سود کا خاتمہ کیوں اور کیسے…
سمندر،ندی، نالے، جھیل، جنگلات، صحرا، ریگستان وغیرہ قدرت کی پیدا کردہ ہیںاوریہ تمام حکومتِ وقت کی ملکیت متصور ہوتی ہیں
ظہور اسلام کے بعد سود (Interest) اور ربوٰ (Usuary) کو حرام قرار دے دیا گیا تو تجارت پیشہ طبقے کے لیے سوداگری کے لیے سکّہ رائج الوقت کا حصول ناممکن ہوگیا۔ ربوٰ وہ قرض ہے جو ذاتی تصرف کے لیے لیا جائے۔ اسلام نے ان دونوں طرح کے قرضوں کا قابلِ عمل طریقہ پیش کیا ہے جس سے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ اسلام نے کاروبار کرنے کے تین طریقے بتائے ہیں (ذاتی، شراکتی اور مضاربت) ان تینوں صورتوں میں قرض لے کر تجارت کرنے کی صورت ہی پیدا نہیں ہوتی ہے،لہٰذا قرض دینے والوں یا بینک کا وجود بے معنی ہوجاتا ہے۔
پاکستان میں موجود نجی اورحکومتی اداروں کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔
(1) گورنمنٹ کے قائم کردہ کارپوریشن (2) جوائنٹ اسٹاک کمپنی لمیٹڈ (3) پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی (4) نجی کاروباری ادارے (5) شراکتی کاروباری ادارے۔ علاوہ ازیں رفاہ عامہ کے اداروں کی بھی لمبی فہرست ہے۔ تعلیمی، طبی، رسل ورسائل،محکمہ ڈاک و تار، ریلوے، شاہراہیں، برّی اور بحری ہوائی اڈے اور بندرگاہیں وغیرہ وغیرہ یہ تمام ادارے حکومت کی زیر نگرانی ہوتے ہیں۔ محکمہ دفاع بھی حکومت کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ حکومتی اداروں کی مالی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمے داری ہے جو تجارتی بینکوں کی عدم موجودگی میں بھی بطریق احسن پوری کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کا ہے۔ ان کمپنیوں کے زیر نگرانی جو تجارتی یا صنعتی ادارے قائم ہیں ان کا انحصار بڑی حد تک بینکوں پر ہے۔ ان کمپنیوں کے مجموعی سرمایہ میں تو ان کے مالکوں کا حصّہ لگا ہوتا ہے۔ ایسی کمپنیاں مجموعی سرمایہ کاری کا 10 تا 20 فیصد سرمایہ عوام النّاس سے ''شیئر'' بیچ کر حاصل کرتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ 10 تا 20 فیصد سرمایہ جو حصص بیچ کر حاصل کیا گیا ہے، اسے شیئر ہولڈرز کو ادا کرکے کمپنی کو شراکت داری میں تبدیل کردیں۔ اس طرح ملک میں حکومتی اداروں کے ماسوا تمام تجارتی ادارے سودی کاروبار سے نجات حاصل کرلیں گے۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ اگر تمام تجارتی بینک بشمول کوآپریٹو بینک اور کریڈٹ ایسوی ایشن چھ ماہ یا ایک سال کے پیشگی نوٹس دے کر بند کردیے جاتے ہیں تو کون سا معاشی یا معاشرتی بحران کا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔ پہلے مرحلے میں مذکورہ بینک اور کریڈٹ ایسوسی ایشن میں جن لوگوں کا سرمایہ حصص کی صورت میں لگا ہوا ہے، انھیں ان کے حصص کی بازاری قیمت کے لحاظ سے رقم واپس کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں یہ ادارے ان کاروباری لوگوں سے جنھیں قرضہ دیا ہوا ہے رقم واپس طلب کریں گے۔
بینک سے قرضہ لینے والوں میں حکومتی ادارے بھی ہوتے ہیں جن سے رقم واپس لے کر ان اداروں کے مالکوں کو ان کی رقم واپس کی جاسکتی ہے۔ اس سے عارضی طور پر بازار پر منفی اثرات تو ہوں گے مگر انھیں حکومت زری/ مالیاتی پالیسی کے ذریعے دور کرسکتی ہے۔
ہمارے ماہرین معاشیات کی سمجھ میں آخر یہ بات کیوں نہیں آتی ہے کہ جب جاپان کی معیشت 0.1 فیصد سرچ سود پر فروغ پاسکتی ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ہے۔
سمجھ میں نقطۂ توحید آ تو سکتا ہے
ترے خیال میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
کیا ہمارے علما اور فقہا اس کی تردید کرسکتے ہیں کہ اسلام میں بجز قرض حسنہ تمام اقسام کے قرضوں کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
زراعت کے باب میں بھی اسلام نے واضح ہدایات دی ہیں۔ ذاتی ملکیت کو اسلام نے تسلیم ہی نہیں کیا ہے بلکہ اسے مکمل تحفظ بھی دیا ہے۔ درون ملک تجارتی اداروں اور تاجروں کا قطعی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
اسلامی معیشت میں دو ہی اہم ادارے ہیں۔ (1) ٹکسال سکّہ سازی کے لیے اور (2) بیت المال (سیکریٹریٹ) تمام اقسام کی حکومتی آمدنی اور اخراجات کے حساب و کتاب کا ذمے دار ادارہ ہوتا ہے۔ موجودہ صوبائی اور وفاقی سیکریٹریٹ میں کوئی بڑا فرق نہیں آئے گا، البتہ نقد لین دین کی صورت میںموجودہ دور کی طرح کاغذی گھوڑے دوڑانے کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر جب تجارتی بینک نہیں ہوں گے تمام اقسام کی ادائیگیاں مروجہ دھاتی سکّوں (درہم و دینار) میں کی جائیں گی۔
موجودہ صورت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بطور ٹکسال (سکّہ سازی) کا کام انجام دے گا اور دوسرا بڑا بینک حکومت کی جانب سے تمام ادائیگیاں اور وصولیاں کیا کرے گا جو بیت المال (اسلامی سیکریٹریٹ) کے تابع ہوگا۔ البتہ تمام اقسام کی معدنیات پر حکومتِ وقت کو پانچواں حصّہ ''فئی'' وصول کرنے کا حق ہے۔ فئی ادا کرنے کے بعد مالکان دفینہ اسے استعمال کرنے پر خودمختار ہیں۔ حکومت چاہے تو ان سے خرید کر عوام کو مہیا کرسکتی ہے۔ انسانی ضروریات میں بجلی، پانی اور گیس بہت اہم ہیں۔
سمندر، ندی، نالے، جھیل، جنگلات، صحرا، ریگستان وغیرہ قدرت کی پیدا کردہ ہیں اور یہ تمام حکومتِ وقت کی ملکیت متصور ہوتی ہیں۔ اگر قدرت کی عطا کردہ مذکورہ عجائبات میں کوئی فرد یا جماعت کچھ حصے کو اپنے تصرف میں لاتی ہے تو اسے ''حق انتفاع'' حاصل ہے۔ اور اگر زیر استعمال حصّہ میں معدنی ذخیرہ دریافت ہوتا ہے تو حکومتِ وقت زمین کے مالک سے ''فئی'' وصول کرے گی۔
ان دنوں کرنسی نوٹ کی وجہ سے تمام اقسام کی خریداری نقد ادائیگی پر باآسانی کی جاسکتی ہے (چیک کی ضرورت نہیں) تاہم اسلام میں خرید و فروخت میں موجودہ دور کی طرح آسانیاں رکھی ہیں۔ ہر قسم کی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے تین ماہ یا چھ ماہ کی قید رکھی گئی ہے لیکن موجودہ دور کی طرح معاہدے کی توسیع جس میں ''سود'' کا عنصر شامل ہوسکتا ہے جائز نہیں ہے۔ بیع مرابحہ اور بیع مسلم علی الترتیب تین ماہ اور چھ ماہ کے لیے کیا جاتا ہے اگر کسی وجہ سے بیع مکمل نہیں ہوتا ہے تو اسے ختم کرکے نئے سرے سے سودا کیا جائے گا۔
تمام اقسام کے خرید و فروخت کے معاہدوں کو مقررہ مدت میں مکمل ہونا لازمی شرط ہے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی سودا مکمل نہ ہوسکا تو اسے مقررہ وقت میں ختم کرکے نئے سرے سے سودا کرنا لازمی ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک چیز کی دو قیمتیں بتانا مثلاً نقد لیں گے تو دس روپیہ فی عدد اور ادھار لیں گے تو 12 روپیہ فی عدد ہوگا جائز نہیں ہے۔
موجودہ اسٹیٹ بینک کو خالصتاً قومی ادارہ بنایا جائے گا جیسا کہ بھٹو دور میں کیا گیا تھا۔ اس کی ذمے داری سکّہ سازی اور غیر ملکی وصولی اور ادائیگی ہوگی۔ دوسرا بڑا بینک آف پاکستان بیت المال کے زیر نگرانی عمل کرے گا۔ درآمد اور برآمد کی تجارت کی نگہداشت بینک کی اہم ذمے داری ہوگی۔ ان دونوں اداروں کو ''بینک'' کی جگہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے۔ جذبہ صادق ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں موجود نجی اورحکومتی اداروں کی مندرجہ ذیل صورتیں ہیں۔
(1) گورنمنٹ کے قائم کردہ کارپوریشن (2) جوائنٹ اسٹاک کمپنی لمیٹڈ (3) پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی (4) نجی کاروباری ادارے (5) شراکتی کاروباری ادارے۔ علاوہ ازیں رفاہ عامہ کے اداروں کی بھی لمبی فہرست ہے۔ تعلیمی، طبی، رسل ورسائل،محکمہ ڈاک و تار، ریلوے، شاہراہیں، برّی اور بحری ہوائی اڈے اور بندرگاہیں وغیرہ وغیرہ یہ تمام ادارے حکومت کی زیر نگرانی ہوتے ہیں۔ محکمہ دفاع بھی حکومت کی زیر نگرانی ہوتا ہے۔ حکومتی اداروں کی مالی ضروریات پوری کرنا حکومت کی ذمے داری ہے جو تجارتی بینکوں کی عدم موجودگی میں بھی بطریق احسن پوری کی جاسکتی ہے۔
مسئلہ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کا ہے۔ ان کمپنیوں کے زیر نگرانی جو تجارتی یا صنعتی ادارے قائم ہیں ان کا انحصار بڑی حد تک بینکوں پر ہے۔ ان کمپنیوں کے مجموعی سرمایہ میں تو ان کے مالکوں کا حصّہ لگا ہوتا ہے۔ ایسی کمپنیاں مجموعی سرمایہ کاری کا 10 تا 20 فیصد سرمایہ عوام النّاس سے ''شیئر'' بیچ کر حاصل کرتی ہیں۔ ایسی کمپنیوں کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ 10 تا 20 فیصد سرمایہ جو حصص بیچ کر حاصل کیا گیا ہے، اسے شیئر ہولڈرز کو ادا کرکے کمپنی کو شراکت داری میں تبدیل کردیں۔ اس طرح ملک میں حکومتی اداروں کے ماسوا تمام تجارتی ادارے سودی کاروبار سے نجات حاصل کرلیں گے۔
آئیے! دیکھتے ہیں کہ اگر تمام تجارتی بینک بشمول کوآپریٹو بینک اور کریڈٹ ایسوی ایشن چھ ماہ یا ایک سال کے پیشگی نوٹس دے کر بند کردیے جاتے ہیں تو کون سا معاشی یا معاشرتی بحران کا پہاڑ ٹوٹ پڑے گا۔ پہلے مرحلے میں مذکورہ بینک اور کریڈٹ ایسوسی ایشن میں جن لوگوں کا سرمایہ حصص کی صورت میں لگا ہوا ہے، انھیں ان کے حصص کی بازاری قیمت کے لحاظ سے رقم واپس کرنا پڑے گا۔ ایسی صورت میں یہ ادارے ان کاروباری لوگوں سے جنھیں قرضہ دیا ہوا ہے رقم واپس طلب کریں گے۔
بینک سے قرضہ لینے والوں میں حکومتی ادارے بھی ہوتے ہیں جن سے رقم واپس لے کر ان اداروں کے مالکوں کو ان کی رقم واپس کی جاسکتی ہے۔ اس سے عارضی طور پر بازار پر منفی اثرات تو ہوں گے مگر انھیں حکومت زری/ مالیاتی پالیسی کے ذریعے دور کرسکتی ہے۔
ہمارے ماہرین معاشیات کی سمجھ میں آخر یہ بات کیوں نہیں آتی ہے کہ جب جاپان کی معیشت 0.1 فیصد سرچ سود پر فروغ پاسکتی ہے تو پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہوسکتا ہے۔
سمجھ میں نقطۂ توحید آ تو سکتا ہے
ترے خیال میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
کیا ہمارے علما اور فقہا اس کی تردید کرسکتے ہیں کہ اسلام میں بجز قرض حسنہ تمام اقسام کے قرضوں کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔
زراعت کے باب میں بھی اسلام نے واضح ہدایات دی ہیں۔ ذاتی ملکیت کو اسلام نے تسلیم ہی نہیں کیا ہے بلکہ اسے مکمل تحفظ بھی دیا ہے۔ درون ملک تجارتی اداروں اور تاجروں کا قطعی کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
اسلامی معیشت میں دو ہی اہم ادارے ہیں۔ (1) ٹکسال سکّہ سازی کے لیے اور (2) بیت المال (سیکریٹریٹ) تمام اقسام کی حکومتی آمدنی اور اخراجات کے حساب و کتاب کا ذمے دار ادارہ ہوتا ہے۔ موجودہ صوبائی اور وفاقی سیکریٹریٹ میں کوئی بڑا فرق نہیں آئے گا، البتہ نقد لین دین کی صورت میںموجودہ دور کی طرح کاغذی گھوڑے دوڑانے کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔ مثال کے طور پر جب تجارتی بینک نہیں ہوں گے تمام اقسام کی ادائیگیاں مروجہ دھاتی سکّوں (درہم و دینار) میں کی جائیں گی۔
موجودہ صورت میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان بطور ٹکسال (سکّہ سازی) کا کام انجام دے گا اور دوسرا بڑا بینک حکومت کی جانب سے تمام ادائیگیاں اور وصولیاں کیا کرے گا جو بیت المال (اسلامی سیکریٹریٹ) کے تابع ہوگا۔ البتہ تمام اقسام کی معدنیات پر حکومتِ وقت کو پانچواں حصّہ ''فئی'' وصول کرنے کا حق ہے۔ فئی ادا کرنے کے بعد مالکان دفینہ اسے استعمال کرنے پر خودمختار ہیں۔ حکومت چاہے تو ان سے خرید کر عوام کو مہیا کرسکتی ہے۔ انسانی ضروریات میں بجلی، پانی اور گیس بہت اہم ہیں۔
سمندر، ندی، نالے، جھیل، جنگلات، صحرا، ریگستان وغیرہ قدرت کی پیدا کردہ ہیں اور یہ تمام حکومتِ وقت کی ملکیت متصور ہوتی ہیں۔ اگر قدرت کی عطا کردہ مذکورہ عجائبات میں کوئی فرد یا جماعت کچھ حصے کو اپنے تصرف میں لاتی ہے تو اسے ''حق انتفاع'' حاصل ہے۔ اور اگر زیر استعمال حصّہ میں معدنی ذخیرہ دریافت ہوتا ہے تو حکومتِ وقت زمین کے مالک سے ''فئی'' وصول کرے گی۔
ان دنوں کرنسی نوٹ کی وجہ سے تمام اقسام کی خریداری نقد ادائیگی پر باآسانی کی جاسکتی ہے (چیک کی ضرورت نہیں) تاہم اسلام میں خرید و فروخت میں موجودہ دور کی طرح آسانیاں رکھی ہیں۔ ہر قسم کی اشیاء کی خرید و فروخت کے لیے تین ماہ یا چھ ماہ کی قید رکھی گئی ہے لیکن موجودہ دور کی طرح معاہدے کی توسیع جس میں ''سود'' کا عنصر شامل ہوسکتا ہے جائز نہیں ہے۔ بیع مرابحہ اور بیع مسلم علی الترتیب تین ماہ اور چھ ماہ کے لیے کیا جاتا ہے اگر کسی وجہ سے بیع مکمل نہیں ہوتا ہے تو اسے ختم کرکے نئے سرے سے سودا کیا جائے گا۔
تمام اقسام کے خرید و فروخت کے معاہدوں کو مقررہ مدت میں مکمل ہونا لازمی شرط ہے۔ اگر کسی وجہ سے کوئی سودا مکمل نہ ہوسکا تو اسے مقررہ وقت میں ختم کرکے نئے سرے سے سودا کرنا لازمی ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک چیز کی دو قیمتیں بتانا مثلاً نقد لیں گے تو دس روپیہ فی عدد اور ادھار لیں گے تو 12 روپیہ فی عدد ہوگا جائز نہیں ہے۔
موجودہ اسٹیٹ بینک کو خالصتاً قومی ادارہ بنایا جائے گا جیسا کہ بھٹو دور میں کیا گیا تھا۔ اس کی ذمے داری سکّہ سازی اور غیر ملکی وصولی اور ادائیگی ہوگی۔ دوسرا بڑا بینک آف پاکستان بیت المال کے زیر نگرانی عمل کرے گا۔ درآمد اور برآمد کی تجارت کی نگہداشت بینک کی اہم ذمے داری ہوگی۔ ان دونوں اداروں کو ''بینک'' کی جگہ کوئی اور نام دیا جاسکتا ہے۔ جذبہ صادق ہو تو سب کچھ ہوسکتا ہے۔