شام کے بعد عراق بغاوت کا اگلا نشانہ حصہ دوئم
شام کے ایران کے ساتھ تعلقات لبنان اور فلسطین میں قائم مزاحمت کی وجہ سے بہتر ہیں۔
کالم کے اس حصے میں ہم عراق کے سیاسی پس منظر، مسائل اور بیرونی مداخلت پر بحث کریں گے۔جس میں امریکا اور ترکی سمیت خلیجی ممالک قطر اور سعودی عرب کے کردار پر روشنی ڈالیں گے۔عراق کو نشانہ بنانا مغرب کاکوئی نیا منصوبہ نہیں ہے۔واشنگٹن کی اولین ترجیح یہ ہے کہ شام کے بعد عراق کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کردیا جائے۔
سوڈان کی تقسیم ہمارے سامنے ایک مثال کے طور پر موجود ہے اور مغربی منصوبہ ہمارے خطے کے کئی ممالک میں لاگو کیا جا سکتا ہے۔جنوبی یمن بھی تقسیم کے انتہائی نزدیک ہے۔عراق میںتقسیم کا ایجنڈا ایسے وقت میں سامنے آیا ہے کہ جب امریکی فورسزکے انخلا کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ اسی صورتحال سے امریکی انتظامیہ فائدہ حاصل کرنا چاہتی ہے اور اپنے اتحادیوں کو عراق میں متحرک کررہی ہے۔
عراقی تجزیہ نگار عباس الموسوی کہتے ہیں کہ امریکا عراق کو تقسیم کرنا چاہتا ہے اور ترکی اور قطر بھرپور ساتھ دے رہے ہیں ۔ عراق کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کے لیے امریکی امداد واضح طور پر نظر آ رہی ہے ترکی اور قطر جو پہلے ہی عراق کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں امریکی امداد سے پہلے سے زیادہ متحرک ہیں۔
حبیب فیاض جو کہ اسٹرٹیجک ماہر ہیں کہتے ہیں کہ عراق میں فرقہ واریت کو ہوا دے کر بڑے فسادات کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور تقسیم کرنے کے امریکی ایجنڈے پر قطر، سعودی عرب اور ترکی سرگرم ہیں۔ عراق کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ عراق کو تقسیم کے دہانے پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے جب کہ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کے حق میں بہتر نہیں ہو گا۔
ترکش ماہر سیاسیات اور تجزیہ نگار محمد نور الدین نے حال ہی میں عراق کا دورہ کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ عراق میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ شام میں رونما ہونے والے واقعات سے مختلف نہیں ہے۔کچھ ممالک عراقی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں۔یہ مقصد ایک پتھر سے کئی پرندوں کو شکار کرنے جیسا ہے۔اس منصوبے کے پس پردہ عوامل قطر،سعودی عرب اور ترکی ہیں۔ قطر اور ترکی شام میں اپنی شکست اور بالخصوص جنیوا معاہدہ کی ناکامی کے بعد عراق کا رخ کر چکے ہیں اور براہ راست مداخلت کر رہے ہیں۔
ترکی کی جانب سے عراق کے اندرونی معاملات میںمداخلت رجب طیب اردگان کی نئی حکمت عملی میں واضح نظر آ رہی ہے۔اور یہ خصوصاً ایسے وقت میں ہوا ہے کہ جب اردگان نے شام کے خلاف موقف اختیار کیا ہے اور عراق نے شام کی حمایت میں اپنا موقف قائم رکھا ہوا ہے۔ترکی کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے فائدہ اٹھایا جائے اور ترکی کو یورپی یونین میں شامل ہونے سے پہلے مصر ،لیبیا اور تیونس کی تبدیلی کے ساتھ منسلک کر دیا جائے ۔کیوں نہیں؟ ترکی کی اس پارٹی کے مطابق یہ ترکی کے لیے خلافت عثمانیہ کو واپس لانے کا ایک سبب بن سکتا ہے۔
اپنے مقاصد کے حصول کے لیے انقرہ نے شام میں کشیدگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔انقرہ نے شام میں مسلح دہشت گرد گروہوں کو علی الاعلان مدد فراہم کی اور اسلحہ سمیت مالی مدد بھی کی۔اسی طرح ترکی عراق میں بھی براہ راست مداخلت کر رہاہے اور تقسیم کرنا چاہتا ہے۔ترکی عراق میں فرقہ واریت کے مسئلے کو ابھار کر حکومت مخالف جذبات بھڑکانے میں کردار ادا کر رہاہے تا کہ عراقی حکومت کو غیر مستحکم کیا جائے۔ترکی کی جانب سے عراقی معاملات میں براہ راست مداخلت کی واضح مثال یہ ہے کہ ترکی نے عراق کے نائب صدر طارق الہاشمی کو جسے عراقی عدلیہ نے دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت کا حکم سنایا تھا ترکی میں پناہ دے رکھی ہے جب کہ اسی طرح کردستان میں کردوں کے ساتھ عراق کے خلاف ملی بھگت میں بھی ملوث ہے۔ عراق کے مختلف صوبوں میں شروع ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں فرقہ واریت کی جھلک دکھائی دیتی ہے جس میں ترکی کی براہ راست شراکت بھی نظر آئی ہے جو کہ مظاہروں میں موجود بینرز،پلے کارڈز اور جھنڈوں پر واضح دیکھی جا سکتی ہے۔
ترکی آخر عراق سے کیا چاہتا ہے؟۱۔شام میں کشیدگی پر عراقی حکومت کی شام حمایت موقف کے بعد مالکی کی حکومت پر زبردست دبائو بڑھانا تا کہ مالکی حکومت شام کے مسئلے میں اپنا موقف تبدیل کرے۔۲۔عراقی معاملات میں مداخلت۔۳۔عراقی کردوں کے ساتھ حکومت مخالف سازشیں اور کردوں کے ساتھ معاشی تعلقات جن میں عراقی مرکزی حکومت کو شامل نہ کرنا۔4۔شمال میں موجود تیل کے ذخائر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا۔5۔ ایران پر دبائو بڑھانا تا کہ ایران کا شام کے حوالے سے مضبوط موقف کمزور کیا جا سکے۔
اس حوالے سے نور الدین کہتے ہیں کہ ترکی کا متبادل مقصد بالآخر شام ہے۔ ترکی کا کردار مزید بڑھ گیا ہے کیونکہ جغرافیائی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترکی شام اور عراق کے مسئلے میں زیادہ کردار ادا کر رہا ہے۔انھوںنے انقرہ کی عراق کے حوالے سے پالیسی کو دو نقاطی پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ،۱۔ترکی عراق حکومت کے مخالفین سے رابطے کر رہا ہے اور عراقی کردوں کے ساتھ مل کر عراق کی مرکزی حکومت کے خلاف لابنگ میں مصروف عمل ہے۔
۲۔ترکی عراق میں فرقہ وارانہ فسادات کروانا چاہتا ہے تا کہ عراق کو تقسیم کیا جائے۔
انقرہ خلیج کے ان چند ممالک کے ساتھ جن کے عراق کے ساتھ ہمیشہ سرد تعلقات رہے ہیں، مل کر عراق کے اندر تقسیم پیدا کرنا چاہتا ہے ۔ان خلیجی ممالک میں سے اہم ترین ممالک میں قطر اور سعودی عرب شامل ہیں۔ اور اس مقصد کے لیے یہ ممالک دولت اور اسلحہ دونوں کا استعمال کرنے سے دریغ نہیں کر رہے۔جب کہ عراق حکومت کے مخالف ہونے والے مظاہروں کی قیادت کرنے والے رہنمائوں کو اعزازات سے نوازا بھی جا رہاہے۔اسی طرح ان ممالک کا میڈیا بھی عراق کے حوالے سے حقیقت پسندی سے کام نہیں لے رہا ہے۔
عراقی ذرایع کے مطابق عراق میں ترکی اور خلیجی ممالک کی مداخلت کے مقاصد مندرجہ ذیل ہیں۔
1۔نوری المالکی کی حکومت کے خلاف کریک ڈائون کرنا اور عراق میں من پسند حکومت کا قیام
2۔شام میں ترکی اور خلیجی ممالک کی شکست کے بعد عراق کو شام سے جدا کرنا تاکہ شام میں آخر کار تباہی و بربادی پھیلائی جائے ۔
3۔ایران کو نشانہ بنانا تا کہ ایران شام کی حمایت سے دور رہے اور عراق کو کمزور کرنا۔
5 ۔عراق کو اندرون خانہ جنگی میں مصروف رکھنا تا کہ عراق خطے میں اپنا سیاسی کردار ادا نہ کر سکے۔
فیاض کہتے ہیں کہ گلف رجیم جس میں قطر اور سعودی عرب ہیں چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح شام کو غیر مستحکم کر کے بشار الاسد کی حکومت گرا دی جائے اور اسی مقصد کے لیے فی الحال عراق میں خانہ جنگی اور تقسیم کے حامی ہیں۔دونوں ممالک کا واضح مقصد ہے کہ کسی بھی بڑے خونی واقعے کے ذریعے شامی حکومت کا خاتمہ۔ یہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں ہے کہ قطر اور سعودی عرب شام کو غیر مستحکم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ خلیجی ممالک کا عراق کے حوالے سے جو مقصد ہے وہ درج ذیل ہے۔
1۔مقامی سطح پر فرقہ واریت کو بھڑکانا۔
2۔مالکی حکومت پر دبائو تا کہ شام کی حمایت سے دستبردار کیا جا سکے۔
3۔اندرون خانہ جنگی اور عدم استحکام تا کہ ایران کو کمزور کرنا اور شام کی حمایت کے موقف سے دور رکھنا
یہ بات واضح ہے کہ شام کے ایران کے ساتھ تعلقات لبنان اور فلسطین میں قائم مزاحمت کی وجہ سے بہتر ہیں،اسی لیے دشمن مزاحمت کے اس مرکزی ستون کو گرانا چاہتا ہے۔مغربی اور خلیجی ممالک چاہتے ہیں کہ شام سمیت عراق کو ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات سے روکا جائے کیونکہ ایران فوجی صلاحیتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک مضبوط طاقت بھی بن چکا ہے جو مغرب اور خلیجی ممالک اپنے لیے ٹھیک نہیں سمجھتے۔ مغرب چاہتا ہے کہ ایران شام کی حمایت نہ کرے اور شام کے ساتھ اچھے تعلقات نہ ہوں۔مغرب عراق اور ایران کو ایک مضبوط قلعے کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور شام کے مسئلے پر ایران کے مضبوط موقف کی کامیابی کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ شام کے حوالے سے ایران کے موقف کو کمزور کرنے کے لیے عراق میں فرقہ وارانہ فسادات اور قومیتی تقسیم کا آغازکیا جائے۔مستقبل میں ایران اور چھ ممالک کے درمیان ہونے والے جوہری معاملات پر مذاکرات جو کہ عراق میں ہونے ہیں بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں کہ کیونکہ شاید عراقی غیر مستحکم صورتحال اس معاملے پر اثر انداز ہو۔