وزیر اعظم راجہ سے ’’تخلیہ‘‘ میںملاقات
بجلی کا بحران اگرچہ ہمیںڈکٹیٹر نے ورثہ میں دیا مگر اسے حل کرنا ہماری ذمے داری ہے، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف
ہمارے ہاں ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو بنانے والی ''فلم انڈسٹری'' اپنا کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ بعض ریاستی ادارے دن رات ہیرو سے زیرو اور زیرو سے ہیرو بنانے کی دھن میں ٹکسال کی طرح چل رہے ہیں۔ لیکن ان کے رت جگوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا، وہ اس لیے کہ منفی کردار کرنے والے''کھل نائیکوں'' کی فلم نے اپنی '' ضمنی نمائش'' کے موقعہ پر دوبارہ سرکٹ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ شریف برادران کو صدر زرداری کا احتساب کرنے سے پہلے اپنے آپ کو بھی احتساب کے لیے پیش کرنا چاہیے۔ عمران نے جو کہا، وہ غالبا َغلط نہیں ہے۔ احتساب کا معیاریہی ہونا چاہیے وگرنہ کہنے والے کہیں گے کہ احتساب کے نام پر ''ٹارگٹ کلنگ'' کی جا رہی ہے۔
آصف زرداری ہوں یا میاں برادران احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں کے علاوہ ان ہستیوںکا احتساب بھی ہونا چاہیے جن کی طرف دیکھنے کے باعث آزادی صحافت کی بینائی متاثر ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے یہ تاثر بھی موجود ہے کہ بعض ''بڑوں'' کے جگر گوشے اور چند ایک کے برادران اگر کہیں ''کولیشن پارٹنرشپ'' کر لیں تو سوئس حکام کے ساتھ ساتھ ایک، ایک عدد خط دیگر اکاونٹس کی بابت بھی ارسال کرنا بنتا ہے۔ مگر ہمارا منصف میڈیا فیض کی پڑھائی پٹیاں نہیں پڑھتا جو اس نعرہ پر کاربند ہو جائے کہ
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہمارا آزاد اور شیر دل میڈیا ''پارٹی'' (کمزور یا طاقتور) دیکھ کر حرکت میںآتا ہے۔ کیا میڈیا ہر کسی کو اس کے گناہ کی سزا بلا امتیاز دے سکتاہے۔ یہ دعویٰ شاید نہیںکیا جا سکتا، اس ضمن میں میڈیا اور خادم اعلیٰ سے ''متاثرہ'' دوست محمد کھوسہ اوران کے والد محترم ذوالفقار کھوسہ کی نون لیگ سے ناراضی اہم ہے۔
چند ماہ تک خادم اعلیٰ کی جگہ وزیراعلیٰ کے مشکل کردار کے ''اسٹنٹ مین'' کا رول کرنے والے دوست محمد کھوسہ نے میاں برادران سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں بھی ان کے بیٹے حمزہ شریف جیسا تھا لیکن میرے ساتھ میڈیا نے زیادتی کرتے ہوئے میری اور میرے خاندان کی کردار کشی کی اور انھوں نے چپ سادھے رکھی۔ میرے معاملہ میں میڈیا مینجمنٹ سیل سے کام نہیں لیا گیا حالانکہ اسے بھی دبایا جا سکتا تھا۔ دوست محمدکھوسہ کے شکوہ سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے حلیفوں سے کیوں ناراض ہوتے ہیں اور پھر کیوں مان جاتے ہیں وہاں اس حقیقت کے شواہد بھی ملتے ہیں کہ وہ قانون، انصاف اور میڈیاکو'' ہینڈل'' کرنا جانتے ہیں۔
قارئین! میں آپ سے وہ ملاقات بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں جو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بندہ ء صحافی سے اسلام آباد وزیراعظم ہاوس میں فرمائی۔ گھر سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہونے لگا تو بیگم نے کہا کہ راجہ وزیراعظم سے یہ ضرور دریافت کرنا کہ آپ کو صدر زرداری نے عوام کے لیے تحفہ قرار دیا ہے، کیا آپ لوگوںکو بجلی کا ''بنیادی تحفہ'' فراہم کریںگے؟ میرے تعلقا ت میری بیوی سے ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں۔ میںمتحدہ، مولانا اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرح بیگم کو یہ نہیںکہتا کہ ''آیندہ الیکشن نون کے ساتھ اتحاد کر کے لڑ وں گا''۔
مراد یہ ہے کہ میں ایک تابع فرمان شوہر ہوں جو یہ سمجھتا ہوںکہ میں اکیلا گھر نہیں چلا سکتا اس لیے مجھے میری بیوی کی حمایت درکار رہتی ہے لہذا وہ مجھے جو حکم دیتی ہے میں بجا لاتا ہوں۔ راجہ صاحب کو وزیراعظم ہاوس میں براجمان دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ میں اسلام آباد سے پہلے گجر خان سٹیشن پر اتر گیا ہوں۔ مجھے ایسے لوگ اچھے لگتے ہیں جو جہاں بھی جائیں اپنی بو باس اور چھاپ اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ راجہ وزیراعظم سے میں نے پہلا سوال بجلی کی بابت ہی کیا، جس پر انھوں نے فرمایا کہ بجلی کا بحران اگرچہ ہمیںڈکٹیٹر نے ورثہ میں دیا مگر اسے حل کرنا ہماری ذمے داری ہے۔
بجلی کے بحران پر قدرے قابو پا لیا گیا تھا مگر جنوبی پنجاب میں آنے والے طوفان نے 19 ٹرانس میٹر اکھاڑ پھینکے جس سے بجلی کی قلت پیدا ہو گئی۔ میں نے کہا کہ لوڈشیڈنگ کے زور میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے آپ کو کیسا لگے گا جب کہ خادم اعلیٰ جیسے آپ کے مخالفین بجلی کے بحران پر ہی الیکشن لڑنے کے ارادہ کیے ہوئے ہیں؟ راجہ صاحب نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر مست اور کم عقل نہیں ہے، اسے معلوم ہے کہ یہ بحران ہمارا پیدا کیا ہوا نہیں ہے، لہٰذا وہ اپنی پارٹی کے خلاف میڈیا اور مقتدر حلقوں کی طرف سے ''اعلیٰ آدرشوں'' کی مہم جوئی کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتے ہوئے اگلے الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کو ہی کامیاب کرائے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آپ نے ملتان 151 کے ضمنی الیکشن میں عبدالقادر گیلانی کی جیت سے اندازہ نہیں لگایا جہاں پیپلز پارٹی کے خلاف ساری سیاسی پارٹیاں مل چکی تھیں۔ یہ تو ایک طرح کی غیراعلانیہ آئی جے آئی تھی جس کو ہرایا گیا ہے۔ اس پر میں نے فوراََ کہا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ ملتان میں بوسن کے بینرز پر تو نواز شریف اور عمران خان کے علاوہ ججوں کی تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں، اس کے باوجود گیلانی کی جیت کو کیا نام دیا جائے؟ میرے اس سوال پر وزیراعظم راجہ کی فاتحانہ مسکراہٹ اس طرح فق ہو گئی جیسے لوڈشیڈنگ میںبتیاں بجھ جاتی ہیں۔
راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی سے 211 ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہوئے، قومی اسمبلی کے انتخاب میںراجہ صاحب نے گجر خان اپنے حلقے سے سترہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ سیاستدانوں کے دل میںآئین اور قانون کی تشریح کرنے والوں کا احترام بڑی اچھی بات ہے مگر ریاستی اداروں کی طاقت اور اختیار کے استعمال سے عوامی نمایندگی کے حق سے محرومی کے احساس کو جمہوریت اوراس کے فروغ کا نام دینا مناسب عنوان نہیں۔ ریاست، عوام اورعوامی نمایندوںکا رشتہ ماں اور بچوںجیسا ہونا چاہیے۔
ماں کے لیے بچے کو پالنا پوسنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، تھکی ہاری ماںکبھی کبھار بچے کو ان دیکھے ''باوبلے''سے ڈراتی بھی ہے، مگر اس کا مقصد بچے کو سہلانا اور سلانا ہوتا ہے نا کہ اسے ایک ڈرا اور سہما ہوا انسان بنانا۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام اوراس کے نمایندے ریاست کو ماں سمجھنے کے بجائے ڈرانے والی ''بڑی بی'' سمجھ رہے ہیں۔ پروردگار اس رشتہ کو حقیقی احترام عطا فرمائے۔ راجہ وزیراعظم سے کی گئی اور باتیںآیندہ ''پیشی'' پر پیش کروں گا۔ خدا حافظ
آصف زرداری ہوں یا میاں برادران احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ سیاستدانوں کے علاوہ ان ہستیوںکا احتساب بھی ہونا چاہیے جن کی طرف دیکھنے کے باعث آزادی صحافت کی بینائی متاثر ہونے کا اندیشہ موجود رہتا ہے۔ کرپشن کے حوالے سے یہ تاثر بھی موجود ہے کہ بعض ''بڑوں'' کے جگر گوشے اور چند ایک کے برادران اگر کہیں ''کولیشن پارٹنرشپ'' کر لیں تو سوئس حکام کے ساتھ ساتھ ایک، ایک عدد خط دیگر اکاونٹس کی بابت بھی ارسال کرنا بنتا ہے۔ مگر ہمارا منصف میڈیا فیض کی پڑھائی پٹیاں نہیں پڑھتا جو اس نعرہ پر کاربند ہو جائے کہ
مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے
منصف ہو تو اب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے
ہمارا آزاد اور شیر دل میڈیا ''پارٹی'' (کمزور یا طاقتور) دیکھ کر حرکت میںآتا ہے۔ کیا میڈیا ہر کسی کو اس کے گناہ کی سزا بلا امتیاز دے سکتاہے۔ یہ دعویٰ شاید نہیںکیا جا سکتا، اس ضمن میں میڈیا اور خادم اعلیٰ سے ''متاثرہ'' دوست محمد کھوسہ اوران کے والد محترم ذوالفقار کھوسہ کی نون لیگ سے ناراضی اہم ہے۔
چند ماہ تک خادم اعلیٰ کی جگہ وزیراعلیٰ کے مشکل کردار کے ''اسٹنٹ مین'' کا رول کرنے والے دوست محمد کھوسہ نے میاں برادران سے شکوہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں بھی ان کے بیٹے حمزہ شریف جیسا تھا لیکن میرے ساتھ میڈیا نے زیادتی کرتے ہوئے میری اور میرے خاندان کی کردار کشی کی اور انھوں نے چپ سادھے رکھی۔ میرے معاملہ میں میڈیا مینجمنٹ سیل سے کام نہیں لیا گیا حالانکہ اسے بھی دبایا جا سکتا تھا۔ دوست محمدکھوسہ کے شکوہ سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارے حکمران اپنے حلیفوں سے کیوں ناراض ہوتے ہیں اور پھر کیوں مان جاتے ہیں وہاں اس حقیقت کے شواہد بھی ملتے ہیں کہ وہ قانون، انصاف اور میڈیاکو'' ہینڈل'' کرنا جانتے ہیں۔
قارئین! میں آپ سے وہ ملاقات بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں جو وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بندہ ء صحافی سے اسلام آباد وزیراعظم ہاوس میں فرمائی۔ گھر سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہونے لگا تو بیگم نے کہا کہ راجہ وزیراعظم سے یہ ضرور دریافت کرنا کہ آپ کو صدر زرداری نے عوام کے لیے تحفہ قرار دیا ہے، کیا آپ لوگوںکو بجلی کا ''بنیادی تحفہ'' فراہم کریںگے؟ میرے تعلقا ت میری بیوی سے ہمیشہ ایک سے رہتے ہیں۔ میںمتحدہ، مولانا اور عوامی نیشنل پارٹی کی طرح بیگم کو یہ نہیںکہتا کہ ''آیندہ الیکشن نون کے ساتھ اتحاد کر کے لڑ وں گا''۔
مراد یہ ہے کہ میں ایک تابع فرمان شوہر ہوں جو یہ سمجھتا ہوںکہ میں اکیلا گھر نہیں چلا سکتا اس لیے مجھے میری بیوی کی حمایت درکار رہتی ہے لہذا وہ مجھے جو حکم دیتی ہے میں بجا لاتا ہوں۔ راجہ صاحب کو وزیراعظم ہاوس میں براجمان دیکھ کر مجھے یوں لگا کہ میں اسلام آباد سے پہلے گجر خان سٹیشن پر اتر گیا ہوں۔ مجھے ایسے لوگ اچھے لگتے ہیں جو جہاں بھی جائیں اپنی بو باس اور چھاپ اپنے ساتھ ہی رکھتے ہیں۔ راجہ وزیراعظم سے میں نے پہلا سوال بجلی کی بابت ہی کیا، جس پر انھوں نے فرمایا کہ بجلی کا بحران اگرچہ ہمیںڈکٹیٹر نے ورثہ میں دیا مگر اسے حل کرنا ہماری ذمے داری ہے۔
بجلی کے بحران پر قدرے قابو پا لیا گیا تھا مگر جنوبی پنجاب میں آنے والے طوفان نے 19 ٹرانس میٹر اکھاڑ پھینکے جس سے بجلی کی قلت پیدا ہو گئی۔ میں نے کہا کہ لوڈشیڈنگ کے زور میں انتخابی مہم چلاتے ہوئے آپ کو کیسا لگے گا جب کہ خادم اعلیٰ جیسے آپ کے مخالفین بجلی کے بحران پر ہی الیکشن لڑنے کے ارادہ کیے ہوئے ہیں؟ راجہ صاحب نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا ووٹر مست اور کم عقل نہیں ہے، اسے معلوم ہے کہ یہ بحران ہمارا پیدا کیا ہوا نہیں ہے، لہٰذا وہ اپنی پارٹی کے خلاف میڈیا اور مقتدر حلقوں کی طرف سے ''اعلیٰ آدرشوں'' کی مہم جوئی کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکالتے ہوئے اگلے الیکشن میں بھی پیپلز پارٹی کو ہی کامیاب کرائے گا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آپ نے ملتان 151 کے ضمنی الیکشن میں عبدالقادر گیلانی کی جیت سے اندازہ نہیں لگایا جہاں پیپلز پارٹی کے خلاف ساری سیاسی پارٹیاں مل چکی تھیں۔ یہ تو ایک طرح کی غیراعلانیہ آئی جے آئی تھی جس کو ہرایا گیا ہے۔ اس پر میں نے فوراََ کہا کہ لوگ بتاتے ہیں کہ ملتان میں بوسن کے بینرز پر تو نواز شریف اور عمران خان کے علاوہ ججوں کی تصویریں بھی بنی ہوئی تھیں، اس کے باوجود گیلانی کی جیت کو کیا نام دیا جائے؟ میرے اس سوال پر وزیراعظم راجہ کی فاتحانہ مسکراہٹ اس طرح فق ہو گئی جیسے لوڈشیڈنگ میںبتیاں بجھ جاتی ہیں۔
راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی سے 211 ووٹوں سے وزیراعظم منتخب ہوئے، قومی اسمبلی کے انتخاب میںراجہ صاحب نے گجر خان اپنے حلقے سے سترہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔ سیاستدانوں کے دل میںآئین اور قانون کی تشریح کرنے والوں کا احترام بڑی اچھی بات ہے مگر ریاستی اداروں کی طاقت اور اختیار کے استعمال سے عوامی نمایندگی کے حق سے محرومی کے احساس کو جمہوریت اوراس کے فروغ کا نام دینا مناسب عنوان نہیں۔ ریاست، عوام اورعوامی نمایندوںکا رشتہ ماں اور بچوںجیسا ہونا چاہیے۔
ماں کے لیے بچے کو پالنا پوسنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے، تھکی ہاری ماںکبھی کبھار بچے کو ان دیکھے ''باوبلے''سے ڈراتی بھی ہے، مگر اس کا مقصد بچے کو سہلانا اور سلانا ہوتا ہے نا کہ اسے ایک ڈرا اور سہما ہوا انسان بنانا۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ عوام اوراس کے نمایندے ریاست کو ماں سمجھنے کے بجائے ڈرانے والی ''بڑی بی'' سمجھ رہے ہیں۔ پروردگار اس رشتہ کو حقیقی احترام عطا فرمائے۔ راجہ وزیراعظم سے کی گئی اور باتیںآیندہ ''پیشی'' پر پیش کروں گا۔ خدا حافظ