ایک شہر کی فریاد میرے درد کی دوا کرے کوئی

اس ترقی یافتہ دور میں بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ایک شہر کی فریاد


شاد پندرانی November 01, 2017
اوستا محمد کے رہائشی اس شہر کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ (تصویر: مصنف)

میں ایک شہر ہوں۔ میرا نام اوستا محمد ہے۔ میں ضلع جعفرآباد کی ایک گنجان آباد تحصیل ہوں۔ بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں اچھی شہرت کا حامل ہوں۔ کاشتکاری ہو یا آباد کاری، ادبی سیاسی اور سماجی سرگرمیوں سے گہرا رشتہ ہے میرا۔ میں ماضی میں ایک خوبصورت شہر ہوا کرتا تھا۔ پکے راستے، رواں دواں سڑکیں، صاف ستھرے روڈٓ، ہر وقت گیس، بجلی اور پانی کا ہونا، خوشحال لوگ، مصروف ریلوے لائن جس پر روزانہ چار سے پانچ مرتبہ جیکب آباد سے لاڑکانہ اور لاڑکانہ سے جیکب آباد کے سفر کرتی ریل گاڑیاں نظر آتی تھیں۔

میں ایک خوشحال شہر تھا۔ لوگ مجھ پر رشک کرتے تھے۔ مگر وقت اور عدم توجہی کے ساتھ ساتھ میری خوشحالی، بدحالی میں تبدیل ہونے لگی۔ خوشیاں غم میں بدل گئیں۔ میری گود میں اَٹکھیلیاں کرنے والے میرے وجود پر طنز کرنے لگے۔ میرے حقوق سلب کردیئے گئے۔ لوگوں کے طعن و طنز سن کر میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، دل رونے لگتا ہے، دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ تب میں بے ساختہ پکار اُٹھتا ہوں کہ کاش میرے درد کی دوا کرے کوئی۔



میں بھی ایک شہر ہوں مگر میں خوبصورت تو کیا بدصورت کہلانے کے لائق بھی نہ رہا۔ میرے اندر سیر و تفریح تو کیا لوگوں کو گزرنے کا راستہ بھی نہیں ملتا۔ بارش ہوجائے تو پورے شہر کی گلیاں ایک تالاب کی شکل اختیار کرلیتی ہیں۔ گندی نالیاں اُمڈ امُڈ کر سڑکوں اور راستوں کو سیراب کرنے کے فرائض انجام دینے لگتی ہیں۔ روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ نہ تو کوئی اپنے گھر جاسکتا ہے اور نہ نکل سکتا ہے۔ صفائی کا نظام درہم برہم ہے۔ کئی مقامات پر گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جن کی وجہ سے میرے شہری موذی امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ اسپتال دواؤں سے خالی مگر مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔ اِن درد تکلیف کے ماروں کی بے بسی اور بے کسی کو دیکھ کر میری آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، دل رونے لگتا ہے، دماغ پھٹنے لگتا ہے۔ تب میں بے ساختہ پکار اُٹھتا ہوں کہ کاش میرے درد کی دوا کرے کوئی!



میں بھی ایک شہر ہوں۔ اس ترقی یافتہ دور میں میرے نوجوانوں کےلیے کوئی پبلک لائبریری بھی نہیں جہاں بیٹھ کر وہ خود کو علم و ادب اور تعلیم جیسی نعمت سے آراستہ کرسکیں، بجائے اس کے کہ ان کا وقت فضول میں ضائع ہو رہا ہے اور جو آنے وقت کےلیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ شہر میں کھیلنے کےلیے کوئی گراؤنڈ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مجھے اس حالت میں دیکھ کر میرے نوجوان مجھ پر رشک کرنے کے بجائے آہیں بھرتے ہیں۔ اس صورتحال میں دیکھ کر میرے دل سے آہیں نکلتی ہیں۔ پھر میں بے ساختہ پکار اُٹھتا ہوں کہ کاش میرے درد کی دوا کرے کوئی۔



