بلوچستان کو ’ناصر جنجوعہ‘ جیسے لوگوں کی ضرورت ہے
میں 3 دن کوئٹہ رہا، میں نے ان 3 دنوں میں جنرل ناصر جنجوعہ کا نام ہر زبان سے سنا،
ISLAMABAD:
گزشتہ دنوں مدیرانِ اخبارات و جرائد کی تنظیم (CPNE) کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کے سلسلے میں ایک عرصہ بعد بلوچستان جانے کا اتفاق ہوا۔ اجلاس کوئٹہ میں رکھنے کا مقصد صوبے میں اخبار نویسوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لینا تھا۔وہاں وزیر اعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ خان زہری، چیف سیکریٹری بلوچستان اورنگزیب حق، گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ حمید درانی، پرنسپل سیکریٹری ٹو گورنر بلوچستان سجاد احمد بھٹہ اور مقامی صحافیوں سے ملاقاتیں ہوئیں، بلوچوں کی مہمان نوازی نے ہمارے دل موہ لیے۔ صحافیوں کے مسائل، بلوچستان لبریشن فرنٹ (BLF) کی اخبارات کی اشاعت کو رکوانے کے لیے ہاکروں اور تقسیم کار سے متعلقہ ٹرانسپورٹروںکو دھمکیاں ملنے جیسے مسائل پر گفتگو ہوئی۔
بہت کچھ جاننے، سننے، دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا... یہ وہی صوبہ ہے جہاں ہم چند سال قبل آنے سے گھبرایا کرتے تھے مگر آج حالات بہتر تھے۔ 2012ء تک تواس صوبے میں آزاد چلنا پھرنا بھی مشکل تھا۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور میں تو یہ صوبہ سب سے زیادہ محرومی کا شکار رہا، کیونکہ حکومت نے ریکوڈک، کوئلے اور سونے کی کانوں جیسے منصوبے کوڑیوں کے بھاؤ غیر ملکیوں کو فروخت کرکے مقامی آبادی کو اس نعمت سے محروم رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہر وقت کھٹکا لگا رہتا تھا کہ کہیں ہم (خاکم بدہن) بلوچستان کو بنگلہ دیش کی طرح نہ کھو دیں۔
لیکن وہاں پر جس چیز نے مجھے ورطہ حیرت میں ڈالا وہ سابق کور کمانڈر بلوچستان لیفٹیننٹ جنرل ناصر جنجوعہ کی کاوشیں تھیں، ان کو 2013ء میں کوئٹہ کا کور کمانڈر بنایا گیا، انھوں نے بہت سے معاملات میں ایسا کام کیا جو صدیوں یاد رکھا جائے گا، انھیں مکمل اختیارات دیے گئے، وہ ایک وژنری اور ان تھک انسان ہیں، یہ آگے بڑھے، کام شروع کیا۔ بلوچوں کے مسائل سنے اور ان مسائل کا حل تلاش کرنے لگے، میں 3 دن کوئٹہ رہا، میں نے ان 3 دنوں میں جنرل ناصر جنجوعہ کا نام ہر زبان سے سنا، یہ محبت ثابت کرتی ہے جب فیصلے میرٹ پر ہوتے ہیں تو لوگ قومیت اور لسانیت دونوں سے بالاتر ہو کر خدمات کا اعتراف کرتے ہیں، مجھے محسوس ہوا حکومت پہلے کی نسبت بلوچستان کے معاملے میں زیادہ سنجیدہ ہے۔
یہ جان چکی ہے کہ ہم نے اگر دوریاں ختم نہ کیں تو بلوچستان ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا، ہمارے ادارے جان چکے ہیں کہ بھارت اور امریکا بلوچستان میں دہشتگردی کے لیے بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں، ہم اگر ملک کو سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بلوچوں سے اپنا دل جوڑنا ہو گا اور جنرل ناصر جنجوعہ نے یہ کام کیا، چنانچہ لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انھیں یاد کر رہے ہیں، یہ کوئٹہ میں ہیرو کی طرح پہچانے جاتے ہیں... لہٰذامیں آج تک ناصر جنجوعہ سے ملا تو نہیں مگر اُن کی تعریفیں اُن لوگوں سے سن کر اچھا لگا جو تعریف کے معاملے میں دوسری قوموں سے نسبتاََ کنجوس نظر آتے ہیں۔خیر اس خوبصورت صوبے کے دلکش لوگوں میں تین دن جیسے گزرے پتہ ہی نہ چلا، وہاںمقامی لوگوں سے بات چیت کرکے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ یہ لوگ پیار، اخلاص اور محبت کے بھوکے لوگ ہیں۔
اس کی مختصر تاریخ پر اگر سرسری سی نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ1947ء تک پاکستان کا موجودہ بلوچستان کا صوبہ پانچ حصوں میں منقسم تھا۔پانچ میں سے چار حصوں میں شاہی ریاستیں تھیں جن کے نام قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ ایک برٹش انڈیا کا علاقہ برٹش بلوچستان تھا۔قلات، خاران، مکران اور لسبیلہ پر برطانوی ایجنٹ بھی نگران تھے۔قلات، لسبیلہ،خاران اور مکران کے علاقے وہی تھے جو آج بھی اسی نام کی ڈویژن کی صورت میں موجود ہیں۔
برٹش بلوچستان میں موجودہ بلوچستان کی پشتون پٹی (لورالائی، پشین، مسلم باغ، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، ژوب، چمن) کے علاوہ کوئٹہ، اور بلوچ علاقے ضلع چاغی اور بگٹی اور مری ایجنسی (کوہلو) شامل تھے۔ اس وقت گوادر خلیجی ریاست عمان کا حصہ تھا جو خان آف قلات نے عمان کو دیا تھا۔ مکران اور لسبیلہ کے پاس سمندری پٹی تھی جب کہ باقی تین علاقہ قلات، خاران اور برٹش بلوچستان خشکی میں گھرے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت 3 جون کے منصوبہ کے تحت برٹش بلوچستان نے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے اراکین نے کرنا تھا۔
لسبیلہ، خاران اور مکران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا جب کہ قلات نے ایسا نہیں کیا۔ قلات میں گو کہ خان آف قلات حکمران تھے مگر دو منتخب ایوان بھی تھے اور ان دونوں ایوانوں نے پاکستان سے الحاق کی اکثریت سے مخالفت کی تھی۔تاہم ان ایوانوں کی حیثیت مشاورتی تھی اصل فیصلہ خان آف قلات نے ہی کرنا تھا۔جب لسبیلہ، مکران اور خاران کے حکمرانوں نے پاکستان سے الحاق کر لیا تو قلات کی ریاست مکمل طور پر پاکستانی علاقے میں گھر گئی۔ انگریزی میں ایسے علاقہ کو انکلیو کہا جاتا ہے۔ سب سے آخر میں مارچ 1948ء میں قلات نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔
خان آف قلات میراحمد یار خان کے اس فیصلے کے خلاف ان کے چھوٹے بھائی شہزادہ میر عبدالکریم نے مسلح جدوجہد شروع کردی جس میں انھیں افغانستان کی پشت پناہی حاصل تھی۔ اس مسلح جدوجہد کا نتیجہ پاکستان کی فوجی کارروائی کی صورت میں نکلا۔ یہ فوجی کارروائی صرف قلات تک محدود تھی۔کارروائی کے نتیجے میں شہزادہ میر عبدالکریم افغانستان فرار ہوگیا۔ بعد میں برٹش بلوچستان کو بلوچستان کا نام دے دیا گیا۔ جب کہ قلات، مکران، خاران اور لسبیلہ کو ایک اکائی بنا کر بلوچستان اسٹیٹس یونین کا نام دیا گیا۔ (جاری ہے)