سندھ پولیس میں کورس کیے بغیر اگلے عہدوں پر ترقی دینے کا انکشاف
مبینہ طور پر بھاری رقوم کے عوض اہلکاروں کو ترقیاں دی گئیں، اہل اور سینئر امیدوار پچھلے گریڈ میں ہی رہ گئے
سندھ پولیس میں محکمہ جاتی کورس کیے بغیر ہی اگلے عہدے پر بڑے پیمانے پر ترقی دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
سندھ پولیس میں محکمہ جاتی کورس کیے بغیر ہی اگلے عہدے پر بڑے پیمانی پر ترقیاں دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ، ایکسپریس کو حاصل دستاویزات کے مطابق سندھ پولیس میں سیکڑوں سپاہیوں کو کورس کیے بغیر ہی اگلے عہدوں پر ترقیاں دیدی گئیں، قواعد کے مطابق سپاہی سے ہیڈ کانسٹیبل، حوالدار، ہیڈ محرر، اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے مختلف کورسز اے ون، بی ون، بی ٹو، لوئر کورس، انٹرمیڈیٹ کورس اور دیگر کورسز کرنا ہوتے ہیں لیکن کلرک مافیا نے مبینہ طور پر بھاری رقوم کے عوض محض کاغذات پر ہی کورسز کروا کے بڑے پیمانے پر1800سے زائد افراد کو اگلے عہدوں پر ترقیاں دلوادیں۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان میں کئی ایسے افراد بھی ہیں جوکہ اپنی عمر کے لحاظ سے مختلف کورس نہیں کرسکتے تھے اور ان کی عمر کی حد (اوور ایج) ختم ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی سروس شیٹس میں بھی یہ کورس لکھ دیے گئے جس کے بعد وہ اگلے عہدوں پر ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
پولیس قوانین کے مطابق ایک کورس سے دوسرے کورس کے درمیان کم از کم ڈیڑھ برس کا وقفہ لازمی ہوتا ہے جبکہ ایک عہدے پر ترقی حاصل کرنے کے بعد3سال تک دوسرے عہدے پر ترقی حاصل نہیں کی جاسکتی لیکن ان تمام قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی ایسے پولیس اہلکار بھی ہیں جنھوں نے ترقیاں پہلے حاصل کرلیں جبکہ کورس بعد میں کیے۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان افراد میں وہ اہلکار بھی شامل ہیں جنھیں میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عہدے میں تنزلی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن انھوں نے اپنا اثر و رسوخ اور مبینہ طور پر بھاری رقوم استعمال کرتے ہوئے اب نہ صرف اپنے عہدوں واپس حاصل کرلیے بلکہ کئی تو اگلے عہدوں پر پہنچ چکے ہیں، اس تمام تر صورتحال کے باعث اہل اور سینئر اہلکاروں میں بے چینی اور بددلی پھیل رہی ہے،2013سے اب تک کئی ایسے اہلکار ہیں جو کہ سپاہی سے سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ3سال تک اگلے عہدے پر ترقی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
متاثرہ اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ پولیس کے ہیڈ آفس اور کراچی پولیس کے ہیڈ آفس میں تعینات کلرک مافیا اس کام کو سرانجام دے رہی ہے جس میں کچھ اعلیٰ افسران کی بھی آشیرباد انھیں حاصل ہے، انہوں نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور سال 2012 کے بعد ہونے والی ڈی پی سی کی شفاف جانچ پڑتال کرائیں، خصوصی طور پر ابتدائی کورس بی ون کرنے والوں کی کاپیاں چیک کرالی جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا، متاثرہ اہلکاروں نے مطالبہ کیا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے تاکہ وہ بھی قانونی طریقے سے اگلے عہدوں پر ترقیاں حاصل کر سکیں۔
سندھ پولیس میں محکمہ جاتی کورس کیے بغیر ہی اگلے عہدے پر بڑے پیمانی پر ترقیاں دیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ، ایکسپریس کو حاصل دستاویزات کے مطابق سندھ پولیس میں سیکڑوں سپاہیوں کو کورس کیے بغیر ہی اگلے عہدوں پر ترقیاں دیدی گئیں، قواعد کے مطابق سپاہی سے ہیڈ کانسٹیبل، حوالدار، ہیڈ محرر، اسسٹنٹ سب انسپکٹر اور سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچنے کے لیے مختلف کورسز اے ون، بی ون، بی ٹو، لوئر کورس، انٹرمیڈیٹ کورس اور دیگر کورسز کرنا ہوتے ہیں لیکن کلرک مافیا نے مبینہ طور پر بھاری رقوم کے عوض محض کاغذات پر ہی کورسز کروا کے بڑے پیمانے پر1800سے زائد افراد کو اگلے عہدوں پر ترقیاں دلوادیں۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان میں کئی ایسے افراد بھی ہیں جوکہ اپنی عمر کے لحاظ سے مختلف کورس نہیں کرسکتے تھے اور ان کی عمر کی حد (اوور ایج) ختم ہوگئی تھی لیکن اس کے باوجود ان کی سروس شیٹس میں بھی یہ کورس لکھ دیے گئے جس کے بعد وہ اگلے عہدوں پر ترقی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
پولیس قوانین کے مطابق ایک کورس سے دوسرے کورس کے درمیان کم از کم ڈیڑھ برس کا وقفہ لازمی ہوتا ہے جبکہ ایک عہدے پر ترقی حاصل کرنے کے بعد3سال تک دوسرے عہدے پر ترقی حاصل نہیں کی جاسکتی لیکن ان تمام قواعد و ضوابط کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی ایسے پولیس اہلکار بھی ہیں جنھوں نے ترقیاں پہلے حاصل کرلیں جبکہ کورس بعد میں کیے۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا کہ ان افراد میں وہ اہلکار بھی شامل ہیں جنھیں میں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عہدے میں تنزلی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن انھوں نے اپنا اثر و رسوخ اور مبینہ طور پر بھاری رقوم استعمال کرتے ہوئے اب نہ صرف اپنے عہدوں واپس حاصل کرلیے بلکہ کئی تو اگلے عہدوں پر پہنچ چکے ہیں، اس تمام تر صورتحال کے باعث اہل اور سینئر اہلکاروں میں بے چینی اور بددلی پھیل رہی ہے،2013سے اب تک کئی ایسے اہلکار ہیں جو کہ سپاہی سے سب انسپکٹر کے عہدے تک پہنچ گئے ہیں جبکہ3سال تک اگلے عہدے پر ترقی بھی حاصل نہیں کی جاسکتی۔
متاثرہ اہلکاروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سندھ پولیس کے ہیڈ آفس اور کراچی پولیس کے ہیڈ آفس میں تعینات کلرک مافیا اس کام کو سرانجام دے رہی ہے جس میں کچھ اعلیٰ افسران کی بھی آشیرباد انھیں حاصل ہے، انہوں نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں اور سال 2012 کے بعد ہونے والی ڈی پی سی کی شفاف جانچ پڑتال کرائیں، خصوصی طور پر ابتدائی کورس بی ون کرنے والوں کی کاپیاں چیک کرالی جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا، متاثرہ اہلکاروں نے مطالبہ کیا کہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے تاکہ وہ بھی قانونی طریقے سے اگلے عہدوں پر ترقیاں حاصل کر سکیں۔