اداروں سے محاذ آرائی یاکوئی نیا این آر او جمہوریت کیلئے نقصان دہ ہوگا
’’موجودہ سیاسی صورتحال‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ
لاہور:
پاناما لیکس کے بعد سے لے کر اب تک ملکی سیاسی ماحول خاصا گرم ہے خصوصاََ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی،ان کے خاندان کا احتساب عدالت میں ٹرائل اورفرد جرم عائد ہونے جیسے معاملات کے باعث سیاسی درجہ حرارت شدید گرم ہوچکا ہے جبکہ اداروں میں ٹکراؤ جیسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر ''موجودہ سیاسی صورتحال'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
زعیم قادری (وزیربرائے اوقاف و مذہبی امور پنجاب )
حکومت اور اداروں کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہے۔ جب تک تمام ادارے بشمول حکومتی ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں تب تک اختلاف ہونا ناممکن ہے۔ میاں نواز شریف نے عدالتی فیصلے کے فوری بعد خود کو اقتدار سے الگ کیا اور وزیراعظم ہاؤس چھوڑ دیا تاہم کسی فیصلے کو تسلیم نہ کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اگر یہ بات آئینی طور پر درست نہ ہوتی تو پھر اپیل کا قانون نہ ہوتا اور ضلعی عدالتوں کے بعد ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کی گنجائش بھی نہ ہوتی۔ہم نے عدالتی فیصلہ اس لیے تسلیم نہیں کیا کیونکہ میاں نواز شریف کا نام پانامہ میں نہیں تھا اور نہ ہی انہیں سزا ان تین پٹیشنز کے مطابق ہوئی جو جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور شیخ رشید نے دائر کی تھیں۔ ان میں کہیںبھی اقامہ پر نااہلی استدعا نہیں کی گئی تھی۔ تینوں کیسز کو سننے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد عدالت نے ان کیسز کو ٹرائل کیلئے بھیجنا مناسب سمجھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عدالت کے پاس تمام تر پیش رفت کے باوجود وہ حقائق یا ثبوت موجود نہیں تھے جن پر سزا دی جاتی۔ہم نے منی ٹریل پیش کی مگر عدالت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ وہی منی ٹریل اب ہم نے احتساب عدالت کے جج کے سامنے پیش کردی ہے مگر وہاں بھی ہمارے تحفظات ہیں۔یہ بات واضح طور پر سامنے آرہی ہے کہ نیب اپنی تفتیش نہیں کررہا بلکہ جے آئی ٹی کی ان تحقیقات پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے جن سے ہم نے اختلاف کیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تفتیش کے بغیر سزا دینا خلاف قانون ہے۔ اب جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اسے دیکھیں گے اور اگر کہیں ہمیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی تو ہم عوام میں جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کسی این آر او کی طرف نہیں دیکھ رہی ۔خاص طور پر وہ این آر او جو ایک آمر نے قاتلوں، لٹیروں اور دہشت گردوں کو چھڑانے کیلئے کیا اورا س کے ذریعے 1100 سنگین مقدمات کو دفن کردیا گیا جس میں دہشت گردی کے مقدمات بھی شامل تھے۔ یہاں کہا گیا کہ ہم مصلحت کے تحت آصف زرداری سے ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں، میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) میں ایسی کوئی سوچ موجود نہیں ہے بلکہ آصف زرداری ایسی بیان بازی سے سیاسی طور پرفائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس وقت ملک میں سیاسی نظام موجود ہے مگر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت متاثر ہوتی ہے اور ایسا ہم دھرنوں کے دور سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے دشمن ممالک سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ایٹمی اسلامی پاکستان کو معاشی طاقت بننے سے روکنا چاہتے ہیں اور ان کا اصل ہدف سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اندرونی و بیرونی حالات کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد میں کام کرنا چاہیے۔ تمام ریاستی ادارے، ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ و سیاسی قوتیں سی پیک منصوبے کا دفاع کریں کیونکہ یہ منصوبہ ہمیں معاشی طاقت بنائے گا۔
لیاقت بلوچ ( سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی)
پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں سول ملٹری تعلقات کبھی بھی نارمل نہیں رہے جبکہ سول، ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی طاقتور رہی ہے۔ اگر سیاست اور جمہوریت مضبوط ہو تو صرف اسی صورت میں ہی جمہوریت اور جمہور کا حق محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ آئین، جمہوریت اور آزاد عدلیہ کی بالادستی کو ہر صورت میں تمام اطراف سے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالیہ تاریخ میں تین بڑے تصادم ہوئے جن کے نتائج اچھے نہیں رہے۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحرانوں کا ہم آج تک شکار ہیں۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی تصادم کا انجام اچھا نہیں ہوا جس کی وجہ سے ہماری سیاست بڑے بحران سے دوچار ہے۔ میاں نواز شریف کو تین مرتبہ وزیراعظم بننے کا موقع ملا اور وہ ہر بار تصادم کا شکار ہوئے۔پہلی مرتبہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد نواز شریف کو کچھ ریلیف مل گیا۔دوسری مرتبہ 99ء میں جب بحران پیدا ہوا تو اس تصادم کے نتیجے میں سزائیں، جلا وطنی اور پھر زبردستی ملک سے باہر جانا جسے بیرسٹر عامر حسن نے این آر او کا نام دیا۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ معاہدہ ہوا جس کے تحت وہ باہر چلے گئے لیکن اس مدت کے اختتام پرواپس آئے اور رفتہ رفتہ انہیں سیاست میں موقع مل گیا۔ اب تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد معاملہ پھر الجھ گیا ہے جس سے آئین، جمہوریت اور سیاسی عمل کو ڈی ریل کرنے کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ سیاسی سطح پر جمہوری قوتوں کے درمیان ایسی کوئی ترجیحات موجود نہیں ہیںکہ کس حد تک اختلاف کرنا ہے اور کس حد سے تجاوز نہیں کرناکہ جمہوریت، آئین اور پس پردہ قوتوں کا تصادم، بحران کا باعث نہ بن سکے۔ جب فیصلے تسلیم نہیں ہوتے تو ان کی بنیاد پر تصادم کھڑا ہوتا ہے جو معمولی بات نہیں ہے۔اس میں راستہ صرف یہی ہے کہ سیاسی و جمہوری قوتیں اس سلسلے میں بہتر حکمت عملی اختیار کریں۔ پہلے چودھری نثار اور اب میاں شہباز شریف و حمزہ شہباز نے بھی تصادم کے خلاف بات کی مگر نواز شریف کا جی ٹی روڈ پر نکلنا اور جو بیانیہ انہوں نے دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا پیغام تصادم ہے ۔جب نواز شریف عدالتی فیصلے کو تسلیم کرکے مستعفی ہوچکے ہیں، انہوں نے حکومت کو ترجیح دی اور اپنی پارٹی کو ٹوٹنے سے بچایا ہے تو بہتر راستہ یہی ہے کہ اب وہ احتساب عدالت کا سامنا کریں اور تصادم کی طرف نہ جائیں۔ ملکی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، امریکا کا خطے میں اثر بڑھ رہا ہے، بھارت کشمیر میں مظالم کی انتہا اور پاکستان کے خلاف ہر حربہ استعمال کررہا ہے۔ان حالات میں سب کی خصوصاََ حکومت کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ تصادم کو ختم کرے۔ ماضی میں بھٹو خاندان اور شریف خاندان کے ساتھ این آر او ہوئے جن کا فائدہ بعد میں سب نے اٹھایا ۔ اب اگر این آر او ہوا تو یہ جمہوری اداروں کے لیے خطرناک ہوگا۔ این آر او کے امکانات کم ہیں تاہم اگر ایسا ہوا تو جماعت اسلامی اسے کسی بھی طورقبول نہیں کرے گی اور پھر آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے سڑکوں پر نکلنا ناگزیر ہوگا۔ ہم شروع سے ہی ایک خاندان کے احتساب کے خلاف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سب کا احتساب ہو اور اب ہم جس سمت میں چل نکلے ہیں اس سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔
میاں محمود الرشید (اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی و مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف)
این آر او کے حوالے سے ہماری حکمت عملی واضح ہے کہ یہ کسی بھی طور ہمیںقبول نہیں۔ ماضی میں ہونے والا این آر او ملکی تاریخ پرایک بدنما دھبہ ہے جس کے تباہ کن نتائج سامنے آئے کیونکہ اس کے ذریعے ایک آمر نے چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں اور کرپٹ لوگوں کو ریلیف دیا۔جمہوریت کے ہوتے ہوئے کسی این آر او کی گنجائش نہیں ہے، اب اگر ایسا کیا گیاتو ہم عوام کو سڑکوں پر نکالیں گے۔ محاذ آرائی کی وجہ سے اس وقت ملک مسائل سے دوچار ہے۔ ہمیں بین الاقوامی چیلنجزکا سامنا ہے۔ یمن کے معاملے کے بعد مشرقی وسطیٰ ' عرب امارات اور سعودی عرب اب ہمارے ساتھ نہیں کھڑے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ بھارت اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، ان کے مابین سٹرٹیجک معاہدے ہورہے ہیں جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جبکہ امریکا کا دباؤ الگ ہے لہٰذا ان تمام مسائل کی موجودگی میں مضبوط حکومت اور سیاسی استحکام انتہائی اہم ہے۔ دشمن طاقتیں سی پیک منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتی ہیں، حکومت کو چاہیے کہ اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کرکے اگلے الیکشن کا اعلان کرے تاکہ سیاسی استحکام کے ذریعے ملک کو مزید مشکلات سے بچایا جاسکے۔سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اختلافات کے باوجود اپنی حدود و قیود میں رہیں۔ سب کو اداروں کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے لیکن اگرانہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔محاذ آرائی کا راستہ درست نہیں ہے۔ ماضی میں مارشل لاء یا ٹیکنو کریٹ کی حکومت جیسے تجربات اچھے نہیں رہے، ان سے مسائل پیدا ہوئے اور پھر دوبارہ ہمیں جمہوریت کی طرف آنا پڑا۔ میاں نواز شریف نے محاذ آرائی کا جو راستہ اختیار کیا، گزشتہ دو ہفتوں سے اس میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے جو خوش آئند ہے لیکن اگر یہ باز نہ آئے اور جمہوریت کو کوئی نقصان ہوا تو پھر اس کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن) ہوگی۔
بیرسٹر عامر حسن ( مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
سیاسی ماحول میں گرمی غیر معمولی نہیں ہے کیونکہ اگلا سال انتخابات کا ہے اور ہر الیکشن کے قریب سیاسی ماحول ہمیشہ سے ہی گرم ہوتا ہے۔اصل مسئلہ اداروں کے درمیان تصادم کا ہے اور یہ اپوزیشن کی جانب سے نہیں بلکہ خود حکومت کی جانب سے ایسی باتیںسامنے آرہی ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہوئی جس میں تصادم کی فضا کو ختم کرنے کی بات سامنے آئی۔ ایسے بیانات بھی سننے میں آرہے ہیں کہ ہم میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سمجھانے کی کوشش کریں گے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تصادم موجود ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ کس طرف سے ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت متعارف کرانے والی جماعت ہے۔ جمہوریت کے ارتقاء سے لے کر اس کے استحکام تک، تمام لوگ ہمارے کردار کے معترف ہیں۔ 