راہِ حق کا ایک اور شہید عبدالرزاق
تمام پریشانیوں کے باوجود بلوچستان میں موجود تمام فورسز نے اپنے حقوق کےلیے آج تک کبھی احتجاج نہیں کیا
KARACHI:
پاکستان گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور دہشت گردی کے ان سیکڑوں واقعات میں اب تک ہزاروں پاکستانی شہری اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ اس طرح کی ایک بزدلانہ کاروائی چند روز پہلے کوئٹہ میں ہوئی جس میں کئی گھروں کے چراغ گل ہوگئے۔ یہ دھماکہ کوئٹہ کے علاقے سبی روڈ مشرقی بائی پاس پر ایلیٹ فورس کے ٹرک پر ہوا۔ اس دھماکے میں خودکش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی ایلیٹ فورس کے ٹرک سے ٹکرادی تھی جس کے نتیجے میں عین موقع پر 6 پولیس جوانوں اور دو راہگیروں سمیت کل 8 افراد نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ 11 اہلکار شدید زخمی ہوئے۔ یہ خودکش حملہ اس وقت ہوا جب ایلیٹ فورس کے کمانڈوز ایک ٹرک میں گشت پر جارہے تھے کہ اچانک ایک گاڑی آ کر ٹکرائی اور دھماکہ ہوگیا جس میں ایلیٹ فورس کے کئی جوان شہید اور زخمی ہوگئے۔
ایلیٹ فورس کا ٹرک ہر روز صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ جوانوں کو بٹھا کر ہیڈکوارٹر سے نکلتا ہے اور کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں گشت کرتا ہے تاکہ کوئٹہ میں امن امان قائم ہوسکے۔ دن ہو یا رات، یہ جوان منٹوں میں جائے واردات پر پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن ایک ٹرک میں تقریباً 36 کمانڈوز سوارکیے جاتے ہیں جو افسوسناک عمل ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ٹرک میں بلوچستان کی بھیڑ بکریاں ڈال دی گئی ہیں اور انہیں منڈی میں قربان کرنے کیلئے بھیجا گیا ہے۔ بلوچستان کی سر زمین پر ہر روز اساتذہ، ڈاکٹر، کلرک اور دوسرے محکموں کے ملازمین ہڑتال کرتے ہیں مگر بلوچستان میں موجود تمام فورسز نے کبھی اپنے حقوق کےلیے احتجاج تک نہیں کیا۔
یہاں تک کہ گزشتہ چند سال میں صرف بلوچستان میں فورسز کے ہزاروں جوان شہید بھی ہوگئے ہیں۔ کئی جوانوں نے اپنی جانیں تک ہتھیلی پر رکھ کر عوام کو تحفظ دینے کےلیے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ لیکن ان فورسز کے جوانوں نے اپنی مراعات کےلیے کبھی ہڑتال تک نہیں کی جو حکومت پاکستان کےلیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اس حوالے سے میں نے حالیہ کوئٹہ کے بم دھماکے میں شہید ایلیٹ فورس کے جوان عبدالرزاق قمبرانی کے لواحقین سے بات چیت کی اور ان کے جوابات سن کر میں لاجواب ہوگیا۔
کوئٹہ بم دھماکے میں شہید ہونے والے جوان عبدالرزاق کے بھائی عبدالحمید نے بتایا کہ میرے بڑے بھائی ایلیٹ فورس کے جوان تھے جو بلوچستان پولیس میں بطور کانسٹبل بھرتی ہوئے تھے اور پھر ترقی کرکے ایلیٹ فورس میں ہیڈ کانسٹبل بن گئے۔ وہ مذکورہ کوئٹہ بم دھماکے میں زخموں کا تاب نہ لاکر وطن کےلئے شہید ہوگئے تھے۔ عبدالحمید نے بتایا: ''میرے بھائی عبدالرزاق ولد عبدالمجید تحصیل گنداخہ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں گوٹھ رحمت اللہ قمبرانی کے رہائشی تھے۔ شہید نے اپنے فرض کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ عبدالرزاق مجھے ہمیشہ کہتا تھا کہ شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔ میں ہمیشہ رزاق سے کہتا تھا کہ آپ نے کوئٹہ ہجرت کیوں کی ہے؟ تو وہ کہتے تھے کسی کی جان بچانے کےلیے ہجرت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ میرے بھائی نے گاؤں سے اسی لیے ہجرت کی تھی اور اپنے ہم وطنوں کی جان بچانے کےلیے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرگئے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ میں وطن کے لوگوں کی جانیں ضرور بچاؤں گا، اور اسی لیے میں نے ایلیٹ فورس جوائن کی ہے۔ ایلیٹ فورس میں اگر ملک کی خاطر شہید ہوا تو یہ قوم کی کامیابی ہوگی۔ میرے بھائی میرے جگر کا ٹکڑا تھے۔ میرے بھائی شہید ہوئے اور اس دھماکے میں کئی ماؤں کے لاڈلے شہید ہوئے ہیں۔ اس بم دھماکے میں کسی بہن کا بھائی شہید ہوا تو کسی کی بیوی کا شوہر، اور کسی کا بچہ یتیم ہوا۔ میرا حکومت وقت سے صرف ایک سوال ہے کہ آخر ایک ٹرک میں 36 کمانڈوز کیوں سوار کیے جاتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب ایک ہی ہے: ڈیزل بچاؤ۔ افسوس ہوتا ہے اس جواب پر!''
