تعلیمی دوڑ منفی اول

مادری زبان اور قومی زبان کے جھگڑے انگریزوں کی ’’مدر ٹنگ‘‘ انگریزی باعث افتخار پائی ہے اور ایسا ہی ہوگا۔

KATHMANDU:
قوموں کی ترقی کا انحصار جن چیزوں میں مضمر ہے وہ امن وامان، بہترین معیشت، سازگار ماحول، روزگار کی فراہمی اور زندگی کی سہولیات کی فراہمی، مارکیٹ پر کڑی نظر اور عوامی مفاد کے کام ہیں جن میں مچھلی پکڑنے سے لے کر چڑیا گھر کے جانوروں کی بہترین صحت کا انتظام شامل ہے، مگر اس سب کا حصول جس کے ذریعے ممکن ہے وہ ہے تعلیم کی فراہمی اور اس کے لیے بہترین بلکہ سب سے بہترین بندوبست ۔

یہ تمام چیزیں ایک خاص چیزکی نشاندہی کی متقاضی ہیں جس کے بغیر ان میں سے ایک کام بھی ٹھیک نہیں ہوگا اور وہ ہے ''عدل'' جس کو انگریزی میں MERIT کہتے ہیں ۔ ہم تو زیادہ تر باتیں انگریزی میں اچھی طرح سمجھتے ہیں، مادری زبان اور قومی زبان کے جھگڑے انگریزوں کی ''مدر ٹنگ'' انگریزی باعث افتخار پائی ہے اور ایسا ہی ہوگا۔ دنیا بھر کے سربراہان اپنی قومی زبان بولتے ہیں سوائے پاکستانی لیڈروں کے جو سمجھتے ہیں سوٹ پہن کر اردو نہیں بولی جاسکتی تو عربی، فارسی، ترکی، چائنیز وغیرہ کیسے بولی جاتی ہے۔

دراصل ہم شدید احساس کمتری سے اب تک نہیں نکلے وہ اقبال کا ترجمہ اپنی اپنی زبانوں میں کرچکے ہیں ہم نے اقبال کو قوالوں کے حوالے کردیا۔ وہ تو بھلا ہو ان دانش مندوں کا جنھوں نے مزار قائد کا ماڈل مزار علامہ اقبال کرلیا۔ کراچی ویسے بھی دور لگتا ہے جب کراچی جائیں گے، حاضری دے دیں گے وقت ملا تو۔

یہ ایک طویل موضوع ہے اور پورے ایک کالم کا کام تو فی الحال اسے سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں تو عدل '' یا MERIT کے بنا کوئی بھی نظام کھڑا نہیں رہ سکتا اور ہمارا نظام آپ کے سامنے ہے ۔ روز لیٹ جاتا ہے پھر عدالت عالیہ اسے جگاکرکھڑا کرتی ہے تاکہ افیون تو ایک خاص علاقے میں پیدا ہوتی ہے مگر قوم سوئی ہے نشہ کرکے بغیر استعمال کیے ۔ علاقائیت کا آسیب قوم پر سوار ہے لہٰذا کچھ بھی ہوجائے سیٹیں پاناما شریف کی جماعت لے گی یا حکومتی وٹہ سٹہ کے تحت ایک بار تم، ایک بار ہم ، قوم گم کر ووٹ تو وہ علاقے اور زبان کی بنیاد پر دے گی۔

پھر ہیرو، ہیروئن پرستی کی بنیاد پر کورٹ تنگ کررہی ہے تو نیا قانون بنائیں گے مل کر آپس میں۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں احتساب کے ادارے کا سربراہ حکومت اور حزب اختلاف کی پسند پر لگایا جاتا ہے۔ میرٹ پر نہیں اور شاید مطمع نظر یہ ہے کہ نہ تیرا احتساب نہ میرا احتساب، احتساب عوام کا اور پلی بارگین سے جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح ہو تو پلی برگین ہے محکمے کا اور محکمے والوں کا فائدہ سارا ریکارڈ ظاہری موجود ہے۔ یہ سب ہم لکھ ضرور رہے ہیں مگر خیالات سپریم کورٹ کے ہیں اس ادارے کے بارے میں پاناما شریف کے ریفرنسز میں دیکھ لیجیے گا خدا کرے ہم غلط ثابت ہوں، امکان نہیں ہے ہمارے غلط ثابت ہونے کا۔ ہم لکھنا کچھ چاہتے ہیں مگر غریب کے لباس کی طرح کے حالات ہیں قلم چلتا ہے تو مسائل اور اداروں کے غلط کام سامنے آجاتے ہیں صرف نظر بھی عدل نہیں ہے۔

موضوع تھا تعلیم اور عدل کی تعریف ۔ پہلے یہ غلط فہمی اگر اب تک ہے تو دورکرلیجیے کہ عدل وانصاف ایک چیز نہیں ہے۔ انصاف حق دارکو حق کی فراہمی ہے اور عدل کی تعریف حضرت علی ؓ نے یہ فرمائی ہے کہ چیزوں کا اپنے اپنے مقام پر ہونا، جس چیزکا جہاں ہونا بہترین ہے وہ وہاں ہو یہ عدل ہے اس چیز کے ساتھ ۔ اسے انگریزوں نے MERIT کہا ہے۔


ہمارے تعلیمی ادارے اور ان میں اساتذہ اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کیا عرض کروں، میں ایم اے صحافت کا، رو برو امتحان، جو ترجمہ کیا ہے میں VIVA دینے سندھ یونیورسٹی گیا تو استاد گرامی نے کتاب سے حوالات شروع کیے، اس وقت میں ریڈیو میں پروڈیوسر تھا، زبان کے جھگڑے نام نہاد بھی چل رہے تھے میں نے سیدھا ان سے کہاکہ یہ کتاب مجھے دیجیے میں چند سوالات آپ سے کرتاہوں۔

امید ہے آپ ایک کا بھی جواب نہیں دے سکیںگے۔ یہ ایم اے کا وائیوا ہے، چوتھی کلاس کا امتحان نہیں جو اب ان کے پاس تھا نہیں ورنہ کتاب مجھے دے دیتے اور میرا کلیم خارج ہوجاتا۔ نقصان میرا ہوا اور مجھے پرائیویٹ اسٹوڈنٹ کو یونیورسٹی میں تھرڈ پوزیشن ملی۔ اعتراض نہ کرتا تو فرسٹ ہوتی۔ ہر چند کے یونیورسٹی نے بعد میں نتائج تبدیل کرکے ایک خاتون کو جو اس امتحان میں فیل تھی فرسٹ پوزیشن دے کر یونیورسٹی میں ملازمت دے دی۔ وہ استاد بھی بعد میں ہیڈ بن گئے قحط الرجال کے تحت اور خاتون نے تو پہلے ہی سیاست کے زور پر علم کو شکست دے دی تھی ان کا کیا بیان کریں۔

اسکول سے تعلیم کے نظام میں خرابی شروع ہوتی ہے جہاں سے درست کی جانی چاہئیں خرابیاں اور یونیورسٹی تک آتے آتے تو طالب علموں کی آدھی آستینیں اوپر آچکی ہوتی ہیں کوئی روک کے دکھائے ہمیں من مانے کاموں سے اور پسند کے رزلٹ سے نتیجہ کیا ہوتا ہے۔ ذاتی تجربات لکھتاہوں مقصد اپنی مدح سرائی نہیں، سسٹم کی خرابی کی نشاندہی ہے۔ پروڈیوسر کا امتحان میں نے فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا اس کی اطلاع مجھے حسن ذکی کاظمی نے کراچی سے کال کرکے دی اس زمانے میں ڈائریکٹ ڈائلنگ بھی نہیں تھی۔

رزلٹ آیا تو نواب شاہ کی خاتون جو وائیوا میں ناکام ہوکر ایک کمرے میں رو رہی تھیں غلام مصطفی جتوئی وزیراعلیٰ سندھ کی سفارش پر سلیکٹ ہوگئیں اور میں غریب کا بچہ باہر پھینک دیا وہ خاتون مزید سفارش پر دوسرے ملک ٹریننگ پر گئیں اور چند دنوں میں کورس بدر کردی گئیں اور پاکستان واپس بھیج دی گئیں۔ جوانی میں کینسر سے انتقال کر گئے اللہ مغفرت فرمائے۔ (آمین)

یہ کراچی اسٹیشن کے معاملات ہیں، جاننے والے جان گئے ہوںگے۔ خیر تو یہ وقت تھا بھٹو صاحب کا 70،71 اور اب ہے دو ہزار سترہ، کوئی چھتیس، سینتیس سال ہوگئے ہیں۔ یہاں ہی نہیں پورے ملک میں کہیں سدھار نظر نہیں آتا بلکہ بگاڑ اس نہج پر ہے کہ سدھار لگنے لگا ہے اور ہم سیاہ کو ہی سفید ماننے لگے ہیں۔ قابلیت سے امتحان پس کرنا اگر کرتے ہیں تو کافی نہیں ہے یا تو کسی اس وقت کی اہم فگر کی سفارش چاہیے ورنہ قائد اعظم تو اب بھی کام آرہے ہیں۔ ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں جائیداد بنانے کے کام بھی آتے ہیں۔ کیا بات ہے قائد اعظم کی۔

اب آخر میں وجہ کالم بھی ملاحظہ فرمالیجیے جس کی وجہ سے مجھے اپنی زندگی کی زنبیل کھولنی پڑی کہ میں آپ اپنا شاہد ہوں، دنیا کی ایک ہزار قابل ذکر جامعات میں پاکستان کی صرف چار پاکستانی یونیورسٹیاں ہیں۔ بھارت کی 30، چین کی 60، ایران کی 14، ترکی کی 16 اور شمالی کوریا کی 27 جامعات ہیں۔

ٹائمز ہائر ایجوکیشن امریکی ادارہ ہے جس نے پاکستان میں تعلیم کے زوال کی نشاندہی کرتے ہوئے سابقہ پاکستانی سیاست یونیورسٹیوں میں سے 3 کو اس فہرست سے خارج کردیا ہے۔ رہ جانے والی یونیورسٹیز میں قائد اعظم یونیورسٹی کامسیٹس، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی یونیورسٹی اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اچھے درجے پر آگئی ہیں۔ کیا اب بھی کچھ اور کہنا باقی ہے؟ ہے تو مگر پھر سہی!
Load Next Story