احتساب پر امتیاز کا دھبہ نہ لگے

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ قلمکاروں کا ایک حلقہ جو حکمران اشرافیہ کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتا ہے


Zaheer Akhter Bedari October 30, 2017
[email protected]

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو جب سے عدالت عظمیٰ نے نااہل قرار دیا ہے مسلم لیگ (ن) اور دو قومی اداروں کے درمیان سخت محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ مسلم لیگ کے سربراہ اور مسلم لیگ کے وزرا کی جانب سے ان دونوں قومی اداروں کے خلاف الزام تراشی کا ایک جارحانہ سلسلہ جاری ہے۔

اگرچہ مسلم لیگ کی قیادت کو دیر ہی سے سہی، یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ان اہم قومی اداروں سے محاذ آرائی نہ اس کے مفاد میں ہے نہ قومی مفاد میں۔ اس احساس کے بعد اب مسلم لیگی وزرا محتاط ہوگئے ہیں اور محاذ آرائی کی شدت میں کمی آگئی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کی اس تبدیل شدہ پالیسی کے تناظر میں جو احتسابی کارروائی ہورہی ہے کیا وہ ختم ہوجائے گی یا اس میں نرمی آجائے گی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسا ممکن نہیں، کیونکہ فہمیدہ حلقوں کا خیال ہے کہ احتساب کا یہ عمل نہ کوئی اتفاقی عمل ہے نہ کسی فرد، افراد یا خاندان کے خلاف یہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احتساب کی یہ کارروائی خوب غور و فکر کے بعد شروع کی گئی ہے، کیونکہ ملک کا کوئی ایسا ادارہ باقی نہ رہا تھا جس میں اربوں کی کرپشن کا ارتکاب نہ کیا جا رہا ہو۔ ملک کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہائی لیول کی کرپشن کی داستانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس حوالے سے حکومت کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس وبائی مرض کی طرح پھیلی ہوئی کرپشن کے خلاف کارروائی کرے، لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ سربراہ حکومت اور ان کے خاندان ہی پر اربوں کی کرپشن کے الزامات میڈیا کی زینت بن رہے تھے اور عوام میں بے چینی اور اشتعال پھیل رہا تھا۔

جب کرپشن کے خلاف احتساب کرنے والے ادارے ہی کرپشن میں ملوث دیکھے جا رہے تھے تو کسی نہ کسی کو تو اس کے خلاف اقدامات کرنا تھے، سو اعلیٰ عدلیہ نے اعلیٰ سطح سے احتساب کا آغاز کیا، اس حوالے سے پہلی بات تو یہ تھی کہ کرپشن کے ملزمان کوئی عام شہری نہ تھے بلکہ ملک کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ایسی شخصیات تھیں جن کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ ان عالی مقام لوگوں پر کرپشن کے الزامات لگ سکتے ہیں۔

کرپشن کا یہ مسئلہ صرف پاکستان کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کی رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے اور اس بیماری میں صرف پسماندہ ملک ہی مبتلا نہیں بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کی اشرافیہ بھی مبتلا ہے۔ اگرچہ یہ مرض اندر ہی اندر پھل پھول رہا تھا لیکن پاناما لیکس نے اس مرض کو لیک کرکے ساری دنیا میں ایک ہلچل مچادی اور کئی ملکوں کے سربراہ اس کی زد میں آگئے۔ چونکہ ترقی یافتہ ملکوں کی سیاست میں اخلاقیات کسی نہ کسی طرح زندہ ہے، سو ان ملکوں کے وہ سربراہ جن پر پاناما لیکس کے حوالے سے کرپشن کے الزامات لگے تھے انھوں نے اپنے عہدوں سے خود استعفیٰ دے دیے اور احتساب کا سامنا بھی کر رہے ہیں۔ نہ ان ملکوں کے سربراہوں نے احتساب کے خلاف کوئی واویلا کیا نہ احتساب کرنے والے اداروں کے خلاف کوئی پروپیگنڈا مہم چلائی۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں حکمران طبقات 70 سال سے اپنی من مانیاں کرتے آ رہے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ ہر قسم کے احتساب سے آزاد ہیں۔ اس ذہنیت کی وجہ احتسابی کارروائی انھیں انتقامی کارروائی نظر آنے لگی اور وہ اس کارروائی کو اپنی توہین سمجھ کر اس کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرنے لگے، بلکہ ان معزز اداروں کے خلاف جو احتساب کا مشکل ترین کام کر رہے تھے پر توہین آمیز الزامات لگانے لگے ۔ احتساب کے اس اقدام کو انتقام کا نام دے کر احتسابی اداروں کے خلاف ایک ایسا طوفان اٹھایا گیا کہ ان اداروں پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہونے لگا۔

بدقسمتی سے اس سنگین مسئلے کا سامنا عقل و ہوش کے ساتھ کرنے کے بجائے اس کا مقابلہ سیاسی طاقت سے کرنے کی غیر سنجیدہ کوششوں پر اتر آئے اور اپنے زیر اثر ہجوم کو 21 کروڑ عوام کی آواز کہہ کر احتساب کے عمل پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی جو غیر منطقی کوشش تھی اس لیے یہ کوشش ناکام ہوگئی اور حکومتی اشرافیہ کو عقل کے ناخن لینے پڑے۔ اس حوالے سے ایک اور غلطی یہ کی جانے لگی کہ اس احتسابی کارروائی کو جمہوریت کے خلاف سازش قرار دیا جانے لگا۔

ہمارے ملک میں 70 سال سے ہماری اشرافیہ نے جمہوریت کا جو حال کر رکھا ہے اس کی وجہ سے جمہوریت اس قدر بدنام ہوچکی ہے کہ احتساب کو جمہوریت دشمنی کہنے سے سوائے ہنسی کے عوام کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کی ساری سیاسی اور مذہبی جماعتیں بوجوہ نہ صرف اس احتسابی کارروائی کی حمایت کر رہی ہیں بلکہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ اس احتساب کو ایک خاندان تک محدود نہ کیا جائے بلکہ اس کا دائرہ وسیع کرکے ان تمام ملازمین تک پھیلایا جائے جن پر کسی حوالے سے بھی ماضی قریب میں کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ قلمکاروں کا ایک حلقہ جو حکمران اشرافیہ کے لیے اپنے دلوں میں نرم گوشہ رکھتا ہے وہ بھی احتساب کو امتیازی اور انتقام کا نام دے کر اس برائی کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ حلقہ حکمرانوں کی اعلیٰ کارکردگی سے متاثر ہو یا احتساب کی اس کارروائی کو امتیازی یا انتقامی کارروائی سمجھتا ہو لیکن کیا اس حلقے کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ پچھلے 70 سال سے اس ملک کی اشرافیہ انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ کرپشن کی گنگا میں ہاتھ بلکہ پورا جسم دھوتی آرہی ہے اور اسے یقین تھا کہ کسی میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ ہماری طرف انگلی اٹھانے کی حماقت کرے۔ اس نفسیات ہی کا اثر ہے کہ احتساب کے اس ابتدائی اقدام پر ساری اشرافیہ مشتعل ہے اور اس اقدام کو طرح طرح کے نام دے کر اسے بدنام کرنے اور رکوانے کی کوشش کر رہی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی جمہوری ملک میں اسٹیبلشمنٹ کو یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ منتخب جمہوری حکومتوں میں مداخلت کرے لیکن اس حوالے سے ہمارا المیہ یہ ہے کہ جب بھی ملک میں غیر سیاسی مداخلت ہوئی نہ صرف عوام نے اس کی حمایت کی بلکہ اعلیٰ پائے کے سیاستدانوں نے مٹھائیاں بانٹیں اور ان غیر سیاسی حکومتوں میں شامل ہوگئے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں جو ہمارے ملک میں سیاستدانوں کی بدنامی کا باعث بنتے رہے ہیں، اگر سیاستدانوں پر عوام کا اعتماد ہوتا تو کسی غیر سیاسی طاقت کی یہ ہمت نہ ہوتی کہ وہ جمہوریت کے پھٹے میں ٹانگ اڑاتا۔ یہ اچھی بات ہے کہ احتساب کا آغاز ہوا ہے لیکن اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک ملک میں ایک بھی کرپٹ اشرافیہ باقی ہے ورنہ احتساب پر امتیاز کا دھبہ لگ جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