اہلِ ہنر کا عالمی میلہ

پاکستانی ڈاکٹرز اور انجینئرز نے امریکا، یورپ اور مڈل ایسٹ میں اپنی پیشہ ورانہ قابلیت کا لوہا منوایا ہے


[email protected]

KARACHI: سائمن باٹلے کے بارے میں اگر کوئی یہ کہتاکہ ''یہ صاحب ہالی وڈ کے مشہور اداکار ہیں'' تو مجھے ماننے میں ذرا بھی تامل نہ ہوتا۔ پیشانی پر گری ہوئی زلفیں، دیدہ زیب لباس ، رفتار میں باوقار اور گفتار میں باغ وبہار۔ پیامبر نے جب کہا کہ ورلڈ اسکلز کے صدر آپ سے اسکائپ وغیرہ پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے سبب پوچھا تو کہا گیا کہ اب نیوٹیک دنیائے ہنر میں جانا پہچانا نام ہے اور باٹلے اس کی عالمی تنظیم کے صدر ہیں۔

وہ پاکستان میں اسکلز کے مرکزی ادارے نیوٹیک کے سربراہ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ بات نہ ہو پائی اور پھر ایک بین الاقوامی سیمینار میں سائمن کی پاکستان کے وزیرِتعلیم انجینئر بلیغ الرحمان سے ملاقات ہوگئی۔ ہم تو پہلے ہی دنیائے ہُنر میں عالمی برادری کا رکن بننے کے لیے بیتاب تھے، سائمن باٹلے نے وزیر صاحب اور راقم کو اپنے موثر دلائل سے مزید قائل کیا اور ہم نے ممبر شپ کے لیے درخواست دے دی۔ پھر یہ پتہ چلاکہ ہر دوسال بعد فنّی ہنر مندی کے عالمی مقابلے منعقد ہوتے ہیں، رواں سال اکتوبر میں یہ مقابلے ابوظہبی میں منعقد ہورہے ہیں ، مقابلوں سے ایک دو روز پہلے ورلڈ اسکلز کی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقّد ہوگا، اس میں پاکستان کا کیس پیش کرنے کے لیے نیوٹیک کے سربراہ کو مدعو کیا جائے گا ۔

اکتوبر کے پہلے ہفتے میں دعوت نامہ موصول ہوگیا جس کے مطابق مجھے 13اکتوبر کو دوپہر ڈھائی بجے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں موجود ہونا تھا۔ ہم رات کو ہی ابوظہبی پہنچ گئے، جہاں ہمیں شیرٹن ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ ایئرپورٹ سے ہوٹل تک کے سفر میں ہی ہم نے اپنے تجربہ کار پاکستانی ڈرائیور سے ابو ظہبی نیشنل ایگزیبیشن سینٹر (ADNEC) (جہاں فنّی ہنرمندی کے عالمی مقابلے ہورہے تھے) کا محلِ وقوع اور ہوٹل سے وہاں تک پہنچنے کا وقت پوچھ لیا تھا۔ لہٰذا ہم وقت سے پہلے ہی ADNECکے استقبالیے پر پہنچ گئے، وہاں اپنے سیکیوریٹی کارڈز (کسی بھی عالمی کانفرنس میں وہ شناختی کارڈز جو شرکاء گلے میں لٹکاتے ہیں) بنوانے میں آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ اس کے بعد ہم نے ورلڈ اسکلز کی رابطہ کار مس ایلن سے فون پر رابطہ کیا تواُس نے اپنا ایک معاون ہماری رہنمائی کے لیے بھیج دیا۔ معاون نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے تعارف کرایا ''محمد'' اسمِ محمد کی روشنی اور چاشنی روح تک اُتر گئی۔

