صومالیہ میں ترکی کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ
صومالیہ میں اپنے قدم جمانے کے لیے سب سے پہلے ترکش ایئر لائنز نے صومالیہ تک براہ راست پروازیں شروع کیں۔
تین دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کے خوفناک مناظر نے صومالیہ کو ایک تھیٹر بنا دیا ہے،کچھ لوگ یہ مناظر دیکھ کر خوشی سے تالیاں پیٹتے ہوئے اپنی حیوانی نفسیات کی تسکین کرتے ہیں، توکچھ لوگ انگلیاں دانتوں میں داب کر دانستہ نظریں پھیر لیتے ہیں اورکچھ خوف کے مارے آنکھیں موند کر، دہشت اور وحشتناک مناظر سے وقتی طور پر خود کو باہر محسوس کرکے مطمئن کرلیتے ہیں۔
نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنت بننے والا صومالیہ جو عرصہ دراز سے مصنوعی طور پر پیداکردہ اور''خودغرضی ساختہ '' قحط کا بھی شکار ہے، اب وہاں ترکی کی موجودگی پر عالمی طاقتوں کی بے چینی چھپائے نہیں چھپ رہی ۔ حتی کہ اسلامی دنیا بھی ورطہ حیرت میں ہے کہ ترکی کی یہاں موجودگی کا آخر سبب کیا ہے؟ حال ہی میں صومالیہ میں ترک فوجی اڈے کے قیام کے بعد تو بین الاقوامی میڈیا میں یہ بحث کچھ زیادہ ہی سرگرم ہو گئی ہے اور اس معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہوئے بہت سی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں ۔
2002 میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد ترکی نے افریقا کی طرف قدم بڑھا دیے تھے ۔ افریقا نے بھی اپنی معاشی بدحالی کے سدھارکے لیے ترکی کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا ، جس کے لازمی نتیجے کے طور پر بین الاقوامی فورمز پر ترکی کو بھی افریقی ممالک کی حمایت حاصل ہوگئی۔ ترکی نے صومالیہ کو ہر شعبے میں مالی امداد دی اور 2005 کو ترکی میں افریقا کا سال قرار دیا گیا۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ تمام افریقی ممالک کے مقابلے میں ترکی کی حکمت عملیوں کا محورصومالیہ ہی بنا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات ہیں جن کو حل کروانے کی ترک کاوشوں کو قدرکی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔
صومالیہ میں اپنے قدم جمانے کے لیے سب سے پہلے ترکش ایئر لائنز نے صومالیہ تک براہ راست پروازیں شروع کیں۔ یہ صومالیہ تک پروازکرنے والی پہلی تجارتی ایئر لائن کے طور پر ابھرکر سامنے آئی۔ جنگ زدہ اور لٹے پٹے صومالیوں سے قلبی وابستگی کا یہ پہلا تُرک اظہار تھا۔ اسی طرح رجب طیب اردگان کو صومالیہ کا دورہ کرنے والے پہلے مغربی لیڈرکا بھی اعزاز حاصل ہوا ۔ انھوں نے صومالیہ کو امن قائم کرنے کی کوششوں میں ہر ممکن مدد کا یقین دلایا اور ہر فورم پر دنیا سے اس کی اپیل بھی کی ۔
ترکی کی جانب سے متعدد بار عسکری گروہ الشباب اور صومالی حکومت اور افریقی یونین کی فورسزکے درمیان مصالحت کی کوششیں بھی کی گئیں، مگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ترکی کی حکمراں پارٹی نے اسلامی رجحانات کا حامل ہونے کی وجہ سے ان مسلم ممالک سے خصوصی تعلقات استوارکیے ہیں جہاں عوامی تحریکوں کے نتیجے میں نئی حکومتیں قائم ہوئی ہیں ۔ اسی طرح زیریں صحارا کے علاقے میں ترکی کی سفارتی کوششیں عرب ہمسایوں کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا تسلسل ہیں ۔ افریقا ترکی کے لیے نیا جغرافیہ ہے، جس میں ترکی کے لیے بھی اقتصادی ترقی کے مواقعے موجود ہیں۔ ترکی نے بہت تیزی سے پورے افریقا میں بڑی تعداد میں سفارت خانے کھولے اور بہت خاموشی اور احتیاط کے ساتھ براعظم افریقا کے بارے میں متوازن حکمت عملی اختیار کی۔ اسی وجہ سے وہ افریقا میں چین اور بھارت جیسی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے مقابلے پر آگیا ہے۔
صومالیہ میں ترک فوجی اڈے کا قیام وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس پر نہ صرف عالمی طاقتیں نالاں ہیں بلکہ صومالیہ میں موجود شدت پسند عسکری گروہ بھی اس کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ چار سو ایکڑ کے رقبے پر محیط اس فوجی اڈے کی بنیاد موغا دیشو میں 2015 میں رکھی گئی اورگزشتہ ماہ اس کا افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ بیرون ملک واقع ترکی کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے، جس میں دس ہزار صومالی فوجیوں کو ، یہاں موجود دو سو ترک فوجی افسران تربیت فراہم کریں گے۔ اسے پانچ کروڑ ڈالر کی لاگت سے بنایا گیا اور جدید عسکری اور فوجی سازوسامان سے آراستہ بھی کیا گیا ہے۔ اس میں رہائشی بیرکیں، تربیتی مراکز، میدان اور قیدخانے تعمیر کیے گئے ہیں۔
صومالیہ اپنی جغرافیائی اور اسٹریٹیجک پوزیشن کی وجہ سے بیرونی دنیا کے لیے ایک خوشنما مقام رہا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ دیگر اقوام کے سیاسی اور معاشی مفادات وابستہ رہے ہیں ۔ ترکی عرصہ دراز سے صومالیہ کا اتحادی ہے، اگرچہ وہ اس خطے سے جُڑے منافع بخش مفادات کا حصول بھی چاہتا ہے، لیکن اس کے بدلے وہ صومالیہ کو سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے جو معاونت فراہم کر رہا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ صومالیہ کے لیے یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ لیکن بیرونی اور اندرونی شرپسند عناصر کو ترکی کی یہاں موجودگی کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے۔ موغادیشو میں فوجی اڈے کی بنیاد رکھے جانے کے بعد تو یہاں دہشت گردی کے واقعات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔
خصوصاً رواں سال، جس کے ہر مہینے میں موغادیشو خوفناک بم دھماکوں سے لرزا ہے اور صومالیہ کو بھاری جانی ومالی نقصان جھیلنا پڑا ۔اس ماہ ہونے والا ٹرک بم دھماکا تو موغادیشو کی تاریخ کا بد ترین دھماکا تھا، جس میں ساڑھے تین سو افراد کی ہلاکت ہوئی ۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ اس دھماکے کا ہدف ترکی کا فوجی اڈہ ہی تھا۔ اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے صومالیہ کے لیے عسکری مضبوطی حاصل کرنا سب سے بڑی ضرورت ہے، جس کو ترکی پورا کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔
ترکی کو اس اعانت کی سزا دینے کے لیے چند سال قبل موغا دیشو میں قائم اس کے سفارت خانے پر بھی بم دھماکا کیا گیا جس میں ایک تُرک افسر جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ الشباب اور دیگر بیرونی عناصر اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے جب ترکی نے صومالیہ اور خود مختار ریاست صومالی لینڈ کو انقرہ میں مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا تھا، تاکہ افریقا میں موجود مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے ممکنہ اقدام پر غور کیا جا سکے۔ لہٰذا ترکی کی صومالیہ میں موجودگی کو غلط رنگ دینے کے لیے وہ طاقتیں اور عناصر پروپیگنڈے میں مصروف ہیں جن کی بقا کا سارا کا سارا انحصار ہی افریقا میں بڑھتے ہوئے انتشار اور بدامنی پر ہے۔
