امریکا کی افغان پالیسی اور پاکستان

پاکستان کے ساتھ تعلقات پر انحصار طالبان کے خلاف ایکشن پر ہو گا،ٹلرسن


Editorial October 30, 2017
پاکستان کے ساتھ تعلقات پر انحصار طالبان کے خلاف ایکشن پر ہو گا،ٹلرسن ۔ فوٹو: فائل

افغانستان کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست میں جس نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا اس کے خدوخال امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورہ جنوبی ایشیا سے واضح ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ریکس ٹلرسن نے سعودی عرب' افغانستان' پاکستان اور بھارت کا دورہ کیا۔ پاکستان کے دورے کے موقع پر طالبان کے خلاف ڈومور کے امریکی مطالبے کا اعادہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات پر انحصار طالبان کے خلاف ایکشن پر ہو گا، انھوں نے پاکستانی قیادت سے ملاقات کے دوران اس سلسلے میں تعاون حاصل کرنے اور انھیں اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔

پاکستانی قیادت نے ریکس ٹلرسن کے ڈومور کا جواب نومور کی صورت میں دیا۔ ریکس ٹلرسن کا استقبال بھی سردمہری سے کیا گیا' اس دورے کے دوران پاکستان اور امریکا کے درمیان افغانستان ایشو کے حوالے سے اختلافات ابھر کر سامنے آئے' یوں معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان اب امریکا کی افغان پالیسی پر بلا چوں و چرا عمل کرنے کے بجائے اپنی پالیسی اور موقف کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ ایک جانب ٹلرسن پاکستان اور افغانستان میں استحکام کی بات کرتے ہیں تو دوسری جانب پاکستان پر طالبان کے خلاف ایکشن کے لیے دباؤ ڈالتے رہے۔ پاکستان نے ان کی اس گن بوٹ ڈپلومیسی اور گاجر اور چھڑی پر مبنی پالیسی پر اپنا موقف واضح کر دیا۔

اب امریکا پہنچنے پر جنوبی ایشیا کے دورے کے بارے میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ریکس ٹلرسن نے کھل کر کہا کہ اگر پاکستان دہشت گرد ختم نہیں کرتا تو ہم ان کا خاتمہ خود کریں گے' امریکا اپنی نئی پالیسی پر ہر صورت عملدرآمد کرے گا چاہے پاکستان مدد کرے یا نہ کرے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی پر پاکستانی حکومت کا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ افغانوں کی جانب سے مذاکرات کے ذریعے سے ہی اس کا حل نکالا جا سکتا ہے' اس حوالے سے امن عمل میں پاکستان کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔

ٹلرسن کا کہنا ہے کہ انھوں نے رواں ہفتے پاکستان کا دورہ دھمکیاں دینے کے لیے نہیں کیا بلکہ پاکستان ایک خود مختار ملک ہے' انھوں نے پاکستان کو جو پیغام دیا وہ کوئی دھمکی یا حکم نہیں تھا بلکہ انھیں پاکستان سے کچھ توقعات ہیں جن کی وہ تکمیل چاہتے ہیں۔ ٹلرسن کے بیان کا بنظرغائر جائزہ لیا جائے تو بین السطور اس میں دھمکی کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ پاکستان سے کہہ رہے ہیں کہ اگر وہ مدد نہیں کر سکتا تو ہمیں بتا دے تاکہ ہم اس کے مطابق نئی منصوبہ بندی کر لیں۔

افغانستان کا مسئلہ انتہائی گمبھیر اور پیچیدہ صورت اختیار کر چکا ہے' امریکا نے طالبان کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکنہ وسائل کا بے دریغ استعمال کیا لیکن وہ اپنے ان اہداف کو حاصل نہیں کر سکا جو اس نے طے کر رکھے تھے۔ افغانستان کے حوالے سے وہ خود گومگو کی کیفیت کا شکار ہونے کے باعث دو عملی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے' کبھی وہ پاکستان سے طالبان کے خلاف بھرپور ایکشن کا مطالبہ کرتے ہوئے دھمکی آمیز رویہ اختیار کرتا تو کبھی طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کا مطالبہ کرتا ہے۔

