کمپیوٹر اور اسمارٹ فون پر بچے کونسا گیم کھیل رہے ہیں نظر رکھیں
کچھ گیمز ان کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتے ہیں
''بیٹا کیا کررہے ہو؟''، ''امی موبائل پر گیم کھیل رہا ہوں''، ''بیٹی ابھی تک سوئی نہیں ہو، کمپیوٹر بند کرو''، ''بس امی یہ گیم ختم ہوجائے تو ابھی سوتی ہوں''
اس قسم کے جملے آج کل ہمارے گھروں میں عام ہوگئے ہیں۔ ذاتی موبائل فون نہ ہونے کے باوجود والدین کے موبائل فون پر گیمز کھیلنا بچوں کی عادت بن گئی ہے۔ خصوصاً اکثر چھوٹے بچوں کو تو مائیں خود اپنا موبائل فون پکڑادیتی ہیں تاکہ وہ تنگ نہ کریں اور موبائل میں مصروف رہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے انٹرنیٹ پر کچھ ایسے گیمز مثلاً بلیو وھیل مقبول ہوتے جارہے ہیں جوکہ نہ صرف کھیلنے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے رکھتے ہیں بلکہ ایک گیم تو جان لیوا ثابت ہوا ہے جو کھیلنے والے کو مختلف طریقوں سے خود کو اذیت دینے، خوف کا شکار ہونے اور ذہنی طور پر پریشان یا مفلوج کرکے آخر کار خودکشی کرنے پر مجبور کردیتا ہے اور کھلاڑی کو خصوصی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنا رابطہ دوستوں یا اہل خانہ سے منقطع کیے رکھے۔
تجسس کے مارے کچھ نوجوانوں میں گیم کی خطرناکی کے متعلق جاننے کے باوجود کھیلنے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال کم عمر بچوں سے لے کر نوجوانوں تک سبھی کے لیے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔ لہٰذا والدین پر یہ بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں، اور انھیں خطرناک قسم کے گیم ڈاؤن لوڈ نہ کرنے دیں۔ اپنے کمپیوٹر اور موبائل کی ہسٹری، براؤزر کی ہسٹری چیک کرتے رہیں۔ ڈاؤن لوڈز میں چیک کریں، بچوں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے سوفٹ ویئرز کو کمپیوٹر، موبائل میں انسٹال کرلیں۔
بچے کس قسم کی تصاویر یا ویڈیوز بنارہے ہیں اور ان کو کہاں اپ لوڈ یا پوسٹ کررہے ہیں ان پر کڑی نظر رکھیں۔ سب سے بہتر طریقہ بچوں سے دوستی ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا دوستانہ رویہ اختیار کریں کہ وہ آپ سے کوئی بات نہ چھپائیں۔
بچے والدین سے آزادانہ بلا جھجھک ہر بات کرسکتے ہوں تو عموماً وہ اس قسم کی فرمائشیں بھی کرسکتے ہیں کہ ''مجھے فلاں گیم کھیلنے کا بہت شوق ہے، مجھے ڈاؤن لوڈ کرنے دیجیے۔ آپ اس کا غلط مطلب نہ لیں۔ میں خودکشی نہیں کرنا چاہتا لیکن اس گیم کو کھیلنے کا مجھے اشتیاق ہے۔'' اس صورت حال میں والدین کو تحمل، برد باری اور پیار سے منع کرنا ہوگا، یقینا والدین کے لیے یہ ایک آزمائش بن جاتا ہے لیکن اولاد کو موت کے کنویں میں گرنے سے بچانا بھی والدین کی اولین ذمے داری ہے۔
بچوں کو دینی تعلیم دینا، قرآن کریم کی تعلیم دینا، ان کے معنی و مفہوم سے آگاہ کرنا، حقوق و فرائض کی آگہی سے ذہن کے بند دریچوں کو وا کرنے کا فریضہ ایک ماں بہتر انداز میں انجام دے سکتی ہے کیوںکہ وہ اولاد کے ساتھ دن کا بیشتر وقت گزارتی ہے۔ لہٰذا اولاد کی نفسیات اور مزاج کو بہتر انداز میں سمجھتی ہے۔ وہ اولاد کو بہتر انداز میں سمجھاکر ایسے گیم کھیلنے سے روک سکتی ہے، منع کرسکتی ہے، البتہ کسی بھی صورت میں ان کو کھیلنے کی اجازت ہرگز نہ دیں۔ بسا اوقات ایک دفعہ کھیلنے کے بعد اشتیاق مزید بڑھتا ہے۔ ایسے گیمز کھیلنے والے کے ذہن و حواس پر اس قدر حاوی ہوجاتے ہیں کہ گویا ایک نشہ آور چیز کا عادی ہو۔ ایسے جان لیوا گیمز بھی نشے کی مانند ہوتے ہیں۔
بچوں کو خود پر قابو رکھنے اور ایسے جان لیوا کھیلوں کے سحر سے نکلنے میں والدین بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھائی بہنوں کے درمیان بھی ایسی دوستی کی فضا قائم ہونی چاہیے کہ بچے اپنے بھائی بہن سے اپنے احساسات و خیالات اپنی سوچ کے متعلق گفتگو کرسکے والدین، بہن بھائیوں کے علاوہ قریبی دوست بھی اس صورت حال سے نکلنے میں بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔
کوشش کریں کہ بچوں کو علی الصبح فجر کے وقت بیدار کریں اور نماز کی تاکید کریں اور بچوں میں جب کوئی غیر معمولی تبدیلی محسوس ہو تو ان کے پورے دن کا لائحہ عمل مرتب کریں۔ کون کون سے کام کرنے ہیں؟ گھر میں پڑھائی پر کتنا وقت دینا ہے، کون سا وقت باہر جاکر کھیل کود کے لیے مختص ہے وغیرہ وغیرہ۔ کوشش کریں روزانہ بچوں کو کسی ایک دوست، کزن یا رشتے دار سے ملوانے لے جائیں۔ ہم نے عموماً روابط کو فون تک محدود کردیا ہے کسی کی خوشی، غمی، بیمار پرسی یا مبارکباد دینی ہو، فون کرلیا یا تحریری پیغام ارسال کردیا۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل فون، واٹس ایپ، مختلف میسینجرز نے جہاں ہمیں سہل پسند بنادیا ہے وہیں شخصیت کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ لہٰذا بچوں کی مثبت شخصیت سازی کے لیے میل ملاپ، ملاقات، فون کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کرنا بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو زیادہ دیر تنہا نہ رہنے دیں۔
بچوں کے دوستوں، سہیلیوں کو گھر پر مدعو کریں، بچوں کو ساتھ کھانے پینے، گپ شپ لگانے دیں۔ گھر کے آنگن، برآمدے یا لان میں انھیں کھیلنے دیں۔ اس طرح بچے تنہائی کے خول سے باہر نکل آتے ہیں۔ بچوں کو روزانہ اپنے ساتھ ورزش یا چہل قدمی کے لیے لے جائیں۔ خصوصاً صبح سویرے سورج کی سنہری روشنی میں کی گئی ورزش یا چہل قدمی دن بھر تازہ دم رکھتی ہے۔ اگر بچوں کے پاس ذاتی موبائل ہے تو کسی بھی بہانے سے چیک کرتے رہیں، ان کو پاس ورڈ لگانے سے منع کریں۔ گھر میں کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھیں کہ آتے جاتے نظر پڑتی رہے۔ لیپ ٹاپ وغیرہ بھی بچوں کو اپنے کمرے میں استعمال کرنے کے بجائے گھر کے ایسے کمرے میں استعمال کرنے کی اجازت دیں جہاں آتے جاتے سب کی نظر پڑتی رہے۔
چھوٹے بچوں کو کہانی کے انداز میں ایسے آن لائن گیمز کھیلنے کے نقصانات سے آگاہ کریں اور بڑے بچوں کو گفتگو کے دوران کسی اور کا حوالہ دے کر ایسی گیمز کے منفی اثرات سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔
اس قسم کے جملے آج کل ہمارے گھروں میں عام ہوگئے ہیں۔ ذاتی موبائل فون نہ ہونے کے باوجود والدین کے موبائل فون پر گیمز کھیلنا بچوں کی عادت بن گئی ہے۔ خصوصاً اکثر چھوٹے بچوں کو تو مائیں خود اپنا موبائل فون پکڑادیتی ہیں تاکہ وہ تنگ نہ کریں اور موبائل میں مصروف رہیں۔ لیکن کچھ عرصے سے انٹرنیٹ پر کچھ ایسے گیمز مثلاً بلیو وھیل مقبول ہوتے جارہے ہیں جوکہ نہ صرف کھیلنے والے کی توجہ اپنی جانب مبذول کیے رکھتے ہیں بلکہ ایک گیم تو جان لیوا ثابت ہوا ہے جو کھیلنے والے کو مختلف طریقوں سے خود کو اذیت دینے، خوف کا شکار ہونے اور ذہنی طور پر پریشان یا مفلوج کرکے آخر کار خودکشی کرنے پر مجبور کردیتا ہے اور کھلاڑی کو خصوصی تاکید کی جاتی ہے کہ وہ اپنا رابطہ دوستوں یا اہل خانہ سے منقطع کیے رکھے۔
تجسس کے مارے کچھ نوجوانوں میں گیم کی خطرناکی کے متعلق جاننے کے باوجود کھیلنے کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے۔ یہ صورت حال کم عمر بچوں سے لے کر نوجوانوں تک سبھی کے لیے خطرے کا سبب بن سکتی ہے۔ لہٰذا والدین پر یہ بڑی ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں، اور انھیں خطرناک قسم کے گیم ڈاؤن لوڈ نہ کرنے دیں۔ اپنے کمپیوٹر اور موبائل کی ہسٹری، براؤزر کی ہسٹری چیک کرتے رہیں۔ ڈاؤن لوڈز میں چیک کریں، بچوں کی حفاظت کے لیے بنائے گئے سوفٹ ویئرز کو کمپیوٹر، موبائل میں انسٹال کرلیں۔
بچے کس قسم کی تصاویر یا ویڈیوز بنارہے ہیں اور ان کو کہاں اپ لوڈ یا پوسٹ کررہے ہیں ان پر کڑی نظر رکھیں۔ سب سے بہتر طریقہ بچوں سے دوستی ہے۔ اپنے بچوں کے ساتھ ایسا دوستانہ رویہ اختیار کریں کہ وہ آپ سے کوئی بات نہ چھپائیں۔
بچے والدین سے آزادانہ بلا جھجھک ہر بات کرسکتے ہوں تو عموماً وہ اس قسم کی فرمائشیں بھی کرسکتے ہیں کہ ''مجھے فلاں گیم کھیلنے کا بہت شوق ہے، مجھے ڈاؤن لوڈ کرنے دیجیے۔ آپ اس کا غلط مطلب نہ لیں۔ میں خودکشی نہیں کرنا چاہتا لیکن اس گیم کو کھیلنے کا مجھے اشتیاق ہے۔'' اس صورت حال میں والدین کو تحمل، برد باری اور پیار سے منع کرنا ہوگا، یقینا والدین کے لیے یہ ایک آزمائش بن جاتا ہے لیکن اولاد کو موت کے کنویں میں گرنے سے بچانا بھی والدین کی اولین ذمے داری ہے۔
بچوں کو دینی تعلیم دینا، قرآن کریم کی تعلیم دینا، ان کے معنی و مفہوم سے آگاہ کرنا، حقوق و فرائض کی آگہی سے ذہن کے بند دریچوں کو وا کرنے کا فریضہ ایک ماں بہتر انداز میں انجام دے سکتی ہے کیوںکہ وہ اولاد کے ساتھ دن کا بیشتر وقت گزارتی ہے۔ لہٰذا اولاد کی نفسیات اور مزاج کو بہتر انداز میں سمجھتی ہے۔ وہ اولاد کو بہتر انداز میں سمجھاکر ایسے گیم کھیلنے سے روک سکتی ہے، منع کرسکتی ہے، البتہ کسی بھی صورت میں ان کو کھیلنے کی اجازت ہرگز نہ دیں۔ بسا اوقات ایک دفعہ کھیلنے کے بعد اشتیاق مزید بڑھتا ہے۔ ایسے گیمز کھیلنے والے کے ذہن و حواس پر اس قدر حاوی ہوجاتے ہیں کہ گویا ایک نشہ آور چیز کا عادی ہو۔ ایسے جان لیوا گیمز بھی نشے کی مانند ہوتے ہیں۔
بچوں کو خود پر قابو رکھنے اور ایسے جان لیوا کھیلوں کے سحر سے نکلنے میں والدین بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھائی بہنوں کے درمیان بھی ایسی دوستی کی فضا قائم ہونی چاہیے کہ بچے اپنے بھائی بہن سے اپنے احساسات و خیالات اپنی سوچ کے متعلق گفتگو کرسکے والدین، بہن بھائیوں کے علاوہ قریبی دوست بھی اس صورت حال سے نکلنے میں بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں۔
کوشش کریں کہ بچوں کو علی الصبح فجر کے وقت بیدار کریں اور نماز کی تاکید کریں اور بچوں میں جب کوئی غیر معمولی تبدیلی محسوس ہو تو ان کے پورے دن کا لائحہ عمل مرتب کریں۔ کون کون سے کام کرنے ہیں؟ گھر میں پڑھائی پر کتنا وقت دینا ہے، کون سا وقت باہر جاکر کھیل کود کے لیے مختص ہے وغیرہ وغیرہ۔ کوشش کریں روزانہ بچوں کو کسی ایک دوست، کزن یا رشتے دار سے ملوانے لے جائیں۔ ہم نے عموماً روابط کو فون تک محدود کردیا ہے کسی کی خوشی، غمی، بیمار پرسی یا مبارکباد دینی ہو، فون کرلیا یا تحریری پیغام ارسال کردیا۔ سماجی روابط کی ویب سائٹس، موبائل فون، واٹس ایپ، مختلف میسینجرز نے جہاں ہمیں سہل پسند بنادیا ہے وہیں شخصیت کو بھی تبدیل کردیا ہے۔ لہٰذا بچوں کی مثبت شخصیت سازی کے لیے میل ملاپ، ملاقات، فون کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر گفتگو کرنا بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کو زیادہ دیر تنہا نہ رہنے دیں۔
بچوں کے دوستوں، سہیلیوں کو گھر پر مدعو کریں، بچوں کو ساتھ کھانے پینے، گپ شپ لگانے دیں۔ گھر کے آنگن، برآمدے یا لان میں انھیں کھیلنے دیں۔ اس طرح بچے تنہائی کے خول سے باہر نکل آتے ہیں۔ بچوں کو روزانہ اپنے ساتھ ورزش یا چہل قدمی کے لیے لے جائیں۔ خصوصاً صبح سویرے سورج کی سنہری روشنی میں کی گئی ورزش یا چہل قدمی دن بھر تازہ دم رکھتی ہے۔ اگر بچوں کے پاس ذاتی موبائل ہے تو کسی بھی بہانے سے چیک کرتے رہیں، ان کو پاس ورڈ لگانے سے منع کریں۔ گھر میں کمپیوٹر کو ایسی جگہ رکھیں کہ آتے جاتے نظر پڑتی رہے۔ لیپ ٹاپ وغیرہ بھی بچوں کو اپنے کمرے میں استعمال کرنے کے بجائے گھر کے ایسے کمرے میں استعمال کرنے کی اجازت دیں جہاں آتے جاتے سب کی نظر پڑتی رہے۔
چھوٹے بچوں کو کہانی کے انداز میں ایسے آن لائن گیمز کھیلنے کے نقصانات سے آگاہ کریں اور بڑے بچوں کو گفتگو کے دوران کسی اور کا حوالہ دے کر ایسی گیمز کے منفی اثرات سے آگاہ کیا جاسکتا ہے۔