2013ء میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہوا جس کا کریڈٹ بھی ہمیں جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق کی مضبوطی کیلئے صوبائی خود مختاری دی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ جو میثاق جمہوریت ہوا اس پر95فیصد کام کیا تاہم موجودہ حکومت نے میثاق جمہوریت کے حوالے سے جو کام کرنا تھا وہ نہیں ہوا اور یہ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے مفاہمت کی فضا پیدا نہیں کرسکے۔ ہم نے جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ہمیشہ کام کیا ہے ۔ دھرنوں کے دوران سازش ہورہی تھی جس کے پیش نظر پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا، مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں آئی اور ہم نے جمہوریت کا ساتھ دیالیکن معاملہ حل ہونے کے بعد مشاورت کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔ افسوس ہے کہ حکومت نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی اور نہ ہی اپنی جماعت سے، بلکہ چند لوگوں نے فیصلہ لیا جس کی وجہ سے آج ملک مسائل سے دوچار ہے، انہیں چاہیے کہ بحران جلد از جلد حل کریں تاکہ ملک کو نقصان نہ ہو۔یہ کہتے ہیں کہ سازش ہورہی ہے، ہم کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں آئیں اوربتائیں کہ کیسے سازش ہورہی ہے، ہم پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے کام کریں گے۔ سکیورٹی معاملات اوراندرونی و بیرونی مسائل کے پیش نظر ملک تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ آج جمہوریت کی تعریف بدل چکی ہے۔ اس کی نئی تعریف کے مطابق تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہمیں گلہ ہے کہ کوئی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو ہمیں خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ چیئرمین سینیٹ آج بھی کہتے ہیں کہ سب کو پارلیمنٹ کے وقار کیلئے اکٹھا ہونا ہوگا۔ این آر او درست نہیں، اس سے سیاست اور اہل سیاست بدنام ہوتے ہیں لہٰذا سیاست دانوں کو ملک میں رہ کر تمام کیسز کا سامنا کرنا چاہیے۔ نیب کا سلوک امتیازی ہے۔ ایک طرف گرفتاریاں اور سزائیں ہورہی ہیں جبکہ دوسری طرف ریلیف دیا جارہا ہے جو باعث افسوس ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہو۔ پارلیمنٹ کے اندر سے احتساب کا موثر نظام بناکر اسے مضبوط کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس حوالے سے کام کرنا چاہیے کیونکہ اگر سیاستدان اسی طرح بدنام کردیے گئے تو لوگوں سے ان کا حق حاکمیت چھینا جاتا رہے گا۔
امیر بہادر خان ہوتی (ترجمان عوامی نیشنل پارٹی پنجاب)
ملک دہشت گردی کا شکار ہے جبکہ ہمیں ہمسایہ ممالک سے بھی مسائل کا سامنا ہے، اس صورتحال میں ملک، اداروں کے ساتھ تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بات پاناما سے اقامہ تک آگئی ہے ۔ اب عمران خان اور جہانگیر ترین بھی قانون کی زد میں آئیں گے لہٰذا یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے بلکہ سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ این آر او ملکی تاریخ پر دھبہ ہے اور ہم اس کے سخت مخالف ہیں۔ یہ طریقہ کار ختم ہونا چاہیے اور سب کو جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کرنا چاہیے۔خان عبدالولی خان نے میاں نواز شریف کے ساتھ معاہدہ کیا تھا مگر یہ اس سے دستبردار ہوگئے۔ اس کے علاوہ سی پیک منصوبے پر نواز شریف نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا اور بہت سارے معاملات میں ہمارا ساتھ نہیں دیا جس کے باعث ہمیں حکومت سے گلہ ہے۔ این اے 120میں جس طرح مذہبی جماعتوں کو فروغ دیا گیا،اس سے تصادم کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جو خطرناک ہے۔تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں ڈیلور کرنے پر ناکام ہوچکی ہے اور اب اس کے پاس آئندہ الیکشن میں جانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
پاناما لیکس کے بعد سے لے کر اب تک ملکی سیاسی ماحول خاصا گرم ہے خصوصاََ سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی،ان کے خاندان کا احتساب عدالت میں ٹرائل اورفرد جرم عائد ہونے جیسے معاملات کے باعث سیاسی درجہ حرارت شدید گرم ہوچکا ہے جبکہ اداروں میں ٹکراؤ جیسی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں۔
ان حالات کے پیش نظر ''موجودہ سیاسی صورتحال'' کے حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
زعیم قادری (وزیربرائے اوقاف و مذہبی امور پنجاب )
حکومت اور اداروں کے درمیان کوئی تصادم نہیں ہے۔ جب تک تمام ادارے بشمول حکومتی ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کرتے ہیں تب تک اختلاف ہونا ناممکن ہے۔ میاں نواز شریف نے عدالتی فیصلے کے فوری بعد خود کو اقتدار سے الگ کیا اور وزیراعظم ہاؤس چھوڑ دیا تاہم کسی فیصلے کو تسلیم نہ کرنا ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ اگر یہ بات آئینی طور پر درست نہ ہوتی تو پھر اپیل کا قانون نہ ہوتا اور ضلعی عدالتوں کے بعد ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کی گنجائش بھی نہ ہوتی۔ہم نے عدالتی فیصلہ اس لیے تسلیم نہیں کیا کیونکہ میاں نواز شریف کا نام پانامہ میں نہیں تھا اور نہ ہی انہیں سزا ان تین پٹیشنز کے مطابق ہوئی جو جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور شیخ رشید نے دائر کی تھیں۔ ان میں کہیںبھی اقامہ پر نااہلی استدعا نہیں کی گئی تھی۔ تینوں کیسز کو سننے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ کے بعد عدالت نے ان کیسز کو ٹرائل کیلئے بھیجنا مناسب سمجھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عدالت کے پاس تمام تر پیش رفت کے باوجود وہ حقائق یا ثبوت موجود نہیں تھے جن پر سزا دی جاتی۔ہم نے منی ٹریل پیش کی مگر عدالت نے اسے تسلیم نہیں کیا۔ وہی منی ٹریل اب ہم نے احتساب عدالت کے جج کے سامنے پیش کردی ہے مگر وہاں بھی ہمارے تحفظات ہیں۔یہ بات واضح طور پر سامنے آرہی ہے کہ نیب اپنی تفتیش نہیں کررہا بلکہ جے آئی ٹی کی ان تحقیقات پر ہی اکتفا کیا جارہا ہے جن سے ہم نے اختلاف کیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تفتیش کے بغیر سزا دینا خلاف قانون ہے۔ اب جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اسے دیکھیں گے اور اگر کہیں ہمیں دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی گئی تو ہم عوام میں جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کسی این آر او کی طرف نہیں دیکھ رہی ۔خاص طور پر وہ این آر او جو ایک آمر نے قاتلوں، لٹیروں اور دہشت گردوں کو چھڑانے کیلئے کیا اورا س کے ذریعے 1100 سنگین مقدمات کو دفن کردیا گیا جس میں دہشت گردی کے مقدمات بھی شامل تھے۔ یہاں کہا گیا کہ ہم مصلحت کے تحت آصف زرداری سے ڈائیلاگ کرنا چاہتے ہیں، میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ مسلم لیگ (ن) میں ایسی کوئی سوچ موجود نہیں ہے بلکہ آصف زرداری ایسی بیان بازی سے سیاسی طور پرفائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس وقت ملک میں سیاسی نظام موجود ہے مگر سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت متاثر ہوتی ہے اور ایسا ہم دھرنوں کے دور سے کہہ رہے ہیں کہ ہمارے دشمن ممالک سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے ایٹمی اسلامی پاکستان کو معاشی طاقت بننے سے روکنا چاہتے ہیں اور ان کا اصل ہدف سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ اندرونی و بیرونی حالات کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر ملکی مفاد میں کام کرنا چاہیے۔ تمام ریاستی ادارے، ملٹری اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ و سیاسی قوتیں سی پیک منصوبے کا دفاع کریں کیونکہ یہ منصوبہ ہمیں معاشی طاقت بنائے گا۔
لیاقت بلوچ ( سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی)
پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں سول ملٹری تعلقات کبھی بھی نارمل نہیں رہے جبکہ سول، ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہمیشہ سے ہی طاقتور رہی ہے۔ اگر سیاست اور جمہوریت مضبوط ہو تو صرف اسی صورت میں ہی جمہوریت اور جمہور کا حق محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ آئین، جمہوریت اور آزاد عدلیہ کی بالادستی کو ہر صورت میں تمام اطراف سے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حالیہ تاریخ میں تین بڑے تصادم ہوئے جن کے نتائج اچھے نہیں رہے۔ ایک ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوا جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بحرانوں کا ہم آج تک شکار ہیں۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی تصادم کا انجام اچھا نہیں ہوا جس کی وجہ سے ہماری سیاست بڑے بحران سے دوچار ہے۔ میاں نواز شریف کو تین مرتبہ وزیراعظم بننے کا موقع ملا اور وہ ہر بار تصادم کا شکار ہوئے۔پہلی مرتبہ اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد نواز شریف کو کچھ ریلیف مل گیا۔دوسری مرتبہ 99ء میں جب بحران پیدا ہوا تو اس تصادم کے نتیجے میں سزائیں، جلا وطنی اور پھر زبردستی ملک سے باہر جانا جسے بیرسٹر عامر حسن نے این آر او کا نام دیا۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ معاہدہ ہوا جس کے تحت وہ باہر چلے گئے لیکن اس مدت کے اختتام پرواپس آئے اور رفتہ رفتہ انہیں سیاست میں موقع مل گیا۔ اب تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد معاملہ پھر الجھ گیا ہے جس سے آئین، جمہوریت اور سیاسی عمل کو ڈی ریل کرنے کا خطرہ پیدا ہوا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ سیاسی سطح پر جمہوری قوتوں کے درمیان ایسی کوئی ترجیحات موجود نہیں ہیںکہ کس حد تک اختلاف کرنا ہے اور کس حد سے تجاوز نہیں کرناکہ جمہوریت، آئین اور پس پردہ قوتوں کا تصادم، بحران کا باعث نہ بن سکے۔ جب فیصلے تسلیم نہیں ہوتے تو ان کی بنیاد پر تصادم کھڑا ہوتا ہے جو معمولی بات نہیں ہے۔اس میں راستہ صرف یہی ہے کہ سیاسی و جمہوری قوتیں اس سلسلے میں بہتر حکمت عملی اختیار کریں۔ پہلے چودھری نثار اور اب میاں شہباز شریف و حمزہ شہباز نے بھی تصادم کے خلاف بات کی مگر نواز شریف کا جی ٹی روڈ پر نکلنا اور جو بیانیہ انہوں نے دیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا پیغام تصادم ہے ۔جب نواز شریف عدالتی فیصلے کو تسلیم کرکے مستعفی ہوچکے ہیں، انہوں نے حکومت کو ترجیح دی اور اپنی پارٹی کو ٹوٹنے سے بچایا ہے تو بہتر راستہ یہی ہے کہ اب وہ احتساب عدالت کا سامنا کریں اور تصادم کی طرف نہ جائیں۔ ملکی سرحدیں غیر محفوظ ہیں، امریکا کا خطے میں اثر بڑھ رہا ہے، بھارت کشمیر میں مظالم کی انتہا اور پاکستان کے خلاف ہر حربہ استعمال کررہا ہے۔ان حالات میں سب کی خصوصاََ حکومت کی ذمہ داری زیادہ ہے کہ وہ تصادم کو ختم کرے۔ ماضی میں بھٹو خاندان اور شریف خاندان کے ساتھ این آر او ہوئے جن کا فائدہ بعد میں سب نے اٹھایا ۔ اب اگر این آر او ہوا تو یہ جمہوری اداروں کے لیے خطرناک ہوگا۔ این آر او کے امکانات کم ہیں تاہم اگر ایسا ہوا تو جماعت اسلامی اسے کسی بھی طورقبول نہیں کرے گی اور پھر آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے سڑکوں پر نکلنا ناگزیر ہوگا۔ ہم شروع سے ہی ایک خاندان کے احتساب کے خلاف ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سب کا احتساب ہو اور اب ہم جس سمت میں چل نکلے ہیں اس سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔
میاں محمود الرشید (اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی و مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف)
این آر او کے حوالے سے ہماری حکمت عملی واضح ہے کہ یہ کسی بھی طور ہمیںقبول نہیں۔ ماضی میں ہونے والا این آر او ملکی تاریخ پرایک بدنما دھبہ ہے جس کے تباہ کن نتائج سامنے آئے کیونکہ اس کے ذریعے ایک آمر نے چوروں، لٹیروں، ڈاکوؤں اور کرپٹ لوگوں کو ریلیف دیا۔جمہوریت کے ہوتے ہوئے کسی این آر او کی گنجائش نہیں ہے، اب اگر ایسا کیا گیاتو ہم عوام کو سڑکوں پر نکالیں گے۔ محاذ آرائی کی وجہ سے اس وقت ملک مسائل سے دوچار ہے۔ ہمیں بین الاقوامی چیلنجزکا سامنا ہے۔ یمن کے معاملے کے بعد مشرقی وسطیٰ ' عرب امارات اور سعودی عرب اب ہمارے ساتھ نہیں کھڑے۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ بھارت اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، ان کے مابین سٹرٹیجک معاہدے ہورہے ہیں جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک سیاسی و معاشی عدم استحکام کا شکار ہے جبکہ امریکا کا دباؤ الگ ہے لہٰذا ان تمام مسائل کی موجودگی میں مضبوط حکومت اور سیاسی استحکام انتہائی اہم ہے۔ دشمن طاقتیں سی پیک منصوبے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا چاہتی ہیں، حکومت کو چاہیے کہ اس تمام تر صورتحال کے پیش نظر تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کرکے اگلے الیکشن کا اعلان کرے تاکہ سیاسی استحکام کے ذریعے ملک کو مزید مشکلات سے بچایا جاسکے۔سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ اختلافات کے باوجود اپنی حدود و قیود میں رہیں۔ سب کو اداروں کے فیصلوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے لیکن اگرانہیں تسلیم نہیں کیا جائے گا تو مسائل پیدا ہوں گے۔محاذ آرائی کا راستہ درست نہیں ہے۔ ماضی میں مارشل لاء یا ٹیکنو کریٹ کی حکومت جیسے تجربات اچھے نہیں رہے، ان سے مسائل پیدا ہوئے اور پھر دوبارہ ہمیں جمہوریت کی طرف آنا پڑا۔ میاں نواز شریف نے محاذ آرائی کا جو راستہ اختیار کیا، گزشتہ دو ہفتوں سے اس میں بڑی تبدیلی واقع ہوئی ہے جو خوش آئند ہے لیکن اگر یہ باز نہ آئے اور جمہوریت کو کوئی نقصان ہوا تو پھر اس کی ذمہ دار مسلم لیگ (ن) ہوگی۔
بیرسٹر عامر حسن ( مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی)
سیاسی ماحول میں گرمی غیر معمولی نہیں ہے کیونکہ اگلا سال انتخابات کا ہے اور ہر الیکشن کے قریب سیاسی ماحول ہمیشہ سے ہی گرم ہوتا ہے۔اصل مسئلہ اداروں کے درمیان تصادم کا ہے اور یہ اپوزیشن کی جانب سے نہیں بلکہ خود حکومت کی جانب سے ایسی باتیںسامنے آرہی ہیں۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات ہوئی جس میں تصادم کی فضا کو ختم کرنے کی بات سامنے آئی۔ ایسے بیانات بھی سننے میں آرہے ہیں کہ ہم میاں نواز شریف اور مریم نواز کو سمجھانے کی کوشش کریں گے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تصادم موجود ہے اور یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ کس طرف سے ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی جمہوریت متعارف کرانے والی جماعت ہے۔ جمہوریت کے ارتقاء سے لے کر اس کے استحکام تک، تمام لوگ ہمارے کردار کے معترف ہیں۔ 2013ء میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت سے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل ہوا جس کا کریڈٹ بھی ہمیں جاتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے وفاق کی مضبوطی کیلئے صوبائی خود مختاری دی اور دوسری جماعتوں کے ساتھ جو میثاق جمہوریت ہوا اس پر95فیصد کام کیا تاہم موجودہ حکومت نے میثاق جمہوریت کے حوالے سے جو کام کرنا تھا وہ نہیں ہوا اور یہ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے مفاہمت کی فضا پیدا نہیں کرسکے۔ ہم نے جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ہمیشہ کام کیا ہے ۔ دھرنوں کے دوران سازش ہورہی تھی جس کے پیش نظر پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ کو مضبوط کیا، مسلم لیگ (ن) پارلیمنٹ میں آئی اور ہم نے جمہوریت کا ساتھ دیالیکن معاملہ حل ہونے کے بعد مشاورت کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔ افسوس ہے کہ حکومت نے سیاسی جماعتوں سے مشاورت کی اور نہ ہی اپنی جماعت سے، بلکہ چند لوگوں نے فیصلہ لیا جس کی وجہ سے آج ملک مسائل سے دوچار ہے، انہیں چاہیے کہ بحران جلد از جلد حل کریں تاکہ ملک کو نقصان نہ ہو۔یہ کہتے ہیں کہ سازش ہورہی ہے، ہم کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں آئیں اوربتائیں کہ کیسے سازش ہورہی ہے، ہم پارلیمنٹ کی مضبوطی کیلئے کام کریں گے۔ سکیورٹی معاملات اوراندرونی و بیرونی مسائل کے پیش نظر ملک تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ آج جمہوریت کی تعریف بدل چکی ہے۔ اس کی نئی تعریف کے مطابق تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور کسی دوسرے کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر ہمیں گلہ ہے کہ کوئی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرتا ہے تو ہمیں خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ چیئرمین سینیٹ آج بھی کہتے ہیں کہ سب کو پارلیمنٹ کے وقار کیلئے اکٹھا ہونا ہوگا۔ این آر او درست نہیں، اس سے سیاست اور اہل سیاست بدنام ہوتے ہیں لہٰذا سیاست دانوں کو ملک میں رہ کر تمام کیسز کا سامنا کرنا چاہیے۔ نیب کا سلوک امتیازی ہے۔ ایک طرف گرفتاریاں اور سزائیں ہورہی ہیں جبکہ دوسری طرف ریلیف دیا جارہا ہے جو باعث افسوس ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہو۔ پارلیمنٹ کے اندر سے احتساب کا موثر نظام بناکر اسے مضبوط کیا جائے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر اس حوالے سے کام کرنا چاہیے کیونکہ اگر سیاستدان اسی طرح بدنام کردیے گئے تو لوگوں سے ان کا حق حاکمیت چھینا جاتا رہے گا۔
امیر بہادر خان ہوتی (ترجمان عوامی نیشنل پارٹی پنجاب)
ملک دہشت گردی کا شکار ہے جبکہ ہمیں ہمسایہ ممالک سے بھی مسائل کا سامنا ہے، اس صورتحال میں ملک، اداروں کے ساتھ تصادم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بات پاناما سے اقامہ تک آگئی ہے ۔ اب عمران خان اور جہانگیر ترین بھی قانون کی زد میں آئیں گے لہٰذا یہ سلسلہ رکنا نہیں چاہیے بلکہ سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ این آر او ملکی تاریخ پر دھبہ ہے اور ہم اس کے سخت مخالف ہیں۔ یہ طریقہ کار ختم ہونا چاہیے اور سب کو جمہوریت کی مضبوطی کے لیے کام کرنا چاہیے۔خان عبدالولی خان نے میاں نواز شریف کے ساتھ معاہدہ کیا تھا مگر یہ اس سے دستبردار ہوگئے۔ اس کے علاوہ سی پیک منصوبے پر نواز شریف نے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا اور بہت سارے معاملات میں ہمارا ساتھ نہیں دیا جس کے باعث ہمیں حکومت سے گلہ ہے۔ این اے 120میں جس طرح مذہبی جماعتوں کو فروغ دیا گیا،اس سے تصادم کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے جو خطرناک ہے۔تحریک انصاف خیبرپختونخوا میں ڈیلور کرنے پر ناکام ہوچکی ہے اور اب اس کے پاس آئندہ الیکشن میں جانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