عبدالرزاق شہید کے بھائی نثار احمد خود بھی پاک فوج کے جوان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کی شہادت کی وجہ سول اسپتال کوئٹہ میں سہولیات کا فقدان بنا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد جب سے صحت کا شعبہ وفاق سے صوبائی حکومت کو منتقل کیا گیا ہے، تب سے ہر صوبے پر یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ صحت سے متعلق کمیشن بنائے۔ اب تک یہ کمیشن پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں تو تشکیل دے دیا گیا ہے لیکن بلوچستان میں اب تک یہ ادارہ قائم ہی نہیں کیا گیا جو افسوسناک عمل ہے۔ حتی کہ اس معاملے میں حکومت بلوچستان کی خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سلیکشن کے دوران جوانوں سے جن مراعات کے وعدے کیے جاتے ہیں، وہ مراعات کہاں ہیں؟ وہ گاڑیاں کہاں ہیں؟ وہ جدید اسلحہ کہاں ہے؟ وہ چالیس فیصد اضافی تنخواہیں کہاں ہیں؟ اب تک انہیں صحیح طور پر وردیاں تک نہیں دی گئیں جبکہ رہائش کے نام پر چارپائیاں دی جاتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے۔ مجھے رونا آتا ہے۔ آنسو آنکھوں سے رکتے نہیں لیکن اگر وقت آیا تو میں بھی وطن کےلیے اپنی جان قربان کردوں گا۔ ہمارے عزائم وطن کےلیے پختہ ہیں۔
شہید عبدالرزاق کے کزن رحمت اللہ قمبرانی بھی بلوچستان پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ہر سال سیکڑوں جوان شہید ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بلوچستان پولیس کے جوان ہر تکلیف سہہ کر بھی اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیتے رہے ہیں اور رہیں گے۔ اصل میں کچھ چیزیں جوانوں کی کمزوری ہیں، جیسے کہ انہیں نوکری سے نکالے جانے کا ڈر ہے جس کی وجہ سے بات نہیں کرتے، منہ پر تالا بندی ہوتی ہے۔ یہ جوان چپ چاپ ٹرکوں میں سوار ہوجاتے ہیں اور اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ عبدالرزاق خوشی سے جیا ہے اور ڈٹ کر جیا ہے۔ اس کا نہ تو کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ تھا اور نہ کسی جاگیردار یا وڈیرہ شاہی سے کوئی تعلق۔ اس نے پوری زندگی ایک گھر تک نہیں نہ بنایا کہ جس میں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کی زندگی گزار سکے۔ حیرت تو یہ ہے کہ شہید کے گاؤں میں نہ تو گیس ہے نہ پانی ہے، اور نہ حکومت وقت نے کسی ریلیف کا اعلان کیا ہے جس سے عبدالرزاق کے لواحقین آرام کی زندگی گزار سکیں۔ ہماری اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک کے دشمنوں کو نیست و نابود کردیں (آمین، ثم آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پاکستان گزشتہ کئی سال سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور دہشت گردی کے ان سیکڑوں واقعات میں اب تک ہزاروں پاکستانی شہری اپنی جانیں دے چکے ہیں۔ اس طرح کی ایک بزدلانہ کاروائی چند روز پہلے کوئٹہ میں ہوئی جس میں کئی گھروں کے چراغ گل ہوگئے۔ یہ دھماکہ کوئٹہ کے علاقے سبی روڈ مشرقی بائی پاس پر ایلیٹ فورس کے ٹرک پر ہوا۔ اس دھماکے میں خودکش حملہ آور نے دھماکہ خیز مواد سے بھری گاڑی ایلیٹ فورس کے ٹرک سے ٹکرادی تھی جس کے نتیجے میں عین موقع پر 6 پولیس جوانوں اور دو راہگیروں سمیت کل 8 افراد نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ 11 اہلکار شدید زخمی ہوئے۔ یہ خودکش حملہ اس وقت ہوا جب ایلیٹ فورس کے کمانڈوز ایک ٹرک میں گشت پر جارہے تھے کہ اچانک ایک گاڑی آ کر ٹکرائی اور دھماکہ ہوگیا جس میں ایلیٹ فورس کے کئی جوان شہید اور زخمی ہوگئے۔
ایلیٹ فورس کا ٹرک ہر روز صبح آٹھ بجے کے لگ بھگ جوانوں کو بٹھا کر ہیڈکوارٹر سے نکلتا ہے اور کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں گشت کرتا ہے تاکہ کوئٹہ میں امن امان قائم ہوسکے۔ دن ہو یا رات، یہ جوان منٹوں میں جائے واردات پر پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن ایک ٹرک میں تقریباً 36 کمانڈوز سوارکیے جاتے ہیں جو افسوسناک عمل ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ٹرک میں بلوچستان کی بھیڑ بکریاں ڈال دی گئی ہیں اور انہیں منڈی میں قربان کرنے کیلئے بھیجا گیا ہے۔ بلوچستان کی سر زمین پر ہر روز اساتذہ، ڈاکٹر، کلرک اور دوسرے محکموں کے ملازمین ہڑتال کرتے ہیں مگر بلوچستان میں موجود تمام فورسز نے کبھی اپنے حقوق کےلیے احتجاج تک نہیں کیا۔
یہاں تک کہ گزشتہ چند سال میں صرف بلوچستان میں فورسز کے ہزاروں جوان شہید بھی ہوگئے ہیں۔ کئی جوانوں نے اپنی جانیں تک ہتھیلی پر رکھ کر عوام کو تحفظ دینے کےلیے بھرپور جدوجہد کی ہے۔ لیکن ان فورسز کے جوانوں نے اپنی مراعات کےلیے کبھی ہڑتال تک نہیں کی جو حکومت پاکستان کےلیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ اس حوالے سے میں نے حالیہ کوئٹہ کے بم دھماکے میں شہید ایلیٹ فورس کے جوان عبدالرزاق قمبرانی کے لواحقین سے بات چیت کی اور ان کے جوابات سن کر میں لاجواب ہوگیا۔
کوئٹہ بم دھماکے میں شہید ہونے والے جوان عبدالرزاق کے بھائی عبدالحمید نے بتایا کہ میرے بڑے بھائی ایلیٹ فورس کے جوان تھے جو بلوچستان پولیس میں بطور کانسٹبل بھرتی ہوئے تھے اور پھر ترقی کرکے ایلیٹ فورس میں ہیڈ کانسٹبل بن گئے۔ وہ مذکورہ کوئٹہ بم دھماکے میں زخموں کا تاب نہ لاکر وطن کےلئے شہید ہوگئے تھے۔ عبدالحمید نے بتایا: ''میرے بھائی عبدالرزاق ولد عبدالمجید تحصیل گنداخہ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں گوٹھ رحمت اللہ قمبرانی کے رہائشی تھے۔ شہید نے اپنے فرض کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ عبدالرزاق مجھے ہمیشہ کہتا تھا کہ شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔ میں ہمیشہ رزاق سے کہتا تھا کہ آپ نے کوئٹہ ہجرت کیوں کی ہے؟ تو وہ کہتے تھے کسی کی جان بچانے کےلیے ہجرت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ میرے بھائی نے گاؤں سے اسی لیے ہجرت کی تھی اور اپنے ہم وطنوں کی جان بچانے کےلیے اپنی جان اللہ کی راہ میں قربان کرگئے۔ وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ میں وطن کے لوگوں کی جانیں ضرور بچاؤں گا، اور اسی لیے میں نے ایلیٹ فورس جوائن کی ہے۔ ایلیٹ فورس میں اگر ملک کی خاطر شہید ہوا تو یہ قوم کی کامیابی ہوگی۔ میرے بھائی میرے جگر کا ٹکڑا تھے۔ میرے بھائی شہید ہوئے اور اس دھماکے میں کئی ماؤں کے لاڈلے شہید ہوئے ہیں۔ اس بم دھماکے میں کسی بہن کا بھائی شہید ہوا تو کسی کی بیوی کا شوہر، اور کسی کا بچہ یتیم ہوا۔ میرا حکومت وقت سے صرف ایک سوال ہے کہ آخر ایک ٹرک میں 36 کمانڈوز کیوں سوار کیے جاتے ہیں؟ یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب ایک ہی ہے: ڈیزل بچاؤ۔ افسوس ہوتا ہے اس جواب پر!''
عبدالرزاق شہید کے بھائی نثار احمد خود بھی پاک فوج کے جوان ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی کی شہادت کی وجہ سول اسپتال کوئٹہ میں سہولیات کا فقدان بنا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد جب سے صحت کا شعبہ وفاق سے صوبائی حکومت کو منتقل کیا گیا ہے، تب سے ہر صوبے پر یہ لازم ہوگیا ہے کہ وہ صحت سے متعلق کمیشن بنائے۔ اب تک یہ کمیشن پنجاب، خیبرپختونخوا اور سندھ میں تو تشکیل دے دیا گیا ہے لیکن بلوچستان میں اب تک یہ ادارہ قائم ہی نہیں کیا گیا جو افسوسناک عمل ہے۔ حتی کہ اس معاملے میں حکومت بلوچستان کی خاموشی بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ سلیکشن کے دوران جوانوں سے جن مراعات کے وعدے کیے جاتے ہیں، وہ مراعات کہاں ہیں؟ وہ گاڑیاں کہاں ہیں؟ وہ جدید اسلحہ کہاں ہے؟ وہ چالیس فیصد اضافی تنخواہیں کہاں ہیں؟ اب تک انہیں صحیح طور پر وردیاں تک نہیں دی گئیں جبکہ رہائش کے نام پر چارپائیاں دی جاتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے۔ مجھے رونا آتا ہے۔ آنسو آنکھوں سے رکتے نہیں لیکن اگر وقت آیا تو میں بھی وطن کےلیے اپنی جان قربان کردوں گا۔ ہمارے عزائم وطن کےلیے پختہ ہیں۔
شہید عبدالرزاق کے کزن رحمت اللہ قمبرانی بھی بلوچستان پولیس میں سب انسپکٹر کے عہدے پر فائز ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ہر سال سیکڑوں جوان شہید ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کی خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بلوچستان پولیس کے جوان ہر تکلیف سہہ کر بھی اپنے فرائض بخوبی سر انجام دیتے رہے ہیں اور رہیں گے۔ اصل میں کچھ چیزیں جوانوں کی کمزوری ہیں، جیسے کہ انہیں نوکری سے نکالے جانے کا ڈر ہے جس کی وجہ سے بات نہیں کرتے، منہ پر تالا بندی ہوتی ہے۔ یہ جوان چپ چاپ ٹرکوں میں سوار ہوجاتے ہیں اور اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ عبدالرزاق خوشی سے جیا ہے اور ڈٹ کر جیا ہے۔ اس کا نہ تو کوئی سیاسی بیک گراؤنڈ تھا اور نہ کسی جاگیردار یا وڈیرہ شاہی سے کوئی تعلق۔ اس نے پوری زندگی ایک گھر تک نہیں نہ بنایا کہ جس میں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کی زندگی گزار سکے۔ حیرت تو یہ ہے کہ شہید کے گاؤں میں نہ تو گیس ہے نہ پانی ہے، اور نہ حکومت وقت نے کسی ریلیف کا اعلان کیا ہے جس سے عبدالرزاق کے لواحقین آرام کی زندگی گزار سکیں۔ ہماری اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے ملک کے دشمنوں کو نیست و نابود کردیں (آمین، ثم آمین)۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