ایک طرف ترکی کا کردار دنیا کے سامنے ہے اور دوسری جانب وہ اسلامی ممالک ہیں جنہوں نے خود اپنی بربادی کے دروازے کھولے ہیں ۔ اپنی زمین، ادارے اور سرحدیں دشمنوں کے حوالے کردیں۔ عراق پر قائم فخر ٹوٹا تو مصر سے وابستہ توقعات بھی خاک میں رُلیں، سعودی عرب میں امریکی فوجی چھاؤنیوں نے بڑا سوالیہ نشان لگایا تو انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے کے باوجود امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پاکستان سے، اسلامی دنیا کی رہنمائی کی جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ بھی پوری نہ ہوسکیں۔ مغربی قوتوں نے شام، عراق، افغانستان، کشمیر اور میانمارکی صورت حال سے فائدہ اٹھایا، کہیں دور بیٹھ کرکہیں میدان میں اُترکے اپنا مفادات سمیٹے اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔
اس پورے منظر نامے میں جب عالم اسلام اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے تھک کر گرنے لگا ہے، ایسے میں ترکی کے قائدانہ کردارکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تُرک حکومت نہ صرف بیانات کے ذریعے بلکہ عملی طور پر بھی دنیا کے کونے کونے میں موجود مسلمانوں کی اعانت کے لیے کمر بستہ ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی قیام امن کے نام پر اسلامی ممالک میں داخل ہوئے اور پھر اسلامی دنیا کو جس نقصان سے دوچارکیا وہ عراق اور افغانستان کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔
اس پورے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے ترکی کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اگر بحیثیت اسلامی ملک وہ کسی کم زور برادر ملک کے دفاع کے لیے کھڑا ہوکر، اس کو ہر شعبے میں قوت فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے تو یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ترکی افریقا میں اپنی کھوئی ہوئی عظیم الشان طاقت کے دوبارہ حصول کے لیے آیا ہے یا اس بہانے وہ افریقا کے وسائل کو لوٹنے کی سازش کر رہا ہے، بے بنیاد باتیں ہیں۔ لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مستقبل میں علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے درمیان سخت مقابلے کے لیے صومالیہ میں میدان سج رہا ہے۔ اب جو یہاں قیام امن کے لیے جس قدر سرمایہ کاری کرے گا اس کو ذاتی مفادات تو یقیناً حاصل ہوں گے ہی ساتھ جنگ کے کھیل سے اکتا جانے والی دنیا اسے عزت اور عظمت کا تاج بھی پہنائے گی۔
نائن الیون کے بعد دہشت گردی کی جنت بننے والا صومالیہ جو عرصہ دراز سے مصنوعی طور پر پیداکردہ اور''خودغرضی ساختہ '' قحط کا بھی شکار ہے، اب وہاں ترکی کی موجودگی پر عالمی طاقتوں کی بے چینی چھپائے نہیں چھپ رہی ۔ حتی کہ اسلامی دنیا بھی ورطہ حیرت میں ہے کہ ترکی کی یہاں موجودگی کا آخر سبب کیا ہے؟ حال ہی میں صومالیہ میں ترک فوجی اڈے کے قیام کے بعد تو بین الاقوامی میڈیا میں یہ بحث کچھ زیادہ ہی سرگرم ہو گئی ہے اور اس معاملے کو مختلف زاویوں سے دیکھتے ہوئے بہت سی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں ۔
2002 میں جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے برسراقتدار آنے کے فوراً بعد ترکی نے افریقا کی طرف قدم بڑھا دیے تھے ۔ افریقا نے بھی اپنی معاشی بدحالی کے سدھارکے لیے ترکی کے بڑھے ہوئے ہاتھ کو تھام لیا ، جس کے لازمی نتیجے کے طور پر بین الاقوامی فورمز پر ترکی کو بھی افریقی ممالک کی حمایت حاصل ہوگئی۔ ترکی نے صومالیہ کو ہر شعبے میں مالی امداد دی اور 2005 کو ترکی میں افریقا کا سال قرار دیا گیا۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ تمام افریقی ممالک کے مقابلے میں ترکی کی حکمت عملیوں کا محورصومالیہ ہی بنا ہے۔اس کی ایک بڑی وجہ یہاں کئی دہائیوں سے جاری تنازعات ہیں جن کو حل کروانے کی ترک کاوشوں کو قدرکی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔
صومالیہ میں اپنے قدم جمانے کے لیے سب سے پہلے ترکش ایئر لائنز نے صومالیہ تک براہ راست پروازیں شروع کیں۔ یہ صومالیہ تک پروازکرنے والی پہلی تجارتی ایئر لائن کے طور پر ابھرکر سامنے آئی۔ جنگ زدہ اور لٹے پٹے صومالیوں سے قلبی وابستگی کا یہ پہلا تُرک اظہار تھا۔ اسی طرح رجب طیب اردگان کو صومالیہ کا دورہ کرنے والے پہلے مغربی لیڈرکا بھی اعزاز حاصل ہوا ۔ انھوں نے صومالیہ کو امن قائم کرنے کی کوششوں میں ہر ممکن مدد کا یقین دلایا اور ہر فورم پر دنیا سے اس کی اپیل بھی کی ۔
ترکی کی جانب سے متعدد بار عسکری گروہ الشباب اور صومالی حکومت اور افریقی یونین کی فورسزکے درمیان مصالحت کی کوششیں بھی کی گئیں، مگر ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ ترکی کی حکمراں پارٹی نے اسلامی رجحانات کا حامل ہونے کی وجہ سے ان مسلم ممالک سے خصوصی تعلقات استوارکیے ہیں جہاں عوامی تحریکوں کے نتیجے میں نئی حکومتیں قائم ہوئی ہیں ۔ اسی طرح زیریں صحارا کے علاقے میں ترکی کی سفارتی کوششیں عرب ہمسایوں کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تعلقات کا تسلسل ہیں ۔ افریقا ترکی کے لیے نیا جغرافیہ ہے، جس میں ترکی کے لیے بھی اقتصادی ترقی کے مواقعے موجود ہیں۔ ترکی نے بہت تیزی سے پورے افریقا میں بڑی تعداد میں سفارت خانے کھولے اور بہت خاموشی اور احتیاط کے ساتھ براعظم افریقا کے بارے میں متوازن حکمت عملی اختیار کی۔ اسی وجہ سے وہ افریقا میں چین اور بھارت جیسی ابھرتی ہوئی طاقتوں کے مقابلے پر آگیا ہے۔
صومالیہ میں ترک فوجی اڈے کا قیام وہ سب سے بڑی وجہ ہے جس پر نہ صرف عالمی طاقتیں نالاں ہیں بلکہ صومالیہ میں موجود شدت پسند عسکری گروہ بھی اس کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ۔ چار سو ایکڑ کے رقبے پر محیط اس فوجی اڈے کی بنیاد موغا دیشو میں 2015 میں رکھی گئی اورگزشتہ ماہ اس کا افتتاح کیا گیا ہے۔ یہ بیرون ملک واقع ترکی کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے، جس میں دس ہزار صومالی فوجیوں کو ، یہاں موجود دو سو ترک فوجی افسران تربیت فراہم کریں گے۔ اسے پانچ کروڑ ڈالر کی لاگت سے بنایا گیا اور جدید عسکری اور فوجی سازوسامان سے آراستہ بھی کیا گیا ہے۔ اس میں رہائشی بیرکیں، تربیتی مراکز، میدان اور قیدخانے تعمیر کیے گئے ہیں۔
صومالیہ اپنی جغرافیائی اور اسٹریٹیجک پوزیشن کی وجہ سے بیرونی دنیا کے لیے ایک خوشنما مقام رہا ہے۔ اس خطے سے ہمیشہ دیگر اقوام کے سیاسی اور معاشی مفادات وابستہ رہے ہیں ۔ ترکی عرصہ دراز سے صومالیہ کا اتحادی ہے، اگرچہ وہ اس خطے سے جُڑے منافع بخش مفادات کا حصول بھی چاہتا ہے، لیکن اس کے بدلے وہ صومالیہ کو سیاسی اور اقتصادی بحران سے نکالنے کے لیے جو معاونت فراہم کر رہا ہے اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ صومالیہ کے لیے یہ سودا مہنگا نہیں ہے۔ لیکن بیرونی اور اندرونی شرپسند عناصر کو ترکی کی یہاں موجودگی کانٹے کی طرح چبھ رہی ہے۔ موغادیشو میں فوجی اڈے کی بنیاد رکھے جانے کے بعد تو یہاں دہشت گردی کے واقعات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں ۔
خصوصاً رواں سال، جس کے ہر مہینے میں موغادیشو خوفناک بم دھماکوں سے لرزا ہے اور صومالیہ کو بھاری جانی ومالی نقصان جھیلنا پڑا ۔اس ماہ ہونے والا ٹرک بم دھماکا تو موغادیشو کی تاریخ کا بد ترین دھماکا تھا، جس میں ساڑھے تین سو افراد کی ہلاکت ہوئی ۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ اس دھماکے کا ہدف ترکی کا فوجی اڈہ ہی تھا۔ اس تمام صورت حال کو دیکھتے ہوئے صومالیہ کے لیے عسکری مضبوطی حاصل کرنا سب سے بڑی ضرورت ہے، جس کو ترکی پورا کرنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔
ترکی کو اس اعانت کی سزا دینے کے لیے چند سال قبل موغا دیشو میں قائم اس کے سفارت خانے پر بھی بم دھماکا کیا گیا جس میں ایک تُرک افسر جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے تھے۔ الشباب اور دیگر بیرونی عناصر اس وقت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے جب ترکی نے صومالیہ اور خود مختار ریاست صومالی لینڈ کو انقرہ میں مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا تھا، تاکہ افریقا میں موجود مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے ممکنہ اقدام پر غور کیا جا سکے۔ لہٰذا ترکی کی صومالیہ میں موجودگی کو غلط رنگ دینے کے لیے وہ طاقتیں اور عناصر پروپیگنڈے میں مصروف ہیں جن کی بقا کا سارا کا سارا انحصار ہی افریقا میں بڑھتے ہوئے انتشار اور بدامنی پر ہے۔
ایک طرف ترکی کا کردار دنیا کے سامنے ہے اور دوسری جانب وہ اسلامی ممالک ہیں جنہوں نے خود اپنی بربادی کے دروازے کھولے ہیں ۔ اپنی زمین، ادارے اور سرحدیں دشمنوں کے حوالے کردیں۔ عراق پر قائم فخر ٹوٹا تو مصر سے وابستہ توقعات بھی خاک میں رُلیں، سعودی عرب میں امریکی فوجی چھاؤنیوں نے بڑا سوالیہ نشان لگایا تو انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا اسلامی ملک ہونے کے باوجود امیدوں پر پورا نہیں اتر سکا۔ ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پاکستان سے، اسلامی دنیا کی رہنمائی کی جو توقعات وابستہ کی گئی تھیں وہ بھی پوری نہ ہوسکیں۔ مغربی قوتوں نے شام، عراق، افغانستان، کشمیر اور میانمارکی صورت حال سے فائدہ اٹھایا، کہیں دور بیٹھ کرکہیں میدان میں اُترکے اپنا مفادات سمیٹے اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا۔
اس پورے منظر نامے میں جب عالم اسلام اپنی بقا کی جنگ لڑتے لڑتے تھک کر گرنے لگا ہے، ایسے میں ترکی کے قائدانہ کردارکو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ تُرک حکومت نہ صرف بیانات کے ذریعے بلکہ عملی طور پر بھی دنیا کے کونے کونے میں موجود مسلمانوں کی اعانت کے لیے کمر بستہ ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی قیام امن کے نام پر اسلامی ممالک میں داخل ہوئے اور پھر اسلامی دنیا کو جس نقصان سے دوچارکیا وہ عراق اور افغانستان کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔
اس پورے منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے ترکی کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو اگر بحیثیت اسلامی ملک وہ کسی کم زور برادر ملک کے دفاع کے لیے کھڑا ہوکر، اس کو ہر شعبے میں قوت فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے تو یہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ ترکی افریقا میں اپنی کھوئی ہوئی عظیم الشان طاقت کے دوبارہ حصول کے لیے آیا ہے یا اس بہانے وہ افریقا کے وسائل کو لوٹنے کی سازش کر رہا ہے، بے بنیاد باتیں ہیں۔ لیکن یہ اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مستقبل میں علاقائی اور بین الاقوامی قوتوں کے درمیان سخت مقابلے کے لیے صومالیہ میں میدان سج رہا ہے۔ اب جو یہاں قیام امن کے لیے جس قدر سرمایہ کاری کرے گا اس کو ذاتی مفادات تو یقیناً حاصل ہوں گے ہی ساتھ جنگ کے کھیل سے اکتا جانے والی دنیا اسے عزت اور عظمت کا تاج بھی پہنائے گی۔