یہ جان کر اور خوشی ہوئی کہ محمد پاکستان کا ہے اور بہت ذہین سمجھدار اور انگریزی اور عربی بول چال کا بھی ماہر ہے۔ ہم نے کہا ہمیں ورلڈ اسکلز کے صدر سے ملنا ہے۔کہنے لگا سائمن باٹلے صاحب تو اِسوقت بہت مصروف ہوںگے، چلیں کوشش کرکے دیکھتے ہیں۔ہم محمد کی رہنمائی میںچل پڑے، چلتے ہوئے ہمیں ADNECکی وسعت کا بھی اندازہ ہورہا تھا۔لاہور اور کراچی کے ایکسپو سینٹرز سے کئی گنا بڑا تھا۔ ابوظہبی میں اس طرح کے درجنوں سینٹر ہیں بلاشبہ ابوظہبی اور دبئی کی ترقی کے مناظر دیکھ کر رشک آتا ہے۔ بالآخرمحمد ہمیں ایک کانفرنس ہال کے مرکزی دروازے تک لے گیا جہاں سائمن باٹلے سے ملاقات ہوگئی۔

بڑے تپاک سے ملا۔ میں نے پوچھا یہاں تک تو ہم پہنچ گئے اب آگے بتائیے ہمیں کیا کرنا ہے، کہنے لگا، پندرہ منٹ تک اجلاس شروع ہونے والا ہے۔ ایجنڈے کے مطابق پانچویں نمبر پر آپ کا کیس پیش ہوگا، اس موقع پر میں آپ کو دعوت دوںگا اور آپ کو اسٹیج پر آکر چند منٹ کے لیے اپنے ملک اور اپنے TVETسیکٹر کا تعارف کرانا ہوگا۔ میرے لیے اس سے بڑا اعزاز کیا ہوسکتا تھا کہ پچھتر ملکوں کے مندوبین کی موجودگی میں وطنِ عزیز کا تعارف کراؤں۔ میں نے محمد سے واش روم کا پوچھا تاکہ فَریش ہوکر روسٹرم پر آؤں۔

واپس پہنچا تو ہال کچھا کھچ بھرچکا تھا اور اسٹیج پر بھی انگریزی اور عربی لباسوں میں ملبوس زعماء براجمان ہوچکے تھے۔ ہال کے وسط میں بڑی مشکل سے ایک خالی نشست نظر آئی جو میں نے سنبھال لی۔ ایجنڈے کے مطابق کارروائی چلنا شروع ہوگئی۔ بیس منٹ کے بعد ورلڈ اسکلز کے صدر نے پاکستان کا نام لیا تو میں ہمہ تن گوش اور پھر مجھے اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی، روسٹرم پر پہنچ کر میں نے مائیک درست کیے اور اﷲ کا نام لے کر بولنا شروع کردیا۔

''ورلڈ اسکلز کے صدر، عہدیداران اور معزز خواتین و حضرات ! یہ بات میرے لیے انتہائی مسرت و افتخار کا باعث ہے کہ میں اس عالمی فورم پر اپنے ملک پاکستان کی نمایندگی کررہا ہوںجو اکیس کروڑ ذہین اور محنتی افراد کا ملک ہے۔ خواتین و حضرات: یہ ایک ناخوشگوار حقیقت ہے کہ عالمی میڈیا نے میرے ملک کے ساتھ ہمیشہ غیر منصفانہ اور معاندانہ سلوک روا رکھا ہے (تقریر چونکہ انگریزی میں تھی اس لیے میں نے unkind اور unfair کے الفاظ استعمال کیے) اس لیے جو پاکستان آپ ٹی وی اسکرینوں پر دیکھتے ہیں وہ اصل پاکستان سے بہت مختلف ہے۔

اصل پاکستان میڈیا پر نظر آنے والے پاکستان سے بہت زیادہ پر امن ، مستحکم اور بے انتہا خوبصورت ہے۔ جسے قدرت نے بے بہا نعمتوں سے نوازا ہے، پاکستان کو سرسبز و شاداب اور وسیع و عریض میدانوں ، بہتے دریاؤں، پرشکوہ پہاڑوں، دلفریب گلیشئرز اور مسحور کن جھیلوں نے بے پایاں حسن عطا کیا ہے۔ ہر میدان میں ہماری کارکردگی غیر معمولی ہے، پاکستان اپنی عمر کے پہلے پچاس سالوں میں ہی چار کھیلوں ہاکی، کرکٹ، اسکواش اور اسنوکر کا عالمی چمپئن بن گیا تھا۔

فلاحِ انسانیّت کے لیے سب سے زیادہ خرچ کرنے والے اگر دنیا کے دو ملکوں کا نام لیا جائے تو ان میں سے ایک پاکستان ہوگا جہاںہر شخص چیریٹی کے لیے دل کھول کر خرچ کرتا ہے۔ زراعت میں ہماری کارکردگی بہت نمایاں ہے۔ ہم انتہائی اعلیٰ قسم کی کاٹن اور دنیا بھر میں بہترین قسم کا چاول پیدا کرتے ہیں۔ ہمارے پیدا کردہ آم کا ذائقے میں دنیا میں کوئی مقابلہ نہیں، ہمارا کنّو اور سیب بھی خوشبو اور ذائقے میں اپنی مثال آپ ہیں۔

پاکستانی ڈاکٹرز اور انجینئرز نے امریکا، یورپ اور مڈل ایسٹ میں اپنی پیشہ ورانہ قابلیت کا لوہا منوایا ہے، ہمارے نوجوان طلبا و طالبات دنیا کی چوٹی کی یونیورسٹیوں میں ہرسال عالمی ریکارڈ قائم کرتے ہیں اور یاد رہے کہ پاکستان کوئی چھوٹا موٹا کمزور ملک نہیں ہے۔ ہماری افواج دنیا کی چھ طاقتور ترین افواج میں سے ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہوںگے کہ پاکستان دنیا کی سات ایٹمی قوّتوں میں سے ایک ہے'' (مادرِ وطن کے بارے میں یہ باتیں کرتے ہوئے مجھ پر ایک وجد اور مستی کی سی کیفیّت طاری ہوگئی تھی اور دل چاہتا تھا کہ غیروں کے سامنے وطنِ عزیز کا ہر خوشنما پہلو نمایاں کرکے رکھ دوں، لیکن وقت کم تھا ، بہرحال میں نے بات جاری رکھی) ۔

''خواتین و حضرات میں پاکستان کے بارے میں چند اور باتیں بھی آپ سے شیئر کرنا چاہوںگا۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر شخص کو اپنی پسند کا حکمران منتخب کرنے کا حق حاصل ہے۔ پاکستان کا میڈیا آزاد ہے، عدلیہ مضبوط اور طاقتور ہے اور ملک کی اکانومی بہتری کی جانب گامزن ہے''۔(اس پر کچھ مندوبین نے آہستہ سے اور چند نے زوردار طریقے سے تالیاں بجائیں)۔

''خواتین و حضرات! جہاں تک ٹیکنیکل اور ووکیشنل سیکٹر کا تعلّق ہے یہ ہمارے لیے بے حد اہم ہے ہمارا مستقبل اسی سے وابستہ ہے کیونکہ ہماری آبادی کا 60% نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یعنی نوجوانوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جب کہ ملازمتیں محدود ہیں۔ اس سیکٹر میں بھی ہم نے بڑے اہم سنگِ میل طے کرلیے ہیں۔پورے سیکٹر کی رہنمائی کے لیے نیشنل ٹی ویٹ پالیسی تشکیل دینے کے بعد پاکستان میں نیشنل ووکیشنل کوالیفیکیشن فریم ورک (NVQF) بھی ڈویلپ کرلیا گیا ہے۔ فنّی تربیّت ان ٹریڈز میں دی جارہی ہے جنکی مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہے ہم بڑی تیزی سے Competency Based Training (CBT)کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں ہم TVETسیکٹر میں دو عالمی کانفرنسیں منعقد کراچکے ہیں۔ نصاب کو عالمی معیار اور انڈسٹری کی ضروریات کے مطابق ڈھالا گیا ہے اور فائنل امتحان کا جدید طریقہ متعارف کرایا گیا ہے۔

انڈسٹری کے ساتھ ربط مستحکم کرنے اور ان کا کردار بڑھانے کے لیے سیکٹر کونسلز قائم کی گئی ہیں۔ نیوٹیک دوسالوں سے ہنر مندی کے قومی مقابلے منعقد کرارہا ہے جس سے نوجوانوں کی دلچسپی بڑھی ہے ان کی فنّی استعداد میںاضافہ ہوا ہے ٹریننگ کا معیار بلند ہوا ہے اور نوجوانوں کو روزگار ملنے کے امکانات مزید روشن ہوئے ہیں۔ اگر ہمیں اس عالمی فورم کی ممبرشپ ملتی ہے تو ہمیں بہت خوشی ہوگی اور ہم بڑے مثبت جذبوں کے ساتھ اسمیں بھرپور کردار ادا کریں گے'' ۔ اس موقع پھر تالیاں بجیں، ورلڈ اسکل کی جنرل اسمبلی میں صدر نے پاکستان کا نام پیش کیا جس کے خلاف ایک بھی ہاتھ کھڑا نہ ہوا اور حمایت میں بہت ہاتھ بلند ہوئے اور اس طرح پاکستان اس اہم سیکٹر میں عالمی برادری کا رکن بن گیا۔ اب ہم دوسرے ملکوں کے علم، فن اور تجربے سے مستفیض ہوا کریں گے۔

دوسرے روز ہنر مندی کے عالمی مقابلوں کی افتتاحی تقریب تھی جو ایک اور بہت بڑے سینٹر DU ARENA میں منعقد ہوئی۔ لیاقت جیمنیزیم سے کئی گنا بڑے ہال میں ساٹھ ملکوں کی ٹیمیں باری باری داخل ہوئیں۔ تماشائی ہر ٹیم کی آمد پر تالیوں سے استقبال کرتے۔ چین، جاپان، فرانس برطانیہ کے طائفے بہت بڑے تھے اور ان کے ساتھیوں نے ان کا بڑا پرجوش استقبال کیا۔ کئی ملکوں سے صرف ایک ہنرمند نوجوان بھی شامل ہوا، تماشائیوں نے اس کا ''خصوصی استقبال''کیا۔ یواے ای کے لوگوں نے بھارتی ٹیم کا پر جوش استقبال کیا جو ہمیں اچھا نہ لگا۔

ہم نے تُرکی کے استقبال پر ساری کسر نکال دی۔ اس سے گزشتہ روز مقابلے شروع ہوگئے ۔ پاکستان سے بیس نوجوانوں اور پندرہ انسٹرکٹرز نے مبصرین کے طور پر مقابلے دیکھے، انشااﷲ ہمارے نوجوان آیندہ ہونے والے عالمی مقابلوں میں شریک ہوںگے اور اپنے ہنر کا لوہا منوائیں گے۔ جب ہم دنیا میں آواز سے تیز چلنے والے جہاز اور گاڑیاں بنانے والی فیکٹریاں اور آسمانوں کو چھونے والی عمارتیں دیکھتے ہیں تو انسانی ہنر کی اہمّیت ، افادیت اور طاقت کا اور زیادہ اندازہ ہوتا ہے، بلاشبہ ہنر کی طاقت سے دنیا کی تعمیر بھی کی جاسکتی ہے اور دنیا کو بدلا بھی جاسکتا ہے۔

نوٹ: ملک کے ایک باضمیر ، ایماندار اور بہادر صحافی احمد نورانی پر حملہ پوری قوم کے لیے باعثِ شرم ہے، چاقو اور لوہے کے ڈنڈے احمدکے سر پر نہیں ملک کی عزّت اور ساکھ پر برسے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان کو اس کا سخت ترین نوٹس لینا چاہیے۔ باضمیر اور دلیر پولیس افسروں پر مشتمل ٹیم تفتیش کرے اور مجرموں کو نشانِ عبرت بنایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں