سرخ رو ہے وادی کشمیر میں کوہ دمن

کشمیر کے چناروں میں حقیقتاً آگ لگی ہوئی ہے، یہ آگ بھارت کی غاصبانہ قبضے کی ہے۔


عینی نیازی October 30, 2017

آزادی خراج مانگتی ہے، لہو کا نذرانہ، تمام رشتوں و جذبوں سے آزمائش والم کا امتحان، جس میں مرد و زن، بڑے، بچے اور بوڑھے کی قید نہیں زندگی کے کسی خوبصورت رشتے کی زنجیر پیروں کی بیڑیاں نہیں بنتی، آزادی وطن کی تمنا ایسی آگ ہے جو ظالم کو خاکسترکردے گی اور مظلوم کو حق دلا کر اپنے انجام پر پہنچ کر دم لے گی۔ غلامی کی رات خواہ کتنی سیاہ ہو صبح کی سفیدی ضرور طلوع ہوتی ہے کہ یہ قدرت کا قانون ہے۔

جمعہ کو وادی کشمیر میں یوم سیاہ منایا گیا، ہر گھر میں سوگ تھا کہ 70 سال سے کشمیری ایک ظالم حکومت کی قید میں ہیں، جو نہ اسے استصواب رائے کا حق دیتی ہے، نہ اسے آزادی رائے اور دنیا سے جڑنے کی سہو لت دینا چاہتی ہے۔ ہر قسم کی پابندیوں سے جکڑ رکھا ہے۔ پانچ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی ان پر مسلط ہیں، جو جب چاہے کسی کو قید کرے، مار دے یا پھر غائب کردے۔ پوری دنیا کا کوئی حقوق انسانی کا قانون اس وادی میں رائج نہیں۔

کشمیر کے چناروں میں حقیقتاً آگ لگی ہوئی ہے۔ یہ آگ بھارت کی غاصبانہ قبضے کی ہے، یہ آگ بھارت کے ظلم و ستم کی آگ ہے۔ درختوں کی سرخی میں ان شہیدوں کے خون کا رنگ شامل ہے جو بھارت کے ظلم و ستم کا شکار اپنے دیس کی آزادی کی جنگ میں لہو کا نذرانہ پیش کررہے ہیں۔ آزادی کی ایسی تحریک جس میں ایک لاکھ سے زائد انسان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

کشمیر میں سات سو نو قبرستان ان شہیدوں سے مزین اپنے چراغ سحر کا انتظار کررہے ہیں۔ کشمیریوں کا اپنے لیڈروں اور قیادت پر اعتماد ہے، وہ پرعزم ہیں کہ ان کے لیڈر سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک جیسے کئی دوسرے لوگ چین سے نہ بیٹھیں گے جب تک کشمیر کو آزاد نہ کرالیں۔

اس جنگ میں خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ غاصبوں کا مقابلہ کرتی ہیں، وہ دشمن کے لہو کو اپنی آنکھوں سے بہتے دیکھنا چاہتی ہیں۔ اس جنگ میں نوبیاہتا کشمیری دلہن کی حنا کا رنگ شامل ہے جو اپنے شوہر کو شہید ہوتے دیکھتی ہے، مگر آہ نہیں کرتی اور بیٹے کو بھی اس لہو رنگ میں بھیجنے کا عزم رکھتی ہے۔ اسے ان لڑکیوں کا مستقبل عزیز ہے جو آنکھوں میں محبت کے دیے جلائے ٹھنڈے آبشاروں کے کنارے بیٹھی گاتی ہیں۔

یہ جنت نظیر کشمیر! یہ فرشتوں کا دیس، جہاں پریاں آکر ٹہلتی ہیں، حوریں آکر سستاتی ہیں، یہ دیس دنیا میں جنت کا ایک ٹکڑا ہے۔ ان نوعمر بچیوں کے سارے خواب، ان کے لطیف جذبے، ممتا سب وطن پر قربان ہے۔ آج ایک کشمیری عورت گھر کے کام کاج بھی کرتی ہے اور آس پاس کے حالات پر بھی نظر رکھتی ہے۔ اسے معلوم ہے اس کی جنت نظیر وادی کے چپے چپے پر لٹیروں کا قبضہ ہے اور وطن پرست اس کا مقابلہ کررہے ہیں۔ اس کا خواب ہے کہ کشمیر ہر قیمت پر آزاد ہو۔

کشمیر ان کا اپنا ہو، اس کے زعفرانی کھیت اپنے ہوں، جس کی پیداوار کے یہ خود مالک ہوں۔ اس کے لیے ہر کشمیری مرد کی طرح کشمیری عورت بھی اس قربانی میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے تیار ہے۔ قابض بھارتی فوج نے ان پر ظلم کا ایک نیا طریقہ وضع کیا ہے، وہ خواتین کی چوٹی کاٹ دیتے ہیں۔ بزدل ہمیشہ پشت پر ہی وار کیا کرتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں میں ساڑھے تین سو خواتین کی چوٹیاں کاٹ دی گئیں جس سے وہ ذہنی دباؤ کا شکار ہوسکیں۔ لیکن جن ماؤں و بہنوں نے اپنے گھر کے بیٹے قربان کردیے ہوں ان کے لیے یہ معمولی بات ہے کہ زندگی محبت، فرض اور غلامی سے خراج مانگتی ہے۔

نوجوان برہان وانی کی شہادت کے نتیجے میں کشمیری مسلح جدوجہد کا ایک واضح نقشہ اور لائحہ عمل کا آغازکیا گیا، ایک آزاد اور خودمختار کشمیر کے نعرے کے ساتھ کہ جس پر کسی شرط پر سمجھوتہ نہ کریں گے۔ اس جدوجہد کو جاری رکھنے میں زیادہ سرگرمی اس وقت بڑھی جب بھارتی افواج نے عام کشمیریوں سے ہتک آمیز سلوک، خواتین کی بے حرمتی، شناخت پریڈ، گھر گھر تلاشی اور کریک ڈاؤن کے نام پر حقارت بھرا رویہ اپنایا، جس نے کشمیریوں کی قومی انا کو زخمی کردیا۔

کشمیر میں بھارت سے نفرت اور سیاسی اضطراب پہلے ہی موجود تھا، ان حرکتوں نے صورت حال کو مزید سنگین بنادیا، یہی وجہ ہے کہ کشمیریوں نے بھارت کا یوم آزادی ہمیشہ یوم سیاہ کے طور منایا ہے۔ اس چنار لہو رنگ کی داستاں کو ایک صدی ہونے کو ہے۔ یہ داستاں 1925ء میں شروع ہوئی اور آج تک ادھوری ہے۔ 16 مارچ 1947ء کو ایک غلامی کے طوق سے دوسری غلامی اس کا مقدر بنی۔

بھارت نے کشمیر پر قبضہ جمانے کے لیے جس مجرمانہ حرکت، مکاری اور سازشی جارحیت کا ارتکاب کیا، اس کی حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے۔ بھارت کو چاہیے کہ وہ کھلی آنکھوں سے حقیقت کا جائزہ لے، کشمیر کا فیصلہ کرنے کا حق خود اس کے باسیوں کو دے۔ لیکن حریت کانفرنس کے رہنماؤں اور پاکستان کو شامل کیے بغیر یہ مذاکرات کامیاب ہونا ناممکن ہے۔ دنیا میں اب جنگیں مذاکرات کی میز پر ہوتی ہیں اور کوئی ملک کسی کو کب تک اپنی مرضی سے غلام بنا کر رکھ سکتا ہے۔

اقوام متحدہ و عالمی طاقتیں تحریک آزادی کشمیر کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی بھرپور حمایت کریں، تاکہ جنوبی ایشیا میں امن کی ضمانت فراہم ہوسکے۔ افسوس کہ سارک سربراہ کانفرنس میں شامل ممالک بھی اس کا فیصلہ نہیں کروا سکے۔ ہم سب کی بحیثیت مجموعی یہ ذمے داری ہے کہ قومی اور سیاسی قوتیں متحد ہو کر اس کی حمایت کریں اور اس کی آزادی کی اہمیت کو پوری دنیا میں اجاگر کریں کہ بھارت کے غاصبانہ قبضے سے جلد از جلد رہائی حاصل ہوسکے۔ ان ستر دہائیوں میں کشمیریوں نے بہت قربانیاں دی ہیں، ان کی آزادی پوری دنیا پر ایک قرض ہے۔ کشمیری عوام کے گلے میں بندھی غلامی کی زنجیر اب ٹوٹنی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