دو انکشافات

میڈیا ابتدائی دور کی غلطیاں کررہا ہے تو سوشل میڈیا متبادل بن کر اس کی تلافی کررہا ہے، جس پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں

03332257239@hotmail.com

بھارتی اداکار راجیش کھنہ کیا چل بسے، میڈیا نے خبروں اور تبصروں کی بھرمار کردی۔ ان ہی دنوں میں برما کے مسلمانوں کے قتل کی خبروں کے بلیک آئوٹ کا موازنہ کیا گیا۔ ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا پر اخبارات اور ٹی وی چینلز کو برا بھلا کہا گیا۔ بڑی تیزی سے پیغامات ملنے لگے۔ دس قسم کے پیغامات تھے جو مارکیٹ میں تیزی سے گردش کررہے تھے۔ اس چیز نے ہم پر دو انکشافات کیے۔ دو ایسی چونکا دینے والی باتیں سامنے آئیں جو اس سے قبل پوشیدہ تھیں۔

میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا یہ کیوں کرتا ہے؟ اداکار اور گلوکار کی خبر پر اس کے گائے ہوئے یا پکچرائز کروائے مشہور گانوں پر دو تین منٹ کا خوبصورت اور بہتر پروگرام بنایا جاسکتا ہے۔ موجودہ دور کے مشہور اداکاروں اور خوبصورت اداکارائوں کی باتیں سنوا کر پروگرام کو مزید دلکش بنایا جاسکتا ہے۔ اخبارات میں مشہور فنکار کی رنگ برنگی تصاویر جس سے اخبار سجا سجایا اور جگمگانے لگتا ہے۔ یہ تو ہوگئی مشہور فنکاروں کو میڈیا پر لانے کی وجہ۔ وہ کون سی دو نئی باتیں ہیں جو اس سے قبل نہیں ہوئی تھیں؟

خبر ہمیشہ صحافی ہی دیا کرتے تھے۔ چاہے خبر اسرائیل کے یہودی صحافی کی ہو یا بھارت کے ہندو پترکار کی، برطانیہ کا عیسائی نیوز رپورٹر خبر دے رہا ہو یا پاکستان کا مسلمان جرنلسٹ اپنے عوام کو کسی بات سے آگاہ کررہا ہو۔ کوئی اور اس سے قبل اس تیزی سے لوگوں تک رسائی نہیں رکھتا تھا۔ قلم، مائیک اور کیمرہ مین کے بغیر کوئی خبر آگے نہیں بڑھتی تھی۔ جی ہاں نہیں بڑھتی تھی۔ یہ ماضی کی بات تھی۔ اب یوٹیوب پر، جدید ٹیکنالوجی، فیس بک، ویب سائٹس اور موبائل پر ایس ایم ایس کے ذریعے خبر عام لوگ دوسروں تک پہنچارہے ہیں۔

برما کے مسلمانوں پر مظالم کی خبروں کے اس طرح گردش کرنے نے ثابت کردیا ہے کہ اب لوگ صرف اخبار، ریڈیو اور ٹی وی کے محتاج نہیں رہے۔ کوئی خبر پھیل گئی تو ممکن ہے اس میں صحافی بھائیوں کا ہاتھ نہ ہو۔ تیونس کے عزیزی کی آگ لگی تصویر نے مڈل ایسٹ میں آگ لگا کر ''عرب بہار'' کی امید جگادی۔ مشرق وسطیٰ کے حالات میں تبدیلی میں روایتی میڈیا نے نہیں بلکہ سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ وہ میڈیا ہے جو کسی کے ہاتھ نہیں آرہا۔ یہ تو پہلی بات ہوئی۔ دوسری بات کیا ہے؟ دوسرا انکشاف کیا ہے؟

صحافیوں، کالم نگاروں اور رپورٹروں کی اہمیت کم نہیں کی جارہی بلکہ انھیں دوسرے معاملے میں کریڈٹ دیا جارہا ہے۔ وہ چاہیں تو اپنے ناظرین، سامعین، قارئین کے لیے یہ شعر پڑھ سکتے ہیں۔

