لالی وڈ سے ہالی وڈ

آپ پاکستان کے ٹاپ ٹین ہیروز کے نام نہیں بتا پائیں گے کہ اس وقت پاکستان کی فلم انڈسٹری میں دس ہیروز ہیں ہی نہیں۔


Wajahat Ali Abbasi March 04, 2013
[email protected]

پاکستان کے شوبز سے تعلق رکھنے والوں کا ایک خواب ہے، خواب کہ ہم بھی ہالی وڈ کا حصہ بنیں، ہماری فلمیں بھی ہالی وڈ میں ریلیز کی جائیں، یہ خواب صرف ہمارا نہیں انڈیا کا بھی ہے اور ہالی وڈ انگلی کٹا کر شہیدوں میں شامل بھی ہوچکا ہے۔

2001 میں انڈین فلم لگان آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد ہوئی اور 2009 میں سلم ڈاگ ملینئر جو انڈیا میں شوٹ کی گئی تھی نے نہ صرف گیارہ آسکرز جیتے بلکہ فلم کے ایکٹر انیل کپور کو ہالی وڈ کی ایک آدھ بڑی فلم میں چھوٹے موٹے رول بھی دلانے میں کامیاب ہوئی۔انیل کپور مشن امپاسیبل میں نظر آئے اور انڈیا دو سال تک ان کے ہالی وڈ فلم میں آنے کے گن گاتا رہا۔ پاکستان ہالی وڈ اور آسکرز سے بہت دور ہے، پاکستان آسکرز کی سو ملکوں کی لسٹ میں وہ واحد ملک ہے جس نے پچھلے چالیس سال سے کوئی فلم بھی انٹر نہیں کرائی ہے اور کریں بھی کیسے ہمارے یہاں فلمیں بنتی بھی کہاں ہیں۔

اگر ہم آپ سے پاکستان کے ٹاپ ٹین ہیروز کے نام پوچھیں تو آپ یہ اس لیے نہیں بتا پائیں گے کہ اس وقت پاکستان کی فلم انڈسٹری میں دس ہیروز ہیں ہی نہیں، جو پاکستانی فلموں کے لیے کچھ کرسکتے ہیں وہ انڈیا جاکر قسمت آزمانے کی کوشش کر رہے ہیں، اس لیے پاکستانی آرٹسٹوں کا ہالی وڈ جانے کا خواب خواب ہی ہے۔ ایک پرانا لطیفہ ہے ''میرا بچہ بڑا ہوکر کیا بنے گا؟'' ماں نے پوچھا، نجومی نے جواب دیا ''تمہارے بچے کے ایک اشارے پر سیکڑوں گاڑیاں رک جائیں گی'' ماں یہ سن کر خوش ہوگئی کہ میرا بچہ بہت بڑا آدمی بنے گا اور اس کے آگے پیچھے ہر وقت گاڑیاں دوڑتی رہیں گی۔ بچہ بڑا ہوکر ٹریفک کانسٹیبل بن گیا۔

پاکستانی شوبز کے لوگ ٹی وی شوز میں اکثر ہالی وڈ جانے کی بات کرتے نظر آتے ہیں اور پاکستان ہالی وڈ پہنچ بھی گیا لیکن ویسے ہی جیسے لطیفے والے بچے کے اشارے پر سیکڑوں گاڑیاں ادھر سے ادھر تو ہورہی تھیں لیکن ٹریفک کانسٹیبل بن کر۔2001 میں امریکن رپورٹر ڈینئل پرل کو کراچی میں اغواء کیا گیا اور بے رحمی سے قتل کردیا گیا، کچھ سال بعد اس پر ہالی وڈ میں ایک فلم بھی بنی اور فلم بری طرح پٹ گئی۔ فلم کافی دن بعد آئی اور امریکن عوام نے اسے پسند بھی نہیں کیا۔ اس کے بعدہالی وڈ ہمیں کافی عرصے تک بھولا رہا، لیکن پھر امریکا کو اچانک اسامہ بن لادن مل گئے۔

اسامہ امریکا کے بقول ایبٹ آباد پاکستان میں تھے اور امریکا نے ایک خفیہ آپریشن کرکے انھیں پکڑا، وہ اسامہ جن کے پاس دہشت گردی کے اگلے پچھلے سارے واقعات کی معلومات کا ذخیرہ ہوگا، انھیں بغیر کسی پوچھ گچھ اور ڈی این اے کنفرمیشن کے بغیر انھیں فوراً مار دیا۔اس سانحے کو لے کر ہالی وڈ نے ایک فلم بنائی ہے جس کا نام ہے ''زیروڈارک تھرٹی'' اس فلم میں القاعدہ اور امریکن فورسز کو لے کر پچھلے 10سال کے واقعات دکھائے گئے ہیں۔ فلم کا اختتام اسامہ بن لادن کے پکڑے جانے سے ہوتا ہے۔

فلم میں پاکستان سے متعلق کئی چہروں کو دکھایا گیا ہے جو ناقص ریسرچ کی وجہ سے درست نہیںجیسے پاکستانیوں کو انڈینز کی طرح عربی بولتے دکھایا ہے، ساتھ ہی پاکستانیوں کو عربی ڈش ''حمص'' ایسے کھاتے دکھایا ہے جیسے یہ پاکستان میں ایک عام سی ڈش ہے، اس کے علاوہ پاکستانی یہ اعتراف کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ ہمارے یہاں ''ایس یوویز'' یعنی جیپ، پجارو، لینڈکروزر جیسی گاڑیاں نہیں چلائی جاتیں، فلم میں کئی غلطیاں ہیں جیسے اسامہ تک پہنچ کر ان کا دروازہ کھٹ کھٹاکر امریکن لہجے میں انھیں ''اسامہ، اسامہ!'' کرکے باہر ایسے بلاتے ہیں کہ جس کے بعد اسامہ انھیں دودھ والا سمجھ کر فوراً دروازہ کھول دیتے ہیں۔پاکستان میں آفیشلی اس فلم کو ریلیز نہیں کیا گیا جس کی وجہ کوئی حکومتی دباؤ نہیں صرف یہ بتائی جاتی ہے کہ فلم کے بزنس کرنے کے کوئی چانسز نہیں، لیکن فلم پائریٹڈ ڈی وی ڈیز پر کچھ عرصے پہلے تک دستیاب تھی جس کے بعد پچھلے ہفتے ''ان آفیشلی'' اسے بین کردیا گیا۔

کراچی، اسلام آباد، لاہور کے کئی دکانداروں کے مطابق کچھ لوگ دکانوں میں آکر خود کو حکومتی افسران بتاکر ان ڈی وی ڈیز کو نہ بیچنے کے احکامات دے رہے ہیں جب کہ حکومت کی طرف سے کوئی آفیشل بیان نہیں ہے لیکن شاید حکومت کسی بھی طرح کے ہنگامے یا امریکن ایمبیسی کے باہر مظاہروں سے بچنے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔

کچھ ہفتے پہلے ساؤتھ انڈیا کے سپراسٹار کمل ہاسن کی فلم ریلیز ہوئی اس میں بھی پاکستان اور مسلمانوں کا خراب امیج پیش کیا گیا۔ ''ظالم، بے رحم، جاہل'' یہ فلم پاکستان میں ریلیز نہیں ہوئی لیکن دنیا کے درجنوں ملکوں میں اس فلم کو دیکھا گیا، اسی طرح ''زیروڈارک تھرٹی'' بھی دنیا کے ہزاروں تھیٹرز میں ریلیز کی گئی جس سے پاکستان اور پاکستانیوں کا امیج خراب ہورہا ہے۔2013 فلموں کے حساب سے اچھا شروع نہیں ہوا۔ فلمیں جو ہم نے خود بنائی ہی نہیں دوسرے ہمارے کاندھے بندوق رکھ کر چلا رہے ہیں۔ ہم ہالی وڈ جانا چاہتے ہیں لیکن ایسے نہیں دوسروں کے ہاتھوں بنائی کہانیوں میں خود کا غلط امپریشن دکھاتے نہیں بلکہ ہمیں وہ اپنی کہانیاں سنانی ہیں جو دنیا تک کبھی پہنچی ہی نہیں۔پچھلے پانچ سال سے بننے والی ہندوستان امریکن فلم میکر میرانائر کی فلم Reluctant Fundamentalist بھی کچھ دن میں ریلیز ہونے والی ہے اس میں بھی پاکستان اور پاکستانیوں کو نائن الیون کی وجہ سے امریکا اور دوسرے ملکوں میں تکلیفوں کا سامنا کرتا دکھایا گیا ہے۔

ایک بار پھر انڈین فلم میکرز اور ایکٹرز مل کر دکھائیں گے کہ پاکستانی کیسے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں ہر آدمی میں ایک شیر ہوتا ہے بس اسے جگانے کی دیر ہوتی ہے۔ ہمارے جاگنے کا وقت آگیا، ہماری قوم کے شوبز والے بہت ٹیلینٹڈ ہیں، ایک پاکستانی لڑکی مشکل ڈاکومنٹری بناکر بیسٹ ڈاکومنٹری کا آسکر جیت سکتی ہے تو پھر اور کوئی پاکستانی فلم کیٹیگری میں آسکر کیوں نہیں جیتتا؟ہم اسکول کے وہ بچے بنے کیوں بیٹھے ہیں جسے کلاس کے دوسرے بچے تنگ کر رہے ہیں اسے الٹے سیدھے ناموں سے پکار رہے ہیں اور وہ کچھ نہیں بولتا؟ہمیں بولنا ہے، جواب دینا ہے، لیکن امریکن ایجنسی کے باہر نعرے بازی کرکے نہیں بلکہ ایسی فلمیں بناکر جو پاکستانیوں کی صحیح تصویر دنیا تک پہنچائے گی، وہ فلم جو ہمیں نہ صرف ہالی وڈ تک لے جائے گی بلکہ اس جھوٹے امیج کو بھی توڑے گی جو ''زیروڈارک تھرٹی'' جیسی فلمیں دنیا کے سامنے ہمارا بناتی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں