پارلیمنٹ اور جمہوریت کی حرمت
پارلیمنٹ سے بالا ہوکر من مانے فیصلے ہر نام نہاد جمہوری دور میں ہوئے۔
وزیرداخلہ احسن اقبال نے کہا ہے کہ فوج اور عدلیہ کی طرح پارلیمنٹ بھی قابل احترام ہے اس کی حرمت بھی فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کی سی ہے۔ اسی لیے کسی صورت اجازت نہیں دیں گے، پارلیمنٹیرین پر تنقید کرکے پارلیمنٹ اور جمہوریت کو بدنام کیا جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ ملک کے تین اہم ستون ہیں جب کہ صحافت کو چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔
ملک کی انتظامیہ میں فوج بھی نہایت اہمیت کی حامل رہی ہے اور حکومت کے ماتحت ہے جس نے بھی ستر سالوں میں سیاسی حکومتوں جتنی ہی حکومت کی ہے مگر فوج کی حکومت کو غیر جمہوری اور سیاستدانوں کی حکومت جمہوریت کہلاتی ہے جس کا ثبوت پارلیمنٹ ہوتی ہے اور آمریت میں پارلیمنٹ نہیں ہوتی اور پارلیمنٹ ہی فوج اور عدلیہ کے معاملات دیکھتی ہے اور بجٹ مختص کرتی ہے مگر بجٹ کے استعمال میں مداخلت نہیں کرسکتی کیونکہ دفاعی بجٹ بے حد حساس ہوتا ہے جسے فوج اپنی ضروریات کے مطابق نہایت احتیاط سے خرچ کرتی ہے اور عدلیہ بھی اب اتنی بااختیار ہے کہ وہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق بجٹ خرچ کرتی ہے جب کہ بجٹ پارلیمنٹ منظور کرتی ہے۔ حکومت جب چاہے منی بجٹ لے آتی ہے ٹیکسوں میں پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر رد و بدل کرکے پارلیمنٹ کی حرمت پامال کردیتی ہے۔
حکومت نام کی حد تک ہی پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے اور اپنی مرضی سے انتظامی امور چلاتی ہے من مانیاں کرتی ہے جو اگر غیر آئینی ہوں تو سپریم کورٹ حکومت کی راہ میں رکاوٹ ڈال دیتی ہے۔ حکومتی من مانیاں جب حد سے بڑھ جائیں اور سیاستدان ہی جمہوری حکومت کی مخالفت پر آجائیں تو فوج مجبوراً حکومت کا تختہ الٹ کر پارلیمنٹ توڑ دیتی ہے جس کے خلاف سیاسی تحریکیں چلتی ہیں، آمرانہ اقدام چیلنج ہوتا ہے اور ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت آمرانہ اقدام کو جائز قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ سلسلہ 70 سالوں سے چل رہا ہے کبھی مارشل لا کبھی جمہوریت ۔ جمہوری دور ہی میں پارلیمنٹ کی بے حرمتی کی جاتی رہی ہے اور یہی جمہوری حکومتیں پارلیمنٹ کی بے توقیری بھی جاری رکھتی ہیں۔
پارلیمنٹ سے بالا ہوکر من مانے فیصلے ہر نام نہاد جمہوری دور میں ہوئے۔ دھرنوں اور بوٹوں کی آہٹ پر جمہوری حکمرانوں کو پارلیمنٹ یاد آجاتی ہے جس کے اجلاس مسلسل چلتے ہیں اور حکمران ہر کام چھوڑ کر پارلیمنٹ میں آکر ایسے بیٹھ جاتے ہیں جیسے وہ پارلیمنٹ کے سب سے زیادہ وفادار ہوں اور خطرہ ٹل جانے پر پارلیمنٹ کو بھلا دیا جاتا ہے اور وزیر اعظم، وزرا اور ارکان پارلیمنٹ جمہوریت کی اس ماں کو لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے یا توڑے جانے پر تمام سیاستدانوں کی کوشش پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنا ہوجاتا ہے جس کے لیے وہ سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں۔
قوم کو اپنے جھوٹے وعدوں سے بے وقوف بناتے ہیں اور انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کرکے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوجاتے ہیں اور رکنیت کا حلف اٹھانے تک پارلیمنٹ ان کے لیے نہایت ضروری، مقدس اور جمہوری اقدار کا مرکز ہوتی ہے اور وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد برسر اقتدار پارٹی میں وزارتوں کی بندربانٹ کے بعد وزیر اعظم پارلیمنٹ سے زیادہ محترم سمجھ لیا جاتا ہے اور اپوزیشن پارلیمنٹ کی ٹھیکیدار بن کر حکومت کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتی ہے اور حکمران اور ان کے ارکان پارلیمنٹ میں بغیر مطلب آنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
جمہوریت نہ ہو تو پارلیمنٹ نہیں ہوتی اور پارلیمنٹ کے ذریعے اقتدار میں آکر حکمران پارٹی کا سربراہ ہی اگر وزیر اعظم بن جائے تو وہ جمہوری ڈکٹیٹر بن جاتا ہے اور پارلیمنٹ کو خاطر میں نہیں لاتا اور ملک کو ذاتی جاگیر سمجھ کر من مانے فیصلے کرتا ہے اور اگر پارلیمنٹ کے ذریعے وزیر اعظم منتخب ہونے والا پارٹی سربراہ نہ ہو تو ظفراللہ جمالی کی طرح صدر مملکت کو اپنا باس قرار دیتا ہے ۔ ورنہ وزیر اعظم پارٹی سربراہ ہی کو اپنا وزیر اعظم کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور شوکت عزیز ، یوسف رضاگیلانی کی طرح اپنی مدت مکمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
ملک میں پارلیمنٹ کتنی ہی حرمت کیوں نہ حاصل کر پائے مگر پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے والے حکمران اور اپوزیشن دونوں ذمے دار ہیں۔ فوج اور عدلیہ کی حرمت ان کے اپنے مضبوط اداروں کی وجہ سے ہے اور پارلیمنٹ کی حرمت کے ذمے دار تمام سیاستدان ہیں۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کا جمہوری ادارہ منتخب قومی اسمبلی سے تصادم کی راہ پر گامزن ہے کیونکہ سینیٹ میں قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں اس لیے سینیٹ جو خود پارلیمنٹ کا حصہ ہے قومی اسمبلی کی اکثریت کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے اور سینیٹ میں منظور ہونے والی قراردادیں قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادوں کے برعکس اور حکومت کے خلاف ہیں۔ قومی اسمبلی امریکی وزیر خارجہ کا بیان قبول کرے نہ کرے مگر چیئرمین سینیٹ کو وہ بیان قبول نہیں ہے اور وہ پارلیمنٹ کے مضبوط نہ ہونے کا گلہ کرتے ہیں مگر ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ خود مضبوط نہیں بلکہ سیاسی طور پر تقسیم ہے۔
ملک کے وزیر اعظم نے ایک سال تک سینیٹ میں آنا گوارا نہ کیا ہو تو اس ملک کی پارلیمنٹ کو کون مضبوط قرار دے گا۔ جہاں ملک میں پارلیمنٹ خود تقسیم ہوکر سیاسی پارٹیوں کی طرح لڑ رہی ہو کسی جمہوریت کو چلنے نہ دے اور اس کے ارکان پارلیمنٹ سے باہر صرف اپنے اقتدار کے لیے دست وگریباں ہوں، جمہوریت صرف ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے تک محدود ہوجائے۔ سیاسی الزام تراشیاں اپنی سیاسی ضرورت بنا لی جائیں وہاں پارلیمنٹ کی حرمت کیسے باقی رہ سکتی ہے۔
جمہوریت ہر کسی کو اظہار رائے کا حق ضرور دیتی ہے مگر جمہوریت کے کچھ اصول اور تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ مخالفین کا جائز نقطہ نظر بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جسے سن کر برداشت کیا جانا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ حکومتوں کی تو کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں مگر اپوزیشن بھی مادر پدر آزاد نہیں ہوا کرتی۔ اپنے مفاد کے لیے پارلیمنٹ کے سوا دیگر طاقتور اداروں کا ترجمان بننا اور انھیں فریق سمجھ لینا ان اداروں کی مضبوطی کا نہیں بلکہ متنازعہ بنانے کا باعث بن جاتا ہے اور اداروں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں یا پیدا کرائی جاتی ہیں جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتا۔
پارلیمنٹ جو خود کو سپریم قرار دیتی ہے اس کی حرمت کو خود ارکان پارلیمنٹ کی وجہ سے نقصان پہنچتا رہا ہے۔ کوئی ایسی غیر جمہوری حکومت نہیں جس کا خود سیاستدانوں نے خیر مقدم نہ کیا ہو اور ان حکومتوں میں شامل نہ ہوتے آئے ہوں اور ایسا بھی ہمیشہ ابن الوقت اور مفاد پرست سیاستدان نمایاں ہیں جو ضیا الحق اور مشرف کی حکومتوں میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور غیر سیاسی حکومت کے بعد سیاسی حکومتوں میں بھی انھیں آسانی سے جگہ مل جاتی ہے اور وہ غیر سیاسی اور سیاسی دونوں حکومتوں میں شمولیت کا شرمناک ریکارڈ رکھتے ہیں مگر اپنی غلطی کبھی نہیں مانتے۔
آج جمہوریت کے دعویداروں میں وہ بھی شامل ہیں جو غیر جمہوری صدر کو وردی میں ایک نہیں دس بار منتخب کرانے کے دعویدار تھے وہی لوگ بعد میں پی پی حکومت میں ڈپٹی وزیر اعظم بھی بنے اور ان کے ساتھی آج بھی تینوں بڑی جماعتوں میں موجود ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ہر حکومت کی مجبوری ہیں اور ان کے بغیر سیاست نامکمل ہے۔
آج پارلیمنٹیرین جو بدنام ہے اس کے وہ خود ذمے دار ہیں اور انھی کی وجہ سے پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوسکی تو وہ سپریم کہاں سے ہوگی۔ پارلیمنٹ کی حرمت اصول پرست جمہوریت سے ممکن ہوسکتی ہے مگر جہاں سیاسی اصولوں پر مفاد پرستی غالب آجائے وہاں پارلیمنٹ کی حرمت برقرار نہیں رہ سکتی۔
ملک کی انتظامیہ میں فوج بھی نہایت اہمیت کی حامل رہی ہے اور حکومت کے ماتحت ہے جس نے بھی ستر سالوں میں سیاسی حکومتوں جتنی ہی حکومت کی ہے مگر فوج کی حکومت کو غیر جمہوری اور سیاستدانوں کی حکومت جمہوریت کہلاتی ہے جس کا ثبوت پارلیمنٹ ہوتی ہے اور آمریت میں پارلیمنٹ نہیں ہوتی اور پارلیمنٹ ہی فوج اور عدلیہ کے معاملات دیکھتی ہے اور بجٹ مختص کرتی ہے مگر بجٹ کے استعمال میں مداخلت نہیں کرسکتی کیونکہ دفاعی بجٹ بے حد حساس ہوتا ہے جسے فوج اپنی ضروریات کے مطابق نہایت احتیاط سے خرچ کرتی ہے اور عدلیہ بھی اب اتنی بااختیار ہے کہ وہ بھی اپنی ضرورت کے مطابق بجٹ خرچ کرتی ہے جب کہ بجٹ پارلیمنٹ منظور کرتی ہے۔ حکومت جب چاہے منی بجٹ لے آتی ہے ٹیکسوں میں پارلیمنٹ سے منظوری کے بغیر رد و بدل کرکے پارلیمنٹ کی حرمت پامال کردیتی ہے۔
حکومت نام کی حد تک ہی پارلیمنٹ کو جواب دہ ہوتی ہے اور اپنی مرضی سے انتظامی امور چلاتی ہے من مانیاں کرتی ہے جو اگر غیر آئینی ہوں تو سپریم کورٹ حکومت کی راہ میں رکاوٹ ڈال دیتی ہے۔ حکومتی من مانیاں جب حد سے بڑھ جائیں اور سیاستدان ہی جمہوری حکومت کی مخالفت پر آجائیں تو فوج مجبوراً حکومت کا تختہ الٹ کر پارلیمنٹ توڑ دیتی ہے جس کے خلاف سیاسی تحریکیں چلتی ہیں، آمرانہ اقدام چیلنج ہوتا ہے اور ماضی میں نظریہ ضرورت کے تحت آمرانہ اقدام کو جائز قرار دیا جا چکا ہے۔ یہ سلسلہ 70 سالوں سے چل رہا ہے کبھی مارشل لا کبھی جمہوریت ۔ جمہوری دور ہی میں پارلیمنٹ کی بے حرمتی کی جاتی رہی ہے اور یہی جمہوری حکومتیں پارلیمنٹ کی بے توقیری بھی جاری رکھتی ہیں۔
پارلیمنٹ سے بالا ہوکر من مانے فیصلے ہر نام نہاد جمہوری دور میں ہوئے۔ دھرنوں اور بوٹوں کی آہٹ پر جمہوری حکمرانوں کو پارلیمنٹ یاد آجاتی ہے جس کے اجلاس مسلسل چلتے ہیں اور حکمران ہر کام چھوڑ کر پارلیمنٹ میں آکر ایسے بیٹھ جاتے ہیں جیسے وہ پارلیمنٹ کے سب سے زیادہ وفادار ہوں اور خطرہ ٹل جانے پر پارلیمنٹ کو بھلا دیا جاتا ہے اور وزیر اعظم، وزرا اور ارکان پارلیمنٹ جمہوریت کی اس ماں کو لاوارث چھوڑ دیتے ہیں۔ پارلیمنٹ کی مدت مکمل ہونے یا توڑے جانے پر تمام سیاستدانوں کی کوشش پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنا ہوجاتا ہے جس کے لیے وہ سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں۔
قوم کو اپنے جھوٹے وعدوں سے بے وقوف بناتے ہیں اور انتخابات میں کروڑوں روپے خرچ کرکے رکن پارلیمنٹ منتخب ہوجاتے ہیں اور رکنیت کا حلف اٹھانے تک پارلیمنٹ ان کے لیے نہایت ضروری، مقدس اور جمہوری اقدار کا مرکز ہوتی ہے اور وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد برسر اقتدار پارٹی میں وزارتوں کی بندربانٹ کے بعد وزیر اعظم پارلیمنٹ سے زیادہ محترم سمجھ لیا جاتا ہے اور اپوزیشن پارلیمنٹ کی ٹھیکیدار بن کر حکومت کی ٹانگیں کھینچنا شروع کردیتی ہے اور حکمران اور ان کے ارکان پارلیمنٹ میں بغیر مطلب آنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
جمہوریت نہ ہو تو پارلیمنٹ نہیں ہوتی اور پارلیمنٹ کے ذریعے اقتدار میں آکر حکمران پارٹی کا سربراہ ہی اگر وزیر اعظم بن جائے تو وہ جمہوری ڈکٹیٹر بن جاتا ہے اور پارلیمنٹ کو خاطر میں نہیں لاتا اور ملک کو ذاتی جاگیر سمجھ کر من مانے فیصلے کرتا ہے اور اگر پارلیمنٹ کے ذریعے وزیر اعظم منتخب ہونے والا پارٹی سربراہ نہ ہو تو ظفراللہ جمالی کی طرح صدر مملکت کو اپنا باس قرار دیتا ہے ۔ ورنہ وزیر اعظم پارٹی سربراہ ہی کو اپنا وزیر اعظم کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور شوکت عزیز ، یوسف رضاگیلانی کی طرح اپنی مدت مکمل کرنے پر توجہ مرکوز رکھتا ہے۔
ملک میں پارلیمنٹ کتنی ہی حرمت کیوں نہ حاصل کر پائے مگر پارلیمنٹ کو بے توقیر کرنے والے حکمران اور اپوزیشن دونوں ذمے دار ہیں۔ فوج اور عدلیہ کی حرمت ان کے اپنے مضبوط اداروں کی وجہ سے ہے اور پارلیمنٹ کی حرمت کے ذمے دار تمام سیاستدان ہیں۔
ملک کی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کا جمہوری ادارہ منتخب قومی اسمبلی سے تصادم کی راہ پر گامزن ہے کیونکہ سینیٹ میں قومی اسمبلی کی اکثریتی پارٹی کو اکثریت حاصل نہیں اس لیے سینیٹ جو خود پارلیمنٹ کا حصہ ہے قومی اسمبلی کی اکثریت کے ساتھ چلنے کو تیار نہیں ہے اور سینیٹ میں منظور ہونے والی قراردادیں قومی اسمبلی میں منظور ہونے والی قراردادوں کے برعکس اور حکومت کے خلاف ہیں۔ قومی اسمبلی امریکی وزیر خارجہ کا بیان قبول کرے نہ کرے مگر چیئرمین سینیٹ کو وہ بیان قبول نہیں ہے اور وہ پارلیمنٹ کے مضبوط نہ ہونے کا گلہ کرتے ہیں مگر ملک میں پہلی بار پارلیمنٹ خود مضبوط نہیں بلکہ سیاسی طور پر تقسیم ہے۔
ملک کے وزیر اعظم نے ایک سال تک سینیٹ میں آنا گوارا نہ کیا ہو تو اس ملک کی پارلیمنٹ کو کون مضبوط قرار دے گا۔ جہاں ملک میں پارلیمنٹ خود تقسیم ہوکر سیاسی پارٹیوں کی طرح لڑ رہی ہو کسی جمہوریت کو چلنے نہ دے اور اس کے ارکان پارلیمنٹ سے باہر صرف اپنے اقتدار کے لیے دست وگریباں ہوں، جمہوریت صرف ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے تک محدود ہوجائے۔ سیاسی الزام تراشیاں اپنی سیاسی ضرورت بنا لی جائیں وہاں پارلیمنٹ کی حرمت کیسے باقی رہ سکتی ہے۔
جمہوریت ہر کسی کو اظہار رائے کا حق ضرور دیتی ہے مگر جمہوریت کے کچھ اصول اور تقاضے بھی ہوتے ہیں۔ مخالفین کا جائز نقطہ نظر بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے جسے سن کر برداشت کیا جانا چاہیے مگر ایسا نہیں ہو رہا۔ حکومتوں کی تو کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں مگر اپوزیشن بھی مادر پدر آزاد نہیں ہوا کرتی۔ اپنے مفاد کے لیے پارلیمنٹ کے سوا دیگر طاقتور اداروں کا ترجمان بننا اور انھیں فریق سمجھ لینا ان اداروں کی مضبوطی کا نہیں بلکہ متنازعہ بنانے کا باعث بن جاتا ہے اور اداروں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں یا پیدا کرائی جاتی ہیں جو ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہوتا۔
پارلیمنٹ جو خود کو سپریم قرار دیتی ہے اس کی حرمت کو خود ارکان پارلیمنٹ کی وجہ سے نقصان پہنچتا رہا ہے۔ کوئی ایسی غیر جمہوری حکومت نہیں جس کا خود سیاستدانوں نے خیر مقدم نہ کیا ہو اور ان حکومتوں میں شامل نہ ہوتے آئے ہوں اور ایسا بھی ہمیشہ ابن الوقت اور مفاد پرست سیاستدان نمایاں ہیں جو ضیا الحق اور مشرف کی حکومتوں میں اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور غیر سیاسی حکومت کے بعد سیاسی حکومتوں میں بھی انھیں آسانی سے جگہ مل جاتی ہے اور وہ غیر سیاسی اور سیاسی دونوں حکومتوں میں شمولیت کا شرمناک ریکارڈ رکھتے ہیں مگر اپنی غلطی کبھی نہیں مانتے۔
آج جمہوریت کے دعویداروں میں وہ بھی شامل ہیں جو غیر جمہوری صدر کو وردی میں ایک نہیں دس بار منتخب کرانے کے دعویدار تھے وہی لوگ بعد میں پی پی حکومت میں ڈپٹی وزیر اعظم بھی بنے اور ان کے ساتھی آج بھی تینوں بڑی جماعتوں میں موجود ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ہر حکومت کی مجبوری ہیں اور ان کے بغیر سیاست نامکمل ہے۔
آج پارلیمنٹیرین جو بدنام ہے اس کے وہ خود ذمے دار ہیں اور انھی کی وجہ سے پارلیمنٹ مضبوط نہیں ہوسکی تو وہ سپریم کہاں سے ہوگی۔ پارلیمنٹ کی حرمت اصول پرست جمہوریت سے ممکن ہوسکتی ہے مگر جہاں سیاسی اصولوں پر مفاد پرستی غالب آجائے وہاں پارلیمنٹ کی حرمت برقرار نہیں رہ سکتی۔