میں بھی ایک شہر ہوں۔ میرے اندر کئی محلے ہیں جو اس ترقی یافتہ دور میں بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ کئی محلے ایسے ہیں جہاں زندگی بسر کرنا بھی محال ہوگیا ہے، جن میں فردوس کالونی سرفہرست ہے۔ یہاں کے باسی پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں۔ گندے پانی کے نکاس کا کوئی بھی خاص انتظام نہیں۔ بجلی کا نظام بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب اس کالونی کو بھینس کالونی کا لقب مل گیا ہے۔ اپنے محلوں کو اس طرح کے القابات سے پکارتا دیکھتا ہوں تو جگر چھلنی ہوجاتا ہے، آنکھیں خون کے آنسو رونے لگتی ہیں اور زبان پر یہ الفاظ بے ساختہ آجاتے ہیں کہ کاش میرے درد کی دوا کرے کوئی۔



میں بھی ایک شہر ہوں۔ ایک ایسا شہر جہاں ماضی میں روزانہ ریل گاڑی جیکب آباد سے لاڑکانہ اور لاڑکانہ سے جیکب آباد تک دن میں چار پانچ مرتبہ چلتی تھی۔ مگر موجودہ دور میں اس ٹرین کا کوئی اتا پتا معلوم نہیں۔ ریلوے اسٹیشن کھنڈر بن چکا ہے۔ یہ سب دیکھ کر میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے اور اندر سے پکار اُٹھتا ہوں کہ کاش میرے درد کی دوا کرے کوئی۔

میں بھی ایک شہر ہوں۔ ہر شہر کی طرح میرے اندر بھی ایک گھنٹہ گھر ہے لیکن باقی شہروں میں یہ روشنیوں اور قمقموں سے سجے ہوتے ہیں جو شہر کی خوبصورتی کا باعث بنتے ہیں۔ میرا گھنٹہ گھر اب صرف گھر ہے، گھنٹہ نہیں۔ آج اگر اس گھنٹہ گھر کو دیکھا جائے تو گندگی کا ڈھیر بن چکا ہے۔ اس کے چاروں اطراف ٹوٹی نالیوں اور گندے پانی کی وجہ سے اس کے پاس کھڑا ہونا بھی محال ہے۔ آس پاس کھڑے پانی کی بدبو کی وجہ سے میرے نتھنے پھٹے جاتے ہیں۔ تب سوچنے لگتا ہوں کہ کاش میرے درد کی دوا کرے کوئی۔

میں بھی ایک شہر ہوں۔ میرے بیچ میں سے ایک کنال بھی گزرتی ہے۔ یہ کھیرتھر کینال سے نکل کر میرے درمیان سے ہوتی ہوئی آگے جاکر کھیتی باڑی میں کام آنے کا باعث بنتی ہے۔ گاؤں میں بسنے والے لوگ اس کا پانی پینے کےلیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ بقول چند ماہرین، اس کا پانی انسان تو کیا جانوروں کےلیے بھی جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر کے آدھے گٹر اس میں آکر گرتے ہیں۔ تو پھر ہوتا یہ ہے کہ یہاں کے لوگ موذی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں مثلاً ہیپاٹائٹس بی، سی اور کینسر وغیرہ۔ بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے میرے شہری موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ اپنے شہریوں کو یوں مرتا دیکھ کر دل دہِل جاتا ہے اور میں دھاڑیں مار کر رونے لگتا ہوں۔ ساتھ ہی یہ گریہ بھی کرتا ہوں کہ کاش میرے درد کی دوا کرے کوئی۔

میں بھی ایک شہر ہوں۔ اب میں منتخب نمائندوں اور حکامِ بالا سے گزارش کرتا ہوں کہ مجھے خوبصورت شہر بنائیں، میرے شہریوں کو بنیادی سہولتیں فراہم کریں، نوجوانوں کےلیے پبلک لائبریری اور تفریح کےلیے پارک بنائیں۔ مجھے بہتر سے بہترین بنائیں، یہ میرا بنیادی حق بھی ہے تاکہ سر فخر سے بلند رہے اور پھر مجھے یہ کہنا نہ پڑے کہ کاش میرے درد کی دوا کرے کوئی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں