انتخابات اور عوامی فیصلے…

ملک کے انتخابی نتائج کو ملکی سلامتی کے پر فریب نعرے تلے اس طرح ترتیب دیا گیا کہ جمہوریت مستحکم نہ ہو سکے۔

ملکوں کی تاریخ میںانسانی حق رائے دہی کے ذریعے انتخابات ہر صورت معاشرتی تبدیلی لانے کا وہ ہتھیار تسلیم کیے جاتے ہیں جن کی اہمیت کو کم یا ختم نہیں کیا جا سکتا،اس تناظر میں اگر پاکستان کے انتخابات کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے انتخابات میں ہمیشہ سے ملکی وحدت کے نام پر اسٹیبلشمنٹ نے ایک خاص کردار ادا کیا جوکسی نہ کسی طریقے سے آج تک جاری ہے ۔

تاریخی تناظر میں ملک کے انتخابی نتائج کو ملکی سلامتی کے پر فریب نعرے تلے اس طرح ترتیب دیا گیا کہ جمہوریت مستحکم نہ ہو سکے، سیاست کے نام پر ایسی جماعتوں کی بھی پذیرائی کی گئی جو کسی نہ کسی طور مقتدر اشرافیہ کے سامنے سرنگوں رہیں، یہی وہ اہم وجہ ہے کہ ملکی معاشرت میں ٹھوس سیاسی اور نظریاتی سیاست کی آمیزش نہ ہو پائی کہ جس کی ضرورت پاکستان کے جمہوری معاشرے کو ہو سکتی تھی ،پاکستان کے انتخابی عمل کو سمجھنے سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ اس ملک کی ساخت کس نوعیت کی رہی یا رکھی گئی ۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ کو کھنگالا جائے تو یہ بات کسی حد تک وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ملک کی آزادی کے ابتدائی ایام سے ہی ہمارے ملک میں سیاسی اور جمہوری حقوق نہ دینے کے عمل کو روا رکھا گیا،اس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ میں اس جاگیردارانہ اشرافیہ کا قابض ہوجانا تھا جو کہ اپنی سرشت میں غلامانہ مزاج رکھتی تھی ،گو کہ اس درمیان میں قائد اعظم کی پوری کوشش رہی کہ وہ ملک میں ان سیاسی اور جمہوری رویوں کو آگے بڑھائیں جن کی مدد سے عوام کو حقیقی وراثت مل سکے،شاید یہی وجہ رہی کہ قائد اعظم کی قدآور شخصیت کے سامنے تین قوتوں جاگیردار، مذہب پسند اور اشرافیہ کا گٹھ جوڑ اس طور طاقتور نہیں ہو سکا کہ وہ قائد اعطم کے زندہ ہوتے ہوئے عوام کے جمہوری حقوق پر شب خون مار سکے ،مگر بد قسمتی سے قائداعظم کی وفات نے ان تینوں قوتوں کو یہ موقع فراہم کردیا کہ وہ پاکستان کے اقتدار میں اپنی قوت کو مضبوط کر لیں،اس عوام دشمن گٹھ جوڑ نے کبھی نہ چاہا کہ عوام کو ان کے حقیقی جمہوری حقوق دیے جائیں۔

محض یہی وجہ رہی کہ پاکستان کے پسے ہوئے طبقات آج تک جمہوریت کے نام پر بھی اپنے سیاسی اور معاشی حقوق حاصل کرنے سے قاصر ہیں،مذہب پرست،جاگیردار اور اشرافیہ کا یہ گٹھ جو ڑآج بھی کسی نہ کسی طور معاشرے کی مختلف سمتوںمیں دیکھا جا سکتا ہے ۔کبھی اس گٹھ جوڑ نے سماجی انصاف کی آڑ میں مذہب کو استعمال کیا اور کبھی اس گروہ نے عوام کو دھوکا دینے اور تقسیم کرنے کے لیے لسانیت کی چادر پہنائی تاکہ عوام اپنے سیاسی اور جمہوری حقوق سے دور رہیں،اس طرح اس گروہ نے ملک کے عوام کو تین طاقتوں کا احساس دلایا،یعنی ملکی سلامتی کے لیے فوج کا ہونا،عوام کے عقائد کو استعمال کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کرنا یا معاشرے کو ترقی سے دور رکھنے کے لیے جاگیردار کو طاقت بنا کر پیش کرنا وغیرہ،ابتدا سے ہی اس گروہ نے کوشش کی کہ عوام نفسیاتی طور سے ان تین قوتوں کے غلام بن جائیں ۔

آج پاکستانی سماج پر نظر ڈالی جائے تو ہم مذہب،زبان اوردولت کو ہی ملک کا نجات دہندہ سمجھ کر اب تک سماجی ترقی سے کوسوں دور ہیں،یاد رہے کہ اس اشرافیائی طاقت نے تعلیم کے نصاب میں بھی اسی تعلیم کو عام کیا جس سے عوام میں سیاسی شعور پیدا ہونے کے بجائے غلامانہ سوچ پیدا ہو،یہی وجہ رہی کہ ہم اجتماعی طور پر آج تک رسم و روایات کے جال میں جکڑے خود کو نئی اور ترقی یافتہ سوچ سے دور رکھے ہوئے ہیں۔ ترقی یافتہ دور کی ضرورتوں کے برعکس ہم اب تک گلی سڑی روایات کے پجاری ہوکر سماج کی کوئی سمت متعین نہیں کر سکے ہیں۔ہمارے ہاں دھاندلی،بد عنوانی ،دولت اور اثر و رسوخ کو نجات کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے ۔

آج اس امر کی پہلے سے زیادہ اہمیت ہے کہ ہم اپنے جمہوری حقوق کے لیے انتخابی عمل کے تسلسل کو جاری رکھنے پر زور دیں اور انتخابات کے ذریعے وہ راہ اپنائیں جس سے معاشرے میں سیاسی شعور اور وسعت ذہنی پیدا ہو ،ہم کو ایک بہتر سماج کے لیے اپنے انتخابی عمل سے دھونس دھاندلی، دولت اور طاقت کے اس بت کو توڑنا ہے جو جمہوری لبادے میں عوام کے حقوق غصب کر رہاہے،اس کے لیے ہمیں مشترکہ طور پر انفرادی اور اجتماعی سطح پر ملک میں دھاندلی ،کرپشن ،پیسہ کا بے جا استعمال ۔اسحلے کی نمائش کے گھناؤنے کھیل کو ختم کرنا پڑے گا اور ایک ایسا نظام حکومت تشکیل دینا پڑے گا جو منتخب حکومتوں کو گرانے کا نہ ہو،ہمار ے انتخابی عمل میںایک دوسرے کی حکومت کو گرانے کی خواہش تاریخ کا حصہ رہی ہیں،جسے کسی حد تک مسلم لیگ ن کے تعاون سے ختم کیا گیا ہے۔


ہمیںچاہیے کہ ہم اپنے ووٹر کی سیاسی تربیت کریں اور اسے جاگیردارانہ ذہنیت کے ساتھ مذہبی تنگ نظری اور مفاد پرست قیادت کے چنگل سے نکالیں،جب کہ فوج کی جانب دیکھنے کی خواہش کو یکسر تبدیل کریں ،کیونکہ دنیا کے مہذب معاشروں میں فوج کی اصل قوت عوام کی رائے اور مرضی ہوتی ہے ،جب کہ افواج کی حرمت ملک کے دفاع میں ہی ہوا کرتی ہے نہ کہ ملک کے سیاسی اور سماجی معاملات میںدخل اندازی۔آئیے اس ضمن میںپہلے 2013کے انتخابات سے قبل ماضی کے انتخاب اور سیاسی جماعتوںکے اتار چڑھاؤ پر ایک نظر ڈالتے ہیں ۔

1970 دسمبر میں عوامی تحریک کے نتیجے میں پہلے باضابطہ عام انتخابات منعقد ہوئے ۔قومی اسمبلی کی 3سو نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 165 اور پیپلز پارٹی نے 81نشستیں حاصل کیں جب کہ دیگر 8 سیاسی جماعتوں اور آزاد ارکان کے حصے میں 90 نشستیں آئیں ،عوامی لیگ کو مغربی اور پیپلز پارٹی کو مشرقی پاکستان میں ایک نشست بھی نہیں ملی۔انتخابات کے نتائج نے شیخ مجیب الرحمان کو مشرقی پاکستان کا مسلمہ رہنما اور قائد ایوان منتخب کیا،اس موقعے پر ذوالفقار علی بھٹو نے مرکز میں عوامی لیگ کے ساتھ اقتدار میں شراکت کا سوال اٹھایا ،جب کہ جنرل یحیی خان نے فوج کی اعلیٰ قیادت کے مشورے اور منشا سے ذوالفقار بھٹو کے مطالبے کی حمایت کی اور شیخ مجیب پر زور دیا کہ وہ بھٹو کے ساتھ سمجھوتہ کریں۔

یہ بات انتخابات کے نتائج کو پس پشت ڈالنے اور ملک کے دونوں حصوں کے درمیان آویزش کا بیچ بونے کے مترادف تھی ،شیخ مجیب نے شراکت اقتدار کے لیے چھ نکات پیش کیے جسے قبول کرنے سے انکار کیا گیا اور یوں شیخ مجیب کو اقتدار کی عدم منتقلی کی بناء پر آخرکار سول نافرمانی کی تحریک چلانا پڑی جس کے نتیجے میں بھارت کی مداخلت سے 16دسمبر1971کو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا ، باقی ماندہ پاکستان میں یحییٰ خان نے اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھٹو کے ہاتھوں میں دے دیا ۔ اس طرح انھوں نے ایک غیر جمہوری طریقے سے منتخب ہو کر ایک جمہوری حکومت کی داغ بیل ڈالی ۔

ذوالفقار علی بھٹو کے ابتدائی دور حکومت میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت اس وقت نمایاں طور پر واضح ہوئی جب بھٹو نے منتخب اسمبلی میں نئے آئین کا مسودہ پیش کیا ،ان سیاسی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی حیثیت سے اہم کردار ادا کیا ۔ 1973 کا آئین پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ حزب اقتدار اور حز ب اختلاف کے قائدین کے مابین افہام و تفہیم سے وجود میں آیا،1973کے آئین کے تحت مارچ 1977 میں ملک میں دوسرے عام انتخابات منعقد ہوئے ،جن میں حزب اختلاف کی نو سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ ،جماعت اسلامی ،تحریک استقلال ،نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی ،جمعیت العلمائے اسلام ،جمعیت العلمائے پاکستان ،خاکسار تحریک ،پاکستان جمہوری پارٹی اور مسلم کانفرنس نے متحد ہو کر پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا ۔

قومی اتحاد کی جانب سے الزام لگا کہ پی پی پی نے دو تہائی نشستیں حاصل کرنے کے لیے انتخابات میں زبردست دھاندلی کی ہے، اس ردعمل کے طور پر قومی اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک چلائی ۔جسے تحریک نظام مصطفیٰ کا نام دیا گیا،اس تحریک کے نتیجے میں 5جولائی 1977 کو ملک میں تیسری بار مارشل لاء لگایا گیا ۔1977 میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دیدیا ،ان کا خیال تھا کہ جمہوریت کی ناکامی کی ذمے دار سیاسی جماعتیں ہیں ،اس لمحے شاید وہ بھول گئے تھے کہ سیاسی جماعتیں ہی جمہوری تسلسل کا اٹوٹ انگ ہوتی ہیں ۔

جنوری 1981میں نو سیاسی جماعتوں ،جن میں پاکستان پیپلز پارٹی ،جمعیت علمائے پاکستان ،تحریک استقلال ،پاکستان جمہوری پارٹی اور نیشنل ڈیموکریٹ پارٹی نمایاں تھی ،ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت (ایم آر ڈی )کے نام سے ایک اتحاد قائم کیا ۔تحریک بحالی جموریت کی یہ تحریک سندھ کے دیہی علاقوں کے علاوہ ملکی طور پر طاقتور اثر ورسوخ نہ دکھا سکی ،اس تحریک کے اثرات نے صدر ضیاء الحق کو یہ احساس ضرور کروایا کہ جتنی جلد ممکن ہو مارشل لاء ختم کر کے جمہوریت بحال کی جانی چاہیے،اس تناظر میں صدر ضیاء نے 19 دسمبر1984 کو ایک ریفرنڈم کے ذریعے اسلام کواستعمال کرتے ہوئے خودکو پانچ سال کے لیے صدر منتخب کروایا اور فروری 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کرائے، غیر جماعتی بنادوں پر منتخب ہونے والوں کے لیے اب یہ ضروری تھا کہ حکومت دو حصوں میں تقسیم ہو جائے یعنی ایک حصہ حکومت بنائے جب کہ دوسرا حزب اختلاف کا کردار اد اکرے، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے نادیدہ قوتوں نے دوبارہ مسلم لیگ کواستعمال کیا،مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مارچ 1985 میں محمد خان جونیجو نے وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالااور وہ ہی مسلم لیگ کے صدر مقرر ہوئے۔
Load Next Story