این ڈی یونیورسٹی کے طلبا نے نیم اور جبڑوفا کے بیج سے بائیو ڈیزل بنا لیا
اگر یہ تجربہ صنعتوں میں کیا جائے تو پاکستان دوسرے ممالک سے ڈیزل درآمد کرنے کے بجائے اپنا ہی ڈیزل تیارکرسکتا ہے، طلبا
این ای ڈی یونیورسٹی کے طلبہ نے نیم اور جٹروفاکے بیج سے ڈیزل اور گلیسرین بنانے کا کامیاب تجربہ کرلیا۔
دوسرے ممالک سے ڈیزل کی درآمد کو کم کرنے کیلیے این ای ڈی یونیورسٹی کے ہونہار طلبہ نے نیم اور جٹروفا کے بیج سے ڈیزل بنانے کا کامیاب تجربہ کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ اگر یہ تجربہ بڑے پیمانے پر صنعتوں میں کیا جائے تو پاکستان دوسرے ممالک سے ڈیزل درآمد کرنے کے بجائے اپنا ڈیزل تیارکرسکتا ہے۔
طلبہ نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پچھلے ایک ماہ سے اس منصوبے پر کام کررہے ہیں جس میں نیم اور جٹروفا کے بیج سے تیل نکال کر تیل کو کیمیائی عمل سے گزار کر میتھانول اور کیٹالسٹ شامل کرنے کے بعد محلول کوایک خاص درجہ حرارت پر گرم کیا جاتا ہے،گرم ہونے کے بعد محلول دو حصوں،بائیو ڈیزل اور گلیسرین میں تبدیل ہوتا ہے،جسے مخصوص آلات استعمال کرکے بائیو ڈیزل اور گلیسرین کو علیحدہ کر لیا جاتاہے،ابھی یہ تجربہ چھوٹے پیمانے پر کیا گیاہے جسے بعد ازاں آٹو موٹو انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں گاڑیوں میں ڈال کر چیک کیا جائے گا لیکن خواہش ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہو۔
پروفیسر محمود علی نے کہا کہ نیم اور جٹروفا کے بیج غیر خوردنی ہوتے ہیں اسی لیے ان بیجوں کی مدد سے ماحول دوست ڈیزل تیار کرنے کا کامیاب تجربہ کیا گیاہے اس ڈیزل کے استعمال سے ماحول میں اتنی ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی جتنی ضرورت ہے، اسکے برعکس فوسل فیول جلانے سے ماحول میں موجود نقصان دہ گیس اضافے کا باعث بنتی ہیں،غیر خوردنی بیجوں کی مدد سے انتہائی کم لاگت میں بائیو ڈیزل تیار کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ ہر سال اربوں ڈالر کی بچت بھی فراہم کرسکتا ہے، دنیا بھرمیں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش جاری ہے جس کے تحت بائیو ڈیزل، بائیو گیس، ایتھانول، میتھانول اور دیگر سستے ذرائع پر تیزی سے کام کرکے پاکستان میں بھی بائیو فیول کی صنعت کو فروغ دیکر ہر سال اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہر سال اربوں ڈالر کی مالیت کا خام تیل درآمد کیا جاتا ہے،ان اخراجات کو کم کرکے نا صرف بچت کی جاسکتی ہے بلکہ نیم اور جٹروفا کے درخت کاشت کرکے روزگار بھی فراہم کیا جاسکتا ہے،پروفیسرمحمود علی نے کہا کہ جو تجربہ طلبہ نے کیا ہے اس کی لاگت 100 روپے فی لیٹر آرہی ہے جبکہ مارکیٹ میں ڈیزل کی قیمت 80 روپے تک ہے، ہم فی لیٹر لاگت کو کم کرنے کیلیے سولر انرجی استعمال کریں گے جس کے بعد بائیو ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 80 یا اس سے کم ہوگی۔
پروفیسر محمود علی نے مزید بتایا کہ نیم اور جٹروفا کے بیجوں سے حاصل کردہ تیل اور کیمیائی عمل سے ہمیں نہ صرف بائیوڈیزل حاصل ہورہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ مکسچر سے گلیسرین کو بھی علیحدہ کیا جارہا ہے جو ادویات اور کاسمیٹک کے علاوہ دیگر اہم چیزوں میں استعمال کی جاتی ہے۔
دوسرے ممالک سے ڈیزل کی درآمد کو کم کرنے کیلیے این ای ڈی یونیورسٹی کے ہونہار طلبہ نے نیم اور جٹروفا کے بیج سے ڈیزل بنانے کا کامیاب تجربہ کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ اگر یہ تجربہ بڑے پیمانے پر صنعتوں میں کیا جائے تو پاکستان دوسرے ممالک سے ڈیزل درآمد کرنے کے بجائے اپنا ڈیزل تیارکرسکتا ہے۔
طلبہ نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ پچھلے ایک ماہ سے اس منصوبے پر کام کررہے ہیں جس میں نیم اور جٹروفا کے بیج سے تیل نکال کر تیل کو کیمیائی عمل سے گزار کر میتھانول اور کیٹالسٹ شامل کرنے کے بعد محلول کوایک خاص درجہ حرارت پر گرم کیا جاتا ہے،گرم ہونے کے بعد محلول دو حصوں،بائیو ڈیزل اور گلیسرین میں تبدیل ہوتا ہے،جسے مخصوص آلات استعمال کرکے بائیو ڈیزل اور گلیسرین کو علیحدہ کر لیا جاتاہے،ابھی یہ تجربہ چھوٹے پیمانے پر کیا گیاہے جسے بعد ازاں آٹو موٹو انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ میں گاڑیوں میں ڈال کر چیک کیا جائے گا لیکن خواہش ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہو۔
پروفیسر محمود علی نے کہا کہ نیم اور جٹروفا کے بیج غیر خوردنی ہوتے ہیں اسی لیے ان بیجوں کی مدد سے ماحول دوست ڈیزل تیار کرنے کا کامیاب تجربہ کیا گیاہے اس ڈیزل کے استعمال سے ماحول میں اتنی ہی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوگی جتنی ضرورت ہے، اسکے برعکس فوسل فیول جلانے سے ماحول میں موجود نقصان دہ گیس اضافے کا باعث بنتی ہیں،غیر خوردنی بیجوں کی مدد سے انتہائی کم لاگت میں بائیو ڈیزل تیار کیا جا سکتا ہے جو نہ صرف ماحول دوست ہے بلکہ ہر سال اربوں ڈالر کی بچت بھی فراہم کرسکتا ہے، دنیا بھرمیں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش جاری ہے جس کے تحت بائیو ڈیزل، بائیو گیس، ایتھانول، میتھانول اور دیگر سستے ذرائع پر تیزی سے کام کرکے پاکستان میں بھی بائیو فیول کی صنعت کو فروغ دیکر ہر سال اربوں ڈالر کا قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہر سال اربوں ڈالر کی مالیت کا خام تیل درآمد کیا جاتا ہے،ان اخراجات کو کم کرکے نا صرف بچت کی جاسکتی ہے بلکہ نیم اور جٹروفا کے درخت کاشت کرکے روزگار بھی فراہم کیا جاسکتا ہے،پروفیسرمحمود علی نے کہا کہ جو تجربہ طلبہ نے کیا ہے اس کی لاگت 100 روپے فی لیٹر آرہی ہے جبکہ مارکیٹ میں ڈیزل کی قیمت 80 روپے تک ہے، ہم فی لیٹر لاگت کو کم کرنے کیلیے سولر انرجی استعمال کریں گے جس کے بعد بائیو ڈیزل کی فی لیٹر قیمت 80 یا اس سے کم ہوگی۔
پروفیسر محمود علی نے مزید بتایا کہ نیم اور جٹروفا کے بیجوں سے حاصل کردہ تیل اور کیمیائی عمل سے ہمیں نہ صرف بائیوڈیزل حاصل ہورہا ہے بلکہ ساتھ ساتھ مکسچر سے گلیسرین کو بھی علیحدہ کیا جارہا ہے جو ادویات اور کاسمیٹک کے علاوہ دیگر اہم چیزوں میں استعمال کی جاتی ہے۔