تضادات بے نقاب ہورہے ہیں
اس عالمی صورتحال میں پاکستان کی صورتحال بھی ایسی ہی لڑکھڑاتی نظر آتی ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے اندرون خانہ اور عالمی تضادات اکثر درپردہ اور کبھی کبھی ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ پاکستان میں آج کل یہ تضادات ہر ایک کو نظر آرہے ہیں۔ جب سرمایہ دارانہ نظام انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے تو پھر اسے چھپائے نہیں چھپایا جاسکتا۔ عالمی طور پر سوشلسٹ بلاک کے نہ ہونے پر سامراجی دندناتے پھر رہے ہیں اور من مانی لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ جب سوشلسٹ بلاک وجود رکھتا تھا اس وقت ایسا نہیں کرسکتے تھے۔
کیوبا پر امریکی دھمکی اور مصر پر فرانس اور برطانیہ کے حملے پر ردعمل کے بعد سامراجیوں کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ مگر وہ لڑائی سرمایہ داری اور سوشلزم کی لڑائی تھی، لیکن آج اگر امریکا کو کہیں کہیں پیچھے ہٹنا پڑ رہا ہے تو سامراجیوں کے مابین تضادات ہیں، سرمایہ داری اور سوشلزم کے مابین نہیں ہے۔ مثال کے طور پر کریمیا، یوکرین سے الگ ہوا، شام میں امریکا بشارالاسد کو اقتدار سے نہیں ہٹا پایا۔ ہاں مگر سوشلسٹ کوریا کے ڈٹ جانے سے عالمی سامراج حملہ نہ کرپایا۔ اس میں روس اور چین کے مفادات بھی ہیں۔ ہر چند کہ یہ مفادات ان کے سوشلسٹ مفادات نہیں ہیں، لیکن ان کے اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھنے کے لیے ایک حد تک حمایت کرنی پڑرہی ہے۔
پاکستان ہمیشہ امریکا کی پالیسی کے تابع رہا ہے، امریکی احکامات پر ہی پاکستان نے افغانستان کی سوشلسٹ حکومت کا خاتمہ کیا۔ اب جب وہی امریکا پاکستان سے الٹا کام لینا چاہ رہا ہے تو یہ فلم ان کے اپنے گلے پڑگئی ہے۔ امریکی سامراج کی بجا آوری کرنے والے پاکستانی وزیر خارجہ خواجہ آصف آج یہ سچ بات کہنے پر مجبور ہوگئے کہ 'ہم امریکا کے ہاتھوں استعمال ہوئے'۔ جو کام کل ہم سے امریکا لیتا تھا اب وہی کام چین نے ہم سے لینا شروع کردیا ہے۔
برکس کانفرنس میں پاکستان میں دہشتگردی پر چین کی تنقید اور پاکستان میں آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کی چینی ٹینکرز کی خریداری پر حکومت کے دباؤ کے خلاف ہڑتال اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دنیا کی چوتھی تانبے کی بڑی کان افغانستان میں ہے اور بلوچستان میں سونا نکالنے کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیا گیا ہے، گلگت بلتستان سے تو ایک عرصے سے چشمے کا پیوریفائیڈ پانی چین لے جارہا ہے۔ امریکا کو یہ باتیں کھل رہی ہیں۔ وہ چین کو ان مفادات سے ہٹانا چاہتا ہے۔ ان قدرتی وسائل پر قبضے کی خاطر امریکا اور چین، پاکستان اور افغانستان میں پراکسی وار کررہے ہیں۔
بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ امریکی جارحیت کے خلاف اگر دہشتگردی ہورہی ہے تو امریکا کے خلاف ویتنام اور جنوبی افریقہ میں بھی برسوں مسلح کمیونسٹ گو ریلا لڑ رہے تھے، تو یہ لڑائی بھی درست ہے۔ جی نہیں، اس لیے کہ کمیونسٹ گوریلا سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف اور طبقاتی نظام سے نجات کے لیے لڑ رہے تھے، وہ کوئی فرقہ، مذہب، نسل، زبان یا مسلک کے لیے نہیں لڑرہے تھے۔ جب کہ آج کی دہشتگردی سامراج کی ہی پیداوار ہے اور وہ سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے یہ پراکسی وار کر رہے ہیں۔
اس عالمی صورتحال میں پاکستان کی صورتحال بھی ایسی ہی لڑکھڑاتی نظر آتی ہے۔ عدالتیں، وردی بے وردی نوکرشاہی، اسمبلی، علمائے سو، سب کے سب اپنے اپنے مفادات کی خاطر ڈانواں ڈول نظر آتے ہیں۔ عدالتیں کہتی ہیں کہ پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیر ترین کے پاس موجود 18 ہزار ایکڑ زمین کی لیز کے کاغذات کہاں ہیں؟ عمران خان اپنی دولت اور جائیداد کے حصول کے ذرایع بتائیں؟ ان کی بیوی نے اتنا تحفہ کیسے دیا، وغیرہ وغیرہ۔ شرجیل میمن اور ڈاکٹر عاصم کے پاس اربوں کی دولت کہاں سے آئی؟
نواز شریف اور آصف علی زرداری نے اربوں ڈالر کا انبار کہاں سے لگایا؟ یہ سارے الزامات عدالت میں پیش کیے جاچکے ہیں۔ ابھی مفتی قوی اور شرجیل میمن کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس سے قبل منظور کاکا، کامران کیانی اور ان گنت نوکرشاہی پر خوردبرد کے الزامات لگے، مگر ابھی تک کسی کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔ جیل میں اگر کوئی مقید ہے تو وہ پتیلی چور یا پھر ناکردہ گناہوں میں لوگ برسہا برس جیل کاٹ رہے ہیں۔ ایک طرف لوگ ہزاروں روپے کی چوری میں قید ہیں جب کہ دوسری طرف اربوں کی ڈکیتی کرکے رہنما بنے ہوئے ہیں۔
ادھر سیاسی جماعتیں نان ایشوز پر ٹاک شوز میں لگی رہتی ہیں۔ کبھی پاناما، کبھی سفارتی اور کبھی مارشل لائی دور کی لوٹ مار اور کبھی رہنماؤں کے قتل وغیرہ کے سلسلے میں مصروف ہوتی ہیں، اور یہ مصروفیت جائز بھی ہے، لیکن اس سے زیادہ ضرورت روٹی کی ہے۔ شاید انھیں روٹی کے بجائے پجارو کی فکر زیادہ ہوتی ہے۔ ذرا غور تو کریں، جہاں دالیں دو سو روپے کلو ہوں، گائے کا گوشت چار سو روپے، بکرے کا سات سو، تیل دو سو، ٹماٹر سو، پیاز اسی، چاول سو روپے کلو اور لہسن و ادرک بھی سو سو روپے کلو فروخت ہوتی ہیں، وہاں اس پر کوئی جماعت بولتی ہے اور نہ احتجاج اور ہڑتال کرتی ہے۔ اس لیے شاید کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہی سرمایہ داری ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سارے ملک میں علاج کیوں کر مفت کیا جاسکتا ہے۔ چلیے یہ سوشلسٹ ملک نہیں ہے کہ یہاں علاج مفت کیا جا سکے، مگر کارڈیو کراچی میں اگر مفت کیا جاسکتا ہے تو ملک بھر میں کیوں نہیں؟ اس لیے ہم یہ سب کچھ نہیں کرپاتے کہ دفاع اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک کے بجٹ اور قرضہ جات ادا کرنے میں سارا بجٹ خرچ ہوجاتا ہے۔ حال ہی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ورلڈ بینک کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے تقریباً 751 اشیا پر ریگولریٹی ٹیکس عائد کردیا ہے، جس کے نتیجے میں روزمرہ کی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ ہوگیا ہے۔ یعنی عوام پر ٹیکس لگا کر عوام کا ہی خون نچوڑا جارہا ہے۔ اگر ہم قرضہ نہ لیتے تو یہ ٹیکس لگانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
ہماری خارجہ پالیسی بھی عجیب ہے، جو ہمیں لوٹتا ہے وہی ہمارا دوست ہے، امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتا ہے، وہ ہمارا دوست ہے اور ہندوستان ایک پڑوسی ملک ہونے کے باوجود دشمن ملک ہے۔ گزشتہ ستر سال میں ہمیں سب سے زیادہ نقصان امریکا نے ہی پہنچایا ہے اور دوست بھی وہی ہے۔ اگر ہم ہندوستان سے بہتر تعلقات کرلیں تو ہمارا دفاعی بجٹ کم ہوسکتا ہے اور وہی پیسے ہم صحت اور تعلیم پر خرچ کرسکتے ہیں۔ ہر چند کہ مسائل کا مکمل حل ایک سوشلسٹ انقلاب میں مضمر ہے، جو تیزی سے کمیونسٹ سماج کی تعمیر کی جانب رواں دواں ہوگا۔