے۔ ہم نے کہا کہ اگر تمہارے سر پر یہ سودا سوار ہو ہی گیا ہے تو پھر بسم اللہ کرو۔ تو اس بی بی نے رئیس احمد جعفری کے خلاصے کو سامنے رکھا اور خلاصہ بھی ضخیم ناولوں سے بڑھ کر ضخیم ہے۔ بہرحال اسے سامنے رکھا اور انگریزی میں رواں ہو گئیں۔ لیجیے پینگوئن والوں نے اس ترجمہ کو سنگھوایا اور اس داستان کا انگریزی ایڈیشن چھاپ ڈالا۔ اس ترجمہ نے بھی قبولیت حاصل کر لی۔
ادھر ہم حیران کہ مغرب والوں کو کیا ہو گیا۔ ان کے چراغ سے اکتساب نور کر کے تو ہمارے یہاں کے جدیدیت کے نام لیوائوں نے اپنا چراغ جلایا تھا۔ اب ہم نئے فکشن کے نام لیوا ہیں۔ انھیں کس باولے کتے نے کاٹا ہے کہ ہماری ایک باسی داستان کو سر چڑھا رہے ہیں۔ کسی دانشور نے ہمیں سمجھایا کہ اس عمل کو انگریزی ادب میں Revival کہتے ہیں۔ وہاں یہ عمل ہوتا رہتا ہے۔ اسی زمانے میں جنوبی امریکا کے ناول نگاروں نے ایک نیا گل کھلایا۔ جس قصہ کہانی کو ہم مافوق الفطرت اور خلاف عقل کہہ کر رد کرتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے میجک ریلزم Magic Realism یعنی جادوئی حقیقت نگاری کی اصطلاح وضع کی۔
یہ نیا لیبل مغربی ادب کی مارکیٹ میں خواب چلا۔ اس چکر میں ہمارا پرانا مال بھی نیا مال بن گیا اور مغرب کی مارکیٹ میں اس کی نکاس کی صورت پیدا ہو گئی۔ اور ابھی یہ ذکر ہو رہا تھا اور فیصلہ نہ کر پائے تھے کہ اپنی داستانوں کی روایت یا مخصوص طور پر اس داستان کی تجدید کا سہرا شمس الرحمٰن فاروقی کے سر باندھیں یا اس کے لیے جنوبی امریکا کے ناول نگار مارکیز کا شکریہ ادا کریں کہ ادھر دلی میں ایک اور شگوفہ پھوٹا۔ دو نوجوانوں محمود فاروقی اور دانش حسین کو دور کی سوجھی کہ چلو ہم چار قدم اور آگے آ جاتے ہیں اور شائقین داستان کے لیے دستان گوئی کی محفل سجاتے ہیں۔ لیجیے دلی شہر میں ان پر بھی داد کے ڈونگرے برسنے لگے۔ یعنی کہ داستان گوئی جو کل تک متروک تھی دم کے دم میں ہٹ ہو گئی۔ سنتے ہیں کہ دلی کے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ان نئے نویلے داستان گویوں کا سکہ چلتا ہے۔
سنا ہے کہ محمود فاروقی تو ان دنوں ہنی مون منا رہے ہیں۔ دانش حسین نے ایک اور نوجوان کو اپنے ساتھ ملایا اور کراچی کے ادبی میلہ میں آ کر اپنا رنگ جمایا۔
مگر یہاں انھوں نے ایک اور کام کیا، داستان امیر حمزہ کو الگ رکھا سوچا کہ ہمارے زمانے کی ایک دستان حیات جو ابھر کر سامنے آئی ہے اور جسے اس وقت ہندوستان پاکستان میں بڑے شوق سے سنا جا رہا ہے اسے اپنی داستان گوئی کی روایت میں رچا کر پیش کریں۔ ہم نے کہا کہ عزیزو، تم نے خوب کہا کہ منٹو صاحب بھی اب ہمارے لیے ایک داستانی شخصیت ہیں، تم نے اچھا کیا کہ اس داستان حیات کو اپنا لیا۔ مگر کیا مضائقہ تھا کہ داستان امیر حمزہ کی بھی تھوڑی جھلک آج کے ناظرین کو دکھا دیتے۔ مگر وہاں جو آج کے ناظرین اکٹھے تھے انھوں نے اس نئی داستان ہی کے حوالے ان داستان گویوں پر داد کے اتنے ڈونگرے برسائے کہ وہ نہال ہو گئے۔
ہاں اس چکر میں ایک اور واقعہ ہوا۔ تقسیم کے بعد ہندوستان میں اردو زبان نکو بن گئی تھی۔ ادھر پاکستان عالم وجود میں آیا، ادھر ہندوستان میں مسلمان عتاب میں آ گئے۔ سب سے بڑھ کر نزلہ اردو زبان پر گرا۔ مگر زمانہ سدا ایک سا نہیں رہتا۔ عجب ہوا کہ ایک تو بمبئی کی فلم اردو سے پیچھا نہیں چھڑا سکی۔ پھر کسی کسی فلم ساز کو غالب کی شاعری ستانے لگی۔ اس شاعری کی خوشبو فلمی اور موسیقی کی دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔ لیجیے غالب ہندوستان میں یار و اغیار کے بیچ کریز Craze بن گیا۔ پھر کچھ اردو کے شاعر اور انشا نگار جیسے فیض اور منٹو کریز بنے اور اب داستان گوئی کی محفل۔ ایں گل دیگر شگفت۔ بس اسی راستے اردو کی ساکھ پھر سے بحال ہوتی نظر آنے لگی۔ یہ الگ بات ہے کہ اب بمبئی کی فلم میں زبان تو وہی اردو چلی آتی ہے مگر وہ اب ہندی فلم کہلاتی ہے۔ بہرحال پھر بھی سودا برا نہیں رہا۔ اصل میں برصغیر کی ساری تاریخ ہی اُوبڑ کھابڑ ہے۔ سو اس میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں جن کی کوئی منطق نہیں ہوتی۔ بس انھیں برصغیر کی تاریخ کے معجزوں میں شمار کیجیے۔ انگریزی میں اسے Revival کہہ لیجیے اور غالب نے کیا خوب کہا ؎
پھر اسی بے وفا پر مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے