ٹلرسن کو کیا جواب ملا
امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا مگراس کے ساتھ ہی ڈومور کا راگ بھی الاپ دیا
لاہور:
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن جنوبی ایشیا میں امریکی صدر ٹرمپ کی گزشتہ اگست میں اعلان کردہ نئی حکمت عملی کو جلد از جلد نافذ کرنے کا پیغام لے کر اسلام آباد آئے اور اپنی توقعات کے برعکس ماحول پاکر چند گھنٹوں کے بعد ہی پاکستان سے رخصت ہوگئے۔ یوں تو کسی بھی امریکی وزیر خارجہ کے دورے کی ہمیشہ اپنی اہمیت رہی ہے لیکن ٹلرسن نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کیا جب دونوں ملکوں کے تعلقات افغانستان کے حوالے سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔
بہرحال امریکی وزیر خارجہ نے سول اور عسکری قیادت سے ملاقات میں پاک، امریکا تعلقات سمیت افغانستان، خطہ کی صورتحال اور دہشتگردی کے خلاف جنگ سے متعلق امور پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔ اطمینان بخش بات یہ رہی کہ امریکی وزیر خارجہ کو لائن آف کنٹرول، افغانستان کے اندر دہشت گردوں کی سرپرستی و موجودگی، ملکی سیکیورٹی اور اقتصادی صورتحال میں بہتری، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے سمیت افغانستان میں بھارت کے کردار پر اعتراضات بھی کیے گئے۔
پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے ٹلرسن کے دورہ پاکستان پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ امریکی وزیرخارجہ کی وزیراعظم شاہد خاقان سے ملاقات میں اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت دینے، پاک امریکا تعاون و شراکت داری اور خطے میں پاکستان کے کردار سے متعلق بات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا مگر اس کے ساتھ ہی ڈو مور کا راگ بھی الاپ دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کرے۔ لیکن اس مرتبہ ڈو مور کے جواب میں پاکستان کی جانب سے نو مورکہہ دیا گیا، جو ریکس ٹلرسن کے لیے کوئی خوشگوار بات نہیں تھی۔
امریکی وزیر خارجہ مختصر قیام کے بعد بھارت گئے، جہاں انھوں نے وزیراعظم مودی سے ملاقات کے بعد بھارتی ہم منصب سشما سوراج کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ بھارت اور امریکا فطری اتحادی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں، افغان پالیسی میں بھارت کا اہم کردار ہے اور ہم خطے میں بھارت کے قائدانہ کردار کی حمایت کرتے ہیں۔
دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، پاکستان میں بہت ساری دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جو اب پاکستانی حکومت کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہیں، پاکستانی حکومت کا غیر مستحکم ہونا کسی کے مفاد میں نہیں۔ انھوں نے بھارت کی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے بہترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا جب کہ اس سے قبل افغانستان میں امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں غیرضروری طور پر سخت لہجہ اختیار کیا تھا جس کا سنجیدہ نوٹس لیا گیا اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اس طرز گفتگو کو ایک وائسرائے کا سا رویہ قرار دیا۔
امریکی وزیر خارجہ کی افغانستان، پاکستان اور بھارتی حکام سے ملاقات کے اثرات و مضمرات کے حوالے سے خطے میں ایک نیا منظرنامہ ابھر کر سامنے آرہا ہے، امریکی عزائم واضح ہوتے جارہے ہیں۔ مبصرین کی نگاہ میں امریکا براعظم ایشیاء میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے میں خطے میں بھارت کو اپنا کلیدی اتحادی بنانا چاہتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ چار دہائیاں گزرنے کے بعد خطے میں ایک بار پھر امریکی مفادات پر شدید ضرب پڑ رہی ہے، پاکستان کی چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری، سی پیک کی صورت میں مضبوط پاک چین اقتصادی تعاون، چین کی وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ تک رسائی، پاکستان کے روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات اور سب سے بڑھ کر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حامل پاکستان کے اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونے کی کوشش جیسے عوامل امریکا کو اپنی پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس لیے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکا کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہورہا ہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستان پر دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام تو لگایا جارہا ہے مگر کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جارہا، خطے میں بھارتی برتری قائم کرنے کے بعد پاکستان کی سلامتی کا ذکر امریکی وزیر خارجہ کے منہ سے اچھا نہیں لگتا۔ کیا ہی عجیب بات ہے کہ امریکا ایک جانب خطے میں دہشتگردوں کے خاتمے کا علمبردار بننا چاہتا ہے تو دوسری جانب وہ خطے میں بھارتی برتری کی حمایت پر بھی کمر بستہ ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر، جھارکھنڈ، ناگالینڈ، آسام اور منی پور سمیت ایک درجن سے زائد ریاستوں میں ریاستی دہشتگردی کررہا ہے، مگر امریکا اپنے مفادات کی خاطر بھارتی ریاستی دہشت گردی سے آنکھیں چرائے ہوئے ہے۔
ہماری بھی یہ بدقسمتی رہی کہ پاکستان و امریکا کے خوشگوار تعلقات کے دوران ہم نے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ضیاء الحق کے دور میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو روس کو شکست دینے کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی، اس وقت یہ سنہری موقع تھا کہ امریکا کے ساتھ تعاون کو تصفیہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا، مگر جنرل ضیا نے اس پر توجہ نہیں دی اور جب نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے امریکا پاکستان کی مدد کا طلبگار ہوا تو پرویز مشرف نے بھی یہ سنہری موقع ضایع کردیا۔
اگر اس وقت ہم اپنی حمایت کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کردیتے تو اب تک اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل چکا ہوتا، بہرکیف اب بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا، امریکا اگر ہم پر افغان حکومت مخالفین کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا ہے تو ہمیں بھی جواب میں مسئلہ کشمیر اور افغانستان کے ذریعے بھارت کی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی تخریب کاریوں کا پرچار کرنا چاہیے۔ جب جب دہشتگردی کے خاتمے کی بات ہو تب تب بھارتی ریاستی دہشت گردی کو سامنے لاکر اس کے ساتھ جوڑا جائے۔
افغانستان کے حوالے سے امریکا کو اب اس زمینی حقیقت کا ادراک ہوجانا چاہیے کہ افغانستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں کبھی بھی غیر ملکی افواج کامیاب نہیں ہوسکیں، برطانیہ اور سوویت یونین افغانستان کو فتح نہ کرسکے اور اب امریکا خود وہاں اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ 16 برس سے جاری اس جنگ میں امریکا ہزاروں فوجی مروانے اور کھربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی افغانستان میں اپنی رٹ قائم نہیں کرسکا، 50 فیصد علاقہ اب بھی افغان طالبان کے زیر تسلط ہے اور افغان طالبان ایک مضبوط اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے موجود ہیں، کابل میں بھی افغان حکومت کی رٹ قائم نہیں ہے، جس کا تازہ ترین ثبوت امریکی وزیر خارجہ کا کابل جانے کے بجائے بگرام کے فوجی اڈے پر افغان صدر کو بلاکر ملاقات کرنا ہے۔
صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کو خود بھی اشرف غنی حکومت کی سیکیورٹی صلاحیت پر اعتماد نہیں ہے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک کے مطابق امریکی فورسز (افغان حکومت) کے زیرقبضہ علاقوں کی حالت یہ ہے کہ امریکی فورسز ایک سے دوسرے ضلع یا علاقے میں جانے کے لیے ہیلی کاپٹرز یا جدید بکتر بند و بم پروف گاڑیوں میں سفر کرتی ہیں جب کہ تمام راستے ہیلی کاپٹرز نگرانی کرتے ہیں۔ اوباما کے دور میں افغانستان سے فورسز کی واپسی کے بعد اب ٹرمپ مزید ہزاروں فوجی بھجوا رہے ہیں، جب ایک لاکھ سے زیادہ امریکی و اتحادی فوجی طالبان کو سرنگوں نہیں کرسکے تو تین چار ہزار کا اضافہ کون سا معجزہ دکھا سکتا ہے؟
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس صورتحال پر بڑا حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا ہے جو امریکا کے لیے صائب مشورہ بھی ہے کہ اسے افغانستان میں اپنی فوجی شکست تسلیم کرلینی چاہیے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے اپنے جرنیلوں کے بجائے سیاستدانوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔
اب دیکھتے ہیں کہ امریکی حکومت اسے گرہ میں باندھتی ہے یا نہیں، فی الحال وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر افغانستان میں فتح یاب ہونا چاہتی ہے، اپنی ناکامی اور شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر افغان طالبان پر قابو پانے کے لیے پاکستانی فوج کو کرایہ کی فوج کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن ماضی کے بالکل برعکس اس مرتبہ پاکستان نے صاف اور واضح طور پر یہ بتادیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ تو لڑیں گے لیکن کسی کے لیے قربانی کا بکرا نہیں بنیں گے اور جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ افغانستان میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف لڑنے والے افغان جنگجو سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے میں آکر چھپ جاتے ہیں تو اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگائی جارہی ہے۔ امریکا سمیت پوری دنیا کو اس کام میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن جنوبی ایشیا میں امریکی صدر ٹرمپ کی گزشتہ اگست میں اعلان کردہ نئی حکمت عملی کو جلد از جلد نافذ کرنے کا پیغام لے کر اسلام آباد آئے اور اپنی توقعات کے برعکس ماحول پاکر چند گھنٹوں کے بعد ہی پاکستان سے رخصت ہوگئے۔ یوں تو کسی بھی امریکی وزیر خارجہ کے دورے کی ہمیشہ اپنی اہمیت رہی ہے لیکن ٹلرسن نے ایک ایسے وقت میں پاکستان کا دورہ کیا جب دونوں ملکوں کے تعلقات افغانستان کے حوالے سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہیں۔
بہرحال امریکی وزیر خارجہ نے سول اور عسکری قیادت سے ملاقات میں پاک، امریکا تعلقات سمیت افغانستان، خطہ کی صورتحال اور دہشتگردی کے خلاف جنگ سے متعلق امور پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔ اطمینان بخش بات یہ رہی کہ امریکی وزیر خارجہ کو لائن آف کنٹرول، افغانستان کے اندر دہشت گردوں کی سرپرستی و موجودگی، ملکی سیکیورٹی اور اقتصادی صورتحال میں بہتری، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فورسز کے مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنے سمیت افغانستان میں بھارت کے کردار پر اعتراضات بھی کیے گئے۔
پاکستان میں امریکی سفارتخانے نے ٹلرسن کے دورہ پاکستان پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ امریکی وزیرخارجہ کی وزیراعظم شاہد خاقان سے ملاقات میں اقتصادی تعلقات کو مزید وسعت دینے، پاک امریکا تعاون و شراکت داری اور خطے میں پاکستان کے کردار سے متعلق بات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کو سراہا مگر اس کے ساتھ ہی ڈو مور کا راگ بھی الاپ دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف مزید اقدامات کرے۔ لیکن اس مرتبہ ڈو مور کے جواب میں پاکستان کی جانب سے نو مورکہہ دیا گیا، جو ریکس ٹلرسن کے لیے کوئی خوشگوار بات نہیں تھی۔
امریکی وزیر خارجہ مختصر قیام کے بعد بھارت گئے، جہاں انھوں نے وزیراعظم مودی سے ملاقات کے بعد بھارتی ہم منصب سشما سوراج کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ بھارت اور امریکا فطری اتحادی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف ایک ساتھ کھڑے ہیں، افغان پالیسی میں بھارت کا اہم کردار ہے اور ہم خطے میں بھارت کے قائدانہ کردار کی حمایت کرتے ہیں۔
دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، پاکستان میں بہت ساری دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں، جو اب پاکستانی حکومت کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئی ہیں، پاکستانی حکومت کا غیر مستحکم ہونا کسی کے مفاد میں نہیں۔ انھوں نے بھارت کی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے بہترین دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا جب کہ اس سے قبل افغانستان میں امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کے حوالے سے پاکستان کے بارے میں غیرضروری طور پر سخت لہجہ اختیار کیا تھا جس کا سنجیدہ نوٹس لیا گیا اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے اس طرز گفتگو کو ایک وائسرائے کا سا رویہ قرار دیا۔
امریکی وزیر خارجہ کی افغانستان، پاکستان اور بھارتی حکام سے ملاقات کے اثرات و مضمرات کے حوالے سے خطے میں ایک نیا منظرنامہ ابھر کر سامنے آرہا ہے، امریکی عزائم واضح ہوتے جارہے ہیں۔ مبصرین کی نگاہ میں امریکا براعظم ایشیاء میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مقابلے میں خطے میں بھارت کو اپنا کلیدی اتحادی بنانا چاہتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ چار دہائیاں گزرنے کے بعد خطے میں ایک بار پھر امریکی مفادات پر شدید ضرب پڑ رہی ہے، پاکستان کی چین کے ساتھ تزویراتی شراکت داری، سی پیک کی صورت میں مضبوط پاک چین اقتصادی تعاون، چین کی وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ تک رسائی، پاکستان کے روس سے بڑھتے ہوئے تعلقات اور سب سے بڑھ کر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حامل پاکستان کے اپنے پاؤں پر خود کھڑا ہونے کی کوشش جیسے عوامل امریکا کو اپنی پالیسی میں تبدیلی پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس لیے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے امریکا کا جھکاؤ بھارت کی جانب ہورہا ہے۔
امریکا کی جانب سے پاکستان پر دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام تو لگایا جارہا ہے مگر کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جارہا، خطے میں بھارتی برتری قائم کرنے کے بعد پاکستان کی سلامتی کا ذکر امریکی وزیر خارجہ کے منہ سے اچھا نہیں لگتا۔ کیا ہی عجیب بات ہے کہ امریکا ایک جانب خطے میں دہشتگردوں کے خاتمے کا علمبردار بننا چاہتا ہے تو دوسری جانب وہ خطے میں بھارتی برتری کی حمایت پر بھی کمر بستہ ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جو کہ مقبوضہ کشمیر، جھارکھنڈ، ناگالینڈ، آسام اور منی پور سمیت ایک درجن سے زائد ریاستوں میں ریاستی دہشتگردی کررہا ہے، مگر امریکا اپنے مفادات کی خاطر بھارتی ریاستی دہشت گردی سے آنکھیں چرائے ہوئے ہے۔
ہماری بھی یہ بدقسمتی رہی کہ پاکستان و امریکا کے خوشگوار تعلقات کے دوران ہم نے مسئلہ کشمیر کو حل کرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، ضیاء الحق کے دور میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو روس کو شکست دینے کے لیے امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑی، اس وقت یہ سنہری موقع تھا کہ امریکا کے ساتھ تعاون کو تصفیہ کشمیر کے ساتھ منسلک کر دیا جاتا، مگر جنرل ضیا نے اس پر توجہ نہیں دی اور جب نائن الیون کے بعد افغانستان پر حملہ کرنے کے لیے امریکا پاکستان کی مدد کا طلبگار ہوا تو پرویز مشرف نے بھی یہ سنہری موقع ضایع کردیا۔
اگر اس وقت ہم اپنی حمایت کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کردیتے تو اب تک اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکل چکا ہوتا، بہرکیف اب بھی پانی سر سے اونچا نہیں ہوا، امریکا اگر ہم پر افغان حکومت مخالفین کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام عائد کرتا ہے تو ہمیں بھی جواب میں مسئلہ کشمیر اور افغانستان کے ذریعے بھارت کی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی تخریب کاریوں کا پرچار کرنا چاہیے۔ جب جب دہشتگردی کے خاتمے کی بات ہو تب تب بھارتی ریاستی دہشت گردی کو سامنے لاکر اس کے ساتھ جوڑا جائے۔
افغانستان کے حوالے سے امریکا کو اب اس زمینی حقیقت کا ادراک ہوجانا چاہیے کہ افغانستان ایک ایسا خطہ ہے جہاں کبھی بھی غیر ملکی افواج کامیاب نہیں ہوسکیں، برطانیہ اور سوویت یونین افغانستان کو فتح نہ کرسکے اور اب امریکا خود وہاں اپنے زخم چاٹ رہا ہے۔ 16 برس سے جاری اس جنگ میں امریکا ہزاروں فوجی مروانے اور کھربوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی افغانستان میں اپنی رٹ قائم نہیں کرسکا، 50 فیصد علاقہ اب بھی افغان طالبان کے زیر تسلط ہے اور افغان طالبان ایک مضبوط اسٹیک ہولڈر کی حیثیت سے موجود ہیں، کابل میں بھی افغان حکومت کی رٹ قائم نہیں ہے، جس کا تازہ ترین ثبوت امریکی وزیر خارجہ کا کابل جانے کے بجائے بگرام کے فوجی اڈے پر افغان صدر کو بلاکر ملاقات کرنا ہے۔
صاف ظاہر ہوتا ہے کہ امریکیوں کو خود بھی اشرف غنی حکومت کی سیکیورٹی صلاحیت پر اعتماد نہیں ہے۔ ایک امریکی تھنک ٹینک کے مطابق امریکی فورسز (افغان حکومت) کے زیرقبضہ علاقوں کی حالت یہ ہے کہ امریکی فورسز ایک سے دوسرے ضلع یا علاقے میں جانے کے لیے ہیلی کاپٹرز یا جدید بکتر بند و بم پروف گاڑیوں میں سفر کرتی ہیں جب کہ تمام راستے ہیلی کاپٹرز نگرانی کرتے ہیں۔ اوباما کے دور میں افغانستان سے فورسز کی واپسی کے بعد اب ٹرمپ مزید ہزاروں فوجی بھجوا رہے ہیں، جب ایک لاکھ سے زیادہ امریکی و اتحادی فوجی طالبان کو سرنگوں نہیں کرسکے تو تین چار ہزار کا اضافہ کون سا معجزہ دکھا سکتا ہے؟
وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اس صورتحال پر بڑا حقیقت پسندانہ تبصرہ کیا ہے جو امریکا کے لیے صائب مشورہ بھی ہے کہ اسے افغانستان میں اپنی فوجی شکست تسلیم کرلینی چاہیے اور مسئلے کے سیاسی حل کے لیے اپنے جرنیلوں کے بجائے سیاستدانوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔
اب دیکھتے ہیں کہ امریکی حکومت اسے گرہ میں باندھتی ہے یا نہیں، فی الحال وہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر افغانستان میں فتح یاب ہونا چاہتی ہے، اپنی ناکامی اور شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈال کر افغان طالبان پر قابو پانے کے لیے پاکستانی فوج کو کرایہ کی فوج کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے لیکن ماضی کے بالکل برعکس اس مرتبہ پاکستان نے صاف اور واضح طور پر یہ بتادیا ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ تو لڑیں گے لیکن کسی کے لیے قربانی کا بکرا نہیں بنیں گے اور جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے کہ افغانستان میں اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف لڑنے والے افغان جنگجو سرحد سے ملحق پاکستانی علاقے میں آکر چھپ جاتے ہیں تو اس مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کی جانب سے ڈیورنڈ لائن پر باڑ لگائی جارہی ہے۔ امریکا سمیت پوری دنیا کو اس کام میں پاکستان کی مدد کرنی چاہیے۔