جن پتھروں کو ہم نے عطا کی تھیں دھڑکنیں


اِن کو زباں ملی تو ہم ہی پر برس پڑے

پچھلے پندرہ بیس برسوں میں دنیا بھر کے میڈیا نے جس طرح عوام کا شعور بلند کیا ہے، یہ وہی طاقت ہے جو میڈیا نے قربانی دے کر حاصل کی اور اب وہی طاقت عوام تک پہنچ کر برس رہی ہے، تنقید کررہی ہے، آئینہ دِکھا رہی ہے۔ اس میں برا ماننے کی بات نہیں بلکہ سیکھنے کا پہلو ہے کہ کون سی خبر کب، کتنی اور کس وقت دینی ہے؟ کس خبر کو کتنی اہمیت دینی ہے؟ یہ معاملہ اب صرف صحافیوں کے ہاتھ میں نہیں رہا۔ میڈیا کا بخشا ہوا شعور عوام کے ذریعے میڈیا کو بتارہا ہے کہ کس کا کیا مقام ہے۔ اب یہ صرف اخبار کے دفتر، ٹی وی کے اسٹوڈیوز میں ہی طے نہیں ہوگا۔ اب اسے دیکھنے اور پڑھنے والے کا ذہن اور اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا ریموٹ کنٹرول طے کرے گا۔

ہمارے دس گیارہ برسوں کے الیکٹرانک میڈیا نے پہلے حفاظتی ٹیکے لگائے، پھر نرسری اسکول میں داخلہ لیا، پھر پرائمری پاس کی۔ اب وہ سیکنڈری میں داخلہ لے رہا ہے۔ پہلے گٹھنوں سے چلے ہوئے اور اب بھاگتے میڈیا کو اس کے ناظرین نے غور سے دیکھا ہے۔ عوامی شعور اب اس قابل ہوچکا ہے کہ کہہ سکے کہ راجیش کھنہ اور پاکستان کے کرکٹر علیم الدین ایک ہی وقت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ پاکستان کے ابتدائی دور کے بلے باز کی خبریں ڈھونڈنے سے بھی کہیں نہ ملے تو اسے کیا کہا جائے؟ جب شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی ہورہی تھی تو ان ہی دنوں میں ڈاکٹر اسرار احمد وفات پاگئے۔

اگر میڈیا نے عدم توازن کا مظاہرہ کیا تو ناظرین کا حق ہے کہ وہ اسے ناپسند کرے۔ بھارتی جاسوس کی رہائی پر اسے ہیرو بنا کر پیش کرنا، کشمیر سنگھ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت پر واری جانا، اس کی بہن کے جھمکوں کے ڈیزائن اور ماں کی ساڑھی کا رنگ بتانا لازمی نہیں تھا۔ اگر میڈیا ابتدائی دور کی غلطیاں کررہا ہے تو سوشل میڈیا متبادل بن کر اس کی تلافی کررہا ہے، جس پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں۔

بھارتی اداکاروں کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بڑا بنا کر پیش کرنا کہ عوام سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ اس خبر میں خبریت کیا تھی؟ یقیناً میڈیا ہی کا بخشا ہوا شعور اب میڈیا پر ہی تنقید کررہا ہے تو اس پر سوچ بچار کرنا چاہیے نہ کہ برا ماننا چاہیے۔

بڑے دانشوروں، پروفیسروں کی موت کی خبر کو ٹالنے والے انداز سے شایع و نشر کیا جائے اور کسی کھلاڑی کی گھریلو زندگی کی خبروں کو مسلسل اچھالا جائے تو دیکھی آنکھوں، سنتے کانوں اور اب سوچتے دماغوں کو کیسے کہا جائے کہ تم اندھے، گونگے اور بہرے بن جائو۔

''جاگتے رہو'' میڈیا کا کام صرف آواز لگانا ہے۔ کون اٹھتا ہے، کون سوتا ہے، کون پڑھتا ہے یا نہیں پڑھتا، یہ میڈیا کا کام نہیں۔ کتے اور انسان کے کاٹنے والی بات پرانی ہوچکی ہے، یاد ہمیشہ رکھی جائے گی یہ بات کہ جہاں خبر ہو وہاں میڈیا ہونا چاہیے۔ خبریت سے چشم پوشی اور بے خبریت کو خبر بنادیاجائے تو عوام اعتراض کریں گے۔ وہ واچ ڈاگ کے اوپر ''واچ ڈاگ'' ہیں۔ عوام کے ہاتھ میں پیغامات کے لیے موبائل، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اور آئی پیڈ ہیں۔ اب وہ بھی شور کرنے والوں پر شور مچائیں تو ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ معاملات اور بھی درپیش ہوں گے اور میڈیا کو انصاف کرنا ہوگا۔ یہ نظر آئے گا تو کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔ دنیا اور خبر ختم نہیں ہوئی صرف ان دو انکشافات پر۔
Load Next Story