پری چہرہ بہوکی تلاش

ہمارا سماجی المیہ، جس کی وجہ سے کتنی ہی بیٹیاں بن بیاہی رہ جاتی ہیں


ہمارا سماجی المیہ، جس کی وجہ سے کتنی ہی بیٹیاں بن بیاہی رہ جاتی ہیں۔ فوٹو : فائل

پری چہرہ بہو کی تلاش، ہمارے سماج کا ایسا المیہ ہے جس کے نتیجے میں کتنی ہی بیٹیاں بن بیاہی رہ جاتی ہیں اور جو نہ جانے کتنی زندگیاں نگل چکا ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ اس المیے کو جنم بھی عورت ذات نے دیا ہے۔ اپنی بیٹی کا معاملہ ہو تو مائیں شکایت کرتی نظر آتی ہیں کہ لوگوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے، انھیں لڑکی نہیں حُور چاہیے۔ دوسری جانب جب وہ اپنے بیٹے کے لیے بہو دیکھنے جاتی ہیں تو پھر اپنے لیے یہی معیارمقرر کرلیتی ہیں۔ بیٹے چاہے معمولی شکل و صورت کے ہی کیوں نہ ہوں مگر بہو انھیں سرو قد اور پری چہرہ درکار ہوتی ہے۔ چہرے کی خوب صورتی کے ساتھ ساتھ بال، چال، رنگت، آنکھیں، قد، وزن ہر چیز کو بغور پرکھا جاتا ہے۔ گویا لڑکی نہ ہوئی قربانی کا جانور ہوگئی اور بے چاری میں ذرا سی بھی کوئی کمی نظر آجائے تو فوراً اسے مسترد کردیا جاتا ہے۔

کسی زمانے میں رشتہ طے کرتے ہوئے صرف لڑکی کا خاندان اور اس کا حسب نسب دیکھا جاتا تھا، اس کی تربیت اور قابلیت پرکھی جاتی تھی۔ لڑکے والے خوشی خوشی اچھے خاندانوں میں لڑکی دیکھے بغیر ہی رشتہ طے کرلیا کرتے تھے، مگر آج کے دور میں لڑکی کی تربیت یا خاندان کیسا بھی ہو ان سبھی کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ خوب صورت اور حسین لڑکیوں کی تلاش میں کتنی ہی قبول صورت یا عام سی لڑکیوں کو بنا سوچے سمجھے ٹھکرا دیا جاتا ہے۔

شکل و صورت تو خدا بناتا ہے پھر ہم یا آپ کون ہوتے ہیں کہ اس کی مخلوق میں عیب تلاش کریں۔ آپ کسی لڑکی کو دیکھنے جائیں لوازمات سے بھری ہوئی میز سے خوب انصاف کریں اور لڑکی کی ماں کی آس و امید بھری نگاہ آپ پر پڑے تو آپ نہایت صاف گوئی سے یہ کہہ کر انکار کردیں کہ ہمیں تو آپ کی بیٹی پسند نہیں آئی۔ ذرا چند لمحوں کے لیے خود کو یا اپنی بیٹی کو اس لڑکی کی جگہ رکھ کر سوچیے کہ اگر آپ کے ساتھ ایسا کوئی کرے یا آپ کی بیٹی کو اس طرح دھتکاردے تو آپ پر کیا گزرے گی؟

آپ کے اس طرز عمل سے قبول صورت یا کم رُو ہونا جرم بن جاتا ہے۔ آپ کے چند استہزائیہ جملے لڑکی کو اپنوں کے سامنے ہی مجرم بنادیتے ہیں۔ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں لیکن آپ ایسا کرکے بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ چڑچڑا پن، ڈپریشن، ٹھکرائے جانے کا خوف انھیں نفسیاتی مریض بنادیتا ہے۔ کبھی سوچیے کہ آپ کا ایک انکار انھیں کس اذیت، کرب اور ذلت سے دوچار کرتا ہے۔ اکثر تقاریب وغیرہ میں چند خواتین مل کر بیٹھ جائیں تو دوسروں کی بیٹیوں پر بے جا تبصرے کرتی ہیں کہ فلاں کی بیٹی ایسی اور فلاں کی بیٹی یوں۔ ہنسی، ٹھٹھے، قہقہے کتنی ہی لڑکیوں اور ان کی ماؤں کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔

آئے روز اخبارات میں ہم نوجوان لڑکیوں کی خودکشی کے بارے میں پڑھتے ہیں۔ ان میں سے کئی لڑکیاں ضرور بار بار ٹھکرائے جانے سے دل برداشتہ ہوکر اس انتہائی اقدام پر موجبور ہوجاتی ہوں گی۔ بار بار مسترد کیے جانے کی وجہ سے امید کی ڈور تھامتے تھامتے یہ لڑکیاں تھکنے لگتی ہیں تو موت کو آسان منزل سمجھ کر گھر والوں کو اپنے بوجھ سے آزاد کر جاتی ہیں اور اپنے پیچھے ایسے ان گنت سوال چھوڑ جاتی ہیں کہ جن کا جواب دینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ ایسا کیوں؟

خدارا! لڑکیوں کو شو پیس سمجھنا چھوڑ دیں، یہ بہت نازک ہوتی ہیں، ذرا سی ٹھیس لگے تو ٹوٹ کر بکھر جاتی ہیں اور جب یہ ایک بار بکھر جائیں تو مدتوں سنبھل نہیں پاتیں۔ کسی لڑکی کو دیکھنے کے لیے جائیں تو پہلے سے خوب سوچ سمجھ کر جائیں۔ لڑکی کی عام سی شکل کو اس کی سزا مت بنائیے یہ گناہ ہے۔ خدارا لڑکیوں کے بارے میں ایسے جملے ہر گز نہ ادا کریں وہ ناکردہ جُرم کی پاداش میں عمر بھر کے لیے گھر والوں کی نظر میں مجرم بن جائیں۔ لڑکی کی صورت نہیں اس کی سیرت دیکھیے اس کا کردار دیکھیے ایسا کرکے آپ بھی خوش رہیں گی اور دوسروں کے لیے بھی خوشی کا باعث بنیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں