ایدھی قبضہ مافیا اور عوام

اندرون سندھ ایدھی فاؤنڈیشن کے نصف درجن سے زائد سینٹرز پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے۔

ابھی تو ایدھی کا کفن بھی میلا نہیں ہوا اور یہ اندھیرا مچ گیا۔ اندرون سندھ ایدھی سینٹرز پر قبضہ مافیا نے سامان باہر پھینک کر اپنے تالے لگا دیے۔ بعض سینٹرز پر دکانیں بنالیں اور کرائے پر چڑھادیں، کہیں پر زمینی خداؤں نے اپنے ڈیرے بنا لیے ہیں۔ یہ جو عبدالستار ایدھی دکھی انسانوں، غربت کے ماروں کے سروں پر ہاتھ رکھتا تھا، غریب لاوارث بچوں کا ابو جان تھا، یہ جو ان بچوں کے شناختی کارڈ پر ولدیت ایدھی لکھواتا تھا۔ یہ جو ایدھی تھا، جو لاوارث لاشوں کو غسل دے کر کفن پہنا کر دفناتا تھا۔

یہ جو ایدھی تھا، جو کئی کئی دن کی تعفن زدہ لاشوں کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر پانی کے ٹینکوں اور گہرے گڑھوں سے نکال کر باہر لاتا تھا۔ یہ جو ایدھی تھا، جو چلتی گولیوں میں زخمی ہو ہو کر گرنے والوں کو اپنی ایمبولینسوں میں ڈال کر اسپتال روانہ کرتا تھا، ایک طرف پولیس ہے اور مقابلے پر ڈاکو، فائرنگ ہو رہی ہے، مگر پولیس اور ڈاکو خیال کرتے تھے کہ ایدھی صاحب کو گولی نہ لگے۔ یہ جو ایدھی تھا، جو سڑک پر غریبوں، لاوارثوں کے لیے بھیک مانگنے نکلتا، جو عوام اس کی جھولی بھرنے لگتے عورتیں اپنے زیور جھولی میں ڈال دیتیں، یہ منظر بھی دنیا نے دیکھا۔

لوگ منہ چھپائے آئے اور لاکھوں روپے ایدھی کی جھولی میں ڈال کر چلے گئے۔ یہ جو ایدھی تھا جس کے نام لوگوں نے اپنی جائیدادیں کردیں، اسی عظیم انسان عبدالستار ایدھی کی بیوی بلقیس ایدھی اور ایدھی کا بیٹا فیصل ایدھی، کراچی کے ہائیڈ پارک پریس کلب میں آئے اور وہ ''انتہائی ظلم کی داستانیں'' بیان کر رہے تھے۔ فیصل ایدھی نے کیا کہا سنیے۔ (جمعرات 26اکتوبر 2017ء ایکسپریس میں شایع ہونے والی خبر) سرخی ہے۔ ''لینڈ مافیا کے دباؤ میں ایدھی سینٹر کو تالا لگادیا گیا۔

فیصل ایدھی'' ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ نے کہا ہے کہ لینڈ مافیا کی جانب سے مقامی انتظامیہ کے کہنے پر 1985ء سے ٹھٹھہ شہر میں قائم ایدھی ویلفیئر سینٹر میں تالا لگادیا گیا ہے، جب کہ مذکورہ جگہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے باقاعدہ ایدھی فاؤنڈیشن کو الاٹ کی تھی، الاٹ جگہوں میں مقامی انتظامیہ کی جانب سے رد و بدل عام ہوچکا ہے اور اب اس کا بدترین نشانہ ایدھی فاؤنڈیشن کی دکھی انسانیت کی خدمت بن گئی ہے۔ اندرون سندھ ایدھی فاؤنڈیشن کے نصف درجن سے زائد سینٹرز پر لینڈ مافیا کا قبضہ ہے۔ جن میں ایدھی ویلفیئر سینٹر لطیف آباد حیدرآباد، ایدھی ویلفیئر سینٹر مورو، تین ہزار گز کے پلاٹ پر لینڈ مافیا نے قبضہ کرکے مارکیٹ بنادی ہے۔

ایدھی ویلفیئر سینٹر قاضی احمد شہر میں لینڈ مافیا نے قبضہ کرکے دکانیں بنالی ہیں۔ ایدھی ویلفیئر سینٹر سیہون میں سیکڑوں گز زمین پر لینڈ مافیا والوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ایدھی ویلفیئر سینٹر لاڑکانہ میں ایک مقامی لسانی تنظیم کے دہشتگردوں نے اپنا تالا لگادیا ہے۔

ایدھی سینٹر ہالا شہر میں لینڈ مافیا کے کارندوں نے زبردستی قبضہ کرکے دکانیں بنالی ہیں۔ جب کہ ایدھی سینٹر ہب چوکی پر بھی لینڈ مافیا نے قبضہ کر رکھا ہے، بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ہمارے حق میں فیصلے دے چکے ہیں۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ لینڈ مافیا پیسوں کے بل بوتے پر انتظامیہ کو خرید رہی ہے اور یوں انسانیت کی خدمت کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے اور آج ہم اس پریس کانفرنس کے ذریعے عوام کی عدالت میں ایدھی فاؤنڈیشن کا مقدمہ پیش کر رہے ہیں۔''

عبدالستار ایدھی کی بیوی بلقیس ایدھی اور بیٹے فیصل ایدھی نے عوام کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کردیا ہے۔ اس مقدمے کے لیے بالکل صحیح عدالت کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ایدھی عوام کے تھے اور عوام کی عدالت سے ہی ایدھی فاؤنڈیشن کو انصاف ملے گا۔ عوامی عدالت لگ چکی ہے۔ ٹھٹھہ شہر میں بھوک ہڑتالی کیمپ لگ چکا ہے۔ سندھ بھر میں عوام ایدھی کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ حکومت سندھ بھی ''حرکت'' میں آگئی ہے۔

وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ''حرکت'' میں آتے ہی فوری تحقیقات کے بعد رپورٹ طلب کرلی ہے۔ سندھ کے وزیر داخلہ سیال صاحب بھی ''حرکت'' میں آگئے ہیں، اور انھوں نے انسپکٹر جنرل پولیس اور سندھ خصوصاً ٹھٹھہ شہر کے پولیس افسران کو ''حرکت'' میں آنے کا حکم دے دیا ہے۔ کہتے ہیں حرکت میں برکت ہے۔ ''بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچے۔''

فیضؔ صاحب کا مصرعہ یاد آگیا ہے ''اور کیا دیکھنے کو باقی ہے'' چلیے دوسرا مصرعہ بھی سن لیجیے ''آپ سے دل لگا کے دیکھ لیا'' سندھ کے عوام نے تو اپنا دل بھٹو خاندان سے لگا رکھا ہے۔ سندھ کے عوام بھوکے ننگے، پاؤں ننگے، پینے کے لیے گندا پانی، صدیوں سے اندھیروں میں قیام، مگر بھٹو بھٹو کرتے ہیں اور اب بھٹو کے ساتھ بھٹو رانی (بینظیر بھٹو) کا بھی دم بھرتے ہیں۔ یارو! یہ بھٹو خاندان بھی عجیب خاندان ہے۔ بھٹو نے انکار کیا اور پھانسی کا پھندا قبول کرکے گلے میں ڈال لیا، مرتضیٰ بھٹو نے انکار کیا اور مار دیا گیا۔

دیر تک سڑک پر گولیوں سے چھلنی مرتضیٰ پڑا، خون بہتا رہا ''لوگ'' موجود تھے (لوگ۔ پولیس والے لوگ) مگر کسی نے زخمی مرتضیٰ کو اسپتال نہیں پہنچایا۔ سب مرتضیٰ کے مرنے کا تماشا دیکھتے رہے اور پھر وہ مر گیا۔ بینظیر بھٹو اپنے نام کی طرح بینظیر، وطن واپس آئی، اسے پتہ تھا مجھے مار دیا جائے گا مگر وہ پھر بھی آئی۔ ایئرپورٹ پر اترے چند گھنٹوں بعد بینظیر پر زبردست حملہ ہوا، 170 کے قریب جاں نثاران بھٹو شہید ہوئے، مگر جو دراصل نشانہ تھی، اس کا ابھی وقت نہیں آیا تھا، سو وہ بچ گئی۔ مگر ڈیڑھ دو ماہ بعد بینظیر کا بھی وقت آخر کار آگیا۔ اور وہ لیاقت باغ راولپنڈی کے باہر مار دی گئی۔


ایک بھائی شاہنواز تھا، اسے بھی مار دیا گیا۔ ماں نصرت بھٹو کا جگرا بھی عجیب کہ وہ یہ صدمے سہتی سہتی جیتی مرتی، آخر مر گئی۔ سندھ کے عوام کا عشق حق ہے، سچ ہے اور اس عشق کے طفیل ''طفیلیے'' خوب موج مستی کر رہے ہیں۔ زمینوں پر قبضہ ان ''طفیلیوں'' کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ غریب سرکاری ملازمین کی زمینوں پر (اسکیم 33) قبضے ہوچکے۔ وہ جو پیسہ پیسہ جوڑ کر الاٹ منٹ اور قسطوں کی رسیدیں لیے یہ چپراسی، کلرک دربدر عدالتوں میں دھکے کھا رہے ہیں اور کوئی شنوائی نہیں۔ ان چپراسیوں کلرکوں کی سوسائٹیاں تو یہ ''طفیلیے'' کب کی کھا گئے۔

مگر کیا یہ قبضہ مافیا اور ان کے ''سرپرست'' ایدھی کو بھی نہیں بخشیں گے؟ ابھی میں نے یہ لکھا ہی ہے کہ میرے اندر سے آواز آئی ہے۔ کوئی کہہ رہا تھا ''او بے وقوف! ایدھی تو ان قبضہ مافیا اور ان کے سرپرستوں کا بہت بڑا دشمن ہے۔ جن عوام کو یہ ایدھی عزت سے کفناتا دفناتا ہے ان کے لاوارث بچوں کو پالتا ہے، لکھاتا پڑھاتا ہے، بھلا اتنے بڑے دشمن کو کوئی کھلا چھوڑ سکتا ہے۔ ثنا خوان تقدیس! کہاں ہو! آواز تو دو! قتیلؔ شفائی اپنا مصرعہ لے کر آگئے ہیں ''تائید ستم گر ہے، چپ رہ کے ستم سہنا''

یارو! غریبوں سے ایدھی کا سہارا بھی چھینا جا رہا ہے۔ آخر کیوں؟ پورا پاکستان قبضہ مافیا کے قبضے میں ہے۔ کیا پورے ملک کا قبضہ بھی قبضہ مافیا کو کم پڑ رہا ہے۔ عبدالستار ایدھی کے لیے حبیب جالبؔ کی گواہی بھی موجود ہے۔ ملاحظہ کیجیے:

عبدالستار ایدھی

یہ جو تو چمکا رہا ہے آنسوؤں سے رات کو
فرق کیا پڑتا ہے پیارے جگنوؤں سے رات کو

اہل تیشہ لائے جاتے ہیں مسلسل جوئے شیر
خسرواں مہکا رہے ہیں گیسوؤں سے رات کو

خود مسلح اور ان کی پشت پر ہیں مقتدر
تو نہتا لڑ رہا ہے' ڈاکوؤں سے رات کو

رات کا جڑ سے اکھڑنا ہی علاج درد ہے
کر سپرد خاک لاکھوں بازوؤں سے رات کو

رات کو جڑ سے اکھاڑنے اور رات کے خاتمے کے لیے لاکھوں بازو ابھی تک بٹے ہوئے ہیں۔ عوام ذات، برادری، زبان، علاقوں میں تقسیم ہیں۔ اور قبضہ مافیا عیش کر رہے ہیں۔
Load Next Story