امریکی سفارتکار برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے اقدامات کرے'ہم چاہتے ہیں پاکستان نے جس طرح اپنے ملک میں طالبان کا مقابلہ کیا اب بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کیا جائے۔ پاکستان نے افغانستان کے مسئلے پر فرنٹ لائن اتحادی کا کلیدی کردار ادا کیا' جہاں تک طالبان کے ساتھ مذاکرات کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں پاکستان سہولت کار کا کردار ادا کر چکا اور اب بھی وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے لیے مری میں مذاکرات ہوئے مگر امریکا نے درپردہ ان مذاکرات کو ناکام بنا دیا۔

امریکا نے طالبان سے مذاکرات کے لیے قطر میں بھی دفتر قائم کر رکھا ہے لیکن امریکی پالیسی زمینی حقائق سے برعکس ہونے اور دوعملی کے باعث طالبان اب امریکا پر اعتبار کرنے کے لیے آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ پاکستان امریکا پر واضح کر چکا ہے کہ افغان طالبان اس کے کنٹرول میں نہیں اس سلسلے میں امریکا کو خود آگے بڑھ کر ان سے مذاکرات شروع کرنے ہوں گے۔ اس سلسلے میں افغان حکومت کا کردار بھی نظر نہیں آتا' افغان حکومت کو خود بھی چاہیے کہ وہ طالبان سے مذاکرات کے لیے پیشرفت کرے۔ پاکستان تو افغانستان میں قیام امن کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے پر تیار ہے مگر امریکا اور افغان حکومت کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

امریکا افغانستان میں بھارت کو پاکستان پر ترجیح دیتے ہوئے اس کے کردار کو آگے بڑھانے کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے جو پاکستان کو قطعاً قبول نہیں۔ اس تمام صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو افغانستان میں بھارت کا کردار پاکستان کے لیے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ بھارت وہاں قیام امن اور مفاہمتی عمل کو آگے بڑھانے کے بجائے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے چین بھی شریک ہو چکا ہے اس کے ساتھ ساتھ ایران کے مفادات بھی افغانستان سے وابستہ ہیں۔ افغانستان کے ایک بڑے خطے پر طالبان کا کنٹرول ہے جہاں سے وہ امریکی اور نیٹو افواج پر بھرپور حملے کرکے انھیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔

افغان حکومت بھی طالبان کے سامنے بے بس دکھائی دیتی اور اسے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا وہ مکمل طور پر امریکا پر انحصار کیے ہوئے ہے۔ اب امریکی صدر ٹرمپ نے اس بحران کے حل کے لیے نئی افغان پالیسی وضع کی ہے جس کے مطابق انھوں نے طالبان کے خلاف جنگی محاذ تیز کر دیا ہے لیکن امریکی رویے اور ریکس ٹلرسن کے پاکستان سے افغانستان میں اپنا کردار ادا کرنے کا کہنا اس امر کا مظہر ہے کہ امریکا کو وہاں اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین نہیں۔ وہ اس جنگ میں پاکستان کو الجھانا چاہتا ہے' یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قیادت اس پر واضح کر چکی ہے کہ وہ افغان جنگ کو اپنے خطے میں آنے کی اجازت نہیں دے گی۔

پاکستانی حکام امریکا کو بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ افغان مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ امن مذاکرات میں پوشیدہ ہے۔ افغانستان کے حوالے سے امریکی پالیسی بھی دوعملی کا شکار ہے ایک جانب وہ پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے کہہ رہا ہے تو دوسری جانب مذاکرات کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔

امریکا کو افغانستان کے حوالے سے یک رخی اور واضح پالیسی اختیار کرنا ہو گی۔ اگر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی ناکامی سے دوچار ہو جاتی ہے تو پھر امریکا کے پاس جنگ جاری رکھنے کا جواز نہیں رہے گا۔ بہتر ہے کہ وہ پاکستانی موقف کے مطابق طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرے یہی واحد راستہ ہے جس سے افغانستان میں امن قائم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا کوئی بھی راستہ اب تک اپنے نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں